دفتر 1 مکتوب 70: اس بیان میں کہ جس طرح انسان کے لئے اس کی جامعیت اس کے قرب کا باعث ہے اُسی طرح اس کی یہی جامعیت اس کے بُعد کا سبب بھی ہے اور اس کے مناسب بیان میں

مکتوب 70

یہ مکتوب بھی خانِ خاناں کی طرف صادر ہوا۔ اس بیان میں کہ جس طرح انسان کے لئے اس کی جامعیت اس کے قرب کا باعث ہے اُسی طرح اس کی یہی جامعیت اس کے بُعد کا سبب بھی ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

ثَبَّتَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَلٰی جَادَّۃِ الشَّرِیْعَةِ الْمُصْطَفَوِیَّةِ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَ التَّحِیَّةُ (اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کو شریعتِ مصطفویہ علی صاجہا الصلٰوۃ و السلام پر ثابت قدم رکھے) اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جس نے "آمین" کہا۔

جس طرح انسان کی جامعیت اس کے لئے حق تعالیٰ کے قُرب اور کرامت و فضیلت کا سبب ہے اسی طرح اس کی حق تعالیٰ سے دُوری اور گمراہی و جہالت ہونے کا باعث بھی وہی جامعیت ہے۔ اس کو قربِ حق اس وجہ سے ہے کہ اس کا آئینہ (قلب) مکمل و اتم ہے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی تمام اسماء و صفات بلکہ تجلیاتِ ذاتیہ کے ظہور کی بھی قابلیت رکھتا ہے۔ حدیث قدسی "لَا یَسَعُنِيْ أَرْضِيْ وَ لَا سَمَائِيْ وَ لکِنْ یَّسَعُنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ"؂1 ترجمہ: ”نہ میری زمین میری وسعت رکھتی ہے اور نہ میرا آسمان لیکن میرے مؤمن بندے کا دل میری وسعت رکھتا ہے“۔ میں اسی بیان کی طرف اشارہ ہے۔

اور اس (بندہ) کا (حق تعالیٰ سے) بُعد (دُوری) اس سبب سے ہے کہ وہ دنیا کی تمام جزئیات (چیزوں) میں سے ہر جزئی (چیز) کی طرف حاجت مند ہے کیونکہ اس کو سب چیزیں در کار ہیں۔ ﴿خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا﴾ (البقرة: 29) ترجمہ: ”زمین میں جو کچھ ہے تمہارے لئے پیدا کیا“۔ اس احتیاج کے باعث اس کو تمام اشیاء کے ساتھ گرفتاری ہے جو اس کے بُعد اور گمراہی کا سبب ہو گئی ہے؎

پایہ آخر آدم است و آدمی

گشت محروم از مقامِ محرمی

گر نہ گردد باز مسکیں زیں سفر

نیست از وَے ہیچ کس محروم تر

ترجمہ:

ہے نزولِ آخری میں آدمی

پس ہے محروم مقام محرمی

گر نہ لوٹے اس سفر سے وہ غریب

کیا کہوں بس ہے نہایت بد نصیب

پس تمام مخلوقات میں بہتر بھی انسان ہی ہے اور کائنات میں سب سے بد تر بھی انسان ہی ہے جیسا کہ حبیب رب العالمین حضرت محمد مصطفٰے علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات و التحیات بھی انسانوں میں سے ہی ہیں اور زمین و آسمان کے پرور دگار خدائے پاک کا دشمن ابو جہل لعین بھی انہی میں سے ہے۔ پس لا محالہ جب تک ان سب کی گرفتاری سے نجات حاصل نہ ہو جائے اور ایک ذات کی جو ایک ہونے سے یعنی وحدت؂2 سے بھی منزہ و پاک ہے، کی گرفتاری حاصل نہ ہو جائے اس وقت تک خرابی ہی خرابی ہے لیکن مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ (جو چیز پوری حاصل نہ ہو سکے اس کو بالکلیہ چھوڑا بھی نہ جائے یعنی جس قدر ملے حاصل کر لی جائے) کے موافق اپنی چند روزہ زندگی کو صاحبِ شریعت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و التحیۃ کی متابعت میں بسر کرنا چاہیے کیونکہ آخرت کے عذاب سے رہائی اور دائمی نعمتوں سے کامیابی حاصل کرنا اسی اتباع کی سعادت پر وابستہ ہے۔ پس بڑھنے والے مالوں (نقدی اور سونا چاندی) اور چرنے والے جانوروں کی زکوٰۃ بقدرِ واجب پورے طور پر ادا کرنی چاہیے اور اس کو مالوں اور مویشیوں کے ساتھ تعلق نہ ہونے کا وسیلہ بنانا چاہیے اور لذید کھانوں اور نفیس کپڑوں میں نفس کی لذت ملحوظ نہیں رکھنی چاہیے بلکہ کھانے اور پینے کی چیزوں میں اس کے سوا اور کوئی نیت نہ ہونی چاہیے کہ عبادات کے ادا کرنے پر قوت حاصل ہو، اور نفیس کپڑوں کو آیتِ کریمہ: ﴿خُذُوا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾ (الأعراف: 31) "اَيْ عِنْدَ کُلِّ صَلَوۃٍ" ترجمہ: ”ہر مسجد یعنی نماز کے وقت اپنی زینت حاصل کر لیا کرو“۔ کے حکم کے مطابق مذکورہ و مامورہ آیت زینت کی نیت پر پہننا چاہیے اور کسی نیت کو اس میں نہیں ملانا چاہیے۔ اور اگر نیت کی حقیقت میسر نہ ہو تو اپنے آپ کو تکلف کے ساتھ اس نیت پر لانا چاہیے: "فَاِنْ لَّمْ تَبْكُوْا فَتَبَاکُوا"؂3 ترجمہ: ”پس اگر خود بخود رونا نہ آئے تو تکلف کے ساتھ روو (یعنی رونے والوں کی شکل بناؤ)“ اور ہمیشہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا و تضرع (آہ و زاری) کرتے رہنا چاہیے کہ حقیقی نیت حاصل ہو جائے اور تکلف جاتا رہے؎

می تواند کہ دہد اشکِ مرا حُسنِ قبول

آں کہ دُر ساختہ است قطرۂ بارانی را

ترجمہ:

کیا عجب ہو جائے گر مقبول یہ گریہ مرا

قطرۂ باراں کو تو نے لؤ لوے لالہ کیا

علیٰ ہذا القیاس تمام امور میں دین دار علماء کے فتوے کے مطابق جنھوں نے عزیمت کا راستہ اختیار کیا ہے اور رخصت سے پرہیز کیا ہے، زندگی بسر کرنی چاہیے اور اس کو آخرت کی دائمی نجات کا وسیلہ بنانا چاہیے: ﴿مَا یَفْعَلُ اللہُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَ آمَنْتُمْ﴾ (النساء: 147) ترجمہ: ”اگر تم شکر گزار بنو اور (صحیح معنی میں) ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر آخر کیا کرے گا؟“۔

؂1 اس حدیث کو امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے احیاء العلوم میں ذکر کیا ہے لیکن اس میں لَا یَسَعُنِيْ کی بجائے لَمْ یَسَعْنِيْ ہے اور وَ لٰکِنْ یَّسَعُنِيْ کی بجائے وَسِعَنِيْ ہے اور دیگر کتبِ حدیث مسند الفردوس اور مسند احمد وغیرہ میں دوسرے الفاظ کے ساتھ اسی معنی کی روایت مذکور ہے۔

؂2 یہاں ایک دقیق نکتہ ہے، وہ یہ کہ ایک کا استعمال اس جگہ کیا جاتا ہے جہاں دو، تین، چار کا امکان موجود ہو لیکن جہاں سرے سے دو، تین، چار کا کوئی امکان ہی نہ ہو تو پھر وہاں ایک کی صفت استعمال کرنا غیر ضروری بلکہ غلط ہو گا۔ واحد (ایک) منقسم ہے اور احد (یکتا، اکیلا) غیر منقسم جو حق تعالیٰ سبحانہٗ کی شایان شان ہے۔

؂3 اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو شروع میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے۔