مکتوب 89
مرزا علی جان1 کی طرف تعزیت کے سلسلہ میں صادر فرمایا۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ شریعتِ مقدسہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے راستے پر استقامت نصیب فرمائے۔ (آیت شریفہ) ﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ﴾ (آل عمران: 185) ترجمہ: ”ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے“۔ کے حکم کے مطابق آدمی کو موت سے بچنا نا ممکن ہے۔ "فَطُوْبٰی لِمَنْ طَالَ عُمُرُہٗ وَ کَثُرَ عَمَلُہٗ"2 ترجمہ: ”پس اس شخص کے لئے خوش خبری ہے جس کی عمر لمبی ہوئی اور اس کے نیک عمل بکثرت ہوئے“۔ یہ موت ہی ہے جس سے اللہ تعالیٰ کے مشتاق لوگوں کو تسلی دیتے ہیں اور ایک دوست کے دوسرے دوست تک پہنچنے کا وسیلہ بناتے ہیں: ﴿مَنْ کَانَ یَرْجُوا لِقَآءَ اللہِ فَإِنَّ أَجَلَ اللّٰہِ لَآتٍ﴾ (العنکبوت: 5) ترجمہ: ”جو شخص اللہ سے جا ملنے کی امید رکھتا ہو، اسے یقین رکھنا چاہیے کہ اللہ کی مقرر کی ہوئی میعاد ضرور آکر رہے گی“۔ ہاں دنیا میں باقی رہنے والوں اور جو دنیا میں (موت کے سبب) نہ وصولِ حق کی دولت حاصل کر سکے اور نہ دنیا کے جھگڑوں سے آزادی حاصل کر سکے ان کا حال خراب و ابتر ہے۔ آپ کے ولی نعمت مرحوم (کا وجود) اس زمانے میں بہت غنیمت تھا، اب آپ پر لازم ہے کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ ادا کریں اور دعا و صدقے سے ہر وقت ان کی مدد کریں۔ "فَإِنَّ الْمَیِّتَ کَالْغَرِیْقِ یَنْتَظِرُ دَعْوَۃً تَلْحَقُہٗ مِنْ أَبٍ أَوْ أُمٍّ أَوْ أَخٍ أَوْ صَدِیْقٍ"2 ”پس بے شک میت ڈوبنے والے کی طرح ہوتی ہے اور اس دعا کی منتظر رہتی ہے جو اسے باپ، یا ماں یا بھائی یا دوست کی طرف سے پہنچتی ہے“۔
اور نیز چاہیے کہ ان کی موت سے اپنی موت کے لئے عبرت حاصل کریں اور اپنے آپ کو کامل طور پر حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی مرضیات کے سپرد کر دیں اور دنیا کی زندگی کو دھوکے اور فریب کے سامان کے علاوہ کچھ نہ سمجھیں۔ اگر دنیا کے عیش و آرام کی ذرا سی بھی قدر و قیمت ہوتی تو کفار بد کردار کو (دنیا کے مال و اسباب میں سے) بال برابر بھی کوئی چیز نہ دی جاتی۔ رَزقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ الْإِعْرَاضَ عَنْ مَّا سِوَی اللہِ سُبْحَانَہٗ وَ الْإِقْبَالَ إِلٰی جَنَابِ قُدْسِہٖ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ عَلَیْھِمْ مِنَ الصَّلوَاتِ أَفْضَلُھَا و مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا وَ السَّلَامُ وَ الْاِکْرَامُ (حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت سید المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم اجمعین کے طفیل ہمیں اپنے ما سوا سے رو گردانی نصیب فرمائے اور اپنی پاک بارگاہ کی طرف متوجہ فرمائے۔ وَ السَّلَامُ وَ الْاِکْرَامُ.
1 مرزا علی جان کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے اور حالات بھی معلوم نہ ہو سکے۔
2 رَوَاهُ الطَّبْرَانِيُّ وَ أَبُوْ نُعَيْمٍ فِي الْحِلْیَۃِ بِلَفْظِ "حَسُنَ" بَدْلَ "کَثُرَ" قَالَ الْعَزِیْزِيُّ: إِسْنَادُہٗ حَسَنٌ۔ مشکوٰۃ شریف میں یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے: عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ: أَنَّ رَجُلًا قَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ! أَيُّ النَّاسِ خَيْرٌ؟ قَالَ: "مَنْ طَالَ عُمُرُهٗ، وَ حَسُنَ عَمَلُهٗ ". قَالَ: فَأَيُّ النَّاسِ شَرٌّ؟ قَالَ: "مَنْ طَالَ عُمُرُهٗ وَ سَاءَ عَمَلُهٗ» ". رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالدَّارِمِيُّ۔
3 اس قول میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو مشکوٰۃ میں بیہقی کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ہے: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: "مَا الْمَيِّتُ فِي الْقَبْرِ إِلَّا كَالْغَرِيقِ الْمُتَغَوِّثِ، يَنْتَظِرُ دَعْوَةً تَلْحَقُهٗ مِنْ أَبٍ، أَوْ أُمٍّ، أَوْ أَخٍ، أَوْ صَدِيقٍ، فَإِذَا لَحِقَتْهُ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنَ الدُّنْيَا وَ مَا فِيهَا، وَ إِنَّ اللّٰهَ تَعَالٰى لَيُدْخِلُ عَلٰى أَهْلِ الْقُبُورِ مِنْ دُعَاءِ أَهْلِ الْأَرْضِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ، وَ إِنَّ هَدِيَّةَ الْأَحْيَاءِ إِلَى الْأَمْوَاتِ الِاسْتِغْفَارُ لَهُمْ"۔