مکتوب 58
جناب سیادت مآب سید محمود1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ یہ راہ جس کے طے کرنے کے ہم درپے ہیں کل سات قدم ہے اور اس بیان میں کہ دوسرے سلسلوں کے مشائخ کے بر خلاف مشائخِ نقشبندیہ نے سیر کی ابتدا عالَمِ امر سے اختیار کی ہے اور ان بزرگوں کا طریقہ (بعینہ) اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔
آپ کا بزرگ عنایت نامہ صادر ہوا، چونکہ اُس سے اس بزرگ گروہ (حضراتِ نقشبندیہ) کی باتیں سننے کا شوق معلوم ہوا، اس لئے آپ کی خواہش پوری کرنے اور مقصود کی طرف رغبت دلانے کے لئے چند باتیں تحریر کی جاتی ہیں۔
میرے مخدوم! یہ راستہ جس کے طے کرنے کے ہم درپے ہیں انسان کے سات لطیفوں کی تعداد کے مطابق (یعنی 1۔قلب، 2۔روح، 3۔سِر، 4۔خفی، 5۔اخفٰی، اور 6۔قالب و 7۔نفس) کل سات قدم ہیں (جن میں سے) دو قدم عالمِ خلق میں ہیں جو کہ قالب یعنی بدنِ عنصری اور نفس سے تعلق رکھتے ہیں اور پانچ قدم عالَم امر میں ہیں جو کہ (لطائف) 1۔قلب، 2۔روح، 3۔سِر، 4۔خفی، 5۔اخفٰی، کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ان سات قدموں میں سے ہر ایک قدم میں دس ہزار پردے پھاڑنے پڑتے ہیں خواہ وہ پردے نورانی ہیں یا ظلمانی2۔ "إِنَّ لِلّٰہِ سَبْعِیْنَ اَلْفَ حِجَابٍ مِّنْ نُّوْرٍ وَّ ظُلْمَةٍ"3 ترجمہ: ”بے شک اللہ تعالیٰ کے لئے نور و ظلمات کے ستّر ہزار پردے ہیں“۔
اور پہلا قدم جو عالمِ امر میں رکھتے ہیں (اس میں) تجلّئ افعال ظاہر ہوتی ہے اور دوسرے قدم میں تجلّئ صفات اور تیسرے قدم میں تجلیاتِ ذاتیہ میں (سیر) شروع ہوتی ہے علیٰ ہذا القیاس۔ باقی لطائف میں ان کے درجات کے تفاوت کے لحاظ سے ترقی ہو جاتی ہے جیسا کہ اس راستہ کے سالکوں پر مخفی نہیں ہے، اور ان سات قدموں میں سے ہر ایک قدم پر (سالک) اپنے آپ سے دُور اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے نزدیک ہوتا جاتا ہے، یہاں تک کہ ان قدموں کے پورا ہونے تک حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا قرب بھی پورے طور پر حاصل ہو جاتا ہے۔ پس اس وقت وہ فنا و بقا سے مشرف ہو جاتے ہیں اور ولایتِ خاصہ کے درجے تک پہنچ جاتے ہیں۔
سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے مشائخ کرام قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم نے دوسرے سلسلوں کے مشائخ کرام قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے بر خلاف اس سیر کی ابتدا عالمِ امر سے اختیار کی ہے اور عالمِ خلق کو بھی اسی سیر کے ضمن میں طے کر لیتے ہیں، اسی لئے طریقہ نقشبندیہ سب طریقوں سے اقرب ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی نہایت ان کی ابتدا میں درج ہو گئی ہے۔ مصرع
قیاس کن زِ گلستانِ من بہارِ مرا
ترجمہ:
قیاس کر میرے گلشن سے تو بہار مری
ان بزرگوں کا طریقہ بعینہ اصحابِ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کا طریقہ ہے کیونکہ ان حضرات (اصحاب کرام رضی اللہ عنہم) کو حضرت خیر البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کی پہلی ہی صحبت میں انتہا کے ابتدا میں درج ہونے کے طریق پر وہ کمال حاصل ہو جاتا تھا جو امّت کے کامل اولیاء اللہ کو انتہا میں بھی شاذ و نادر ہی حاصل ہوتا ہے۔ اسی لئے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) کا قاتل وحشی4 جو ایک ہی مرتبہ حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا خواجہ اویس قرنی5 رحمہ اللہ سے جو کہ تابعین میں سب سے بہتر ہیں (کئی درجے) افضل ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک6 علیہ الرحمۃ سے پوچھا گیا کہ حضرت امیر معاویہ7 رضی اللہ عنہ افضل ہیں یا حضرت عمر بن عبد العزیز8 رضی اللہ عنہ (یعنی ان دونوں میں کون افضل ہے) تو آپ نے فرمایا: "وہ گرد و غبار جو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھ (جہاد کے سفر میں) امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی ناک میں پڑا ہے وہ عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ سے کئی درجہ بہتر ہے"۔ پس سوچنا چاہیے کہ جس گروہ کی ابتدا میں دوسروں کی انتہا درج ہو تو ان کی انتہا کہاں تک ہو گی اور دوسروں کی علم و فہم میں کس طرح سمائے گی۔ ﴿وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ إِلَّا ھُوَ﴾ (المدثر: 31) ترجمہ: ”اور تمہارے پرور دگار کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا“۔؎
قاصرے گر کند ایں طائفہ را طعن و قصور
حَاشَ لِلہ کہ بر آرم بزباں ایں گلہ را
ہمہ شیرانِ جہاں بستہ ایں سلسلہ اند
روبہ از حیلہ چساں بگلسد ایں سلسلہ را
ترجمہ:
اگر کوئی ناداں کرے طعن اس گروہ ِ پاک پر
حاش للہ گر زباں پر لاؤں میں اس کا گِلہ
کل جہاں کے شیر وابستہ ہیں اس زنجیر سے
لومڑی توڑے گی کیونکر مکر سے یہ سلسلہ
رَزَقَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ مَحَبَّةَ ھَذِہِ الطَّائِفَةِ الْعَزِیْزِ وُجُوْدُھَا (حق تعالیٰ ہم کو اور آپ سب کو اس عزیز الوجود گروہ کی محبت عطا فرمائے) کاغذ اگرچہ چھوٹا ہے لیکن (اس پر) اعلیٰ معارف اور بلند قدر حقائق درج ہوئے ہیں، امید ہے کہ اُن کو عزیز رکھیں گے، وَ السَّلَامُ۔
1 مکتوبات شریفہ میں کل پانچ مکتوب آپ کے نام ہیں، دفتر اول میں میں 58، 59، 60 اور 61، اور دفتر دوم میں 83 نمبر کا مکتوب ہے۔ غالبا آپ سید محمود بارہہ ہیں۔ سنبھل وطن تھا، شجاعت و سخاوت میں مشہور تھے۔ اکبر نے پانچ ہزاری کی خلعت سے نوازا۔ ایک مرتبہ کسی نے مذاق میں آپ سے کہہ دیا کہ آپ سادات سے نہیں معلوم ہوتے، آپ اس وقت اس آگ میں جا کر کھڑے ہو گئے جو ملنگ فقیر دھونی کے لیے جلائے رکھتے ہیں اور فرمایا: "اگر سیدم آتش کارگر نیست و اگر سید نیستم می سوزم، دلیلِ دیگر از حسب و نسب ندارم" تقریبًا ایک ساعت اس آگ میں کھڑے رہے، لوگوں نے منت سماجت کی تو باہر آئے۔ مخملی جوتا جو آپ کے پاؤں میں تھا اس کا رُواں تک نہ جلا۔ (ذخیرۃ الخوانین، جلد: 2، صفحہ نمبر: 182) سنہ 1040ھ میں وفات پائی۔
2 جاننا چاہیے کہ زمانی پردوں سے مراد وہ غفلت کے پردے ہیں جو کہ انسان کے دس لطیفوں کی دولت سے پیدا ہوتے ہیں اور نورانی پردوں سے مراد اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کے پردے ہیں۔ (قاضی ثناء اللہ پانی پتی) واضح ہو کہ لطائف عشرہ کو لطائف سبعہ کی طرف راجع کرتے ہیں، یعنی پانچ عالمِ امر کے اور دو عالمِ خلق کے، پس ان ساتوں لطیفوں میں سے ہر ایک کے حصے میں دس ہزار حجاب ہوئے۔
3 یہ حدیث قدسی حضرت جبرئیل علیہ السلام کے قول سے مشکوٰۃ شریف میں مروی ہے۔ علامہ ابن حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کو ایک طویل حدیث میں بیان کیا ہے۔
4 حضرت وحشی رضی اللہ عنہ ابن حرب مولیٰ جبیر ابن مطعم نے کفر کی حالت میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو غزوہ احد میں شہید کر دیا تھا۔ اس کے بعد آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کیا اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں مسیلمہ کذاب کو جہنم واصل کیا۔
5 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا کہ تابعین میں سب سے بہتر ایک شخص اویس نامی ہے۔ اس کی والدہ اس کے ساتھ ہے اور اس کے جسم پر سفید داغ ہے۔ پس تم اس سے دعائے مغفرت کی درخواست کرنا۔ (مشکوٰۃ)
6 حضرت عبد اللہ بن مبارک تبع تابعین میں بلند درجہ رکھتے تھے، بمقام مرو سنہ 118ھ میں ولادت ہوئی، اپنے وقت کے بڑے بڑے علماء سے دینی علوم حاصل کئے اور علمِ حدیث میں امتیازی درجہ پایا۔ زہد و تقویٰ اور عبادت و ریاضت میں صحابہ کرام کا نمونہ تھے۔ سنہ 181ھ میں 63 سال کی عمر میں وفات پائی۔
7 حضرت امیر معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہما فتح مکہ کے دن ایمان لائے، آپ کاتبانِ وحی میں سے ہیں۔ جمادی الأولی سنہ 41ھ میں تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور ستتر (77) سال کی عمر میں رجب سنہ 60ھ کو انتقال ہوا۔
8 حضرت عمر بن عبد العزیز بن مروان بن حکم بن ابی العاص اموی امیر المومنین، خلیفۂ مسلمین ہوئے ہیں۔ اپنے زمانے کے قطب تھے اور خلفائے راشدین میں آپ کو شمار کیا جاتا ہے۔ سنہ 61ھ یا سنہ 63ھ میں حلوان مضافاتِ مصر میں ولادت ہوئی۔ سنہ 99ھ میں خلافت ملی اور سنہ 102ھ میں وفات پائی۔