مکتوب 81
لالہ بیگ1 کی طرف صادر فرمایا۔ اسلام کی ترویج پر ترغیب دینے اور اسلام و مسلمانوں کی کمزوری و پستی اور کفار نا ہنجار کے غلبے کے بیان میں۔
زَادَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ حَمِيَّۃَ الْإِسْلَامِ (اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہمارے اور آپ کے اندر اسلامی غیرت و حمیت میں ترقی عطا فرمائے۔ تقریبًا ایک صدی سے اسلام پر اس قسم کی غربت چھا گئی ہے کہ کفار اسلامی شہروں میں کھلّم کھلّا کفر کے احکام ہی جاری کرنے پر راضی نہیں ہوتے بلکہ چاہتے ہیں کہ اسلامی احکام بالکل ہی ختم ہو جائیں اور اسلام و اہلِ اسلام کا کوئی نشان نظر نہ آئے۔ نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی اسلامی شعار کا اظہار کرتا ہے تو قتل کر دیا جاتا ہے۔ ذبیحہ گاؤ جو کہ ہندوستان میں اسلام کا ایک بہت بڑا شعار ہے (ختم ہو چکا ہے) کفار جزیہ دینے پر تو شاید راضی ہو جائیں لیکن گائے کے ذبح کرنے پر ہرگز راضی نہیں ہوں گے۔ (اب چونکہ جہانگیر کی سلطنت کا آغاز ہے) ابتداءِ بادشاہت کے زمانے میں اگر اسلامی عقائد نے رواج پا لیا اور مسلمانوں نے کچھ حیثیت حاصل کر لی تو بہتر ہے ورنہ نعوذ باللہ اگر یہ کام توقف میں جا پڑا تو مسلمانوں پر کام بہت مشکل ہو جائے گا۔ الغیاث الغیاث ثم الغیاث الغیاث (فریاد ہے، فریاد ہے، اور پھر فریاد ہے، فریاد ہے) دیکھئے کون صاحب نصیب اس سعادت کو حاصل کرتا ہے اور کون شاہین (بہادر) اس دولت کو اچک کر لے جاتا ہے۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعۃ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
ثَبَّتَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَلٰی مُتَابَعَۃِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی متابعت پر ثابت قدم رکھے)۔ و السلام۔
1 لالہ بیگ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے، آپ اکبر بادشاہ کے لڑکے سلطان مراد کے بخشی تھے بہار کے گورنر بھی رہے آپ نے صوفیاء کا ایک مبسوط تذکرہ "ثمرات القدس من شجرات الإنس" کے نام سے لکھا ہے۔ (بر حاشیہ مآثر الأمراء، جلد: 2، صفحہ نمبر: 386) سنہ 1016ھ میں بنگالہ میں فوت ہوئے۔ (تجلیاتِ ربانی بحوالہ تاریخ محمدی قلمی)