دفتر 1 مکتوب 16: عروج و نزول وغیرہ حالات اور ایک کثیر البرکات رسالہ کے بیان میں

مکتوب نمبر 16
عروج و نزول وغیرہ حالات اور ایک کثیر البرکات رسالہ کے بیان میں۔ یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں تحریر کیا۔
عریضہ:
حقیر ترین خادم کی گزارش ہے کہ مولانا علاء الدین نے حضور والا کا نوازش نامہ اس خادم کو پہنچایا، آپ کے نوازش نامے میں ذکر کئے ہوئے ہر ایک مقدمہ کے کشف(وضاحت) میں وقت کی گنجائش کے مطابق مسوّدہ کیا گیا، ان تحریر فرمائے ہوئے علوم کے بعض متممات و مکملات (تکمیل و اتمام کو پہنچانے والے امور) بھی دل میں گزرے تھے (لیکن) ان کے لکھنے کی فرصت نہ ملی کہ حاملِ عریضہ ھذا روانہ ہو گیا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ اس کے بعد خدمتِ گرامی میں ارسال کیا جائے گا۔
اس وقت ایک اور رسالہ نقل کیا ہوا تھا، ارسالِ خدمت ہے اور یہ رسالہ بعض دوستوں کے التماس پر لکھا گیا ہے۔ ان دوستوں نے خواہش کی تھی کہ ایسی نصیحتیں لکھی جائیں جو طریقت میں نفع دینے والی ہوں اور ان کے مطابق زندگی بسر کی جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ رسالہ بے نظیر اور بہت برکتوں والا ہے ۔
اس رسالے کو لکھنے کے بعد (واقعہ میں) ایسا معلوم ہوا کہ حضرت خاتم الانبیاء رسالت پناہ ﷺ اپنی امت کے مشائخ کی ایک بہت بڑی جماعت کے ساتھ تشریف فرما ہیں اور اسی رسالے؂1 کو اپنے دستِ مبارک میں لئے ہوئے ہیں اور نہایت مہربانی سے اس کو چومتے ہیں اور مشائخ کرام کو دکھا کر فرماتے ہیں کہ اس قسم کے عقائد ہونے چاہئیں (جو کہ اس رسالے میں مذکور ہیں) اور (مشائخ) کی وہ جماعت ان (رسالے والے) علوم سے سعادت مند تھی جو اپنی نورانیت سے ممتاز اور عزیز الوجود (نادر) ہیں اور وہ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے سامنے کھڑے ہیں۔ اس واقعہ کی کیفیت کا بیان بہت طویل ہے اور اسی مجلس میں آنحضرت ﷺ نے اس واقعہ کو شائع کرنے (بیان کرنے) کا حکم فرمایا۔ ع
با کریماں کارہا دشوار نیست
ترجمہ:
کریموں پر نہیں مشکل کوئی کام
جس روز سے یہ خادم حضور کی خدمت سے واپس آیا ہے، عروج کی طرف رغبت ہونے کے باعث مقامِ ارشاد (یعنی مخلوق کو حق تعالیٰ کی طرف ہدایت کرنے) کے ساتھ کچھ زیادہ مناسبت نہیں رکھتا البتہ کچھ عرصے تک یہ ارادہ کرتا رہا کہ گوشہ نشین ہو جاؤں کیونکہ ملنے جلنے والے لوگ ببر شیر کی طرح نظر آتے تھے۔ تنہائی اختیار کرنے کا ارادہ پختہ ہو چکا تھا لیکن استخارے میں اس کے ساتھ موافقت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ قربِ الہٰی کے درجات کی کوئی حد و انتہا نہیں ہے اس کے با وجود ان درجات میں انتہائی درجہ تک عروج حاصل ہوا اور ہوتا رہتا ہے اور اوپر لے جاتے اور نیچے لاتے رہتے ہیں۔ ﴿کُلَّ یَوْمٍ ھُوَ فِيْ شَاْنٍ﴾ (الرحمن: 29) ”وہ ہر روز کسی شان میں ہے“ یعنی نئی حالت منظرِ عام پر لاتا ہے۔ تمام مشائخ کرام کے مقامات پر اِلَّا مَا شَآءَ اللہُ اس خادم کو عروج حاصل ہوا ہے۔
گلے بردند زیں دهلیزه پست
بداں درگاہِ والا دست بر دست
ترجمہ:
نیچی چوکھٹ کی مٹی ہاتھوں ہاتھ
ان کے صدقے میں پا گئی معراج
اس ضمن میں اگر مشائخ کرام کی روحانیت کے توسط (واسطہ ہونے) کو شمار کرنے لگوں تو بات لمبی ہو جائے، غرض کہ تمام اصل مقامات سے ظلّی مقامات کی مانند گزر کرایا گیا، اللہ تعالیٰ کی عنایتوں کو کہاں تک بیان کروں، قُبِلَ مَنْ قُبِلَ بِلَا عِلَّۃٍ (جو شخص بھی مقبول ہوا وہ بلا سبب و علت کے محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مقبول ہوا ہے) ولایت کے حقائق و کمالات اس قدر ظاہر کئے گئے کہ یہ خادم کہاں تک تحریر کر ے۔

ماہِ ذی الحجہ میں نزول کے درجات میں مقامِ قلب تک نیچے لے آئے، اور یہ مقام تکمیل و ارشاد (دوسروں کی ہدایت و تربیت) کا مقام ہے لیکن ابھی اس مقام کو تمام و کمال تک پہنچانے والی چیزوں کی ضرورت ہے، (معلوم نہیں )کب تک میسر ہوتی ہیں، یہ کام آسان نہیں ہے، مراد (محبوبیت والا) ہونے کے با وجود اس قدر منزلیں طے کرنی پڑتی ہیں کہ مریدوں کو حضرت نوح (علیہ السلام) جتنی عمر میں بھی (ان کا طے ہونا) معلوم نہیں کہ میسر ہو سکے، بلکہ یہ حقائق و کمالات مراد مندوں (محبوبوں) ہی کے ساتھ مخصوص ہیں مریدوں کے لئے یہاں قدم رکھنے کی جگہ نہیں ہے۔ افراد کے عروج کی انتہا مقامِ اصل کی ابتدا تک ہے اس سے آگے اکثر افراد کا بھی گذر نہیں ہے۔ ﴿ذَالِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعۃ: 4) ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔ تکمیل و ارشاد کے مرتبوں میں توقف (تاخیر) کی وجہ؂2 یہی ہے اور نورانیت کا نہ ہونا ظلمتِ غیب کا نور ظاہر ہونے کی وجہ سے ہے اس کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں ہے۔ لوگ اپنے خیالات میں بہت سی باتیں بناتے ہیں، ان کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔

در نیابد حال پختہ، ہیچ خام

پس سخن کوتاہ باید والسلام

ترجمہ:

کب سمجھ سکتا ہے ناقص کاملوں کے حال کو

لہٰذا بات کو مختصر کرنا چاہیے، والسلام


اس قسم کی ظنی باتیں سوچنے میں نقصان کا احتمال غالب ہے، ان لوگوں کو فرما دیجئے کہ اس خستہ دل (مراد حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ) کے حالات سے اپنی خیالی نظر کو بند کر لیں (یعنی ان خیالی باتوں سے باز رہیں) نظر کی جولان گاہ کے لئے اور بہت سے مواقع ہیں؂

من گم شده ام مرا مجویید

با گم شدگان سخن مگویید

ترجمہ:

میں ہوں گم مجھ کو نہ ڈھونڈو دوستو!

گم شدہ لوگوں سے باتیں مت کرو


اللہ تعالیٰ جل سلطانہٗ کی غیرت سے ڈرنا چاہئے، حق تعالیٰ جس امر کو کامل کرنا چاہتا ہے اس میں نقص نکالنے اور عیب لگانے میں گفتگو کرنا بہت ہی نا مناسب ہے، اصل میں یہ حق تعالیٰ کے ساتھ مقابلہ اور جھگڑا کرنا ہے۔ مقامِ قلب میں نزول کرنا (جس کا ذکر قریب میں ہی گزر چکا ہے) حقیقت میں مقامِ فرق ہے جو کہ ارشاد کا مقام ہے اور اس مقام میں مقامِ فرق سے مراد یہ ہے کہ روح کے نور میں نفس کے داخل ہونے کے بعد نفس روح سے اور روح نفس سے جدا ہو جائے اور اس کو مقامِ جمع کہتے ہیں۔ جمع و فرق کے متعلق اس بیان سے زیادہ جو کچھ سمجھا جاتا ہے وہ سکر کی وجہ سے ہے۔ حق (اللہ تعالیٰ) کو خلق (مخلوق) سے جدا دیکھنا جس کو اہل سکر مقام فرق خیال کرتے ہیں اس کی کچھ حقیقت نہیں ہے، وہ اسی روح؂3 کو ذات حق جانتے ہیں اور اس (روح) کو نفس سے جدا دیکھنا حق تعالیٰ و تقدّس کو مخلوق سے جدا دیکھنا جانتے ہیں اور صاحبِ سکر کے اکثر علوم میں اسی طرح کا قیاس کر سکتے ہیں اس لئے کہ معاملہ کی حقیقت وہاں موجود نہیں ہے اور اصل حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔

کسی دوسرے رسالے (عریضہ) میں اہل جذبہ و سلوک کے علوم اور ان دونوں امور (جذبہ و سلوک) کی حقیقت تفصیل کے ساتھ لکھی گئی ہے وہ رسالہ بھی آپ کی نظرِ مبارک سے گزرے گا۔


؂1 اس رسالے کی یقینی طور پر نشاندہی تو مشکل ہے لیکن بعض اعتبار سے دفتر اول مکتوب 266 پر اس، رسالے کا گمان ہوتا ہے، واللہ اعلم۔

؂2 یعنی ابھی اس مقام کو تمام و کمال تک پہنچانے والی چیزیں درکار ہیں۔

؂3 کبھی احساس ہوتا ہے کہ سالک کی نظر عالم ارواح پر پڑتی ہے اور اس عالم کو مرتبہ وجوب کے ساتھ ساتھ مناسبت ہونے کی وجہ سے اگرچہ وہ مناسبت صورتًا ہوتی ہے، حق (خدا) سمجھنے لگتا ہے اور (عالمِ ارواح) کے شہود کو شہودِ حق جل سلطانہٗ تصور کرتا ہے اور اس کے ساتھ محظوظ و لطف اندوز ہوتا ہے۔ اگر اس کو اس مرتبے سے گزار کر آگے نہ لے جائیں اور باطل سے حق تک نہ پہنچائیں تو اس کے لئے حسرت و افسوس ہے۔ بعض مشائخ اس مقام میں تیس سال تک روح کو خدا سمجھ کر پرستش کرتے رہے اور جب اس مقام سے آگے بڑھایا گیا تب انہوں نے اس کی برائی کو جانا۔ (معارف لدنیہ باختصار)