دفتر 1 مکتوب 74: فقرا کی محبت اور ان کی طرف توجہ کرنے پر ترغیب اور صاحب شریعت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے اتباع کی نصیحت کے بیان میں

مکتوب 74

مرزا بدیع الزماں؂1 کی طرف صادر ہوا۔ فقرا کی محبت اور ان کی طرف توجہ کرنے پر ترغیب اور صاحب شریعت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے اتباع کی نصیحت کے بیان میں۔

آپ کا مکتوب شریف و مراسلۂ لطیف صادر ہوا۔ الحمد للہ کہ اس کے مضمون سے فقرا کی محبت اور درویشوں کی طرف توجہ معلوم ہوئی جو کہ سعادتوں کا سرمایہ ہے، کیونکہ یہ لوگ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ہم نشین؂2 ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جن کا جلیس بد نصیب نہیں ہوتا؂3۔ اور رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم فقرائے مہاجرین کے طفیل حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے فتح طلب کرتے تھے؂4 اور آنحضرت علیہ الصلوٰۃ و السلام نے ان کی شان میں فرمایا ہے: "رُبَّ أَشْعَثَ مَدْفُوْعٍ بِالْأَبْوَابِ لَو أَقْسَمَ عَلَی اللّٰہِ لَاَبَرَّہٗ"؂5 ترجمہ: ”بہت سے بکھرے ہوئے بالوں والے گرد آلو اور دروازوں سے ہٹائے ہوئے لوگ ایسے ہیں کہ اگر (کسی کام کی) حق تعالیٰ پر (بھروسہ کر کے) قسم کھا لیں تو اللہ تعالیٰ ضرور اس قسم کو پورا کر دیتا ہے“۔

اے سعادت مند! آپ کے مکتوب گرامی میں ایک فقرہ "خَدِیْوِ نَشْأَتَیْن" (دونوں جہاں کا مالک) درج تھا۔ یہ ایسی تعریف ہے جو واجب الوجود جل شانہٗ (حق تعالیٰ) کی ذات کے لئے مخصوص ہے، بندۂ مملوک کو جو کسی شے پر قادر نہیں ہے، کیا حق حاصل ہے کہ کسی وجہ سے بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے ساتھ شرکت حاصل کرے اور خداوندی کے راستے پر چلے۔ خاص طور پر عالمِ آخرت میں جب کہ حقیقی و مجازی ہر طرح کی مالکیت و ملکیت حضرت مالکِ یومِ الدین کے ساتھ مخصوص ہے۔ (چنانچہ) قیامت کے روز حق سبحانہ و تعالیٰ پکارے گا: ﴿لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ﴾ ترجمہ: ”(کہا جائے گا :) کس کی بادشاہی ہے آج؟“ پھر خود ہی اس کے جواب میں فرمائے گا: ﴿لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ﴾ (الغافر: 16) ترجمہ: ”(جواب ایک ہی ہوگا کہ:) صرف اللہ کی جو واحد و قہار ہے“۔

اس دن بندوں کے لئے خوف اور دہشت کے سوا اور کچھ ثابت نہیں ہے اور حسرت و ندامت کے سوا کچھ حاصل نہیں۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے قرآن میں اس روز کی سختی اور مخلوق کے انتہائی اضطراب و بے قراری کی خبر دیتا ہے، جیسا کہ خدائے بزرگ و برتر فرماتا ہے: ﴿إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِیْمٌ 0 یَوْمَ تَرَوْنَھَا تَذْھَلُ کُلُّ مُرْضِعَةٍ عَمَّا أَرْضَعَتْ وَ تَضَعُ کُلُّ ذَاتِ حَمْلٍ حَمْلَھَا وَ تَرَی النَّاسَ سُکٰرٰی وَ مَا ھُمْ بِسُکٰرٰی وَ لکِنَّ عَذَابَ اللہِ شَدِیْدٌ﴾ (الحج: 1-2) ترجمہ: ”یقین جانو کہ قیامت کا بھونچال بڑی زبردست چیز ہے۔ جس دن وہ تمہیں نظر آجائے گا اس دن ہر دودھ پلانے والی اس بچے (تک) کو بھول بیٹھے گی، جس کو اس نے دودھ پلایا اور ہر حمل والی اپنا حمل گرا بیٹھے گی، اور لوگ تمہیں یوں نظر آئیں گے کہ وہ نشے میں بد حواس ہیں، حالانکہ وہ نشے میں نہیں ہوں گے، بلکہ اللہ کا عذاب بڑا سخت ہو گا“۔؎

در آں روز کز فعل پُرسند قول

اولو العزم را دل بلرزد ز ہول

بجائیکہ دہشت برند انبیاءؑ

تو عذرِ گنہ را چہ داری بیا

ترجمہ:

آہ اُس پرسشِ عمل کے روز

دل اولو العزم کا بھی لرزے گا

انبیاؑ بھی ڈریں گے دہشت سے

معذرت کس طرح تُو کر لے گا؟

باقی نصیحت یہ ہے کہ صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ و السلام کی متابعت لازم پکڑیں کیونکہ آخرت کی نجات آپ کی متابعت کے بغیر محال ہے، اور دنیا کی زیب و زینت کی طرف التفات و توجہ نہ کریں اور دنیا کے حاصل ہونے یا نہ ہونے کو کوئی اہمیت نہ دیں (یعنی ان دونوں حالتوں کو یکساں جانیں) کیونکہ دنیا اللہ تعالیٰ کی مبغوضہ (نا پسندیدہ و مکروہ) ہے، حق تعالیٰ کے نزدیک اس کی قدر و منزلت کچھ بھی نہیں، پس بندوں کے نزدیک اس کا عدم (یعنی نہ ہونا) اس کے وجود (یعنی ہونے) سے بہتر ہونا چاہیے۔ اس کی بے وفائی اور جلدی جاتے رہنے (یعنی دولت کے زوال) کے قصے مشہور ہیں بلکہ مشاہدے میں آ چکے ہیں۔ پس اہلِ دنیا کے حال سے عبرت حاصل کریں جو پہلے گزر چکے ہیں۔ وَفَّقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ بِمُتَابَعَةِ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلی آلِہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو سید المرسلین علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کی متابعت کی توفیق عنایت فرمائے) آمین۔

؂1 مرزا بدیع الدین کے نام صرف دو مکتوب ہیں یعنی دفتر اول مکتوب 74 اور 75۔ آپ آقائے مُلا دولت دار کے صاحب زادے اور شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے اور آقائے مُلا تصوف میں اپنے چچا شیخ نجیب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے مستفیض تھے۔ مرزا کی ایک بیٹی ارادت خاں میر اسحاق شاہ جہانی سے منسوب تھی۔ (مآثر الأمراء، جلد 1، صفحہ نمبر: 116 ترجمہ)

؂2 جیسا کہ صحیحین کہ حدیث میں ہے: "وَ أَنَا مَعَہٗ إِذَا ذَکَرَنِيْ" اور درویش کبھی یادِ حق سے غافل نہیں ہوتا چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿رِجَالٌ لَّا تُلْھِیْھِمْ…الخ﴾

؂3 بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک طویل حدیث میں روایت کیا ہے: "هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقٰى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ" (حدیث نمبر: 6408) اور مسلم کی روایت میں ہے: "هُمُ الْقَوْمُ لَا يَشْقٰى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ" (حدیث نمبر: 2689)

؂4 اس کو شرح سنن میں روایت کیا ہے۔ (مشکوٰۃ)

؂5 اس کو مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے۔ (مشکوٰۃ)