مکتوب 72
خواجہ جہاں1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ دین کو دنیا کے ساتھ جمع کرنا دشوار ہے، پس آخرت کے طالب کو دنیا کا ترک کرنا ضروری ہے اور اگر حقیقی ترک میسر نہ ہو تو ضروری ہے کہ ترکِ حکمی ہی کرے اور اس کے مناسب بیان میں۔
سَلَّمَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ عَافَاکُمْ (اللہ تعالیٰ آپ کو سلامت و عافیت سے رکھے) مصرع
مَا أَحْسَنَ الدِّیْنُ وَ الدُّنْیَا لَوِ اجْتَمَعَا
ترجمہ:
"دین و دنیا جمع ہو جائیں تو کیا ہی خوب ہے"
دین اور دنیا کا جمع کرنا متضاد چیزوں کو جمع کرنا ہے پس طالبِ آخرت کے لئے دنیا کا ترک کرنا ضروری ہے اور چونکہ اس زمانہ میں اس کا حقیقی ترک میسر نہیں ہو سکتا بلکہ دشوار ہے، نا چار ترکِ حکمی ہی اختیار کر لینا چاہیے، اور ترکِ حکمی سے مراد یہ ہے کہ دنیاوی امور میں روشن شریعت کے حکم کے مطابق عمل کرنا چاہیے اور کھانے پینے کی چیزوں اور رہنے سہنے کے مکانات میں شرعی حدود کو مد نظر رکھنا چاہیے اور ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہیے۔ بڑھنے والے مالوں اور چرنے والے جانوروں میں فرض شدہ زکوۃ ادا کرنی چاہیے۔ جب احکامِ شرعیہ کے ساتھ آراستگی حاصل ہو گئی تو دنیا کے ضرر و تکلیف سے نجات حاصل ہو گئی اور (دنیا) آخرت کے ساتھ جمع ہو گئی۔ اگر کسی کو اس قسم کا ترکِ حکمی بھی میسر نہ ہو تو ایسا شخص بحث سے خارج ہے وہ تو منافق کے حکم میں ہے کیونکہ صرف ظاہری ایمان آخرت میں اس کو کوئی فائدہ نہیں دے گا، اس کو (ایسے ایمان سے) صرف یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کے جان و اموال محفوظ ہو جاتے ہیں۔؎
من آنچہ شرطِ بلاغ است با تو می گویم
تو خواہ از سخنم پند گیر و خواہ ملال
ترجمہ:
ادا کرتا ہوں حق تبلیغ کا اور تجھ سی کہتا ہوں
مری باتوں سے ہو تجھ کو نصیحت یا ملال آئے
دیکھئے ایسا صاحبِ نصیب کون شخص ہے جو اس قدر دنیاوی شان و شوکت، اس قدر خدام و لشکر اور اتنے لذیذ و مرغن کھانوں اور نفیس و قیمتی لباس کے با وجود حق بات کو قبولیت کے کانوں سے سنے۔؎
گوشش از بارِ دُر گراں شدہ است
نشنود نالہ و فغانِ مرا
ترجمہ:
"کان اس کے موتیوں کے بوجھ سے ہیں بس گراں
اس لئے وہ سن نہیں سکتے مری آہ و فغاں"
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شریعت کی متابعت کی توفیق عطا فرمائے۔
باقی مقصود یہ ہے کہ میاں شیخ زکریا2 جو پہلے کروڑی (تحصیل دار) تھے آج کل قید خانے میں ہیں، عالم فاضل آدمی ہیں، شامتِ اعمال سے ایک مدت ہو گئی کہ قید خانے میں بند ہیں، بڑھاپے کی کمزوری، گزارے کی تنگی اور مدتِ قید کی درازی کے باعث تنگ و عاجز آکر اس فقیر کو لکھا ہے کہ لشکر (چھاؤنی) میں آکر ہمارے چھڑانے کی کوشش کریں۔ راستے کی مسافت کا زیادہ ہونا (آپ کے پاس) آنے سے مانع ہے۔ چونکہ میرے بھائی خواجہ محمد صادق3 (صدیق) آپ کی خدمت میں آ رہے ہیں نا چار چند کلمات لکھ کر آپ کو تکلیف دے رہا ہوں، امید ہے کہ اس ضعیف بوڑھے کے حق میں توجہ عالی مبذول فرمائیں گے کیونکہ وہ عالم بھی ہے اور بوڑھا بھی۔ وَ السَّلَامُ أَوَّلًا وَّ آخِرًا۔
1 مکتوبات شریفہ میں آپ کے نام صرف دو مکتوبات ہیں دفتر اول مکتوب: 25 اور 72۔ لہذا آپ کے متعلق مکتوب 25 کا حاشیہ ملاحظہ ہو۔
2 آپ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے خسر شیخ سلطان کے بھائی ہیں۔ دفتر اول مکتوب 43 میں بھی آپ کے لئے سفارش ہے۔
3 کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے اور اصل نام محمد صدیق معلوم ہوتا ہے۔