دفتر 1 مکتوب 12: مقام فنا و بقا اور ہر چیز کی خاص وجہ کا ظہور حاصل ہونے اور سیر فی اللہ و تجلئ ذاتی برقی وغیرہ کی حقیقت کے بیان میں

مکتوب نمبر 12

مقام فنا و بقا اور ہر چیز کی خاص وجہ کا ظہور حاصل ہونے اور سیر فی اللہ و تجلئ ذاتی برقی وغیرہ کی حقیقت کے بیان میں، یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں تحریر کیا۔

عریضہ:

آپ کا کم ترین خادم احمد خدمتِ عالیہ میں عرض کرتا ہے کہ اپنی کوتاہیوں کے بارے میں کیا عرض کروں، مَا شَاءَ اللّٰہُ کَانَ وَ مَا لَمْ یَشَأْ لَمْ یَکُنْ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللّٰہُ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔ (یعنی جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا وہ وجود میں آ گیا اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نہیں چاہا وہ وجود میں نہیں آیا) اور نا فرمانیوں اور گناہوں سے بچنا اور حق تعالیٰ کی فرمانبرداری اور مرضی پر عمل کرنے کی طاقت اللہ تعالیٰ کی بلند و عظیم ذات (کی مدد) کے بغیر ممکن نہیں)

جو علوم فنا فی اللہ؂1 اور بقا باللہ سے تعلق رکھتے ہیں حق تعالیٰ نے اپنی عنایت سے ظاہر فرما دیئے ہیں اور اسی طرح اس خادم نے معلوم کر لیا ہے کہ ہر چیز کی وجہ خاص کیا ہے اور سیر فی اللہ کے کیا معنی ہیں اور تجلی ذاتی برقی کیا ہوتی ہے اور محمدی المشرب کون ہے اور اسی قسم کی دوسری چیزیں۔ ہر ایک مقام میں اس کے لوازمات و ضروریات کو دکھاتے اور ان کی سیر کراتے ہیں، شاید ہی کوئی ایسی چیز رہ گئی ہو جس کی اولیاء اللہ نے نشاندہی کی ہے، اس کو راستے میں چھوڑ دیتے ہوں اور نہ دکھاتے ہوں (یعنی ایسی کوئی چیز نہیں ہے جو نہ دکھائی گئی ہو) قُبِلَ مَنْ قُبِلَ بِلَا عِلَّۃٍ (یعنی جو کوئی بھی خدائے تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوا ہے وہ بلا علت (سبب) ہی محض عنایتِ الہی سے مقبول ہوا ہے)۔ جس طرح یہ خادم ہر چیز کی ذات اور اصل کو اللہ تعالیٰ کی مخلوق (پیدا کی ہوئی) جانتا ہے اسی طرح قابلیتوں اور استعدادوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق اور بنائی ہوئی جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قابلیتوں کا محکوم و تابع نہیں ہے اور کوئی چیز ایسی نہیں جو اس پر حاکم ہو، زیادہ لکھنے کی گستاخی مناسب نہیں۔ ع

بندہ باید کہ حد خود داند

ترجمہ:

چاہیے کہ بندہ اپنی حد میں رہے

؂1 فنا فی اللہ، بقا باللہ اور تجلئ ذاتی وغیرہ اصطلاحاتِ صوفیہ کی تشریح دوسرے مکتوبات خصوصًا دفترِ دوم مکتوب 94 و دفتر سوم مکتوب 64 میں مطالعہ کریں اور اقسامِ سیر کو حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے دفترِ اول مکتوب 144 میں بیان فرمایا ہے۔