مکتوب 78
یہ مکتوب بھی جباری خاں کی طرف صادر ہوا۔ سفر در وطن اور سیرِ آفاقی و انفسی کی حقیقت (و معنی) کے بیان میں اور اس بیان میں کہ اس دولت کا حاصل ہونا صاحبِ شریعت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی اتباع سے وابستہ ہے۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ آنحضرت علی مصدرہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی شریعتِ حقہ کے راستے پر استقامت مرحمت فرمائے۔ چند دن ہوئے کہ دہلی اور آگرہ کے سفر سے واپسی واقع ہوئی ہے اور وطن مالوف (پیارے وطن) میں آرام حاصل ہوا ہے۔ "حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِیْمَانِ"1 ترجمہ: ”وطن کی محبت ایمان کے امور میں سے ہے“۔ شامل حال ہے، وطن میں پہنچنے کے بعد اگر سفر ہے تو وطن میں ہے۔
"سفر در وطن"2 مشائخِ خاندان نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے اکابرین کے مقررہ اصولوں میں سے ہے، اس سفر کی چاشنی اس طریق میں ابتدا ہی میں میسر ہو جاتی ہے اور اندراج النہایت فی البدایت (ابتدا میں انتہا کے درج ہونے) کے طریق پر حاصل ہو جاتی ہے۔ (کار کنانِ قضا و قدر) اگر اس گروہ میں سے کسی جماعت کو مجذوب سالک بنانا چاہتے ہیں تو بیرونی (یعنی آفاقی) سیر میں ڈال دیتے ہیں اور اس سیر آفاقی کے تمام (مکمل) ہونے کے بعد سیر انفسی میں کہ جس سے مراد "سفر در وطن" ہے کچھ آرام دیتے ہیں۔ مصرع
ایں کار دولت است کنوں تا کرا رسد
ترجمہ:
بڑی اعلیٰ ہے دولت دیکھئے اب کسی کو ملتی ہے
مصرع:
ھَنِیْئًا لِّاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
ترجمہ:
مبارک نعمتیں جنت کی ہوں ارباب جنت کو
اس نعمتِ عظمٰی تک پہنچنا سید اولین و آخرین علیہ و علی آلہ من الصلوات أفضلها و من التحیات أکملہا کے اتباع سے وابستہ ہے، جب تک اپنے آپ کو پوری طرح شریعت میں گم نہ کریں اور اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے رک جانے کے ساتھ پوری طرح آراستہ نہ ہو جائیں اس دولت و نعمت کی خوشبو جان کے دماغ تک نہیں پہنچ سکتی۔
شریعت کی مخالفت کے با وجود اگرچہ بال برابر ہی ہو، احوال و مواجید حاصل ہو جائیں تو (وہ سب) داخلِ استدراج ہیں آخر کار اس کو رسوا و ذلیل کریں گے۔ محبوب رب العالمین علیہ و علی آلہ من الصلوات افضلہا و من التحیات اکملہا کی اتباع کے بغیر خلاصی (عذاب آخرت سے رہائی) ممکن نہیں ہے چند روزہ زندگی کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے پسندیدہ کاموں میں مشغول رکھنا چاہیے۔ یہ کیا زندگی اور کون سا عیش ہے کہ اس شخص کا مولیٰ (آقا) اس کے فعل سے ناراض ہو۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس کے تمام کلی و جزئی حالات پر مطلع اور حاضر و ناظر ہے، شرم کرنی چاہیے۔
بالفرض اگر لوگ جان لیں کہ کوئی شخص ان کے نا پسندیدہ افعال اور عیبوں سے واقف ہو جائے گا تو (ایسی صورت میں) اس کے سامنے ان سے کوئی نا شائستہ امر واقع نہیں ہوتا اور وہ نہیں چاہتے کہ وہ شخص ان کے عیبوں پر مطلع ہو جائے تو پھر ان پر کیا مصیبت ہوئی کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو حاضر و ناظر جاننے کے با وجود کچھ خوف نہیں کرتے، اور یہ کیسا اسلام ہے کہ حق تعالیٰ کو اس شخص کے برابر بھی نہیں سمجھتے نَعُوْذُ بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ مِنْ شرُوُرِ أَنْفُسِنَا وَ مِنْ سَیِّئَاتِ أَعْمَالِنَا (ہم اپنے نفسوں کی شرارتوں اور اپنے برے اعمال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں)۔
حدیث شریف: "جَدِّدُوْا إِیْمَانَکُمْ بِقَوْلِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ"3 ترجمہ :”اپنے ایمان کو کلمہ لا الہ الا اللہ سے تازہ کرتے رہو“۔ کے مطابق اس عظیم الشان کلمے سے ہر وقت ایمان کو تازہ کرتے رہنا چاہیے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام نا پسندیدہ افعال سے توبہ و رجوع کرنی چاہیے، ممکن ہے کہ پھر دوسرے وقت تک توبہ کا موقع نہ ملے۔ "ھَلَکَ الْمُسَوِّفُوْنَ"4 ترجمہ: ”آج کل کہنے والے یعنی دیر کرنے والے ہلاک ہو گئے“۔ نبی کریم علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی حدیث ہے جس کا مطلب ہے سَوْفُ أَفْعَلُ (آئندہ کر لوں گا) کہنے والے یعنی تاخیر کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ فرصت کو غنیمت جاننا چاہیے اور (اپنے اوقات کو) اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کے کاموں میں صرف کرنا چاہیے۔ توبہ کی توفیق بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی عنایتوں میں سے ہے، ہمیشہ حق تعالیٰ سے اس معنی (یعنی اس توفیق) کے خواہاں رہیں۔ اور جو درویش شریعت میں مضبوط قدم رکھتے ہیں اور عالمِ حقیقت کو اچھی طرح پہچانتے ہیں ان سے دعا طلب کرنی چاہیے اور مدد لینی چاہیے تاکہ حق سبحانہ و تعالیٰ کی عنایت ان کی کھڑکی سے (یعنی ان کے طفیل سے) ظاہر ہو کر اپنی پاک بارگاہ کی طرف پوری طرح جذب کر لے اور مخالفت کی اس میں کوئی گنجائش نہ رہے۔ جب تک شریعت کی مخالفت کا راستہ بال برابر بھی کھلا رہے خطرے کا مقام ہے، مخالفت کے تمام راستوں کو بند کرنا چاہیے۔ بیت
محال است سعدی کہ راہِ صفا
تواں رفت جز در پے مصطفےٰ
ترجمہ:
تجھے حاصل نہ ہو جب تک نبی کی پیروی کرنا
نہیں ممکن کبھی اہلِ صفا کی راہ پر چلنا
آپ صلی اللہ علیہ و سلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی آل پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور سلامتی ہو۔
اہل اللہ پر خصوصًا جب کہ پیری و مرشدی کا نام درمیان میں ہو (یعنی جب کہ وہ پیر و مرشد بھی ہو) اور فائدہ حاصل کرنے کا راستہ کھلا ہوا ہو، اعتراض نہیں کرنا چاہیے اور اس کو زہر قاتل سمجھنا چاہیے۔ اس سے زیادہ لکھنا طول کلامی ہے، یہ چند باتیں محبت و اخلاص کے تعلق کی بنا پر لکھی گئی ہیں، امید ہے کہ ملال کا باعث نہ ہوں گی۔
دوسرے یہ تکلیف دی جاتی ہے کہ ملا عمر اور شاہ حسن شریف زادے اور خاندانی آدمی ہیں اور آپ کی خدمت کے خواہاں ہیں امید ہے کہ اپنے خاص ملازموں میں داخل فرما لیں گے۔ اسمٰعیل بھی اسی ارادہ سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہے اگرچہ پیادہ ہے امید وار ہے کہ اپنی حالت کے مناسب حصہ پا لے گا۔ زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔ وَ السَّلَامُ مَعَ الْکِرَامِ۔
1 مشہور یہ ہے کہ یہ حدیث ہے، امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں اس کے حدیث ہونے سے واقف نہیں ہوں لیکن اس کے معنی صحیح ہیں۔
2 "سفر در وطن" سے مراد سیر انفسی ہے، اس کو جذبہ بھی کہتے ہیں۔ سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے بزرگوں کی ابتدا اسی سیر سے ہوتی ہے اور سیر آفاقی اسی سیر کے ضمن میں طے ہو جاتی ہے۔ دوسرے سلسلے میں سیرِ آفاقی سے کام کی ابتدا ہوتی ہے اور ان کی انتہا سیر انفسی کے ساتھ ہوتی ہے۔ سیرِ انفسی سے کام کی ابتدا ہونا سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کی خصوصیت ہے اور اندراج نہایت در بدایت کے یہی معنی ہیں کہ سیر انفسی جو کہ دوسروں کی نہایت ہے، اس سلسلہ کے اکابر کی بدایت ہے۔ سیر آفاقی مطلوب کو اپنے سے باہر ڈھونڈنا ہے اور سیر انفسی اپنے آپ میں آنا اور اپنے دل کے گرد پھرنا ہے اور اسی معنی میں کہا گیا ہے:
ہمچو نابینا مبر ہر سوئے دست
با تُو در زیرِ گلیم است ہرچہ ہست
(از مکتوبات خوابہ محمد معصوم)
3 اس حدیث کی تخریج سے متعلق مکتوب 52 صفحہ 188 اور مکتوب 73 صفحہ 193 کا فٹ نوٹ ملاحظہ ہو۔
4 اس حدیث کی تخریج سے متعلق مکتوب 73 صفحہ 221 کا فٹ نوٹ ملاحظہ ہو۔