دفتر 1 مکتوب 15: ان حالات کے بیان میں جو مقاماتِ ہبوط و نزول کے مناسب ہیں نیز بعض اسرار مکنونہ (پوشیدہ راز) کے بیان میں

مکتوب نمبر 15

ان حالات کے بیان میں جو مقاماتِ ہبوط و نزول کے مناسب ہیں نیز بعض اسرار مکنونہ (پوشیدہ راز) کے بیان میں۔ یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔

عریضہ:

اس حاضر (موجود) غائب (غیر حاضر) واجد (پانے والا) فاقد (نہ پانے والا) مُقبل (متوجہ) مُعرض (منھ پھیرنے والا) کی گذارش یہ ہے کہ یہ خادم مدتوں اس (مطلوبِ حقیقی) کو ڈھونڈتا تھا تو اپنے آپ کو پاتا تھا، اس کے بعد اس خادم کا کام اس مقام تک پہنچ گیا کہ اگر اپنے آپ کو ڈھونڈتا تھا تو اس کو پاتا تھا۔ اب اس کو گم کر چکا ہے لیکن اپنے آپ کو پاتا ہے، گم کرنے کے با وجود اس کا متلاشی نہیں، اور گم کر دینا ثابت ہو جانے کے با وجود اس کی خواہش کرنے والا نہیں ہے۔ علم کے اعتبار سے حاضر، واجد (پانے والا) و مقبل ہے اور ذوق کے اعتبار سے غائب و فاقد و معرض ہے۔ اس کا ظاہر بقا ہے اور اس کا باطن فنا، عین بقا (کی حالت) میں فانی ہے اور عین فنا (کی حالت) میں باقی ہے لیکن فنا علمی ہے اور بقا ذوقی ہے۔ اس کا (یعنی حضرت مجدد قدس سرہٗ کا) معاملہ ہبوط و نزول؂1 پر ٹھہر چکا ہے اور صعود و عروج؂2 سے رک گیا ہے اور جس طرح اس کو مقام قلب سے مقلّبِ قلب (قلب کو پھیرنے والے یعنی حق تعالیٰ) کی طرف لے گئے تھے اب پھر مقلّبِ قلب (حق تعالیٰ) کی طرف سے مقامِ قلب میں نیچے لے آئے ہیں۔

روح کے نفس سے آزاد ہو جانے اور نفس کے مطمئنہ ہو کر انوار کے غلبوں سے نکلنے کے با وجود اس(حضرت مجدد قدس سرہٗ) کی روح و نفس کی دونوں جہتوں (طرفوں) کا جامع بنایا ہے اور اس کو ان دونوں جہتوں کی برزخیت کے ساتھ مشرف فرمایا گیا ہے، اور اس برزخیت کے حاصل ہونے کی وجہ سے فوق (اپنے سے اوپر کے مقام والوں) سے فائدہ حاصل کرنا اور تحت (نیچے کے مقام والوں کو) فائدہ پہنچانا یہ دونوں امور یکساں عطا فرما دیے ہیں، فائدہ حاصل کرنے کی حالت میں فائدہ پہنچانے والا بھی ہے اور فائدہ پہنچانے کے وقت فائدہ حاصل کرنے والا بھی ہے؎

گر بگویم؂3 شرحِ ایں بے حد شود ور نویسم بس قلمہا بشکند

ترجمہ:

گر لکھوں شرح اس کی حد کوئی نہیں

لکھتے لکھتے ٹوٹ جائیں گے قلم

اس کے بعد عرض ہے کہ دستِ چپ سے مراد وہ مقامِ قلب ہے جو مقلّبِ قلب (حق تعالیٰ) کی طرف عروج سے پہلے حاصل ہے، فوق سے نزول کے بعد جو مقامِ قلب میں نیچے آ جاتے ہیں وہ ایک دوسرا مقام؂4 ہے جو چپ و راست کے درمیان برزخ ہے جیسا کہ اس فن و مقام کے جاننے والوں پر ظاہر ہے۔ جن مجذوبوں نے سلوک حاصل نہیں کیا وہ مقامِ قلب والوں میں سے ہیں (یعنی وہ ابھی مقلبِ قلوب تک نہیں پہنچے ہیں) کیونکہ مقلبِ قلوب (حق تعالیٰ) تک پہنچنا سلوک طے کرنے پر موقوف ہے اور کسی شخص کے ساتھ مقام کے تعلق کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کو اس مقام میں ایک خاص شان اور اس مقام والے دوسرے حضرات سے ایک علیحدہ امتیاز حاصل ہے۔

اور منجملہ ان امتیازات کے ایک امتیاز جذبہ کی سبقت اور بقائے خاص ہے جو کہ اس مقام کے مناسب علوم و معارف کا منشا و مبدا ہے۔ مقام قلب کے علوم کی تحقیق اور جذبہ و سلوک فنا و بقا کی حقیقت اور اس قسم کے دوسرے امور اس رسالہ (عریضہ) میں جس کا وعدہ کیا گیا تھا تفصیل کے ساتھ لکھے گئے ہیں۔ میر سید شاہ حسین اضطراب کی حالت میں روانہ ہو گئے اس لئے اس (عریضہ) کو صاف نقل کرنے کی فرصت نہ ملی، اس کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ اس رسالہ کو حضور کے مطالعہ و ملاحظہ کا شرف حاصل ہو گا۔

عزیزِ متوقف (رکے ہوئے عزیز یعنی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ) فوق سے نزول کے مقامِ جذبہ (مقامِ قلب) میں آ گیا ہے لیکن اس کی توجہ عالم کی طرف نہیں ہے بلکہ فوق کی طرف متوجہ ہے۔ چونکہ (اس عزیز متوقف کا) فوق کی طرف عروج کرنا کسی کے زبردستی کھینچنے سے تھا (یعنی خلافِ طبیعت تھا) اس لئے فطری طور پر جذبہ کے ساتھ مناسبت رکھتا تھا، فوق سے نزول کے وقت اپنے ہمراہ کوئی کم درجہ چیز لایا ہے۔ وہ تھوڑی سی نسبت جو زبردستی لے جانے والے (یعنی طبیعت کے خلاف) کی توجہ سے تھی اور عروج اسی توجہ کا اثر تھا نسبتِ جذبہ میں ابھی تک اس طرح باقی ہے جس طرح کہ روح بدن میں اور نور اندھیرے میں، لیکن یہ موجودہ جذبہ خواجگانِ سلسلہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے جذبہ کے علاوہ ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو حضرت خواجہ (عبید اللہ) احرار قدس سرہٗ کو اپنے بزرگ باپ داداؤں؂5 سے پہنچا ہے اور ان حضرات کو اس مقام میں ایک خاص شان حاصل ہے۔

اور بعض طالبانِ طریقت نے جو کسی واقعہ میں یہ بیان کیا تھا کہ حضرت خواجہ (احرار قدس سرہٗ) کو جیسے کہ وہ نانِ پُز (یعنی پکی ہوئی روٹی کی مانند) ہیں اس کو عزیزِ متوقف (رکے ہوئے عزیز یعنی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ) نے کھا؂6 لیا ہے۔ (یعنی حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کی نسبت و کمالات کو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اندر سمو لیا ہے) اس واقعہ کے اثر کا ظہور اسی مقام میں ہے، یہ جذبہ فائدہ پہنچانے کے مقام کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا، اور اس مقام میں توجہ ہمیشہ فوق کی طرف ہے اور دائمی سکر اس کے لئے لازمی ہے۔

جذبہ کے بعض مقامات جذبہ میں داخل ہونے کے بعد سلوک کے خلاف ہیں اور دوسرے بعض مقامات سلوک کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ان بعض مقاماتِ جذبہ میں داخل ہونے کے بعد وہ سلوک کے لئے متوجہ ہوتے ہیں۔ اس جذبہ میں داخل ہونے کے بعد یہ جذبہ سلوک کے مخالف ہے۔ عریضہ لکھتے وقت اس مقام کی طرف متوجہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض دقائق (باریکیاں) ظاہر ہو گئے جب تک (کوئی) سبب نہ ہو توجہ میسر نہیں ہوتی۔ وَاللّٰہُ سُبْحَانَہُ أَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی حقیقت حال کو سب سے زیادہ جاننے والا ہے۔

چند ماہ ہو گئے کہ وہ عزیز متوقف (یعنی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ) نیچے آ گیا ہے لیکن جذبۂ مذکورہ کے مقام میں کامل طور پر داخل نہیں ہوا ہے، اس مقام کی شان کے لائق علم کا نہ ہونا اور پریشان حالت کی توجہات (اس مقام میں داخل ہونے سے) مانع ہیں، امید ہے کہ ان بے ربط کلمات (یعنی عریضۂ ہذا) کے حضور والا کے مطالعہ کے وقت میں اس مقام میں پورے طور پر داخل ہونا میسر ہو جائے گا، اس کے بعد حضرت خواجہ (احرار قدس سرہٗ) کو وہ عزیز متوقف پوری طرح نیچے لے جائے گا (یعنی حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کے جملہ کمالات کو حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ مکمل طور پر حاصل کر لیں گے)۔


؂1 ہبوط و نزول، ہر دو بضمتین، بمعنی نیچے آنا، یہاں مراد یہ ہے کہ سالک تکمیل کے بعد مخلوق کی طرف ان کی ارشاد و تکمیل کے لئے متوجہ ہو جائے۔

؂2 صعود و عروج ہر دو بضمتین، اوپر جانا اور یہاں اسماء و صفاتِ الٰہیہ میں سیر واقع ہونا۔

؂3 اس شعر کا عربی شعر میں ترجمہ یہ ہے:

فَیَا لَھَا قِصَّۃٌ فِيْ شَرْحِھَا طُوْلٌ

وَ کَمْ یَرَاعٍ إِذَا حَرَّرْتُ یَنْکَسِرُ

؂4 یعنی فوق سے نزول کرنے کے بعد جو مقامِ قلب میں اتر آتے ہیں وہ اس مقامِ قلب سے جس کو دستِ چپ سے تعبیر کرتے ہیں، نہیں ہے بلکہ دوسرا ہے جو کہ چپ و راست کے درمیان برزخ و واسطہ ہے۔

؂5 یعنی حضرت خواجہ احرار قدس سرہ کو اپنی والدہ ماجدہ کی طرف سے یعنی حضرت شیخ عمر باغستانی اور ان کی اولاد و اقربا سے پہنچا ہے جیسا کہ رشحات میں مذکور ہے۔ (علامہ مراد مکی معرّبِ مکتوبات)

؂6 مولانا نصر اللہ قندھاری رحمۃ اللہ علیہ شرح مکتوبات میں فرماتے ہیں: "حضرت خواجہ، خواجہ احرار را خوردہ است یعنی کمالاتِ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ را حاصل نمودہ است" (ص 80)