دفتر 1 مکتوب 14: جو واقعات راہ سلوک طے کرنے کے دوران ظاہر ہوئے ان کے حاصل ہونے اور بعض طالبانِ طریقت کے احوال کے بیان میں

مکتوب نمبر 14

جو واقعات راہ سلوک طے کرنے کے دوران ظاہر ہوئے ان کے حاصل ہونے اور بعض طالبانِ طریقت کے احوال کے بیان میں۔ یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار قدس سرہٗ کی خدمت میں تحریر کیا۔

عریضہ:

کم ترین خادم احمد کی گذارش یہ ہے کہ وہ تجلیات جو کونیات (مخلوقات) کے مراتب میں ظاہر ہوئی تھیں ان میں سے بعض سابقہ عریضے میں بیان کر دی گئی تھیں، اس کے بعد مرتبۂ وجوب جو کہ صفات کلیہ کا جامع ہے، ظاہر ہوا اور بد صورت سیاہ رنگ عورت کی صورت میں نظر آیا، اور اس کے بعد مرتبۂ احدیت ایک دراز قد آدمی کی صورت میں ظاہر ہوا جو کم عرض والی دیوار پر کھڑا ہو۔

یہ دونوں تجلیات حقانیت کے عنوان (سر نامہ) کی صورت میں ظاہر ہوئیں بخلاف سابقہ تجلیات کے کہ وہ اس عنوان کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ اسی اثنا میں موت کی خواہش پیدا ہوئی اور ایسا نظر آیا گویا کہ میں ایک شخص ہوں جو دریائے محیط (بہت بڑے سمندر) کے کنارے اس ارادے کے ساتھ کھڑا ہے کہ اپنے آپ کو دریا میں ڈال دے لیکن پیچھے سے اس کو ایک رسی سے ایسا مضبوط باندھ دیا گیا ہے کہ وہ دریا میں گر ہی نہیں سکتا۔ (خادم) اس رسی سے مراد اپنے بدن عنصری کے تعلقات کو سمجھتا تھا اور خواہش کرتا تھا کہ وہ رسی ٹوٹ جائے۔ نیز ایک خاص کیفیت یہ ظاہر ہوئی کہ اس وقت ذوق کے انداز پر مجھے معلوم ہوا کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے سوا دل میں کوئی خواہش نہیں رہی ہے۔

بعد ازاں صفات کلیہ وجوبیہ جنہوں نے کہ نزول و ظہور کے مقامات کے اعتبار سے مختلف خصوصیات پیدا کر لی تھیں نظر آئیں۔ اس کے بعد وہ خصوصیات سب کی سب ان نزول و ظہور کے مقامات سے نیچے گر گئیں اور باقی نہ رہیں مگر کلیتِ وجوبیہ کے عنوان سے اور ان (نزول و ظہور کے مواقع) کے ان خصوصیات سے الگ ہونے کی صورت میں بھی نظر آئیں اور اس وقت معلوم ہو گیا کہ اب حقیقت میں صفات کو اصل کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور خصوصیات سے الگ ہونے سے پہلے صفات کو اصل کے ساتھ جاننے کی کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ مجاز کے طور پر ہو جیساکہ تجلئ صوری؂1 کے مقام والوں کا حال ہے اور اس وقت فنائے حقیقی ثابت ہو گئی۔

اس حالت کے ثابت و موجود ہونے کے بعد جو صفات اپنے اندر یا اپنے غیر کے اندر تھیں، ایک ہی طرز پر پائیں اور محل و مواقع کی تمیز جاتی رہی۔ اس وقت شرک خفی کی کئی دقیق اقسام سے نجات حاصل ہوئی اور اس وقت عرش (عالم علوی) و فرش (عالم سفلی) زمان و مکان اور جہات و حدود کچھ بھی نہیں رہا۔ اگر بالفرض کئی سال تک فکر کرتا رہوں ہرگز علم میں نہیں آئے گا کہ دنیا کا ایک ذرہ بھی پیدا شدہ ہے۔

اس کے بعد اپنا تعین اور اپنی وجہ خاص نظر آئی اور اپنا تعین پرانے پھٹے ہوئے کپڑے کی طرح تھا جس کو کسی شخص نے پہنا ہوا ہو اور اس شخص کو میں نے اپنی وجہ سے خاص جانا لیکن حقانیت کے طور پر متصور نہیں ہوا۔

اس کے بعد اس شخص پر متصل ہی ایک باریک پوست (کھال) نظر آیا اور میں نے اپنے آپ کو اس کھال کا عین معلوم کیا اور تعین کے اس کپڑے کو میں نے اپنے آپ سے بیگانہ دیکھا اور جو نور اس کھال میں تھا نظر آیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نور نظر سے غائب ہو گیا اور یہ پوست اور کپڑا بھی نظر سے ہٹ گیا اور وہی پہلا جہل باقی رہ گیا۔

اس مذکورہ صورت واقعہ؂2 کی تعبیر جو کچھ علم میں آئی یہ خادم عرض خدمت کرتا ہے تاکہ (آنجناب کی جانب سے) اس تعبیر کی صحت و غلطی معلوم ہو جائے۔ وہ تعبیر یہ ہے کہ یہ صورت مذکورہ (یعنی اپنے تعین کا پرانے کپڑے کی مانند دیکھنا) عین ثابتہ؂3 ہے جو وجوب و امکان کے درمیان برزخ و واسطہ کی مانند ہے کہ جس کی دونوں طرفیں (وجوب و امکان) ایک دوسرے سے جدا و ممتاز ہو گئی ہیں اور کمال درجہ کے فرق کے ساتھ ثابت ہو گئی ہیں۔ اور وہ پوست جو اس پرانے کپڑے اور اس نور کے درمیان واقع ہوا ہے وہ وجود اور عدم کے درمیان برزخ ہے۔ اور یہ جو میں نے اپنے آپ کو اس پوست کے آخر میں پایا تو اس میں برزخیت تک پہنچنے کی طرف اشارہ ہے۔ اور پہلے بھی واقعات و کیفیات میں اپنے آپ کو وجود اور عدم کے درمیان بمنزلہ برزخ کے معلوم کرتا رہا تھا لیکن ظاہری طور پر وہ آفاق کی نسبت سے تھا اور اب یہ انفس کے اعتبار سے ہے۔ ایک دوسرا فرق بھی اس وقت ظاہر ہوا تھا لیکن لکھنے کے وقت بھول گیا۔ یہ ہے (اس صورت واقعہ کی تعبیر)۔ اور جو کچھ ہر وقت حاصل ہے حیرانی و نادانی ہے۔ اسی طرح کبھی عجیب و غریب حال ظاہر ہو جاتے ہیں اور غائب ہو جاتے ہیں اور ان کی معرفت رہ جاتی ہے، اور یہ خادم بعض واقعات کی تعبیر و تاویل میں عاجز رہ جاتا ہے اور اگر کوئی چیز علم میں آتی ہے اس پر اعتماد نہیں کرتا۔ اسی وجہ سے عریضوں کے ارسال خدمت کرنے میں گستاخی کرتا ہوں ممکن ہے حضور والا کی نشاندہی سے کسی امر کے ساتھ یقین پیدا ہو جائے۔ یہ خادم امیدوار ہے کہ حضور کی بلند توجہات سے کمینی دنیا کے تعلقات کی گرفتاری سے نجات میسر ہو جائے گی ورنہ کام بہت مشکل ہے؎

بے عنایاتِ حق و خاصانِ حق گر مَلَک باشد سیہ ہستش ورق

ترجمہ:

ذات حق اور نیک بندوں کی عنایت جب نہ ہو

ہے سیاہ اعمال نامہ خواہ فرشتہ کیوں نہ ہو

شیخ عبد اللہ نیازی کا صاحبزادہ شیخ طٰہٰ جو کہ سرہند شریف کے مشہور مشائخ میں سے ہے اور خود حاجی عبد العزیز اس سے اچھی طرح واقف ہے قدم بوسی و نیاز مندی عرض کرتا ہے اور اس کو اس طریقہ عالیہ کی طرف رجوع کرنے (داخل ہونے کی) خواہش پیدا ہوئی ہے اور صدق و نیاز سے التجا کرتا ہے۔ میں نے اس کو استخارہ کرنے کے لئے کہہ دیا ہے بظاہر مناسبت رکھتا ہے۔ جن دوستوں نے یہاں ذکر کی تعلیم حاصل کی ہے ان میں سے اکثر طریق رابطہ؂4 میں مشغول ہیں، ان میں سے بعض واقعات (واقعہ) میں دیکھ کر رابطہ اختیار کرنے کے ساتھ آتے ہیں اور بعض دہلی سے واپس آنے سے پہلے ہی رابطہ رکھتے تھے اور وہ اول اول حضور و استغراق میں جاتے ہیں، ان میں سے بعض صفات کو بھی اصل سے دیکھتے ہیں اور بعضے نہیں دیکھتے لیکن کوئی شخص بھی توحید وجودی اور انوار و کشوف کی راہ سے نہیں جاتا ہے۔

ملا قاسم علی و ملا مودود محمد اور عبد المؤمن بظاہر مقام جذبہ (سیر انفسی) کے نقطہ فوق تک پہنچ گئے ہیں لیکن ملا قاسم علی نزول کی طرف (یعنی تکمیل و ارشاد کے لئے مخلوق کی طرف) توجہ رکھتا ہے اور ان دونوں (یعنی ملا مودود محمد و عبد المؤمن) کے متعلق معلوم نہیں کہ نزول کی طرف آئیں، اور شیخ نور بھی نقطہ فوق کے نزدیک ہے لیکن (ابھی تک) وہاں نہیں پہنچا ہے۔ ملا عبدالرحمن بھی نقطہ کے نزدیک ہے لیکن ابھی تھوڑی سی مسافت درمیان میں ہے۔ ملا عبدالہادی نے حضور اور اس حضور میں استغراق حاصل کر لیا ہے اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ مطلق پاک ذات یعنی حق تعالی جل شانہ کو اشیاء میں تنزیہی صفت کے ساتھ دیکھتا ہوں اور افعال کو بھی اسی پاک ذات سے تعالی شانہ سے جانتا ہوں، یہ سب حضور والا کے فیوضات ہیں جو طالبان طریقت اور صاحب استعداد لوگوں کو پہنچ رہے ہیں۔ اور اس فیض رسانی میں اس کمترین خادم کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ع

من ہماں احمد پارینہ کہ ہستم ہستم

(ترجمہ) میں وہی احمد ہوں خادم ہوں پرانا آپ کا

حضور والا نے ایک دن واقعات میں سے کسی واقعہ کے درمیان فرمایا تھا کہ اگر اس میں (یعنی حضرت مجدد میں) محبوبیت کے معنی نہ ہوتے تو اس کو مقصود تک پہنچنے میں بہت توقف (دیر) واقع ہوتا اور اس (خاکسار) کی محبوبیت کی نسبت اپنی عنایت کے ساتھ ہونے کے بارے میں بھی فرمایا تھا آپ کے اس فرمان سے کامل امید لگی ہوئی ہے، اور یہ (لکھنے کی) جرات و گستاخی بھی اسی وجہ سے کی ہے۔

؂1 جاننا چاہیے کہ راہِ طریقت کے سالکین حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو تجلیاتِ صوری کے ساتھ دیکھتے ہیں، یہ آثار کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں اور تجلیاتِ نوری سے دیکھتے ہیں اور وہ افعال کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں اور تجلیاتِ معنوی کے ساتھ دیکھتے ہیں، وہ صفات کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں اور تجلیات ذوقی سے دیکھتے ہیں اور وہ ذات سے نسبت رکھتی ہیں۔ تجلیات صوری میں جو کہ آثار کے ساتھ نسبت رکھتی ہیں حق تعالیٰ تمام اشیاء کی صورت میں بندے پر تجلی فرماتا ہے۔ مفردات، عنصریات، معادن، حیوانات اور افرادِ انسان الخ۔ (من الرشحات من کلام الشیخ رکن الدین علاؤ الدولہ)

؂2 حضرات صوفیائے کرام کی اصطلاح میں واقعہ اس امر کو کہتے ہیں جو قلب میں واقع ہو خواہ جاگتے ہوئے ہو یا نیند کی حالت میں لیکن حواس کا معطل ہونا اس کے لیے ضروری ہے اور سالک بوجۂ مراقبہ و مشغول ذکر مسدود الحواس ہو جاتا ہے پس اس کے لیے واقعات میں نیند کا ہونا ضروری نہیں ہے۔

؂3 عینِ ثابتہ یعنی صورتِ علمیہ اور اعیانِ ثابتہ کی تفصیل حضرتِ مجدد قدس سرہٗ کے دوسرے مکتوبات میں موجود ہے۔

؂4 رابطہ، پیر کی صورت کو دل میں محفوظ رکھنا رابطہ کہلاتا ہے حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ کے اس مصرع میں رابطہ کی طرف اشارہ ہے: "سایۂ رہبر بہ است از ذکرِ حق" یعنی رابطہ کا طریق ذکر سے زیادہ نفع بخش ہے۔ حضرت مجدد قدس سرہٗ نے دفتر دوم مکتوب 30 میں اس کی تحقیق کی ہے اور حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مکتوباتِ معصومیہ کے دفتر اول مکتوب 165 و 18 میں اس کو دلیل کے ساتھ ثابت کیا اور وضاحت فرمائی ہے۔