مکتوب 80
مرزا فتح اللہ حکیم1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ تہتر فرقوں میں سے فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت کا گروہ ہے اور بدعتی فرقوں کی مذمت اور اس کے مناسب بیان میں۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت محمد مصطفٰے علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی شریعت کے راستے پر استقامت نصیب فرمائے۔ مصرع
کار این است غیر ایں ہمہ ہیچ
ترجمہ:
کام اصلی ہے یہی اس کے سوا سب ہیچ ہے
اگرچہ تہتر فرقوں2 میں سے ہر ایک فرقہ شریعت کی اتباع کا دعوٰی کرتا ہے اور اپنی نجات کا یقین رکھتا ہے (جیسا کہ آیت شریفہ) ﴿کُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَیْھِمْ فَرِحُوْنَ﴾ (روم: 32) ترجمہ: ”ہر گروہ اپنے اپنے طریقے پر مگن ہے“۔ ان کے حال کے مطابق ہے، لیکن پیغمبر صادق علیہ من الصلوات أفضلها و من التسلیمات أکملہا نے ان متعدد فرقون میں سے ایک "ناجیہ" (نجات پانے والا) فرقے کی تمیز کے لئے جو دلیل بیان فرمائی ہے وہ یہ ہے: "اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی مَآ أَنَا عَلَیْہِ وَ أَصْحَابِیْ" ترجمہ: ”فرقہ ناجیہ وہ ہے جو اس طریق پر ہو جس پر میں ہوں اور میرے اصحاب ہیں“۔ صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ و التحیۃ کا ذکر (جس طریقے پر میں ہوں) کافی ہونے کے با وجود اس مقام پر اصحاب کرام کا ذکر اسی لئے ہو سکتا ہے تاکہ سب کو معلوم ہو جائے کہ جو میرا طریقہ ہے وہی میرے اصحاب کا طریقہ ہے۔ لہذا نجات کا طریقہ ان حضرات کے اتباع پر موقوف ہے جیسا کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللّٰہَ﴾ (النساء: 80) ترجمہ: ”جو رسول کی اطاعت کرے، اس نے اللہ کی اطاعت کی“۔ پس رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے خلاف کرنا سرا سر اللہ تعالیٰ کی نا فرمانی ہے۔
جن لوگوں نے حق تعالیٰ و تقدس کی اطاعت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کے خلاف تصور کیا ہے حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان کے کفر کی اطلاع دیتا ہے اور ان پر کفر کا حکم لگاتا ہے چنانچہ فرماتا ہے: ﴿یُرِیْدُوْنَ أَنْ یُّفَرِّقُوا بَیْنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ یَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَّ نَکْفُرُ بِبَعْضٍ وَّ یُرِیْدُوْنَ أَنْ یَّتَّخِذُوا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا 0 أُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ حَقًّا﴾ (النساء: 150-151) ترجمہ: ”جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فرق کرنا چاہتے اور کہتے ہیں کہ کچھ (رسولوں) پر تو ہم ایمان لاتے ہیں اور کچھ کا انکار کرتے ہیں، اور (اس طرح) وہ چاہتے ہیں کہ) کفر اور ایمان کے درمیان) ایک بیچ کی راہ نکال لیں۔ ایسے لوگ صحیح معنی میں کافر ہیں“۔
پس مذکورہ بالا صورت سے واضح ہو گیا کہ اصحاب کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کے طریقے کی پیروی کئے بغیر آنسرورِ عالم علیہ الصلوۃ و السلام کے اتباع کا دعوٰی کرنا باطل اور جھوٹ ہے۔ بلکہ حقیقت میں وہ اتباعِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عین نا فرمانی ہے پس اس (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے) مخالفت کے طریقے میں نجات کی کیا گنجائش ہے۔ (حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا ارشاد) ﴿وَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّھُمْ عَلٰی شَيْءٍ أَلَآ إِنَّهُمْ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ﴾ (المجادلۃ: 18) ”اور یہ سمجھیں گے کہ انہیں کوئی سہارا مل گیا ہے۔ یاد رکھو یہ لوگ بالکل جھوٹے ہیں“۔ ان کے حال کے مطابق ہے اور اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ وہ فرقہ جس نے آنسرور علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے اصحاب کرام کی متابعت کو لازمی طور پر اختیار کیا ہے، اہل سنت و جماعت ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو مشکور فرمائے۔ پس یہی لوگ فرقۂ ناجیہ ہیں۔
اور کیونکہ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کرام کو طعن کرنے والے لوگ خود ان (صحابہ کرام رضي الله عنهم أجمعين) کے اتباع سے محروم ہیں جیسا کہ شیعہ اور خارجی اور معتزلہ جو خود نیا پیدا شدہ مذہب رکھتے ہیں۔ ان (معتزلہ) کا سردار واصل بن عطا3، حضرت امام حسن بصری رحمہ اللہ کے شاگردوں میں سے ہے جو ایمان اور کفر4 کے درمیان واسطہ ثابت کرنے کے باعث امام (موصوف) سے جدا ہو گیا اور امام نے اس کے بارے میں فرمایا: اِعْتَزَلَ عَنَّا (ہم سے جدا ہو گیا) باقی تمام فرقوں کو بھی اسی پر قیاس کر لیجئے۔
اور اصحاب کرام رضي الله عنهم أجمعين کے حق میں طعن کرنا فی الحقیقت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم کے حق میں طعن کرنا ہے مَا آمَنَ بِرَسُوْلِ اللّٰہِ مَنْ لَّمْ یُوَقِّرْ أَصْحَابَہٗ (جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کی عزت و تعظیم نہیں کی وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ایمان نہیں رکھتا)۔ اس لئے کہ ان حضرات کے ساتھ خباثت کرنا ان کے صاحب (یعنی پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام) کے ساتھ خباثت کرنا ہے۔ اللہ تعالےٰ ہم کو اس برے اعتقاد سے بچائے۔ نیز جو شرعی احکام قرآن و حدیث کے واسطے سے ہم تک پہنچے ہیں وہ سب انہی (صحابہ کرام رضي الله عنهم أجمعين) کی نقل و روایت کے وسیلے سے ہیں جب وہ (اصحاب کرام) مطعون ہوں گے تو ان کی نقلیں اور روایتیں بھی مطعون ہوں گی۔ اور یہ نقل و روایات ایسی نہیں کہ بعض کے سوا بعض کے ساتھ مخصوص ہوں بلکہ تمام اصحاب کرام عدالت (تقوٰی)، صدق اور (احکام شریعت کی) تبلیغ میں برابر ہیں۔ پس ان میں سے کسی ایک (صحابی) کو بھی طعن و تشنیع کرنے سے دین میں طعن کرنا لازم آتا ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بچائے۔ اگر طعن لگانے والے یہ کہیں کہ ہم اصحاب کرام کی متابعت کرتے ہیں (لیکن) یہ ضروری نہیں کہ ہم سب اصحاب کی متابعت کریں، بلکہ ان کے اجتہادوں کے متضاد اور ان کے مذہبوں کے مختلف ہونے کے باعث ان سب کی متابعت ممکن بھی نہیں ہے۔ تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ بعض اصحاب کی متابعت اس وقت فائدہ مند ہو سکتی ہے جب کہ بعض دوسرے اصحاب کا انکار اس کے ساتھ شامل نہ ہو، کیونکہ مثلًا حضرت امیر (علی بن ابی طالب) نے خلفائے ثلاثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی عزت و تکریم کی ہے اور ان کے مقتدا ہونے کی شان کو جانتے ہوئے ان سے بیعت کی ہے، پس خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا انکار کرنے کے با وجود حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کی متابعت کا دعوی کرنا محض افترا و بہتان ہے بلکہ وہ (خلفائے ثلاثہ کا) انکار در حقیقت حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انکار ہے اور ان کے اقوال و افعال کا صریح رد ہے۔
اور تقیہ5 کے احتمال (شک) کو حضرت اسد اللہ (شیر خدا یعنی حضرت علی) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بیان کرنا بھی عقل کی کمی (بے وقوفی) کی وجہ سے ہے۔ صحیح عقل ہرگز اس بات کو جائز نہیں سمجھتی کہ حضرت اسد اللہ (شیر خدا) کمالِ معرفت و شجاعت کے با وجود خلفائے ثلاثہ کے بغض کو تیس سال تک پوشیدہ رکھیں اور ان کے خلاف کچھ ظاہر نہ کریں اور ان کے ساتھ منافقانہ صحبت رکھیں۔ اس قسم کا نفاق کسی ادنیٰ درجے کے مسلمان سے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس فعل کی برائی کو معلوم کر لینا چاہیے کہ حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف کسی قسم کی برائی اور کس طرح کا فریب و نفاق منسوب ہو جاتا ہے۔ اور اگر بفرضِ محال حضرت اسد اللہ کے حق میں تقیہ جائز بھی ہو تو حضرت پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و سلم خلفائے ثلاثہ کی جو عزت و تعظیم کرتے تھے اور ابتدا سے انتہا تک ان کو بزرگ جانتے رہے ہیں، یہ لوگ اس کا کیا جواب دیں گے وہاں تقیہ کی گنجائش نہیں ہے، حق بات کی تبلیغ پیغبر پر واجب ہے، تقیہ کو وہاں داخل کرنا (الحاد و کفر) تک پہنچا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یَآ أَیُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ مِنْ رَّبِّکَ وَ إِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ﴾ (المائدہ: 67) ترجمہ: ”اے رسول ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو ( اس کا مطلب یہ ہو گا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں ( کی سازشوں) سے بچائے گا“۔ کفار کہا کرتے تھے کہ "محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) اس وحی کو جو اس کے موافق ہوتی ہے ظاہر کر دیتا ہے اور جو وحی اس کے خلاف ہوتی ہے اس کا اظہار نہیں کرتا (بلکہ) اس کو چھپا لیتا ہے"۔ اور یہ بات ثابت ہے کہ نبی کو خطا پر قائم رکھنا جائز نہیں ہے ورنہ اس کی شریعت میں خلل اور نقص پیدا ہو جاتا ہے پس جب آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے خلفائے ثلاثہ کی تعظیم و توقیر کے خلاف کچھ بھی ظاہر نہیں ہوا تو معلوم ہوا کہ ان (خلفائے ثلاثہ) کی تعظیم و توقیر کرنا خطا سے مامون اور زوال سے محفوظ تھی۔
اب ہم اصل بات کی طرف رخ کرتے ہیں اور ان کے اعتراض کا جواب زیادہ صاف و واضح طریقہ پر دیتے ہیں کہ اصولِ دین میں تمام اصحاب کرام کی متابعت لازم ہے اور وہ (صحابہ) اصول کے اندر آپس میں ہرگز کوئی اختلاف نہیں رکھتے تھے، اگر (کچھ) اختلاف ہے بھی تو وہ صرف فروع میں ہے۔ اور جو شخص ان میں سے بعض (صحابہ) کو طعن کرتا ہے تو وہ سب کی متابعت سے محروم ہے۔ ہر چند ان (اصحاب کرام) کا کلمہ متفق ہے (یعنی اصولِ دین میں سب کے سب ایک ہی ہیں) لیکن بزرگانِ دین کے انکار کی بد بختی (دوسرے لوگوں کو) اختلاف میں ڈال دیتی ہے اور متفق ہونے سے خارج کر دیتی ہے۔ بلکہ قائل کا انکار اس کے کلام کے انکار تک پہنچا دیتا ہے۔ نیز شریعت کے پہنچانے والے سب کے سب اصحاب کرام ہیں جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ لِأَنَّ الصَّحَابَۃَ کُلُّھُمْ عُدُوْلٌ (کیونکہ تمام صحابہ عادل (متقی) ہیں)۔ ہر ایک (صحابی) سے کچھ نہ کچھ شریعت ہم تک پہنچی ہے اور اسی طرح قرآن کریم کو بھی ہر ایک (صحابی) سے ایک آیت یا زیادہ آیتیں لے کر جمع کیا گیا ہے۔ لہذا کسی صحابی کا انکار کرنا اس کی تبلیغ کا (اور اس سے منقول شدہ آیات کا) انکار ہے۔ پس جب اس منکر کے حق میں پوری شریعت کا بجا لانا نا ممکن ہوا تو اس کی نجات اور کامیابی کس طرح ہو سکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿أَ فَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِکَ مِنْکُمْ إِلَّا خِزْیٌ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یُرَدُّوْنَ إِلٰی أَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ (البقرۃ: 85) ترجمہ:”تو کیا تم کتاب (تورات) کے کچھ حصے پر تو ایمان رکھتے ہو اور کچھ کا انکار کرتے ہو ؟ اب بتاؤ کہ جو شخص ایسا کرے اس کی سزا اس کے سوا کیا ہے کہ دنیوی زندگی میں اس کی رسوائی ہو ؟ اور قیامت کے دن ایسے لوگوں کو سخت ترین عذاب کی طرف بھیج دیا جائے گا“۔
اس کے با وجود ہم کہتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے بلکہ فی الحقیقت قرآن کریم کے جمع کرنے والے حضرت صدیق و حضرت فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کا جمع کیا ہوا قرآن اس قرآن کے علاوہ ہو گا۔ پس سوچنا چاہیے کہ ان بزرگوں کا انکار حقیقت میں قرآن کریم کے انکار تک پہنچاتا ہے عِیَاذًا بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اللہ سبحانہٗ کی پناہ)۔
ایک شخص نے اہل شیعہ کے کسی مجتہد سے سوال کیا: "یہ قرآن حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جمع کیا ہوا ہے، آپ کا اس قرآن مجید کے متعلق کیا اعتقاد ہے؟ اس نے جواب دیا میں اس کے انکار میں مصلحت نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے انکار سے تمام دین درہم برہم ہو جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عقل مند آدمی ہرگز کبھی اس کو جائز نہیں سمجھتا کہ آں سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے روز ہی باطل امر پر اجتماع کر لیں، اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رحلت کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تینتیس ہزار اصحاب حاضر تھے اور انھوں نے اپنی رضا و رغبت سے حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ (کے ہاتھ پر) بیعت کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ان سب اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا گمراہی پر جمع ہونا محالات میں سے ہے، حالانکہ آنحضرت علیہ الصلوۃ و التحیۃ نے فرمایا ہے: "لَا تَجْتَمِعُ اُمَّتِی عَلَی الضَّلَالَۃِ"6 ترجمہ: ”میری امت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی“۔
اور جو توقف ابتدا میں حضرت امیر (علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے واقع ہوا ہے وہ اس وجہ سے تھا کہ اس مشورے میں حضرت امیر رضی اللہ عنہ کو نہیں بلایا گیا تھا چنانچہ حضرت امیر رضی اللہ عنہ نے خود فرمایا: "مَا غَضِبْنَا إِلَّا لِتَاَخُّرِنَا عَنِ الْمَشْوَرَۃِ وَ إِنَّا لَنَعْلَمُ أَنَّ اَبَا بَکْرٍ خَیْرًا مِّنَّا"7 ترجمہ: ”ہم اس لئے ناراض ہوئے ہیں کہ ہم کو مشورہ میں نہیں بلایا گیا ورنہ یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ بے شک ابو بکر ہم سے بہتر ہیں“۔ اور ان (حضرت امیر) کو مشورہ میں نہ بلانا بھی کسی مصلحت پر مبنی ہو گا۔ مثلًا اہل بیت نبوی کی تسلی کے لئے اس مصیبت کے اول صدمہ کے وقت میں حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ان کے پاس موجود ہونا وغیرہ ذالک۔ اور وہ اختلافات جو رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے اصحاب کرام کے درمیان واقع ہوئے تھے، وہ نفسانی خواہشات کی وجہ سے نہیں تھے کیونکہ ان کے پاکیزہ نفس تزکیہ حاصل کر چکے تھے اور امارگی (کے درجے سے) (نکل کر) اطمینان (کے درجے) تک پہنچ چکے تھے۔ ان کی تمام خواہشات شریعتِ مقدسہ کے تابع ہو چکی تھیں۔ بلکہ وہ اختلاف اجتہاد اور حق بلند کرنے پر مبنی تھا پس ان میں سے (اجتہادی) خطا کرنے والا8 بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک درجہ رکھتا ہے اور صحیح اجتہاد کرنے والے کو تو دو درجے (دوہرا ثواب) حاصل ہوتے ہیں۔ پس اپنی زبان کو ان کی شان میں گستاخی کرنے سے روکنا چاہیے اور ان سب کو نیکی سے یاد کرنا چاہیے۔
امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: "تِلْکَ دِمَآءٌ طَھَّرَ اللہُ عَنْھَا أَیْدِیْنَا فَلْنُطَھِّرْ عَنْھَا أَلْسِنَتَنَا" ترجمہ: ”یہ وہ خون ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہاتھوں کو پاک رکھا ہے پس ہمیں اپنی زبانوں کو ان سے پاک رکھنا چاہیے“۔ نیز امام شافعی نے فرمایا ہے: "اِضْطَرَّ النَّاسُ بَعْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ فَلَمْ یَجِدُوا تَحْتَ أَدِیْمِ السَّمَاءِ خَیْرًا مِّنْ أَبِيْ بَکْرٍ فَوَلًّوْہُ رِقَابَھُمْ" ترجمہ :”رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم (کی وفات) کے بعد لوگ بے چین ہو گئے، پس انھوں نے آسمان کی چھت کے نیچے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہتر کس کو نہ پایا تو ان کو اپنی گردنوں کا والی بنا لیا (یعنی) ان کو خلیفہ مقرر کر لیا اور ان کی اطاعت کو لازم جانا“۔ یہ قول (حضرت امیر کے) تقیہ کی نفی اور حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت پر حضرت امیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رضا مندی کی صراحت کرتا ہے۔
باقی مقصود یہ ہے کہ میاں سیدَن ولد میاں شیخ ابو الخیر بزرگ خاندان سے ہے، آپ کی معیت میں دکن کے سفر پر بھی گیا تھا آپ کی عنایت و توجہ کا امید وار ہے، نیز مولانا محمد عارف طالب علم اور بزرگ زادہ ہے، اس کا باپ بڑا عالم تھا، مددِ معاش کی غرض سے حاضر ہوا ہے اور آپ کی توجہ کا امید وار ہے، وَ السَّلَامُ وَ الْإِکْرَامُ۔
1 مرزا فتح اللہ حکیم کے نام مکتوبات شریفہ میں تین مکتوب ہیں دفتر اول مکتوب 80، 85 اور 202۔ آپ حکیم مسیح الدین ابو الفتح کے بھائی اور حکیم لطف اللہ کے صاحب زادے تھے۔ بہت قابل اور صاحب حیثیت شخص تھے لیکن آپ نے جہانگیر کے مقابلے میں خسرو (شاہ جہاں) کی حمایت کی اور آصف خان کے چچا زاد بھائی نور الدین سے مل کر یہ طے کر لیا کہ جیسے ہی موقع ملے خسرو کو تخت پر بٹھا دیا جائے لیکن بعد میں جہانگیر کو اس سازش کا علم ہو گیا۔ نور الدین اور اس کے کئی ساتھی قتل کر دئیے گئے حکیم فتح اللہ کی تشہیر کی گئی پھر اندھا کر دیا گیا۔ پھر آپ اپنے وطن شیراز چلے گئے اور وہیں وفات پائی۔ کلام اللہ کی تفسیر بھی لکھی تھی۔ (مآثر الأمراء، جلد: 1، صفحہ نمبر: 558، نزھۃ الخواطر، جلد: 5 صفحہ نمبر: 303، تجلیاتِ ربانی، صفحہ نمبر: 100)
2 اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو ترمذی نے حضرت عبد اللہ ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میری امت پر بھی وہ دور آئے گا جو کہ بنی اسرائیل پر آیا تھا بالکل ویسا ہی آئے گا یہاں تک کہ اگر ان (بنی اسرائیل) میں سے کوئی ایسا ہو جس نے اپنی ماں کے ساتھ اعلانیہ بد کاری کی ہو تو میری امت میں بھی ایسا کوئی ہو گا جو اپنی ماں سے بد کاری کرے گا۔ (نیز) بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی اور ایک فرقے کے علاوہ سب کے سب جہنمی ہوں گے۔ آپ سے کہا گیا کہ وہ ایک فرقہ کونسا ہے یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا کہ وہ ہے جس پر میں ہوں اور اصحاب رضی اللہ عنہم قائم ہیں۔(مشکوٰۃ)
3 واصل بن عطاء سنہ 80 ہجری میں مدینہ میں پیدا ہوا اور سنہ 131ھ میں وفات پائی۔ اس کی تصنیفات میں سے کتاب اصناف المرجئۃ، کتاب التوبۃ اور کتاب معانی القرآن ہیں، یہ اہلِ جمل کی عدالت میں توقف کرتا تھا۔
4 کیونکہ واصل بن عطاء کہتا تھا کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب مؤمن نہیں ہے۔
5 تقیہ کے معنی ڈرنا اور خوف کرنا ہے۔ اہل شیعہ کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلفائے ثلاثہ کے ڈر سے ان کی بیعت کر لی تھی اور دل میں ان کی بیعت کو درست نہیں جانتے تھے۔ بظاہر تمام کاموں میں ان کے ساتھ شامل رہتے اور نعوذ باللہ دل میں ان کو غلط کار و بے دین سمجھتے تھے۔ وہ اس عقیدے کو تقیہ سے تعبیر کرتے اور تمام آئمہ و اہلِ بیت کے حق میں ان کے تقیہ کر لینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ نعوذ باللہ من ھذہ العقائد الشنیعۃ۔(مترجم)
6 امام سخاوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس حدیث کا متن مشہور ہے، اس کی اسناد کثیر ہیں اور اس کے مرفوع ہونے کے شواہد متعدد ہیں۔ مشکوٰۃ و ترمذی وغیرہ میں اختلافِ الفاظ کے ساتھ یہ حدیث مذکور ہے۔
7 مأخوذ عن تاریخ الخلفاء للسیوطی
8 اُس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو اس بارے میں وارد ہوئی ہے، وہ یہ ہے: عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عَمْرٍو وَّ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ: "إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهٗ أَجْرَانِ وَ إِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهٗ أَجْرٌ وَّاحِدٌ"مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ (مشکوٰۃ)