دفتر 1 مکتوب 11: بعض مکاشفات اور اپنے قصور کی دید اور تمام اعمال و اقوال میں اپنے آپ کو تہمت زدہ قرار دینے کا مقام حاصل ہونے اور شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس سرہٗ کے اس کلام کا سِر (بھید) ظاہر ہونے کے بیان میں جو انہوں نے فرمایا ہے کہ "جب عین نہیں رہتا تو اثر کہاں رہتا ہے" اور بعض احباب سلسلہ کے حالات کے بیان میں

مکتوب نمبر 11

بعض مکاشفات اور اپنے قصور کی دید اور تمام اعمال و اقوال میں اپنے آپ کو تہمت زدہ قرار دینے کا مقام حاصل ہونے اور شیخ ابو سعید؂1 ابو الخیر قدس سرہٗ کے اس کلام کا سِر (بھید) ظاہر ہونے کے بیان میں جو انہوں نے فرمایا ہے کہ "جب عین نہیں رہتا تو اثر کہاں رہتا ہے" اور بعض احباب سلسلہ کے حالات کے بیان میں۔ یہ بھی اپنے محترم پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔

عریضہ:

آپ کے کم ترین خادم احمد کی گزارش یہ ہے کہ جس مقام میں پہلے اپنے آپ کو دیکھا تھا جب حضور کے ارشاد گرامی کے مطابق پھر اس کو ملاحظہ کیا تو خلفائے ثلاثہ (یعنی حضرت صدیق اکبر و حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہم) کا گذر اس مقام میں نظر آیا لیکن چونکہ یہ خادم اس مقام میں اقامت و قرار نہیں رکھتا تھا اس لئے پہلی دفعہ میں (یہ حضرات) نظر نہ آئے جیسا کہ آئمہ اہل بیت میں سے حضرات امام حسن، امام حسین اور امام زین العابدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے علاوہ دوسرے آئمہ اس مقام میں قرار وثبات نہیں رکھتے، لیکن ان کا گذر اس مقام میں واقع ہوا ہے جس کو بڑی دقیق نظرسے معلوم کیا جاسکتا ہے۔

اور یہ جو اپنے آپ کو اول اس مقام کے نا مناسب دیکھتا تھا تو یہ بے مناسبتی دو قسم کی ہے: ایک یہ کہ طریقوں میں سے کسی طریقے کے ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے بے مناسبتی طاری ہو جاتی ہے اور جب اس کو راستہ دکھا دیا جاتا ہے تو وہ بے مناسبتی دور ہو جاتی ہے اور دوسری بے مناسبتی مطلق ہے جو کسی طرح بھی زائل ہونے کے قابل نہیں ہے۔

جو راستے اس مقام تک پہنچانے والے ہیں وہ صرف دو ہیں، ان کے علاوہ تیسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ یعنی ان دو راستوں؂2 کے علاوہ کوئی اور راستہ ظاہر نہیں ہوتا۔ ایک یہ ہے کہ اپنے نقص و قصور کو دیکھے اور قوتِ جذب حاصل ہونے کے با وجود تمام نیک کاموں میں اپنی نیتوں کو تہمت زدہ خیال کرے۔ دوسرے کسی کامل و مکمل صاحبِ جذب شیخ کی صحبت حاصل کرنا جس نے سلوک کو پورا کیا ہو۔

حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے حضور والا کی عنایت کے طفیل پہلا راستہ استعداد کے مطابق عنایت فرما دیا ہے۔ اس خادم سے جو نیک عمل بھی وقوع میں آتا ہے اس عمل میں اپنے آپ کو تہمت زدہ تصور کرتا ہوں بلکہ جب تک اپنے اوپر چند قسم کی تہمتیں نہ لگاؤں بے آرام و بے چین رہتا ہوں، اپنے متعلق ایسا سمجھتا ہوں کہ مجھ سے کوئی عمل ایسا واقع نہیں ہوتا جو کہ دائیں طرف کے فرشتوں (کاتبین کرام) کے لکھنے کے قابل ہو اور جانتا ہوں کہ میرا دائیں طرف کا اعمال نامہ نیک عملوں سے خالی ہے اور اس کے لکھنے والے فرشتے بے کار اور فارغ ہیں۔ میرے وہ اعمال بارگاہ حق جلَّ و علا (میں پیش ہونے) کے لائق کب ہو سکتے ہیں اور ہر اس شخص؂3 کو جو دنیا میں ہے، خواہ کافرِ فرنگ اور زندیق، ملحد ہی کیوں نہ ہو اپنے سے کئی درجے بہتر جانتا ہوں اور اپنے آپ کو ان سب سے بدتر خیال کرتا ہوں۔ جذبہ کی جہت اگرچہ سیر الی اللہ کے تمام ہونے کے ساتھ پوری ہو گئی تھی لیکن اس کے بعض لوازمات و متعلقات رہ گئے تھے جو کہ اس فنا کے ضمن میں جو مقام سیر الی اللہ کے مرکز میں واقع ہوئی تھی، پورے ہو گئے۔ اس فنا کے حالات اس خادم نے پہلے عریضے میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیئے ہیں۔ حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ نے جو اس کام کی نہایت کو فنا کہا ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ وہی فنا ہو جو تجلئ ذات و سیر فی اللہ کے تحقق (حقیقی حصول) کے بعد متحقق ہوئی ہو، اور فنائے ارادہ؂4 بھی اسی فنا کی ایک شاخ (قسم) ہے؎

ہیچ کس؂5 را تا نہ گردد او فنا نیست رہ در بارگاہ کبریا

ترجمہ:

ہو نہ کوئی شخص جب تک حب مولا میں فنا

پا نہیں سکتا وہ راہ بارگاہ کبریا

اس مقام کے نا مناسب لوگ بھی، جو کہ دو گروہ ہیں، نظر میں ہیں: ایک گروہ اس مقام کی طرف متوجہ ہے اور اس تک پہنچنے کا راستہ تلاش کر رہا ہے اور دوسرا گروہ اس مقام کی طرف کوئی التفات و توجہ نہیں رکھتا اور حضور والا کی توجہ اس مقام تک پہنچنے کے (دونوں) راستوں میں سے دوسرے راستہ (یعنی شیخ کامل و مکمل مجذوب سالک کی صحبت) کی طرف زیادہ ظاہر ہوتی ہے اور اسی راستے کے ساتھ مناسبت معلوم ہوتی ہے۔ چونکہ اس خادم کو حضور والا کی جانب سے (عرضِ احوال کا) حکم دیا گیا تھا اس لئے تعمیلِ ارشاد کے لئے بعض امور کے لکھنے میں جرات وگستاخی کی ہے ورنہ۔ ع

من ہماں احمدِ پارینہ کہ ہستم ہستم

ترجمہ:

میں وہی احمد ہوں خادم ہوں پرانا آپ کا

دوسری عرض یہ ہے کہ اس مقام کے دوسری مرتبہ ملاحظہ کے وقت دوسرے مقام ایک دوسرے کے اوپر ظاہر ہوئے (جن میں سے بعض بعض کے اوپر تھے) نیاز مندی اور عاجزی سے توجہ کرنے کے بعد جب اس خادم کو اس پہلے مقام سے اوپر کے مقام میں رسائی حاصل ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ مقام حضرت ذی النورین (حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ) کا مقام ہے اور دوسرے خلفاء کو بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے اور یہ مقام بھی تکمیل و ارشاد کا مقام ہے اور اسی طرح سے اس مقام کے اوپر کے دو مقام بھی جن کا اب ذکر کیا جاتا ہے تکمیل و ارشاد کے مقام ہیں (یعنی) اور اس مقام کے اوپر ایک اور مقام نظر آیا، جب اس مقام میں رسائی حاصل ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ حضرت فاروقِ اعظم (حضرت عمر) رضی اللہ عنہ کا مقام ہے اور دوسرے خلفا کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے۔ اس مقام کے اوپر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا مقام ظاہر ہوا اور اس خادم کو اس مقام میں بھی (عبور کے طور پر) رسائی حاصل ہوئی اور اپنے مشائخ (یعنی اپنے سلسلہ کے بزرگوں) میں سے حضرت خواجہ نقشبند (خواجہ بہاؤ الدین نقشبند بخاری) قدس سرہُ الاقدس کو ہر مقام میں اپنے ہمراہ؂6 پاتا تھا، اور دوسرے خلفاء کا بھی اس مقام میں عبور واقع ہوا ہے (ان مقامات میں رسائی حاصل کرنے کے بارے میں دوسروں میں اور صاحبِ مقام میں) فرق، عبور و مقام اور مرور و ثبات کا ہے (یعنی صاحب مقام کو اس جگہ اقامت و قرار حاصل ہے اور دوسروں کو صرف عبور و مرور حاصل ہے) اس مقام (یعنی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام) کے اوپر آنحضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوۃ و السلام کے مقام کے علاوہ اور کوئی مقام معلوم نہیں ہوتا اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام کے برابر میں ایک نہایت عمدہ نورانی مقام ظاہر ہوا جس کی مانند کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا اور وہ مقام اس مقام سے قدرے بلندی پر تھا جیسا کہ چبوترے کو سطح زمین سے کچھ اونچا بناتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ مقام محبوبیت کا مقام ہے، اور وہ مقام رنگین اور نقش و نگار والا تھا۔ اس خادم نے اپنے آپ کو بھی اس مقام کے پرتَو؂7 سے رنگین ومنقش محسوس کیا، اس کے بعد اسکی کیفیت میں اپنے آپ کو لطیف پایا اور ہوا کی مانند یا بادل کے ٹکڑے کی طرح چاروں طرف افق میں پھیل گیا اور بعض اطراف میں چھا گیا، حضرت خواجہ بزرگ (حضرت خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس سرہٗ) حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام میں ہیں اور یہ خادم اپنے آپ کو اس کیفیت کے ساتھ جو کہ عرض کی گئی ہے (یعنی اپنے آپ کو رنگین اور منقش و لطیف ہوا یا بادل کے ٹکڑے کی طرح منتشر پایا) اس مقام کے برابر و مقابل کے مقام میں پاتا ہے۔

ایک اور عرض یہ ہے کہ اس عمل یعنی ارشاد و تبلیغ میں مشغول ہونے کو ترک کرنا پسندیدہ نظر نہیں آتا اور کیسے پسندیدہ ہو سکتا ہے جب کہ حالت یہ ہے کہ دنیا گمراہی کے بھنور میں غرق ہو رہی ہے اور جو شخص اپنے اندر اس بھنور سے ان کو نکالنے کی طاقت پاتا ہے وہ اپنے آپ کو کس طرح معاف و معذور سمجھ سکتا ہے۔ اگرچہ اس کو دوسرے کام بھی درپیش ہوں پھر بھی (ارشاد کے) اس کام میں مشغول ہونا ضروری اور پسندیدہ ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بعض خطرات و خواہشات جو اس عمل کے دوران ظاہر ہوتی رہیں ان سے استغفار کرنا اپنے اوپر ضروری سمجھا جائے، اسی شرط سے (اللہ تعالیٰ کی) رضا میں داخل ہو جائے گا، اس شرط کا لحاظ کئے بغیر (اللہ تعالیٰ کی) رضا میں داخل نہیں ہو سکتا اور نیچے ہی ٹھہرا رہتا ہے، لیکن حضرت خواجہ نقشبند اور حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس اللہ تعالیٰ اسرارہما (اللہ تعالیٰ ان کے اسرار کو پاکیزہ بنائے) کے بارے میں اس شرط کا لحاظ کئے بغیر ہی یہ عمل پسندیدہ ہے۔ اس کمترین خادم کا یہ عمل اس شرط کا لحاظ کئے بغیر کبھی (اللہ تعالیٰ) کی رضا میں داخل ہے اور کبھی اس سے نیچے ہی ٹھہرا رہتا ہے۔

دیگر عرض یہ کہ "نفحات" میں حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر رحمۃ اللہ علیہ کے ملفوظات میں آیاہے کہ ''عین نمی ماند اثر کجا ماند'' ”جب عین (ذات) ہی نہیں رہتا تو اثر (صفت) کہاں رہے گا“۔ ﴿لَا تُبْقِيْ وَ لَا تَذَرُ﴾ (المدثر: 28) یعنی عشق کی آگ نہ باقی چھوڑتی ہے اور نہ ہی ہاتھ روکتی ہے۔ (یعنی نہ ذات و صفات باقی رہنے دیتی ہے اور نہ پیچھا ہی چھوڑتی ہے) یہ بات شروع میں مشکل معلوم ہوتی تھی کیونکہ حضرت شیخ محی الدین ابن عربی رحمہ اللہ اور ان کے متبعین کا نظریہ یہ ہے کہ عین (ذات) جو کہ اللہ تعالیٰ کے معلومات میں سے ایک معلوم ہے، اس کا زائل ہونا محال ہے ورنہ علم جہالت سے بدل جائے گا اور جب عین زائل نہیں ہوتا تو اثر بھی کہیں نہیں جاتا۔ اسی طرح ذہن میں یہ بات پختہ ہو چکی تھی اور حضرت شیخ ابوسعید قدس سرہُ العزیز کی بات کسی طرح حل نہیں ہوتی تھی۔ پوری طرح توجہ کرنے کے بعد حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس بات کا راز ظاہر فرما دیا اور یہ بات تحقیق کو پہنچ گئی ہے کہ "نہ عین باقی رہتا ہے نہ اثر" اور اپنے اندر بھی اس بات کی حقیقت؂8 و کیفیت کو معلوم کر لیا اور کوئی اشکال باقی نہیں رہا، اور اس معرفت کا مقام بھی نظر آگیا جو کہ اس مقام کے اوپر بہت ہی بلند ہے جس کو حضرت شیخ محی الدین ابن عربی قدس سرہٗ اور ان کے تابعداروں نے بیان فرمایا ہے اور دونوں نظریے (بحثیں، یعنی میرا اور حضرت شیخ محیی الدین رحمہ اللہ کا قول) ایک دوسرے کے ہرگز خلاف نہیں ہیں۔ ایک بحث کسی ایک مقام سے ہے اور دوسری بحث کسی دوسرے مقام سے ہے۔ زیادہ تفصیل سے عرض کرنا طول کلامی اور رنج کا باعث ہے۔

نیز جو کچھ حضرت شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس سرہٗ نے اس حدیث (یعنی تجلئ ذاتی برقی) کے دائمی؂9 ہونے کے متعلق فرمایا ہے وہ بھی ظاہر ہو گیا کہ حدیث سے کیا مراد ہے اور اس کا دوام کیا ہے اور اس خادم نے اپنے آپ میں بھی اس حدیث کو دائمی پایا اگرچہ یہ نوادرات؂10 میں سے ہے۔

ایک اور عرض یہ ہے کہ ہر کتاب کا مطالعہ کرنا بالکل اچھا نہیں معلوم ہوتا البتہ جس کتاب میں ان بزرگوں کے کمالات و بلند مراتب کا ذکر درج ہے جو کہ مقامات میں واقع ہوئے ہیں، اس کتاب کا مطالعہ اچھا معلوم ہوتا ہے تاکہ اس قسم کی کوئی چیز دیکھی جائے، اور متقدمین مشائخ کے حالات بہت پسند آتے ہیں۔ حقائق اور معارف کی کتابیں خاص طور پر توحید وجودی اور تنزلاتِ؂11 مراتب کا مطالعہ نہیں کر سکتا، یہ خادم اپنے آپ کی اس بارے میں حضرت شیخ علاؤ الدولہ قدس سرہٗ کے ساتھ زیادہ مناسبت پاتا ہے اور ذوق و حال میں اس شیخ موصوف (شیخ علاؤ الدولہ رحمۃ اللہ علیہ) کے ساتھ متفق ہے لیکن (توحید وجودی والوں کے موافق) جو معرفت پہلے حاصل ہو چکی ہے وہ اس کے انکار اور شدت تک نہیں آنے دیتی۔

دیگر عرض یہ ہے کہ کئی مرتبہ بعض امراض کے دور کرنے کے لئے توجہ کی گئی اور اس کا اثر بھی ظاہر ہوا اور اسی طرح بعض مُردوں کے حالات جو عالمِ برزخ سے ظاہر ہوئے تھے ان کے رنجوں اور تکالیف کے دور کرنے کے لئے بھی توجہ کی گئی لیکن اب اس خادم میں اس توجہ پر قدرت نہیں رہی کیونکہ اب (بوجہ حق تعالیٰ شانہٗ میں نہایت مستغرق رہنے کے) اپنے آپ کو کسی چیز پر جمع نہیں کر سکتا ہوں۔ (یعنی غیرِ حق جل شانہٗ کی طرف توجہ کرنے کی طاقت اب اس فقیر میں نہیں رہی ہے)۔

بعض تکلیفیں لوگوں کی طرف سے اس فقیر پر گزریں اور انہوں نے بہت ظلم و ستم کئے اور فقیر سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگوں کو نا حق طور پر ان لوگوں نے برباد اور جلا وطن کر دیا، اس فقیر کے دل پر (ان کے حق میں) کسی قسم کا غبار اور رنج بالکل نہیں آیا، ان کے ساتھ برائی کرنے کا خیال دل میں گزرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جن بعض دوستوں نے مقامِ جذبہ (سیرِ انفسی) کا مشاہدہ و معرفت حاصل کر لی ہے اور ابھی تک سلوک کی منزلوں میں قدم نہیں رکھا، ان کے بعض حالات عرضِ خدمت کئے جاتے ہیں، امید ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ جذبے کی جہت کے کامل ہو جانے کے بعد ان حضرات کو سلوک (سیرِ آفاقی) کی سعادت سے مشرف فرمائے گا۔ (ان دوستوں میں سے ایک) شیخ نور اسی مقام میں رکا ہوا ہے، نقطۂ فوق تک جو کہ جذبے کے مقام میں ہے، نہیں پہنچا ہے۔ حرکات و سکنات میں تکلیف دیتا ہے اور (اس کی) قباحت و برائی کو نہیں سمجھتا، بلا ارادہ اس کا کام توقف میں پڑ جاتا ہے، اور اسی طرح اکثر دوستوں کا کام آداب کی رعایت نہ کرنے کی وجہ سے توقف (رکاوٹ) میں پڑ جاتا ہے۔ اس بارے میں حیران ہوں کہ اس خادم کی طرف سے ان کے توقف کا کوئی ارادہ نہیں ہے بلکہ ان کی ترقی کا ارادہ ہے، بلا ارادہ ان کے کام میں توقف و دیر واقع ہو جاتی ہے ورنہ راستہ تو بہت ہی نزدیک ہے۔ مولانا معہود (مذکور یعنی شیخ نور کا مزید حال یہ ہے کہ) نیچے کی طرف اخیر نقطے تک (ایک لحاظ سے) پہنچ گیا اور اس نے جذبے کے کام کو انجام تک پہنچا لیا، اور اس مقام کی برزخیت تک پہنچ گیا، اور فوق کو من وجہ نہایت تک پہنچا لیا، اس نے اول اول صفات کو بلکہ اس نور کو جس کے ساتھ صفات قائم ہیں اپنے آپ سے جدا دیکھا، اور اپنے آپ کو شیخ فانی معلوم کیا، اس کے بعد صفات کو ذات سے جدا دیکھا اور اس دیکھنے کے ساتھ مقامِ جذبہ کی احدیت تک پہنچا، اور اب دنیا کو اور اپنے آپ کو ایسا گم کر دیا ہے کہ نہ احاطہ کا قائل ہے نہ معیت کا، اور پوشیدہ ترین ذات (یعنی مرتبۂ تجرد و احدیتِ صرفہ) کی طرف ایسا متوجہ ہے کہ حیرت و نادانی کے سوا کچھ حاصل نہیں رکھتا۔ سید شاہ حسین بھی مقامِ جذبہ کے ذریعہ آخری نقطے کے نزدیک پہنچ چکا ہے یعنی اس کا سر نقطے تک پہنچ گیا ہے اور اسی طرح وہ صفات کو ذات سے جدا دیکھتا ہے لیکن ذاتِ احد کو سب جگہ پاتا ہے اور اس ظہور سے خوش وخرم ہے۔ اسی طرح یہاں جعفر بھی آخری نقطے کے قریب پہنچ چکا ہے اور بہت ذوق و شوق اور جذبہ اس سے ظاہر ہوتا ہے، شاہ حسین کے لگ بھگ (حال) ہے اور دوسرے دوستوں میں بھی فرق ظاہر ہو رہا ہے۔ یہاں شیخی وشیخ عیسٰی اور شیخ کمال جذبے میں نقطۂ فوق تک پہنچ گئے ہیں اور شیخ کمال بھی نزول کی طرف متوجہ ہے (یعنی تکمیل و ارشاد کے لئے خلق کی طرف متوجہ ہے)

شیخ ناگوری نقطۂ فوق کے نیچے کے حصے تک آیا ہے لیکن ابھی اس کو بہت سفر در پیش ہے۔ اس جگہ کے دوستوں میں سے اب تک آٹھ یا نو افراد بلکہ دس افراد نقطۂ فوق کے نیچے کے حصہ تک پہنچے ہیں، بعض نقطہ تک پہنچ کر نزول کی طرف متوجہ ہیں۔ بعض دوسرے دوست نقطہ کے قریب ہیں اور بعض دور۔

میاں شیخ مزمل اپنے آپ کو گم پاتا ہے اور صفات کو اصل سے دیکھتا ہے اور مطلق کو سب جگہ پاتا ہے اور اشیاء کو سراب؂12 کی مانند نا قابلِ اعتبار جانتا ہے بلکہ کچھ بھی نہیں پاتا۔ مولانا مذکور کے بارے میں ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اس کو دوسرے لوگوں کی تعلیم کے لئے اجازت دینا پسندیدہ بات ہے لیکن اجازت وہ ہو جو جذبے کے مناسب ہو۔ اگرچہ اس کے بعض امور باقی رہ گئے ہیں جن کا اس کو استفادہ کرنا ضروری تھا لیکن اس نے روانہ ہونے میں جلدی کی اور توقف نہ کیا۔ حضورِ والا کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو رہا ہے آپ جس طرح اس کے کام کی بہتری تصور فرمائیں اس کو حکم دیں۔ جو کچھ اس خاکسار کی سمجھ میں آیا عرض کر دیا گیا وَ الْحُکْمُ عِنْدَکُمْ (اور اصل حکم تو آپ ہی کا ہے)

خواجہ ضیاء الدین محمد چند دن یہاں رہا، اس نے کسی قدر حضور و اطمینان حاصل کر لیا تھا آخر کار اسبابِ معیشت کی کمی کی وجہ سے اپنے آپ کو اطمینان کے ساتھ نہ رکھ سکا اور لشکر (کی ملازمت) کی طرف متوجہ ہو گیا۔

مولانا شیر محمد کا لڑکا بھی ملازمت کی طرف متوجہ ہے، اس کو بھی کسی قدر حضور و جمعیت حاصل ہے۔ بعض مواقعات کی وجہ سے اس نے زیادہ ترقی نہیں کی۔ زیادہ لکھنا گستاخی ہے۔ ع

بندہ باید کہ حدِّ خود داند

ترجمہ:

چاہیے بندہ اپنی حد میں رہے

عریضہ ہذا کے لکھنے کے بعد ایک ایسی کیفیت ظاہر ہوئی اور ایک ایسا حال پیش آیا جس کو تحریر کے ذریعہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس حال میں فنائے ارادہ متحقق ہو گئی جیسا کہ پہلے ہی ارادے کا تعلق مرادوں سے منقطع ہو چکا تھا لیکن اصل ارادہ باقی رہ گیا تھا چنانچہ ایک عریضہ میں عرض کیا جا چکا ہے۔ اب اس وقت ارادہ بھی جڑ سے نکل گیا ہے اور (اب بجز ذات حقہ بحتہ کے) نہ مراد باقی ہے نہ ارادہ، اور اس فنا کی صورت بھی نظر آئی اور بعض علوم جو اس مقام کے مناسب ہیں فائض (ظاہر) ہوئے۔ چونکہ باریکی و پوشیدگی کے باعث ان علوم کو تحریر میں لانا دشوار تھا اس لئے مجبوراً قلم کی باگ کو ان علوم کے تحریر کرنے سے موڑ لیا۔ اس فنا کے ثابت ہونے اور علوم کے فیضان کے وقت وحدت سے اوپر ایک خاص نظر ظاہر ہوئی، اگرچہ یہ بات طے شدہ ہے کہ وحدت سے اوپر کوئی نظر نہیں بلکہ کوئی نسبت نہیں ہے لیکن اس خادم کو جو کچھ پیش آتا ہے عرض کر دیتا ہے اور جب تک یقین کے درجے کو نہیں پہنچ جاتا لکھنے کی جرأت نہیں کرتا، اور اس مقام کی صورت، وحدت سے پرے اس طرح دیکھتا ہے جیساکہ آگرہ دہلی سے پرے ہے اور اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں ہے اگرچہ نظر میں نہ وحدت ہے نہ اس سے ماوراء کوئی اور چیز اور نہ کوئی اور مقام ہے جس کو حق ہونے کے عنوان سے جانے یا حق کو اس کے ماوراء (پرے) جانے۔ حیرت و نادانی اسی طرح خالص و صاف ہے اور اس دید سے کوئی فرق نہیں ہوا۔ میں نہیں سمجھتا کہ کیا عرض کروں، سب تناقض در تناقض (ایک دوسرے کی ضد) ہے جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور حال بلا شبہ ثابت ہے۔ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَ أَتُوْبُ إِلَی اللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ مَا کَرِہَ اللّٰہُ قَوْلًا وَّ فَعْلًا خَاطِرًا وَّ نَاظِرًا؂13 (یعنی میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتا ہوں اور قول، فعل، خیال اور نظر میں سے جو چیز بھی اللہ تعالی کو نا پسند ہے، اس سے توبہ کرتا ہوں)

نیز اس وقت ایسا معلوم ہوا کہ پہلے فنائے صفات کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا در اصل وہ صفات کی خصوصیات اور ان کے ما بہ الامتیاز کی فنا تھی جو کہ وحدت کے ضمن میں درج ہوئی تھی اور (دیگر) خصوصیات دور ہو گئی تھیں۔ اب اصل صفات بھی اگرچہ ایک دوسرے میں داخل ہونے اور مل جانے کے طور پر ہوں بر طرف ہو گئی ہیں اور غلبۂ احدیت نے کسی چیز کو بھی باقی نہیں چھوڑا ہے اور جو تمیز اجمالی یا تفصیلی علم کے مرتبہ سے حاصل ہوئی تھی نہیں رہی اور نظر پوری طرح خارج پر آ گئی (اور بزرگوں کا یہ مقولہ) کَانَ اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ شَیْئٌ وَّ ھُوَ الْآنَ کَمَا کَانَ۔؂14 (یعنی اللہ تعالیٰ تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی اور اب بھی ویسا ہی ہے جیساکہ تھا) اس وقت حال کے مطابق ہو گیا ہے اور پہلے اس حدیث کے مضمون کا صرف علم تھا حال نہیں تھا (یعنی اب علم و حال دونوں جمع ہیں) امید ہے کہ حضور والا اس کی صحت و غلطی پر آگاہ فرمائیں گے۔

دیگر یہ کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مولانا قاسم علی کو مقامِ تکمیل سے کچھ حصہ حاصل ہے اور اسی طرح یہاں کے بعض دوستوں کو بھی اس مقام سے کچھ حصہ حاصل ہونا معلوم ہوتا ہے وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ أَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ (حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی زیادہ بہتر جانتا ہے)۔

؂1 آپ کا نام فضل اللہ بن ابو الخیر ہے۔ آپ کے پیر طریقت شیخ فضل اللہ بن حسن سرخسی ہیں۔ اپنے وقت کے تمام مشائخ آپ کے گرویدہ تھے، آپ کی رباعیات بہت مشہور ہیں۔ غزنی میں سنہ 357ھ میں ولادت ہوئی اور بوقت عشاء بروز جمعہ شعبان سنہ 440ھ میں وفات پائی۔(نفحات)

؂2 اس میں اشارہ ہے کہ دو ہی راستے ہونا حصر استقرائی ہے حقیقی نہیں ہے۔

؂3 یہ قول اس بزرگ کے قول کے موافق ہے جو فرماتے ہیں کہ جب تک صوفی اپنے آپ کو فرنگی کافر سے برا نہ جانے وہ کافر سے بھی زیادہ برا ہے۔اگر کوئی یہ کہے کہ یہ بات کس طرح صحیح ہو سکتی ہے جب کہ صوفی مومن تو ضرور ہے اور کبھی عالم و پرہیزگار بھی ہوتا ہے اور ہوش و حواس کی حالت میں اپنے اوصاف و اعراض کا علم بھی رکھتا ہے اور ایک ہی نوع کے افراد میں سے ایک فرد کو دوسرے فرد پر انہی اوصاف و اعراض کی وجہ سے فضیلت ہوتی ہے نہ کہ ذات و حقیقت کی وجہ سے۔ پس جب صوفی یہ جانتا ہے کہ کافر فرنگ کفر و معاصی کے ساتھ متصف ہے اور وہ صوفی جو خود ایمان و دیگر فضائل کے ساتھ متصف ہے تو وہ اپنے آپ کو کافر فرنگ سے زیادہ برا کس طرح سمجھے گا؟ اور اگر تکلف کے ساتھ ایسا سمجھے گا تو وہ ان فضائل کو ان رذائل سے برا جانے والا ہو گا اور اس عقیدے کی برائی و فساد شرعاً و عقلاً ظاہر ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس اشکال کے جواب کی تحقیق اس بات کے جاننے پر موقوف ہے کہ حضرات مجددیہ قدس سرہم کے نزدیک حقائق ممکنات، اعدامِ اضافیہ و ظلالِ صفاتِ حقیقیہ سے مرکب ہیں۔ یعنی اس اعدام نے علم الہی میں اسماء و صفات کے تقابل کی بنا پر ایک ثبوت پیدا کر لیا ہے اور انوار و صفات کے عین ہو کر جہاں (جہان) کے مبادی تعینات ہو گئے ہیں اور خارجِ ظلی جو کہ خارج حقیقی کا ظل ہے صنعت خداوندی سے وجود ظلی کے ساتھ موجود ہو گئے ہیں اور اس ترکیب کی بنا پر خیر و شر کے آثار کا مصدر ہو گئے ہیں، عدم ذاتی کی جہت سے شر کا کسب کرتے ہیں اور وجود ظلی کی جہت سے خیر کا کسب کرتے ہیں فلسفے کی نظر شریفہ و خسیسہ مظاہر پر وجود کی جہت سے پڑتی ہے جو کہ ان مظاہر میں ہے اور خیر کا مصدر ہے، اور جب اپنے اندر نگاہ کرتا ہے تو اس کی نگاہ عدم کی جہت پر پڑے گی جو اس کی ذاتی ہے اور شرارت کا منشا ہے اور وہ اپنے آپ کو ہر خیر و کمال سے مطلقًا خالی دیکھے گا اور عاریتی خیر و کمال کو جو کہ اپنے وجود کی جہت سے کسب کیا ہے، اپنی ملکیت سے نہیں پائے گا مجبوراً اپنے آپ کو کافرِ فرنگ اور دیگر خسیس چیزوں سے بھی بدتر سمجھے گا۔(منقول از مکتوب نہم از مکاتیب حضرت مظہر جان جاناں قدس سرہٗ باختصار یسیر)

؂4 فنائے ارادہ سے مراد یہ ہے کہ اپنے ارادے کو حق تعالیٰ شانہ کے ارادے میں فنا و گم کر دے۔

؂5 اس مضمون کا عربی شعر بھی ہے:

وَ مَنْ لَّمْ فِيْ حُبِّ مَوْلَاهُ فَانِيًا

فَلَيْسَ لَهٗ فِيْ کِبْرِیَاہُ سَبِیْلٌ

؂6 یعنی جس طرح کہ باپ اپنے بیٹے کے ساتھ اور شیخ اپنے مرید کے ساتھ اور استاد اپنے شاگرد کے ساتھ ہوتا ہے۔ پس سمجھ لیجئے اور کسی دوسرے شبہ میں پڑ کر غلطی کے مرتکب نہ ہو جائیے۔

؂7 اس میں حضرت مجدد قدس سرہٗ نے ایک مشہور شبہ و اعتراض کا ازالہ فرمایا ہے یعنی یہ نہیں فرمایا کہ میں اس مقام سے اپنے آپ کو رنگین پاتا ہوں بلکہ یہ فرمایا کہ اس مقام کے انعکاس و پرتو سے اپنے آپ کو رنگین محسوس کرتا ہوں، یہ بھی نہیں فرمایا کہ اس مقام میں داخل ہوا ہوں بلکہ فرمایا کہ اس مقام سے رنگین و منقش ہوا ہوں۔ وصولِ مقام میں اور مقام کے پرتَو سے رنگین ہونے میں بہت فرق ہے۔ اس قول کی اور بھی توجیہات ہیں جیسا کہ خود حضرت مجدد قدس سرہٗ نے جلد اول مکتوب 202 میں فرمایا ہے: "کہ وہ شخص جو اپنے آپ کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے افضل جانے اس کا حکم دو حال سے خالی نہیں یا وہ زندیق محض ہے یا جاہل صرف۔ وہ شخص جو حضرت امیر (علی) رضی اللہ عنہ کو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے افضل کہے اہل سنت و جماعت کے گروہ سے نکل جاتا ہے تو پھر اس شخص کا کیا حال ہے جو اپنے آپ کو (ان حضرات سے) افضل جانے۔ اس گروہ (صوفیا) میں یہ بات مقرر ہے کہ اگر کوئی سالک اپنے آپ کو خسیس (خارش زدہ) کتے سے بہتر جانے تو وہ ان بزرگوں کے کمالات سے محروم ہے۔ سلف کا اجماع اس پر منعقد ہو چکا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام انسانوں سے افضل ہیں۔ وہ بڑا ہی احمق ہے جو اس اجماع کے خلاف کرے"۔ نیز اس اشکال کے حل کے لیے مکتوب 208 دفتر اول مطالعہ کرنا چاہیے۔ مزید حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اشکال مذکور کا جواب صراحت کے ساتھ دفتر اول مکتوب 220 اور 292 میں بھی تحریر فرمایا ہے۔ یہ وہی مکتوب شریف ہے جس کی بنا پر حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خلاف جہانگیر بادشاہ کو بھڑکایا گیا تھا اور اس نے آپ کو گوالیار کے قلعہ میں قید کر دیا تھا۔

؂8 یعنی خود بھی قال سے حال کے ساتھ علم الیقین سے عین الیقین کے ساتھ متصف ہو گیا ہوں۔

؂9 مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو مکتوبات شریفہ دفتر اول مکتوب 21 و 27۔

؂10 یعنی اس سے صرف اخص الخواص اولیاء کرام کو مشرف کرتے ہیں۔

؂11 تنزلاتِ مراتب جن کو تنزلات خمسہ، حضراتِ اور تعیناتِ خمسہ بھی کہتے ہیں تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو دفتر دوم مکتوب اول۔

؂12 سراب (بالفتح) گرمی کے دنوں میں پیاسے مسافر کو صحرا کی ریت آفتاب کی تپش سے دور سے پانی کی مانند نظر آتی ہے یعنی اس کو پانی کا دھوکا ہوتا ہے اور کبھی چاندنی رات میں بھی ایسا ہی دھوکا ہوتا ہے۔ مراد مطلق دھوکا ہے۔

؂13 خطرات و وساوس کے لئے تنہائی میں یہ الفاظ تین مرتبہ زبان سے کہے: "أَسْتَغْفِرُ اللہَ مِْنْ جَمِیْعِ مَا کَرِہَ اللہُ قَوْلًا وَّ فِعْلًا وَّ خَاطِرًا وَّ سَامِعًا وَّ نَاظِرًا لَا حَوْلَ وَ لَا قُوّۃَ إِلَّا بِاللہِ" اور اس وقت سانس کو تینوں مرتبہ قوت کے ساتھ کھینچے اس طرح پر کہ گویا وہ کسی چیز کو دماغ سے دور کر رہا ہے اور دل کو زبان کے موافق کرے یعنی دل میں اس استغفار کے معنی کا لحاظ رکھے۔(از حاشیہ مکتوباتِ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ بزبانِ فارسی از مولانا نور احمد امرتسری رحمۃ اللہ علیہ)

؂14 مشکوٰۃ شریف میں عمران بن حصین سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کَانَ اللہُ وَ لَمْ یَکُنْ شَیْءٌ قَبْلَہٗ" اور صحیح بخاری کتاب بدءالخلق میں یہ روایت ان الفاظ کے ساتھ وارد ہے: "کَانَ اللہُ وَ لَمْ یَکُنْ شَیْءٌ غَیْرُہٗ" اور سادات صوفیاء کی عبارتوں میں یہ عبارت واقع ہوئی ہے: "کَانَ اللہُ وَ لَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ شَیْءٌ" ان بزرگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ: وَالْآنَ عَلٰی مَا عَلَیْہِ۔