مکتوب نمبر 8
ان احوال کے بیان میں جو بقا اور صحو سے تعلق رکھتے ہیں، یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔
عریضہ:
کم ترین خادم احمد عرض کرتا ہے کہ جب سے اس خاکسار کو صحو میں لائے ہیں اور بقا عطا فرمائی ہے عجیب و غریب علوم و معارف جو پہلے معلوم و متعارف نہیں تھے، پے درپے و مسلسل فائض و وارد ہو رہے ہیں۔ ان میں سے اکثر قوم یعنی صوفیائے کرام کے قول اور ان کی مروجہ و مستعمل اصطلاح کے ساتھ موافقت نہیں رکھتے۔ مسئلہ وحدت الوجود اور اس کے متعلقات کی نسبت جو کچھ ان حضرات نے بیان کیا ہے اس خاکسار کو اس حال سے ابتدا میں ہی مشرف کر دیا گیا اور کثرت سے وحدت کا مشاہدہ حاصل ہوا۔ پھر اس مقام سے کئی درجے اوپر لے گئے اور اس ضمن میں کئی قسم کے علوم کا افادہ نصیب ہوا، لیکن ان مقامات و معارف کے مصداق کوئی بات قوم (صوفیائے کرام) کے کلام میں واضح طور پر پائی نہیں جاتی۔ البتہ ان میں سے بعض بزرگوں کے مبارک کلام میں اجمالی طور پر رموز و اشارے پائے جاتے ہیں لیکن ان علوم کی صحت پر ظاہر شریعت کی موافقت اور علمائے اہل سنت کا اجماع شاہد عادل ہے، وہ کسی چیز میں بھی روشن شریعت کے ظاہر سے مخالفت نہیں رکھتے اور حکما اور ان کے عقلی اصولوں کے ساتھ کچھ بھی موافقت نہیں رکھتے بلکہ علمائے اسلام کی ایک جماعت جو اہل سنت سے مخالفت رکھتے ہیں وہ بھی ان (حکما) کے اصول سے موافق نہیں ہیں۔
استطاعت مع الفعل1 کا مسئلہ منکشف ہو گیا ہے، انسان فعل سے پہلے کچھ قدرت نہیں رکھتا، جب فعل سرزد ہوتا ہے اس کے ساتھ متصل ہی قدرت بخشتے ہیں اور اسباب و اعضاء کے صحیح سالم ہونے کی صورت میں مکلف بناتے ہیں جیسا کہ علمائے اہل سنت و جماعت نے ثابت کیا ہے، اور اس مقام میں یہ خاکسار اپنے آپ کو حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالی سرہٗ کے قدم پر پاتا ہے۔ آپ اسی مقام پر ہوتے ہیں اور حضرت خواجہ علاؤ الدین عطار قدس اللہ سرہٗ کو بھی اس مقام سے کچھ حصہ حاصل ہے، اور اس سلسلہ عالیہ کے بزرگوں میں سے حضرت خواجہ عبدالخالق غجدوانی قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ الاقدس ہیں۔ جو مشائخ ان سے پہلے گزرے ہیں ان میں سے حضرت خواجہ معروف کرخی، امام داؤد2 طائی، حضرت خواجہ حسن بصری3 اور خواجہ حبیب4 عجمی قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم المقدسۃ اسی مقام میں تھے۔ ان تمام مقامات و معارف و علوم کا حاصل کمالِ بُعد (دوری) و بیگانگی ہے اور کام علاج سے گزر چکا ہے۔ جب تک حجابات (پردے) لٹکے ہوئے تھے کوشش و اہتمام کے ذریعے ان کے رفع کرنے (اٹھانے) کی گنجائش تھی اب اسکی بزرگی (جلال) اس کا حجاب ہے۔
فَلَا طَبِیْبَ لَھَا وَ لَا رَاقِیَ
ترجمہ:
نہیں طبیب کوئی اس کا اور نہ افسوں گر
شاید انہوں نے اس کمال بیگانگی اور بے مناسبتی کا وصل و اتصال نام رکھا ہے۔ ہائے افسوس، ہائے افسوس، (مولانا جامی رحمہ اللہ کی کتاب) یوسف زلیخا کا یہ شعر (ان کے) حال کے موافق ہے:
در افگندہ دف ایں آوازہ از دوست
کز و بر دست دف کوہاں بود پوست
ترجمہ:
آ رہی ہے دف سے وہ آوازِ دوست
ہے مگر دف والے کے ہاتھوں میں پوست
شہود (مشاہدہ) کہاں ہے اور شاہد (مشاہدہ کرنے والا) کون ہے اور مشہود (جس کا مشاہدہ کیا جائے) کیا ہے۔ ع
خلق را روئے کے نماید او
ترجمہ:
خلق کو دیدار کب بخشیں گے وہ5
"مَا لِلتُّرَابِ وَ رَبِّ الْأَرْبَابِ" ”خاک کو تمام پالنے والوں کے پالنے والے کے ساتھ کیا نسبت ہے، کہاں خاک اور کہاں وہ رب الارباب“۔ یہ خاکسار اپنے آپ کو ایسا بندۂ مخلوق جانتا ہے جو کوئی قدرت نہیں رکھتا، اور اسی طرح تمام عالم کو بھی غیر قادر مخلوق جانتا ہے اور خالق و قادر حق تعالیٰ عز و جل کو جانتا ہے، اس کے سوا (اللہ تعالیٰ اور مخلوق میں) کوئی نسبت ثابت نہیں کرتا، اپنے عین یا آئینہ ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ع
در کدام آئینہ در آید او
ترجمہ:
کون سے آئینے میں سما سکتا ہے وہ
اہلِ سنت و جماعت کے علمائے ظاہر سے اگرچہ بعض اعمال کی ادائیگی میں کوتاہی واقع ہو جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق ان کے عقائد کی درستی کا جمال اس قدر نورانیت رکھتا ہے کہ اعمال کی وہ کوتاہی و کمی اس نورانیت کے مقابلہ میں ہیچ و نا چیز دکھائی دیتی ہے۔ بعض ظاہری صوفیانہ طرز کے لوگ چونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے متعلق اس قدر درست عقیدے نہیں رکھتے لہذا ریاضتوں اور مجاہدوں کے با وجود ان میں وہ جمال نہیں پایا جاتا۔
اس خاکسار کو علما اور طلبا سے بہت محبت ہو گئی ہے، ان کی روش اچھی معلوم ہوتی ہے اور خواہش رکھتا ہوں کہ میں ان (علما و طلبا) کے گروہ میں شامل ہو جاؤں اور (اصول فقہ کی مشہور کتاب) "تلویح"6 کے مقدماتِ اربعہ کو (جو کہ اس کتاب کا دقیق و مشکل مقام ہے) ایک طالب علم کے ساتھ مباحثہ (تکرار) کرتا رہوں (نیز) فقہ کی کتاب ہدایہ کا بھی ذکر و تکرار کیا جاتا رہے اور معیت و احاطۂ علمی کے مسئلہ میں علما کے ساتھ شریک رہے۔
اسی طرح حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو نہ عالم (کائنات) کا عین جانتا ہوں، نہ عالم کے متصل نہ منفصل، نہ عالم کے ساتھ نہ عالم سے جدا، نہ عالم کا محیط اور نہ عالم میں ساری (سرایت کرنے والا) جانتا ہوں۔ (مخلوق کی) ذاتوں اور صفات و افعال کو اس کا پیدا کیا ہوا جانتا ہوں۔ میرا یہ عقیدہ نہیں ہے کہ مخلوق کی صفتیں حق تعالیٰ کی صفتیں ہیں اور ان کے افعال حق تعالیٰ کے افعال ہیں، بلکہ مخلوق کے افعال میں حق تعالیٰ سبحانہٗ کی قدرت کو اثر انداز جانتا ہوں اور مخلوقات کی قدرت کو تاثیر میں کوئی دخل نہیں جانتا، جیسا کہ علمائے متکلمین7 کا مذہب ہے۔ اسی طرح حق تعالی کی صفات سبعہ8 (1: حیوۃ، 2: علم، 3: قدرت، 4: ارادہ، 5: سمع، 6: بصر، 7:کلام) کو موجود9 جانتا ہوں اور حق سبحانہ و تعالیٰ کو صاحبِ ارادہ10 و اختیار جانتا ہوں اور یقینی طور پر قدرت کے معنی صحتِ فعل و ترکِ فعل11 تصور کرتا ہوں۔ (میرے عقیدے کے مطابق) قدرت کے یہ معنی نہیں ہیں کہ "إِنْ شَاءَ فَعَلَ وَ إِنْ لَّمْ یَشَأْ لَمْ یَفْعَلْ" ”اگر چاہے تو کرے گا اور اگر نہیں چاہے تو نہ کرے گا“۔ اس لئے کہ دوسرا جملہ شرطیہ (إن لم یشاء۔۔۔ الخ) ممتنع ہوگا جیسا کہ حکما یعنی فلاسفہ اور بعض (وجودی) صوفیوں نے کہا ہے کیونکہ یہ بات ایجاب تک پہنچ جاتی ہے جو حکما (فلاسفہ) کے اصول کے موافق ہے۔ میں قضا و قدر کے مسئلہ کو علمائے اہل سنت و جماعت کے مطابق جانتا ہوں (بر خلاف جبریہ و قدریہ کے)۔ پس مالک کو کامل اختیار ہے کہ اپنی مِلک میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور (مخلوق کی) قابلیت اور استعداد کا اس میں کچھ دخل نہیں جانتا کیونکہ یہ عقیدہ ایجاب (اللہ تعالیٰ پر واجب ہونے) کی طرف لے جاتا ہے، حالانکہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ مختار ہے، جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ علی ھذا القیاس (اسی پر دوسرے عقائد کو بھی قیاس کر لیجئے)۔ چونکہ اپنے حالات کا عرض کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس لئے لکھنے کی گستاخی کی جرأت کی ہے۔ ع
بندہ باید کہ حد خود داند
ترجمہ:
چاہیے بندہ اپنی حد میں رہے
1 استطاعت مع الفعل: یہ علمائے اہلِ سنت اور معتزلہ کے درمیان ایک اختلافی مسئلے کی طرف اشارہ ہے۔ معتزلہ کا عقیدہ ہے کہ مکلّف (انسان) میں ہر فعل کی استطاعت اس فعل کی ایجاد سے پہلے موجود ہے اور اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ ہر فعل کی استطاعت اس کی ایجاد کے ساتھ متصل ہی ہوتی ہے۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کا کشف اہل سنت کے موافق ہے اور اس کی تائید و تقویت کرتا ہے۔ جاننا چاہیے کہ استطاعتِ فعل بمعنی قدرتِ حقیقیہ جو کہ اکتسابِ فعل کا سبب و علّت ہے، فرقۂ ناجیہ اہلِ سنت کے نزدیک فعل کے ساتھ متصل ہے، فعل پر تقدمِ زمانی نہیں رکھتی جیسا کہ معتزلہ کہتے ہیں اور احکامِ شرعیہ کی تکلیف کے صحیح ہونے کا دار و مدار اس قدرت پر نہیں ہے لیکن قدرت و استطاعت بمعنی سلامتی اسباب و آلات و جوارح کو فعل پر تقدمِ زمانی حاصل ہے، اور احکامِ شرعیہ کا مکلف ہونا اسی پر مرتب ہے اور تکلیفاتِ شرعیہ کی صحت کا دار و مدار اسی پر ہے نہ کہ پہلی استطاعت پر۔ و اللہ أعلم۔
2 حضرت خواجہ داؤد طائی رحمۃ اللہ علیہ اکابر صوفیائے کرام میں سے تھے اور سید القوم تھے۔ آپ کی پرہیز گاری (ورع) کمال درجے کا تھا، تمام علوم پر پوری دسترس رکھتے تھے اور فقہ میں خصوصی امتیاز رکھتے تھے۔ بیس سال تک امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی شاگردی کی ہے اور حضرت فضیل و حضرت ابراہیم ادہم قدس سرہما کی بھی زیارت کی ہے۔ آپ کے پیرِ طریقت حضرت حبیب راعی رحمۃ اللہ علیہ تھے۔ لوگوں نے آپ کی والدہ ماجدہ سے آپ کی وفات کا حال دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ تمام رات نماز ادا کرتا تھا اور آخری رات میں سر سجدے میں رکھا اور پھر نہیں اٹھایا۔
3 آپ کے محامد بے شمار ہیں، آپ کی والدہ ماجدہ حضرت ام سلمہ کی موالی (لونڈی) تھیں۔ بچپن میں جب آپ کی والدہ صاحبہ کسی کام میں مشغول ہوتیں تو آپ رونے لگتے تو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا آپ کو بہلانے کے لیے اپنا پستان مبارک آپ کے منہ میں دے دیا کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ قدرتِ الٰہی سے حضرت ام المومنین کے پستان سے دودھ کے چند قطرے ظاہر ہوئے جو آپ نے چوس لیے جن کی برکت سے حق تعالیٰ نے آپ کو بے شمار سعادتوں سے نوازا۔ آپ کی ولادت سنہ 22ھ میں اور وفات شبِ جمعہ 4 محرم سنہ 110ھ کو بصرہ میں ہوئی۔
4 آپ ابتدا میں مال دار آدمی تھے، حضرت خواجہ حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر توبہ کی اور آپ کی صحبت کی برکت سے مستجاب الدعوات بزرگ ہو گئے۔ آپ کے مناقب مشہور ہیں اور فضائل کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ آپ کے سامنے جب قرآن مجید پڑھا جاتا تو آپ بہت روتے، کسی نے پوچھا کہ آپ سمجھتے نہیں تو روتے کیوں ہیں؟ فرمایا کہ اگرچہ میری زبان عجمی ہے مگر دل عربی ہو گیا ہے۔ سنہ 156ھ میں بصرہ میں وفات ہوئی۔ (انوارِ اصفیا)
5 مولانائے روم رحمۃ اللہ علیہ کا ایک شعر ہے:
خشک تار و خشک چوب و خشک پوست
از کجا می آید ایں آوازِ دوست
6 تلویح اصولِ فقہ کی ایک بہت بڑی اور معتبر کتاب ہے جو علامہ تفتازانی رحمہ اللہ کی نفیس تصنیفات میں سے ہے۔
7 علمائے متکلمین کا یہی مذہب ہے کہ بندوں کے افعالِ اختیاریہ میں حق تعالیٰ کی قدرت کو مؤثر جانتے ہیں، اور جمہور معتزلہ صرف بندے کی قدرت کو مؤثر جانتے ہیں اور بعض کا مذہب یہ ہے کہ دونوں قدرتیں مؤثر ہیں۔
8 اشاعرہ کے نزدیک حق تعالیٰ کی صفاتِ حقیقیہ ذاتیہ ازلیہ سات ہیں: حیوٰۃ، علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر اور کلام۔ وہ خلق و تکوین کو ارادہ و قدرت کی فروعات جانتے ہیں۔ لیکن علمائے ماتریدیہ تکوین کو بھی صفات حقیقیہ میں شمار کرتے ہیں۔ پس علمائے ماتریدیہ کے نزدیک صفاتِ حقیقیہ آٹھ ہیں۔ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کی تحقیق بھی ماتریدیہ کے موافق ہے چنانچہ مبدأ و معاد (منہا نمبر 41) میں فرماتے ہیں: "صحیح یہی ہے کہ قدرت و ارادے کے علاوہ تکوین ایک علیحدہ حقیقی صفت ہے۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ "قدرت" کے معنی یہ ہیں کہ اس میں فعل و ترک یعنی کسی کام کا کرنا اور اسے چھوڑ دینا دونوں باتیں صحیح ہوں، اور "ارادہ" کے معنی یہ ہیں کہ قدرت کی ان دونوں جہتوں یعنی فعل اور ترک میں سے کسی ایک جہت کو مخصوص اور متعین کر لیا جائے لہذا اس طرح قدرت کا درجہ ارادے کے درجے پر مقدم ہوتا ہے اور "تکوین" جسے ہم صفاتِ حقیقیہ میں سے سمجھتے ہیں، اس کا درجہ قدرت اور ارادہ کے درجوں کے بعد آتا ہے۔ بس قدرت تو فعل (کرنے) کی جہت کو درست قرار دینے والی صفت (یعنی مصححِ فعل) ہے اور ارادہ فعل کی جہت کو خاص کرنے والی صفت (مخصِّصِ فعل) ہے اور تکوین اسے وجود میں لانے والی (موجدِ فعل) ہے۔ لہذا تکوین کی صفت کو مانے بغیر چارہ نہیں ہے۔ (ص نمبر: 90)
9 بخلاف معتزلہ کے کہ وہ حقیقت میں وجودِ صفات کے منکر ہیں کیونکہ وہ آثارِ صفات کو عینِ ذات پر مرتب کہتے ہیں۔
10 بخلاف فلاسفہ کے کیونکہ وہ حق سبحانہٗ کو مضطر اور بے اختیار جانتے ہیں جس طرح کہ آگ اور پانی کو جلانے اور غرق کرنے میں بے اختیار جانتے ہیں۔
11 اس میں اہل کلام اور فلاسفہ کے ما بین مختلف فیہ مسئلے کی طرف اشارہ ہے یعنی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی قدرت دو معنی کا احتمال رکھتی ہے، ایک ایجاد اور عدمِ ایجاد۔ یہ دونوں باتیں ممکن اور جائز ہیں اور اس معنی کے لحاظ سے قدرت کو صحتِ فعل اور ترکِ فعل سے تعبیر کرتے ہیں اور اس تقدیر پر اشیاء کی ایجاد اور ان کی عدمِ ایجاد میں سے کوئی چیز حق تعالیٰ پر واجب نہیں ہے۔ اہلِ ملل و شرائع نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ دوسرے معنی ہیں: "إِنْ شَاءَ فَعَلَ وَ إِنْ لَّمْ یَشَأْ لَمْ یَفْعَلْ" مع استحالۂ شرطیہ ثانیہ کے، یعنی وہ چاہے گا تو کرے گا اور اگر نہیں چاہے گا تو نہیں کرے گا لیکن یہ چاہنا ممتنع و محال ہے، پس اس سے نہ کرنے کا ممتنع ہونا بھی لازم آئے گا۔ پس ایجاد ِ عالم کو چاہنا اور موجود کرنا دونوں واجب ہوئے اور اختیار نہ رہا۔ فلاسفہ اس کے قائل ہیں۔