دفتر 1 مکتوب 71: اس بیان میں کہ منعم کا شکر منعَم علیہ پر واجب ہے اور شکر کی ادائیگی شریعت کی اطاعت کرنے پر ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں

مکتوب 71

مرزا داراب؂1 ابن خان خاناں کی طرف صادر ہوا ہے۔ اس بیان میں کہ منعم کا شکر منعَم علیہ پر واجب ہے اور شکر کی ادائیگی شریعت کی اطاعت کرنے پر ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔

أَیَّدَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ نَصَرَکُمْ (اللہ سبحانہ و تعالیٰ آپ کی مدد اور نصرت فرمائے)

عقلی اور شرعی طور پر انعام کرنے والے کا شکر انعام کئے ہوئے شخص پر واجب ہے اور معلوم ہے کہ جس قدر نعمت حاصل ہو اسی قدر شکر بھی واجب ہوتا ہے، پس جس قدر زیادہ نعمت حاصل ہو گی شکر بھی اسی قدر زیادہ واجب ہو گا، لہذا دولت مندوں پر ان کے درجات کے تفاوت کے مطابق فقرا کی بہ نسبت کئی گنا زیادہ شکر واجب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اس امت کے فقرا، دولت مندوں سے پانچ سو سال پہلے بہشت میں جائیں گے؂2۔

منعم حقیقی (حق تعالیٰ) کا شکر اول فرقۂ ناجیہ اہل سنت و جماعت کے عقائد کے مطابق اپنے عقیدوں کو درست کرنا ہے، دوم اس فرقۂ عالیہ (اہلسنت و جما عت) کے آئمہ مجہتدین کے اجتہادات کے موافق شرعی عملی احکامات کا بجا لانا ہے، سوم اس فرقۂ عالیہ کے صوفیہ کرام کے سلوک کے مطابق تصفیہ و تزکیہ حاصل کرنا ہے۔ اس آخری (یعنی تیسرے) رکن کا وجوب استحسان کے طور پر ہے، بخلاف پہلے دو رکنوں (عقائد و اعمالِ شرعیہ) کے، کیونکہ اصل اسلام انہی دو رکنوں سے وابستہ ہے، اور اسلام کا کامل ہونا اس ایک رکن (یعنی تصفیہ و تزکیہ) پر موقوف ہے۔ اور جو عمل ان تینوں ارکان کے مخالف ہے اگرچہ وہ سخت ریاضتوں اور مشکل مجاہدوں میں سے ہو معصیت اور منعمِ حقیقی جل سلطانہ کی نا فرمانی و نا شکری میں داخل ہے۔

ہندوستان کے برہمنوں اور یونان کے فلسفیوں نے ریاضتوں اور مجاہدوں میں کوئی کمی نہیں کی لیکن (چونکہ) ان کی ریاضتیں انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوۃ و السلام کی شریعتوں کے موافق واقع نہیں ہوئیں اس لئے سب مردود ہیں اور وہ آخرت کی نجات سے بے نصیب ہیں۔ پس آپ پر ہمارے آقا و مولا ہمارے گناہوں کی شفاعت کرنے والے، ہمارے دلوں کے طبیب سید المرسلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آپ کے خلفائے راشدین مہدیین رضی اللہ عنہم اجمعین کی متابعت لازم ہے۔

؂1 مرزا داراب خان کے نام چار مکتوبات ہیں دفتر اول مکتوب 71، 215، 249 اور دفتر دوم مکتوب 78 ہیں۔ آپ مرزا عبد الرحیم خان خاناں کے صاحب زادے نہایت لائق و فائق اور بہت ہی خوبیوں سے آراستہ تھے۔ جہانگیر نے آپ کو ایک ہزاری کا منصب دے کر برار و احمد نگر کے صوبے کا حاکم مقرر کیا۔ پھر 1034ھ میں بعض شکوک کی بنا پر جہانگیر کے حکم سے مہابت خان نے آپ کو قتل کر دیا۔ (مآثر الأمراء، جلد: 2، صفحہ نمبر: 14)

؂2 اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "يَدْخُلُ الْفُقَرَاءُ الْجَنَّةَ قَبْلَ الْأَغْنِيَاءِ بِخَمْسِمِائَةِ عَامٍ، نِصْفِ يَوْمٍ" (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2353) اور ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے بعض الفاظ کے اختلاف کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔