مکتوب نمبر 13
اس بیان میں کہ اس راستے (راہ سلوک) کی کوئی انتہا نہیں ہے اور حقیقت کے علوم شریعت کے علوم کے عین مطابق ہیں۔ یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں تحریر فرمایا۔
عریضہ:
حضور والا کا کم ترین خادم احمد عرض کرتا ہے، افسوس ہزار افسوس کہ اس راستے کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے، اس راستہ کی سیر نہایت تیزی کے ساتھ اور واردات و عنایات نہایت کثرت سے واقع ہو رہے ہیں، اسی لئے مشائخ عظام نے فرمایا ہے کہ سیر الی اللہ پچاس ہزار سال کا راستہ ہے، ﴿تَعْرُجُ الْمَلآئِکَةُ وَ الرُّوْحُ اِلَیْہِ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ﴾ (المعارج: 4) ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف ایک ایسے دن میں چڑھ کر جاتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے“۔ اس آیتِ مبارکہ میں شاید اسی معنی کی طرف اشارہ ہے۔ جب کام نا امیدی تک پہنچ گیا اور امیدیں منقطع ہو گئیں تو آیت ﴿وَ ھُوَ الَّذِی یُنَزِّلُ الْغَیْثَ مِنْ بَعْدِ مَا قَنَطُوا وَیَنْشُرُ رَحْمَتَہٗ﴾ (الشوریٰ: 28) ”اور وہی ہے جو لوگوں کے ناامید ہونے کے بعد بارش برساتا اور اپنی رحمت پھیلا دیتا ہے، اور وہی ہے جو (سب کا) قابل تعریف رکھوالا ہے“ مددگار ہوئی۔ (یعنی اس آیت مبارکہ سے تسلی ہوئی اور اللہ تعالی کی رحمت سے کام بن گیا)
چند دن ہوئے کہ اشیاء میں سیر واقع ہوئی ہے اور رشد و ہدایت کے طالبوں و مریدوں کی پھر کثرت ہو گئی ہے، القصہ ان کی رشد و ہدایت کا کام شروع کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک اپنے آپ کو (ارشاد و تکمیل کے) اس مقام کے قابل نہیں پاتا لیکن لوگوں کے اصرار کی وجہ سے مروت و حیا کے باعث کچھ نہیں کہتا۔ توحید وجودی کے مسئلے میں پہلے اس خادم کو تردد تھا جیسا کہ کئی مرتبہ عرضِ خدمت کیا جا چکا ہے اور افعال و صفات کو اصل سے جانتا تھا، جب معاملے کی حقیقت معلوم ہو گئی تو وہ تردد دور ہو گیا اور (مقولہ) ہمہ ازوست کے پلہ (دامن) کو (مقولہ) ہمہ اوست کے دامن سے بھاری و غالب پایا اور اس (ہمہ ازوست) میں ہمہ اوست سے زیادہ کمال دیکھا اور افعال و صفات کو بھی دوسرے رنگ میں معلوم کیا۔ سب کو ایک ایک کر کے دکھایا اور (ان کے) اوپر سے گذر کرایا (چنانچہ) شک و شبہ بالکل جاتا رہا، تمام کشفی علوم ظاہرِ شریعت کے مطابق نکلے اور ظاہر شریعت سے بال بھر (یعنی ذرا بھی) مخالفت نہ پائی۔ بعض صوفیہ جو ظاہر شریعت کے خلاف کشفوں کو بیان کرتے ہیں وہ صحو کی وجہ سے ہے یا سُکر (مستی) کی وجہ سے (ورنہ) باطن ظاہر کے بالکل مخالف نہیں ہے۔ راہ سلوک طے کرنے کے دوران سالک کو جو مخالفت نظر آتی ہے ان اختلافات کی توجیہ کرنے اور ان میں موافقت پیدا کرنے کی ضرورت ہے لیکن حقیقی1 منتہی باطن کو ظاہر شریعت کے موافق پاتا ہے۔ (ظاہری) علماء اور ان بزرگوں (صوفیائے کرام) کے درمیان صرف اسی قدر فرق ہے کہ علماء (امور شریعت کو) دلیل اور علم کی وجہ سے جان لیتے ہیں اور یہ بزرگ کشف و ذوق کے ساتھ حاصل کرتے اور پا لیتے ہیں۔ ان بزرگوں کے حال کی صحت پر اس مطابقت سے زیادہ مدلّل اور کون سی دلیل ہو سکتی ہے (کہ ان حضرات کا تمام کشف کتاب و سنت اور ظاہرِ شریعت کے موافق ہوتا ہے اور ظاہرِ شریعت سے ذرا بھی ہٹا ہوا نہیں ہوتا) آیت کریمہ ﴿وَ یَضِیْقُ صَدْرِی وَ لَا یَنْطَلِقُ لِسَانِی﴾ (الشعراء: 13) ”اور میرا دل تنگ ہونے لگتا ہے، اور میری زبان نہیں چلتی“۔ میرے شاملِ حال ہے میں نہیں سمجھتا کہ کیا عرض کروں، بعض حالات کے لکھنے کی توفیق نہیں پاتا اور عریضوں میں بھی لکھنے کی گنجائش نہیں ہے، شاید اس میں کوئی حکمت ہوگی۔ اس فراق زدہ محروم کو غریب نوازی کی توجہ سے محروم نہ رکھیں اور راستے میں نہ چھوڑیں؎
ایں سخن را چوں تو مبدا بودۂٖ2
گر فزوں گردد تو اش افزودۂٖ
ترجمہ:
ابتدا ہے اس سخن کے آپ سے
پس ترقی اس میں ہو گی آپ سے
زیادہ لکھنے کی گستاخی نہیں کی گئی۔ع
بندہ باید کہ حدِّ خود داند3
ترجمہ:
بندہ کو اپنی حد سےگذرنا نہیں چاہیے
1 جب سالک اپنے کام کو آخر تک پہنچا لیتا ہے اور نہایت النہایت تک پہنچ جاتا ہے تو باطن کو ظاہر شریعت کے ساتھ متفق پاتا ہے اور جو مخالفت اثنائے راہ میں نظر آتی تھی وہ دور ہو جاتی ہے۔
2 اس شعر کا عربی شعر میں ترجمہ یہ ہے:
وَ أَنْتَ لِھٰذَا الْقَوْلِ قَدْ کُنْتَ مَبْدَأً
فَإِنْ فِیْہِ إِطْنَابٌ فَمِنْکَ مُسَبِّبٌ
3 اس کا عربی مصرع یہ ہے:
عَلَی الْمَرْءِ أنْ لَّا یَجْہَلَ الدَّھْرَ طَوْرَہٗ