مکتوب نمبر 7
اپنے بعض عجیب و غریب حالات اور بعض ضروری استفسارات کے بیان میں، یہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔
عریضہ:
حضور کا کم ترین خادم احمد عرض کرتا ہے کہ جو مقام محدّد (عرش) کے اوپر ہے، اپنی روح کو عروج کے طریق پر اس مقام میں پاتا تھا اور وہ مقام حضرت خواجۂ بزرگ (یعنی حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ) کے ساتھ مخصوص تھا، کچھ زمانہ گزرنے کے بعد اپنے عنصری بدن کو بھی اسی مقام میں پایا اور اس وقت یہ بات خیال میں آئی کہ یہ عالم سارے کا سارا عنصریات و فلکیات سے نیچے چلا گیا ہے اور اس کا نام و نشان باقی نہیں رہا۔ چونکہ اس مقام میں بعض اولیائے کبار کے سوا اور کوئی نہیں تھا، اس وقت تمام عالم کو اپنے ساتھ ایک ہی جگہ اور ایک ہی مقام میں شریک پا کر بہت حیرت حاصل ہوتی ہے کہ پوری پوری بیگانگی کے با وجود اپنے آپ کو اُن کے ساتھ دیکھتا ہے۔ غرضیکہ وہ حالت جو کبھی کبھی حاصل ہوتی تھی جس میں کہ نہ خود رہتا تھا اور نہ عالم، نہ نظر میں کوئی چیز آتی تھی نہ علم میں، اب وہ حالت دائمی ہو گئی ہے۔ خلقتِ عالم کا وجود دیدہ و دانش (دیکھنے و جاننے) سے باہر نکل گیا ہے۔
اس کے بعد اسی مقام میں ایک بلند محل ظاہر ہوا کہ جس کے ساتھ سیڑھی رکھی ہوئی ہے، میں وہاں پہنچ گیا، وہ محل بھی اس عالم کی طرح آہستہ آہستہ (درجہ بدرجہ) نیچے چلا گیا اور میں ہر گھڑی (لمحہ بہ لمحہ) اپنے آپ کو اس کے اوپر چڑھتا ہوا محسوس کرتا تھا۔ اتفاقًا (یعنی ایک دفعہ جب کہ) میں وضو کے شکرانے کی نماز (تحیۃ الوضو) ادا کر رہا تھا کہ ایک بہت ہی بلند مقام ظاہر ہوا اور مشائخ نقشبندیہ قدس اللہ اسرارہم میں سے چار1 بزرگ مشائخ کو اس مقام میں دیکھا اور دوسرے مشائخ مثلًا سید الطائفہ2 وغیرہ کو بھی اس مقام میں پایا۔ بعض دوسرے مشائخ اس مقام کے اوپر ہیں لیکن اس کے پایوں کو پکڑے ہوئے بیٹھے ہیں اور بعض اپنے اپنے درجے کے مطابق اس مقام کے نیچے تھے۔ میں نے اپنے آپ کو اس مقام سے بہت دور پایا بلکہ اس مقام کے ساتھ کچھ مناسبت بھی نہیں دیکھی۔ اس واقعہ سے میں نہایت بے چین و بے قرار ہو گیا، قریب تھا کہ دیوانہ ہو کر نکل جاؤں اور غم و غصہ کے باعث اپنے جسم کو جان سے خالی کر دوں (یعنی مر جاؤں) کچھ وقت اسی حالت پر گزرا، آخر آنجناب کی بلند توجہات سے اپنے آپ کو اس مقام کے مناسب دیکھا، اول اپنے سر کو اس کے بالمقابل پایا، پھر آہستہ آہستہ جا کر اس مقام کے اوپر بیٹھ گیا۔ توجہ (غور کرنے) کے بعد دل میں ایسا گزرا کہ وہ مقام، تکمیل کا مقام ہے کہ سالکین سلوک مکمل کرنے کے بعد اس مقام پر پہنچتے ہیں، جس مجذوب نے سلوک مکمل نہ کیا ہو اس کو اس مقام سے کوئی حصہ حاصل نہیں ہے۔ اس وقت ایسا خیال بھی پیدا ہوا کہ اس مقام پر پہنچنا اُس واقعے کا ثمرہ و نتیجہ ہے جو آنجناب کی خدمت مبارک میں رہتے ہوئے دیکھا تھا اور حضور کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ حضرت امیر (علی بن ابی طالب) کرم اللہ تعالیٰ وجہہ فرماتے ہیں کہ میں اس لیے آیا ہوں کہ تجھ کو آسمانوں کا علم سکھاؤں الخ۔ جب میں نے اچھی طرح توجہ کی تو اس مقام کو تمام خلفائے راشدین رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے درمیان حضرت امیر کرم اللہ وجہہ کے ساتھ مخصوص پایا۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ (اور اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے)۔
دوسرے یہ کہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ برے اخلاق و عادات لمحہ بہ لمحہ (ہر گھڑی) نکلتے جاتے ہیں، بعض دھاگے کی طرح وجود سے نکلتے ہیں اور کبھی دھوئیں کی طرح باہر نکلتے ہیں۔ بعض اوقات یہ خیال ہوتا ہے کہ سب نکل گئے ہیں، پھر کسی وقت کچھ اور ظاہر ہوتا ہے اور باہر نکلتا معلوم ہوتا ہے۔
دوسری عرض یہ ہے کہ کیا بعض امراض اور سختیوں کے دفع کرنے کے لیے توجہ کرنے سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ اس توجہ کے دینے میں حق تعالیٰ کی رضا مندی ہے یا نہیں، یا یہ توجہ اس بات پر مشروط نہیں ہے۔ رشحات3 کی ظاہری عبارت سے جو کہ خواجہ عبید اللہ احرار قدس اللہ تعالیٰ سرہ الاقدس سے منقول ہے، یہ مفہوم ہوتا ہے کہ توجۂ مذکور اس بات پر مشروط نہیں ہے۔ اس بارے میں مناسب حکم فرمائیں، اس کے با وجود اس طرح توجہ کرنا اچھا نہیں معلوم ہوتا۔
تیسری عرض یہ ہے کہ حضورِ حق کا حصول ثابت ہو جانے کے بعد طالبانِ طریقت کو ذکر سے روکنا اور اس حضور کی نگہداشت4 کے لیے حکم کرنا ضروری ہے یا نہیں؟ اور حضور کا وہ کونسا مرتبہ ہے جس میں ذکر نہیں کرتے؟ لیکن بعض طالب ایسے ہیں جنہوں نے شروع سے آخر تک ذکر کیا ہے اور ذکر سے بالکل نہیں رکے ہیں اور اپنے کام کو انتہا کے نزدیک تک پہنچایا ہے۔ اس معاملہ کی حقیقت کیا ہے؟ جو مناسب ہو ارشاد فرمائیں۔
چوتھی عرض یہ ہے کہ حضرت عبید اللہ احرار قدس سرہٗ اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں: "آخر میں ذکر کا حکم دیا جاتا ہے کیونکہ بعض مقاصد وہ ہیں جو ذکر کے بغیر حاصل نہیں ہوتے"۔ آنجناب سے ان مقاصد کا تعیّن فرمانے کی درخواست ہے۔
پانچویں عرض خدمت اقدس میں یہ ہے کہ بعض طالب طریقہ سیکھنے کی طلب ظاہر کرتے ہیں لیکن لقمے (غذا) میں احتیاط نہیں کر سکتے اور اس بے احتیاطی کے با وجود حضور اور ایک قسم کا استغراق حاصل کر لیتے ہیں اور اگر لقمے (کی احتیاط) کے بارے میں ان کو تاکید کی جائے تو طلب کی سستی کی وجہ سے طریقے کو بالکل ترک کر دیتے ہیں، اس بارے میں کیا حکم ہے؟ بعض دوسرے طالب ایسے بھی ہیں جو محض ارادت (و عقیدت) کے طور پر اس سلسلہ شریفہ سے تعلق پیدا کرنا (یعنی بیعت ہونا) چاہتے ہیں اور ان کا ارادہ ذکر کی تعلیم حاصل کرنے کا نہیں ہے، اس قسم کی بیعت (تعلق پیدا کرنا) بھی جائز ہے یا نہیں؟ اور اگر جائز ہے تو اس کا کیا طریقہ ہے؟ زیادہ گستاخی کرنا نہایت بے ادبی ہے۔
1 علامہ محمد مراد مکی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شاید ان چار سے مراد خواجہ عبد الخالق غجدوانی، خواجہ محمد بہاؤ الدین نقشبند، خواجہ علاؤ الدین عطار اور خواجہ عبید اللہ احرار رحمہم اللہ ہیں۔ اور اُس قلمی نسخے کے حاشیے پر جو کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ کے روضۂ مقدسہ پر ہے، یہ لکھا ہے کہ ان سے مرادحضرت خواجہ نقشبند، خواجہ محمد پارسا، خواجہ علاؤ الدین عطار اور خواجہ عبید اللہ احرار قدس اسرارہم ہیں۔
2 یعنی حضرت خواجہ جنید بغدادی علیہ الرحمۃ، آپ کی کنیت ابو القاسم اور لقب قواریری، زجّاج و خزّاز ہے، قواریری اور زجاج اس لیے لقب ہوا کہ آپ کے والد ماجد آبگینے فروخت کرتے تھے اور خزّاز اس لیے کہتے ہیں کہ آپ خزّ کے کپڑے کا کام کرتے تھے۔ آپ حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کے بھانجے اور خلیفہ تھے۔ سنہ 297ھ میں وصال ہوا۔ آپ کا مولد، وطن اور مدفن بغداد ہے۔
3 رشحات، مولانا فخر الدین علی بن الحسین الواعظ الکاشفی المشتہر بالصفی (المتوفی سنۃ 939ھ) کی تصنیف ہے۔ اس میں حضرات نقشبندیہ قدس اسرارھم کے حالات درج ہیں اور خاص طور پر حضرت ناصر الحق و الدّین خواجہ عبید اللہ احرار قدس سرہٗ کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
4 نگہداشتِ حضور، اس سے مراد دل کو ما سوی اللہ کے خیال سے باز رکھنے کا مراقبہ ہے، اس طرح پر کہ اگر ایک سانس میں سو دفعہ کلمہ طیبہ کہے تو دل کسی اور طرف نہ جائے حتی کہ اسماء و صفات سے بھی غافل ہو جائے اور صرف احدیتِ مجردہ کو اپنے خیال میں رکھے۔ (از ضیاء القلوب حاجی امداد اللہ صاحب قدس سرہٗ)