دفتر 1 مکتوب 73: دنیا اور اہلِ دنیا کی مذمت بے فائدہ علوم حاصل کرنے کی برائی، فضول مباحات سے بچنے اور خاص طور پر عین زمانۂ شباب میں خیرات و صدقات کرنے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کی ترغیب اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 73

قلیج اللہ؂1 بن قلیج خاں کی طرف صادر فرمایا۔ دنیا اور اہلِ دنیا کی مذمت بے فائدہ علوم حاصل کرنے کی برائی، فضول مباحات سے بچنے اور خاص طور پر عین زمانۂ شباب میں خیرات و صدقات کرنے اور اعمالِ صالحہ بجا لانے کی ترغیب اور اس کے مناسب بیان میں۔

حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روشن شریعت کے سیدھے راستہ پر استقامت نصیب فرمائے۔

اے فرزند! دنیا آزمائش اور امتحان کی جگہ ہے، اس کے ظاہر کو طرح طرح کی باطل آرائشوں سے ملمع و آراستہ کیا گیا ہے، اس کی صورت کو وہمی خط و خال اور زلف و رخسار سے پیراستہ کیا گیا ہے، دیکھنے میں شیریں اور تر و تازہ نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں عطر لگا ہوا مردار اور مکھیوں و کیڑوں سے بھری ہوئی کُوڑی (کوڑا ڈالنے کی جگہ) اور پانی کی طرح نظر آنے والا سراب اور زہر کی مانند لشکر ہے، اس کا باطن سرا سر خراب و ابتر ہے۔ اس قدر گندگی کے با وجود اپنے اہل (دنیا داروں) کے ساتھ اس (دنیا) کا معاملہ اس سے بھی بد تر ہے جو بیان ہو سکے۔ اس (دنیا) کا فریفتہ و دیوانہ جادو کا مارا ہوا ہے، اس کا گرفتار مجنوں اور فریب خوردہ ہے۔ جو شخص اس کے ظاہر پر فریفتہ ہوا دائمی خسارے کے داغ سے داغ دار ہوا اور جس نے اس کی شیرینی اور تر و تازگی پر نظر کی دائمی شرمندگی اس کے نصیب میں آئی۔

سرورِ کائنات حبیب رب العالمین علیہ و علی آلہ الصلوات و التحیات نے فرمایا: "مَا الدُّنْیَا وَ الْآخِرَۃُ إِلَّا ضَرَّتَانِ إِنْ رَّضِیَتْ إِحْداھُمَا سَخِطَتِ الْاُخْرٰی"؂2 ترجمہ: ”دنیا اور آخرت دونوں آپس میں سوکنیں ہیں (یعنی ایک مرد کے نکاح میں دو عورتوں کی مانند ہیں) ان دونوں میں سے اگر ایک راضی ہو گی تو دوسری ناراض“۔ پس جس نے دنیا کو راضی کیا آخرت اس سے ناراض ہو گئی، نا چار وہ آخرت سے بے نصیب ہو گیا۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ مِنْ مُحَبَّتِھَا وَ مَحَبَّةِ أَھْلِھَا (حق تعالیٰ ہمیں اور آپ کو دنیا اور اہلِ دنیا کی محبت سے بچائے)

اے فرزند! کیا تو جانتا ہے کہ دنیا کیا چیز ہے؟ دنیا وہی ہے جو تجھے حق سبحانہ و تعالیٰ سے دُور کر دے؂3۔ پس بیوی بچے، مال و جاہ و ریاست، لہو و لعب اور لایعنی (بے کار) کاموں میں مشغول ہونا یہ سب دنیا میں داخل ہے۔ (جب کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل کر دیں) اور وہ علوم بھی جو آخرت میں کام نہیں آئیں گے وہ بھی سب دنیا میں داخل ہیں۔ اگر علمِ نجوم و منطق و ہندسہ اور حساب وغیرہ بے فائدہ علوم کار آمد ہوتے تو سب فلاسفہ اہلِ نجات میں سے ہوتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "عَلَامَةُ إِعْرَاضِہٖ تَعَالٰی عَنْ الْعَبْدِ اِشْتِغَالُہٗ بِمَا لَا یَعْنِیْہِ"؂4 ترجمہ: ”بندے کا بے فائدہ (فضول کاموں میں مشغول ہونا اللہ تعالیٰ کی اس سے رو گردانی (منھ پھیر لینے) کی علامت ہے“؎

ہر چہ جز عشقِ خدائے احسن است

گر شکر خوردن بود جان کندن است

ترجمہ:

عشقِ حق کے سوا ہے جو بھی چیز

خواہ میٹھی ہو، جان کا ہے روگ

اور یہ جو بعض (علماء) نے کہا ہے کہ علمِ نجوم کی نماز کے اوقات پہچاننے کے لئے ضرورت پڑتی ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اوقاتِ نماز کا پہچاننا علمِ نجوم کے بغیر حاصل نہیں ہے بلکہ یہ مطلب ہے کہ علمِ نجوم بھی اوقات پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔ بہت سے لوگ ہیں جو علمِ نجوم نہیں جانتے لیکن نماز کے اوقات کو نجوم کے جاننے والوں سے بہتر جانتے ہیں۔ علمِ منطق و حساب اور اس قسم کے دوسرے علوم جن کا مجمل طور پر حاصل کرنا بعض شرعی علوم میں ضروری ہے، ان کے حاصل کرنے کی جو وجہ بیان کرتے ہیں وہ بھی قریب قریب یہی ہے۔ غرض کہ بہت سے حیلوں کے بعد ان علوم میں مشغول ہونے کا جواز پیدا ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ علم کے پڑھنے سے احکامِ شرعیہ کی معرفت اور علمِ کلام کی دلیلوں کی تقویت کے سوا اور کوئی غرض مدِ نظر نہ ہو ورنہ (ان علوم میں مشغول ہونا) ہر گز جائز نہیں ہو گا۔ انصاف کرنا چاہیے کہ جس مُباح امر کے اختیار کرنے سے واجب امور فوت ہو جائیں وہ اباحت کی حد سے خارج ہو جاتا ہے یا نہیں؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان علوم میں مشغول ہونے سے شرع کے ضروری علوم میں مشغول ہونا فوت ہو جاتا ہے۔

اے فرزند! حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی کمال درجے کی مہربانی سے تجھ کو ابتدائے جوانی میں توبہ کی توفیق مرحمت فرمائی ہے اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے درویشوں میں سے ایک درویش کے ہاتھ پر انابت و رجوع الی الحق عطا فرمایا تھا، میں نہیں جانتا کہ نفس و شیطان کے ہاتھ سے تجھ کو اُس توبہ پر ثابت و قائم رہنا نصیب ہوا یا نہیں، استقامت مشکل نظر آتی ہے کیونکہ عین جوانی کا زمانہ ہے اور تمام دنیاوی اسباب حاصل ہیں اور اکثر مصاحب و ہم نشین نا مناسب و نا موافق ہیں؎

ہمہ اندازِ من بتو این است

کہ تو طفلی و خانہ رنگین است

ترجمہ:

مری تجھ کو نصیحت بس یہی ہے

کہ گھر رنگیں ہے تو بچّہ ابھی ہے

اے فرزند! کام کرنے کا یہی ہے کہ فضول مباحات سے پرہیز کیا جائے اور بقدرِ ضرورت مباحات پر کفایت کرنی چاہیے، اور ان میں بھی عبادت کے معمولات ادا کرنے پر جمعیت حاصل ہونے کی نیت ہونی چاہیے، مثلًا خوراک سے مقصود طاعات و عبادات ادا کرنے کی قوت حاصل ہونا اور پوشاک سے مقصود ستر عورت اور گرمی و سردی کا دور کرنا، پس تمام ضروری مباحات کو اسی پر قیاس کر لیا جائے۔

اکابرِ سلسلۂ عالیہ نقشبدیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے عزیمت پر عمل کرنا اختیار کیا ہے اور رخصت سے حتی الامکان پرہیز کیا ہے، بقدرِ ضرورت پر اکتفا کرنا بھی ایک درجہ عزیمت ہے، اور اگر (عزیمت کی) یہ دولت میسر نہ ہو تو مباحات (جائز امور) کے دائرے سے باہر قدم نہ نکالنا چاہیے اور حرام و مشتبہ چیزوں کے نزدیک نہ جانا چاہیے۔ حق تعالیٰ نے نہایت کرم فرما کر مباح امور کے ساتھ نہایت کامل اور پورے طور پر ناز و نعمت حاصل کرنا جائز فرما دیا ہے اور ان نعمتوں کا دائرہ بہت وسیع کر دیا ہے، ان نعمتوں اور لذتوں سے قطعِ نظر کون سا عیش اس کے برابر ہے کہ اس شخص کا مولیٰ (حق تعالیٰ) اس کے کام سے راضی ہو جائے اور کون سا ظلم اس کے برابر ہو سکتا ہے کہ اس کا مالک (حق تعالیٰ) اس کے اعمال کی وجہ سے ناراض ہو جائے۔

رَضَاءُ اللّٰہِ تَعَالیٰ فِي الْجَنَّةِ خَیْرٌ مِّنَ الْجَنَّةِ وَ سَخَطُ اللّٰہِ تَعَالٰی فِيْ النَّارِ شَرٌّ مِّنَ النَّارِ (جنت میں اللہ تعالیٰ کی رضا مندی جنت سے بہتر ہے اور دوزخ میں اللہ تعالیٰ کی ناراضی دوزخ سے بد تر ہے)۔

یہ انسان اپنے مولیٰ کے حکم کا محکوم (تابع) غلام ہے، اس کو خود مختار نہیں بنایا گیا کہ جو چاہے کرتا رہے، اس کو آزاد نہیں چھوڑ دیا گیا کہ اس سے باز پرس نہ ہو گی؂5۔ فکر کرنی چاہیے اور عقلِ دُور اندیش سے کام لینا چاہیے ورنہ کل قیامت کے روز ندامت اور خسارے کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ کام کرنے کا وقت جوانی کا زمانہ ہے، جوان مرد وہی ہے جو اس وقت کو ضائع نہ کرے اور فرصت کو غنیمت جانے۔ ممکن ہے کہ (کارکنانِ قضا و قدر) اس کو بڑھاپے تک پہنچنے نہ دیں اور اگر پہنچنے بھی دیں تو (شاید) جمعیت حاصل نہ ہو، اور اگر جمعیت حاصل ہو گی تو ضعف و سستی کے وقت کام کرنا مشکل ہو گا؂6۔ اس وقت جب کہ جمعیت کے تمام اسباب میسر ہیں اور والدین کا وجود بھی اللہ تعالیٰ کے انعامات میں سے ہے کہ اس کے معاش کا فکر بھی ان کے سر پر ہے اور فرصت کا وقت اور قوت و استطاعت کا زمانہ ہے تو پھر کونسا عذر ہے جس کی بِنا پر آج کا کام کل پر ڈالا جائے اور اسباب کو تاخیر میں کھینچا جائے (یعنی آج نہیں، کل کر لیں گے ایسا نہیں کرنا چاہیے) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "ھَلَکَ الْمُسَوِّفُوْنَ"؂7 ترجمہ: ”سَوْفَ أَفْعَلُ کہنے والے یعنی آج کل کرنے والے ہلاک ہو گئے“۔ ہاں اگر کمینی دنیا کے کاموں کو کل پر ڈالیں اور آج آخرت کے اعمال میں مشغول ہو جائیں تو بہت ہی اچھا ہے جیسا کہ اس کے بر عکس کرنا بہت ہی بُرا ہے (یعنی اعمالِ آخرت کو کل پر ڈالنا اور اعمالِ دنیا میں آج مشغول ہونا) اس نوجوانی کے وقت میں جب کہ دین کے دشمنوں یعنی نفس و شیطان کا غلبہ ہے تھوڑا عمل بھی اس قدر معتبر ہے کہ (دین کے دشمنوں) کا غلبہ نہ ہونے کے وقت اس سے کئی گناہ زیادہ عمل بھی اتنا معتبر نہیں ہے۔ سپاہ گری کے قاعدے کے مطابق دشمنوں کے غلبے کے وقت کام کرنے والے سپاہیوں کی بہت زیادہ قدر ہوتی ہے، اس وقت ان کا تھوڑا سا تردد بھی اس قدر معتبر اور نمایاں ہوتا ہے کہ دشمنوں کی شرارت سے امن کے وقت میں اس کا اس قدر اعتبار نہیں ہوتا۔

اے فرزند! انسان جو کہ خلاصۂ موجودات ہے، اس کے پیدا کرنے کا مقصد صرف کھیل کود اور کھانا سونا نہیں ہے بلکہ اس سے مقصود بندگی کے معمولات کا ادا کرنا اور ذلت و انکساری و عاجزی و احتیاج اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی جناب میں ہمیشہ التجا و گریہ و زاری کرنا ہے۔ وہ عبادت جس کو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت نے بیان فرمایا ہے اور جس کے ادا کرنے سے مقصود بندوں کے فائدے اور مصلحتیں ہیں اور حق تعالیٰ جل شانہٗ کی مقدس بار گاہ کو اس سے کچھ نفع نہیں پہنچتا، ان سب کو احسان مانتے ہوئے دل و جان سے ادا کرنی چاہیے، اور نہایت فرماں برداری و تسلیم کے ساتھ اوامر کے بجا لانے اور نواہی سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ حق تعالیٰ نے غنی مطلق ہونے کے با وجود اپنے بندوں کو اوامر و نواہی سے سر فراز فرمایا ہے، ہم محتاجوں کو اس نعمت کا شکر پوری طرح ادا کرنا چاہیے اور نہایت احسان مندی کے ساتھ احکام کی بجا آوری میں کوشش کرنی چاہیے۔

وہ فرزند (یعنی آپ) جانتا ہے کہ دنیا داروں میں سے کوئی شخص جو ظاہری جاہ و شوکت رکھتا ہو اگر اپنے ما تحت متعلقین میں سے کسی کو کوئی خدمت سپرد کرے جب کہ اس خدمت میں حکم دینے والے کا بھی نفع ہو تو یہ ما تحت شخص اس حکم کو کس قدر عزیز رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ایک عظیم القدر شخصیت نے اس کو اس خدمت پر مامور فرمایا ہے لہذا اس کو نہایت احسان مندی کے ساتھ وہ خدمت بجا لانی چاہیے، تو پھر کیا مصیبت ہے کہ اس کو حق تعالیٰ جل سلطانہٗ کی عظمت اس شخص کی عظمت سے بھی بہت کم نظر آتی ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے احکام بجا لانے میں کوشش نہیں کرتا۔ شرم آنی چاہیے اور اپنے آپ کو خوابِ خرگوش سے بیدار کرنا چاہیے۔ حق تعالیٰ جل شانہٗ کے حکموں کو بجا نہ لانا ان دو باتوں سے خالی نہیں ہے: یا تو وہ شرعی خبروں کو جھوٹ جانتا ہے اور ان پر یقین نہیں کرتا، یا اللہ تعالیٰ کے امر کی عظمت و شان اس کی نظر میں اہلِ دنیا کی عظمت و شان کی نسبت بہت حقیر ہے۔ اس امر کی برائی کو اچھی طرح ملا حظہ کر لینا چاہیے۔

اے فرزند! جس شخص کا جھوٹ بار ہا تجربے میں آ چکا ہو، اگر وہ یہ کہے کہ دشمن پوری قوت کے ساتھ فلاں قوم پر شب خون ماریں گے (رات کے وقت اچانک قتال کریں گے) تو اس قوم کے عقل مند لوگ اپنی حفاظت کے درپے ہو جائیں گے اور اس مصیبت کے دُور کرنے کی فکر کریں گے حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ وہ خبر دینے والا شخص جھوٹ کے ساتھ بد نام ہے لیکن کہتے ہیں کہ خطرے کے گمان کے وقت عقل مندوں کے نزدیک احتراز لازم ہے۔

مخبرِ صادق علیہ الصلوۃ و السلام نے نہایت مبالغے کے ساتھ آخرت کے عذاب سے آگاہ فرما دیا ہے، لیکن لوگ اس کا کچھ اثر قبول نہیں کرتے (کیونکہ) اگر اس کا اثر قبول کریں تو اس کے دفع کرنے کی فکر بھی کریں، حالانکہ اس کے دفع کرنے کی تدبیر بھی لوگوں نے مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے معلوم کر لی ہو پس یہ کیسا ایمان ہے کہ مخبر صادق علیہ الصلوۃ و السلام کی خبر اُس جھوٹے کی خبر کے برابر بھی اعتبار نہیں رکھتی۔ صرف ظاہری اسلام نجات نہیں بخشتا، یقین (کامل کا درجہ جو کہ باطن اسلام ہے) حاصل کرنا چاہیے، یقین تو کہاں ظن بھی حاصل نہیں ہے، بلکہ وہم کا درجہ بھی نہیں ہے، کیونکہ عقلمند لوگ خطرات و ہلاکت کے وقت وہم کا بھی اعتبار کر لیتے ہیں، اور ایسا ہی حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی کلام مجید میں فرماتا ہے: ﴿وَ اللّٰہُ بَصِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ (الحجرات: 18) ترجمہ: ”اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے اچھی طرح دیکھ رہا ہے“۔ اس کے با وجود لوگوں سے بُرے اعمال سر زد ہوتے رہتے ہیں۔ اگر اُن کو معلوم ہو جائے کہ ایک ادنیٰ درجے کا شخص ان کے اعمال سے خبر دار ہے تو کوئی بُرا فعل ہرگز اس کی نظر کے سامنے نہ کریں گے۔ پس ایسے لوگوں کا معاملہ دو حالتوں سے خالی نہیں ہے یا تو وہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی خبر کا یقین نہیں رکھتے یا حق تعالیٰ کے مطلع ہونے کا اعتبار نہیں کرتے۔ پس (آپ ہی بتائیے کہ) اس قسم کا کردار ایمان سے ہے یا کفر سے تعلق رکھتا ہے۔ پس اس فرزند! (آپ) پر لازم ہے کہ نئے سرے سے ایمان کی تجدید کرے، آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے: "جَدِّدُوا إِیْمَانَکُمْ بِقَوْلِ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ"؂8 ترجمہ: ”کلمہ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کہہ کر اپنے ایمان کو تازہ کر لیا کرو“۔ اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے نا پسندیدہ امور سے از سرِ نو خالص توبہ؂9 کرے۔ جن کاموں سے منع فرمایا ہے اور جن کو حرام قرار دیا ہے ان سے بچتا رہے۔ پانچوں وقت کی نماز جماعت کےساتھ ادا کرے۔ اگر قیامِ لیل اور تہجد کی نماز بھی میسر ہو جائے تو عین سعادت ہے۔ مال کی زکوٰۃ ادا کرنا بھی ارکان اسلام؂10 میں سے ہے اس کو بھی ضرور ادا کرے۔ اس کی ادائیگی کا آسان طریقہ یہ ہے کہ اپنے مال سے جس قدر فقرا کا حق (زکوٰۃ) ہے ہر سال کے حساب سے علیحدہ کر دے اور زکوٰۃ کی نیت سے محفوظ رکھتے ہوئے تمام سال میں زکوۃ کے مصارف میں خرچ کرتا رہے۔ اس طریقے سے ہر مرتبہ دیتے وقت زکوۃ ادا کرنے کی نئی نیت کرنا ضروری نہیں ہے صرف زکوۃ کا حصہ علیحدہ کرتے وقت ایک دفعہ کی نیت ہی کافی ہے۔ معلوم ہے (یعنی آپ کو اندازہ ہو گا) کہ پورے سال میں فقرا و مستحقین پر کس قدر خرچ کرتے ہیں، لیکن چونکہ وہ زکوٰۃ کی نیت سے نہیں ہے اس لئے وہ زکوٰۃ کے حساب میں شمار نہیں ہو گا اور مذکورہ بالا صورت میں زکوٰۃ بھی ادا ہو جاتی ہے اور بے اندازہ خرچ سے بھی چھٹکارہ مل جاتا ہے اور اگر بالفرض سال میں اس قدر (بقدر حصہ زکوٰۃ) فقراء پر خرچ نہ ہو سکے اور کچھ باقی بچ جائے تو اس کو اسی طرح اپنے مال سے علیحدہ محفوظ رکھیں (اور آئندہ سال خرچ کریں) ہر سال اسی طرح عمل کرتے رہیں، جب فقراء کا مال جدا ہو جاتا ہے تو اگر آج اس کے ادا کرنے کی توفیق نصیب نہ ہوئی تو شاید کل توفیق ہو جائے۔

اے فرزند! چونکہ نفس بالذات (فطرتًا) بہت بخیل ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام بجا لانے میں سرکش واقع ہوا ہے اس لئے نا چار مبالغے سے بات کہی جاتی ہے ورنہ فی الحقیقت اموال و املاک سب اللہ تعالیٰ کی ہیں، انسان کی کیا مجال ہے کہ اس (کی ادائیگی) میں دیر کرے، لہذا نہایت احسان مانتے ہوئے تمام زکوٰۃ ادا کر دینی چاہیے اور اسی طرح باقی تمام عبادات میں اپنے آپ کو کسی وجہ سے بھی معاف نہ رکھے اور بندوں کے حقوق ادا کرنے میں پوری طرح کوشش کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ کسی کا حق اپنے ذمہ نہ رہ جائے۔ اس جگہ (دنیا میں) اس حق کا ادا کرنا آسان ہے نرمی اور خوشامد سے بھی دوسرے کا حق رفع ہو سکتا ہے، آخرت میں مشکل ہے اس کا کوئی حل نہ ہو گا۔ شرعی احکام علمائے آخرت سے دریافت کرنے چاہئیں، ان کی بات میں بڑی تاثیر ہے شاید ان کے انفاس کی برکت سے اس پر عمل کی توفیق بھی حاصل ہو جائے، اور علمائے دنیا سے جنھوں نے علم کو مال و جاہ کے حصول کا ذریعہ بنایا ہے، دُور رہنا چاہیے۔ لیکن اگر متقی پرہیز گار عالم نہ ملے تو مجبورًا بقدر ضرورت ان کی طرف رجوع کیا جائے، وہاں میاں حاجی محمد اُتّرہ علمائے دین دار میں سے ہیں اور میاں شیخ علی اُتّرہ خود تمہارے واقف ہیں، غرضے کہ یہ دونوں بزرگ اس علاقے میں غنیمت ہیں، شرعی مسائل کی تحقیق و تفتیش میں ان کی طرف رجوع کرنا زیادہ مناسب ہے۔

اے فرزند! ہم فقرا کو دنیا داروں کے ساتھ کیا مناسبت کہ ہم ان کے نیک و بد کی نسبت گفتگو کریں، شرعی نصیحتیں اس بارے میں نہایت کامل اور پورے طور پر وارد ہوئی ہیں: ﴿فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ﴾ (الأنعام: 149) ترجمہ: ”ایسی دلیل تو اللہ ہی کی ہے جو (دلوں تک) پہنچنے والی ہو“۔ لیکن چونکہ اس فرزند نے توبہ و انابت (رجوع) کے لئے فقرا کی طرف رجوع کیا تھا اسی مناسبت کے باعث اکثر اوقات دل کی توجہ اس فرزند کے حال پر مبذول رہتی ہے اور وہی توجہ اس گفتگو کا باعث ہوئی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اکثر نصیحتیں اور یہ مسائل اس فرزند کے کانوں تک (پہلے سے) پہنچے ہوئے ہوں گے لیکن مقصود عمل ہے نہ کہ صرف علم۔ جو بیمار اپنی بیماری کی دوائی کا علم رکھتا ہے جب تک وہ اس دوا کو نہ کھائے گا صحت حاصل نہ ہو گی دوا کا صرف علم ہونا فائدہ نہیں کرے گا۔ یہ سب اصرار و مبالغہ عمل کے لئے ہے علم خود حجت کو درست کر دیتا ہے (یعنی قیامت کے دن اس پر حجت قائم کرے گا کہ علم کے با وجود عمل کیوں نہیں کیا تھا) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: "إِنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَذَابًا یَّوْمَ الْقِیَامَةِ عَالِمٌ لَّمْ یَنْفَعْہُ اللّٰہُ بِعِلْمِہٖ"؂11 ترجمہ: ”یعنی قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس عالم کو ہو گا جس کو اس کے علم سے کچھ نفع حاصل نہ ہوا ہو“۔

وہ فرزند جان لے کہ سابقہ توبہ و انابت نے جمعیتِ قلبی والے (اہل اللہ) کی صحبت کی کمی کے باعث اگرچہ کچھ فائدہ نہیں پہنچایا لیکن اس فرزند کے جوہرِ استعداد کے نفیس ہونے کی خبر ضرور دیتی ہے۔ امید ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس توبہ و انابت کی برکت سے آخر کار اپنے پسندیدہ کاموں کی توفیق نصیب فرمائے گا اور اہل نجات میں سے بنائے گا۔ بہر حال! آپ اس گروہ (اہل اللہ) کی محبت کا رشتہ ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور ان لوگوں کے ساتھ التجا و عاجزی اپنا شعار بنائیں اور منتظر رہیں کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان لوگوں کی محبت کے وسیلے سے اپنی محبت سے مشرف فرمائے اور پوری طرح اپنی طرف کھینچ لے اور ان جنجالوں (غیر شرعی دنیاوی تعلقات) سے بالکل آزاد کر دے۔ مثنوی

عشق آں شعلہ است کو چوں برفروخت

ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

تیغِ لا در قتلِ غیرِ حق براند

درنگر زاں پس کہ بعدِ لَا چہ ماند

ماند إِلَّا اللہ باقی جملہ رفت

شاد باش اے عشقِ شرکت سوز زَفت

ترجمہ:

جب کہ روشن عشق کا شعلہ ہوا

ما سوا معشوق کے سب جل گیا

غیرِ حق کو تیغِ لَا سے قتل کر

بعد ازاں کر اس کے باقی پر نظر

رہ گیا اللہ باقی سب فنا

عشقِ شرکت سوز تجھ کو مرحبا

؂1 قلیج اللہ بن قلیج خاں کے نام تین مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب 73، 184 اور دفتر دوم مکتوب 32۔ مآثر الأمراء کے بیان کے مطابق آپ جہانگیری دور کے امراء میں سے تھے۔

؂2 احمد و حاکم و طبرانی و ابن حبان نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: "مَنْ أَحَبَّ دُنْيَاهُ أَضَرَّ بِآخِرَتِهٖ، وَ مَنْ أَحَبَّ آخِرَتَهٗ أَضَرَّ بِدُنْيَاهُ، فَآثِرُوا مَا يَبْقٰى عَلٰى مَا يَفْنٰى" (مسند احمد، حدیث نمبر: 19697) یعنی ”جس نے اپنی دنیا کو دوست رکھا اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے اپنی آخرت کو دوست رکھا اس نے اپنی دنیا کو نقصان پہنچایا۔ پس باقی کو فانی پر اختیار کرو“۔

؂3 مولانا رومی رحمہ اللہ نے اپنی مثنوی میں اس مضمون کو اس شعر میں ادا فرمایا ہے:

چیست دنیا از خدا غافل بدن

نے قماش و نقرہ و فرزند و زن

؂4 یہ روایت ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مذکور ہے اور اس کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو حسن کہا ہے اور ابن عبد البر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ علی متقی نے جوامع القلم میں حضرت مجدد علیہ الرحمہ کے الفاظ کے ساتھ مرفوعًا ذکر کیا ہے اور ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے: "مِنْ عَلَامَاتِ إِعْرَاضِ اللہِ تَعَالٰی عَنِ الْعَبْدِ أَنْ یَّجْعَلَ شُغْلَہٗ فِیْ مَا لَا یَعْنِیْہِ" یہ قول حسن ہے۔

؂5 یہ مضمون "کیا انسان گمان کرتا ہے کہ وہ یوں ہی چھوڑ دیا جائے گا" (القیامۃ: 36) سے اور "پھر ایک دن تم سے نعمتوں کے بارے میں ضرور باز پرس ہو گی" (التکاثر: 8) سے ماخوذ ہے۔

؂6 اس مضمون کو کسی نے اس طرح نظم کیا ہے:

کر جوانی میں عبادت کاہلی اچھی نہیں

جب بڑھاپا آگیا پھر بات کچھ بنتی نہیں

ہے بڑھاپا بھی غنیمت کر جوانی جا چکی

پھر بڑھاپا بھی نہ ہو گا موت جس دم آ گئی

؂7 کہتے ہیں کہ ان الفاظ کے ساتھ کوئی حدیث نہیں ملی البتہ دیلمی نے مسند الفردوس میں عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے: "اَلتَّسْوِیْفُ شِعَارُ الشَّیْطَانِ یُلْقِیْہِ فِيْ قَلْبِ الْمُؤْمِنِ" اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: "إِیَّاکَ وَ التَّسْوِیْفَ بِالتَّوْبَۃِ" امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں مرسل روایت کی ہے اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ کے ساتھ روایت ہے: "لَعَنَ اللہُ المُسَوِّفَاتِ"۔ (المعرب)

؂8 اس حدیث کو احمد و طبرانی نے ان الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے: "جَدِّدُوا إِيمَانَكُمْ". قِيلَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ، وَ كَيْفَ نُجَدِّدُ إِيمَانَنَا؟ قَالَ: "أَكْثِرُوا مِنْ قَوْلِ: لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ" (مسند احمد: 8710)

؂9 اس میں اس آیت کے مضمون کی طرف اشارہ ہے: ﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا تُوۡبُوۡۤا إِلَی اللّٰہِ تَوۡبَۃً نَّصُوۡحًا﴾ (التحریم: 8)

؂10 قَالَ عَلَيْهِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ: "بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لَآ إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّٰهِ، وَ إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَ إِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَ الْحَجِّ، وَ صَوْمِ رَمَضَانَ". (صحیح بخاری، حدیث نمبر: 8)

؂11 اس حدیث کو ابن عساکر نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور طبرانی نے صغیر میں اور بیہقی نے شعب میں اور ابن عدی نے الکامل میں اور حاکم نے مستدرک میں مختلف الفاظ سے روایت کیا ہے۔ نیز ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: "إِنَّ مِنْ أَشَرِّ النَّاسِ عِنْدَ اللّٰهِ مَنْزِلَةً يَّوْمَ الْقِيَامَةِ: عَالِمٌ لَّا يَنْتَفِعُ بِعِلْمِهٖ۔ رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ" (مشکوٰۃ، حدیث نمبر: 268)