دفتر 1 مکتوب 79: اس بیان میں کہ یہ روشن شریعت تمام گذشتہ شریعتوں کی جامع ہے اور اس شریعت کے مطابق عمل کرنا تمام شریعتوں کے مطابق عمل کرنا ہے اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 79

یہ مکتوب بھی جباری خاں کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ یہ روشن شریعت تمام گذشتہ شریعتوں کی جامع ہے اور اس شریعت کے مطابق عمل کرنا تمام شریعتوں کے مطابق عمل کرنا ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

اللہ تعالیٰ حضرت محمد مصطفٰے علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی شریعت کے راستے پہ ثابت قدمی و استقامت نصیب فرما کر اپنی پاک بارگاہ کی طرف پوری طرح متوجہ کر لے۔ چونکہ ثابت ہو چکا ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے تمام اسمائی و صفاتی کمالات کے جامع ہیں اور ان سب (اسماء و صفات الہیہ) کے اعتدال کے طور پر مظہر ہیں۔ جو کتاب آپ پر نازل ہوئی ہے وہ ان تمام آسمانی کتابوں کا خلاصہ (نچوڑ) ہے جو تمام انبیاء کرام علی نبینا و علیہم الصلوۃ و التسلیمات پر نازل ہوئی ہیں اور نیز وہ شریعت جو آنسرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا فرمائی گئی ہے تمام گذشتہ شریعتوں کا خلاصہ (عمدہ حصہ) ہے اور وہ اعمال جو اس شریعتِ حقہ کے موافق ہیں سب سابقہ شریعتوں کے اعمال میں سے منتخب ہیں، بلکہ ملائکہ کرام صلوات اللہ تعالیٰ و سلامہ علی نبینا و علیہم کے اعمال سے بھی منتخب ہیں کیونکہ بعض فرشتوں کو رکوع کا حکم دیا گیا ہے اور بعض کو سجدہ کا اور بعض کو قیام کا۔ اسی طرح گذشتہ امتوں میں سے بعض کو صبح؂1 کی نماز کا حکم دیا گیا تھا اور دوسری بعض (امتوں) کو دوسرے (وقت کی) نمازوں کا۔ پس اس شریعت میں گذشتہ امتوں اور مقرب فرشتوں کے اعمال کا خلاصہ اور ان کا عمدہ حصہ انتخاب کر کے ان کے بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے لہذا اس شریعت کی تصدیق کرنا اور اس کے مطابق اعمال بجا لانا حقیقت میں تمام شریعتوں کی تصدیق کرنا اور ان شریعتوں کے موافق اعمال بجا لانا ہے۔

پس اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شریعت کی تصدیق کرنے والے خیر الامم (تمام امتوں سے بہتر) ہوئے اور اسی طرح اس شریعت کو جھٹلانا اور اس کے موافق عمل نہ کرنا تمام سابقہ شریعتوں کو جھٹلانا اور ان کے موافق عمل نہ کرنا ہے۔ اسی طرح آنسرور علیہ الصلوۃ و السلام کا انکار کرنا تمام اسمائی و صفاتی کمالات کا انکار کرنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تصدیق کرنا ان سب کی تصدیق کرنا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ آں سرور علیہ الصلوٰۃ و السلام کے منکر اور اس شریعت کو جھٹلانے والے تمام امتوں سے بد تر ہیں۔ آیت: ﴿اَلْأَعْرَابُ أَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا﴾ (التوبہ: 97) ترجمہ: ”جو دیہاتی (منافق) ہیں، وہ کفر اور منافقت میں زیادہ سخت ہیں“۔ میں اسی طرف اشارہ ہے۔

محمد عربی کا بروئے ہر دوسرا ست

کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ او

اردو ترجمہ:

عزت کونین ہیں حضرت محمد مصطفٰے

آپ کا منکر ہوا خوار و ذلیل دوسرا

خدائے منعم کی حمد اور احسان ہے کہ اس شریعت اور صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ کے ساتھ آپ کا حسنِ اعتقاد اور کامل یقین اچھی طرح مشاہدہ ہو چکا ہے اور نا مناسب حرکات و افعال پر ہمیشہ آپ کو ندامت لاحق رہی ہے۔ حق سبحانہ و تعالیٰ اس میں اضافہ عطا فرمائے۔

دیگر التماس یہ ہے کہ حامل رقیمۂ دعا میاں شیخ مصطفٰے قاضی شریح؂2 کی نسل سے ہیں، ان کے بزرگ اس ملک (ہندوستان) میں بڑی عزت کے ساتھ آئے تھے اور ذرائع معاش و وظائف بکثرت رکھتے تھے۔ مشار الیہ معاش کی تنگی کی وجہ سے لشکر کی طرف متوجہ ہوا ہے اور سندات و فرمان نامے اپنے ہمراہ لایا ہے، امید وار ہے کہ آپ کے وسیلے سے جمعیت حاصل کر لے، زیادہ کیا تکلیف دوں۔ مشار الیہ کی سفارش کسی طرح سے صدرِ اعظم کے پاس کر دیں کہ ان کا کام بن جائے اور پریشان حال والوں کی جمعیت کا باعث ہو۔ وَ السَّلَامُ وَ الْإِکْرَامُ۔

؂1 حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں کہ امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبید اللہ بن محمد سے، انہوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت کی کہ جب فجر کے وقت حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تو آپ نے (شکریہ کے طور پر) دو رکعت نماز ادا کی اس طرح نماز فجر کی ابتدا ہوئی۔ ظہر کے وقت جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ذبیحہ مینڈھے کی شکل میں قبول ہوا تو آپ نے ظہر کے وقت چار رکعت (شکریہ کے طور پر) ادا کیں، اس طرح نماز ظہر کی ابتدا ہوئی۔ جب حضرت عزیر علیہ السلام سو سال کے بعد زندہ ہوئے تو ان سے کہا گیا کہ کتنی دیر یہاں رہے؟ آپ نے کہا ایک دن، پھر آپ نے سورج کو دیکھا تو فرمایا ایک دن یا اس سے کم تو آپ نے چار رکعت عصر پڑھیں، اس طرح نماز عصر کی ابتدا ہوئی۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی مغرب کے وقت توبہ قبول ہوئی تو آپ چار رکعت پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے لیکن شدتِ گریا کی وجہ سے تین رکعت پڑھنے کے بعد تھک گئے، اس طرح مغرب کی تین رکعتیں قرار پائیں۔ نماز عشاء سب سے پہلے آنحضرت صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ وسلم نے ادا فرمائی، آپ سے پہلے کسی کے ہاں عشاء کی نماز نہیں تھی۔

؂2 آپ کا نام قاضی شریح بن الحارث بن قیس کوفی نخعی قاضی ابو امیہ محضرم ہے، آپ ثقہ ہیں اور سنہ 80ھ کے لگ بھگ وفات پائی اور ایک سو آٹھ سال یا اس سے زیادہ عمر پائی۔