دفتر 1 مکتوب 59: اس بیان میں کہ آدمی کو نجاتِ ابدی حاصل کرنے کے لئے تین چیزیں لازمی ہیں اور اس بیان میں کہ اہلِ سنت و جماعت کی پیروی کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے، اور اس بیان میں کہ علم و عمل شریعت سے حاصل ہوتے ہیں اور اخلاص طریقہ صوفیہ پر چلنے سے وابستہ ہے، اور اس بیان میں کہ عمل کا اخلاص اولیاء اللہ کو تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات میں حاصل ہے

مکتوب 59

یہ مکتوب بھی سید محمود کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ آدمی کو نجاتِ ابدی حاصل کرنے کے لئے تین چیزیں لازمی ہیں اور اس بیان میں کہ اہلِ سنت و جماعت کی پیروی کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے، اور اس بیان میں کہ علم و عمل شریعت سے حاصل ہوتے ہیں اور اخلاص طریقہ صوفیہ پر چلنے سے وابستہ ہے، اور اس بیان میں کہ عمل کا اخلاص اولیاء اللہ کو تمام افعال و اعمال اور حرکات و سکنات میں حاصل ہے۔

حق سبحانہٗ و تعالیٰ حضرت محمد مصطفٰے علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کی شریعت کے سیدھے راستے پر استقامت نصیب فرما کر کامل طور پر اپنی پاک بار گاہ کا گرفتار بنائے۔

آپ کا مکتوب شریف اور محبت نامۂ لطیف صادر ہو کر خوشی کا باعث ہوا اور فقرا کے ساتھ آپ کی محبت کی تمہیدات اور اس بلند مرتبہ گروہ کے ساتھ آپ کا اخلاص واضح ہوا، اللہ تعالیٰ (اس محبت و اخلاص کو) اور زیادہ کرے۔

آپ نے فوائد (یعنی پند و نصائح) طلب کئے تھے، اے میرے مخدوم! انسان کو ابدی نجات حاصل کرنے کے لئے تین چیزیں لازمی ہیں: ۱۔علم، ۲۔عمل اور ۳۔ اخلاص۔

علم بھی دو قسم کا ہے: ایک وہ علم ہے جس سے مقصود عمل ہے، جس کا متکفل (ذمہ دار) علمِ فقہ ہے، دوسرا علم وہ ہے جس سے مقصود صرف اعتقاد اور دل کا یقین حاصل ہونا ہے، جو علمِ کلام (عقائد کے علم) میں فرقہ ناجیہ اہلِ سنت و جماعت کے صحیح قیاس و عقائد کے موافق تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ ان بزرگانِ دین کے اتباع کے بغیر نجات حاصل ہونا محال ہے اور اگر بال برابر بھی ان کی مخالفت ہے تو خطرہ ہی خطرہ ہے۔ یہ بات صحیح کشف اور صریح الہام کے ساتھ بھی یقین کے درجے کو پہنچ چکی ہے، اس میں کسی قسم کے اختلاف کا شبہ و گنجائش نہیں ہے۔

پس اس شخص کے لئے خوش خبری ہے جس کو ان کی پیروی کی توفیق حاصل ہوئی اور ان کی تقلید سے مشرف ہوا اور اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جس نے ان کی مخالفت کی اور ان سے منحرف ہو گیا اور ان کے اصولوں سے رو گردانی کی اور ان کے گروہ سے نکل گیا۔ لہذا وہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور انھوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔ چنانچہ انھوں نے (آخرت میں) رویتِ باری تعالیٰ اورشفاعت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا انکار کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کی فضیلت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی افضلیت ان پر پوشیدہ رہی اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اہل بیت کی محبت اور حضرت بتول (فاطمۃ الزہرا؂1 رضی اللہ عنہا) کی اولاد کی دوستی سے محروم رہے۔ غرض وہ اس بڑی نیکی سے محروم کر دیئے گے جو اہلِ سنت و جماعت نے حاصل کی۔

تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اُن میں سب سے افضل حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے جو کہ صحابہ کرام کے حالات کے بارے میں سب سے زیادہ جاننے والے ہیں، فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگ بہت بے قرار ہو گئے تھے (کہ کس کو اپنا امیر بنائیں) پس انھوں نے آسمان کی چھت کے نیچے حضرت ابو بکر صدیق؂2 رضی اللہ عنہ سے بہتر و بزرگ کوئی شخص نہ پایا لہذا انھوں نے ان کو اپنا والی بنا لیا۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا یہ قول اس بات پر صریح نص ہے کہ تمام صحابہ کرام حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے افضل ہونے پر متفق ہیں، پس ان کی افضلیت پر اجماع صدرِ اول میں ثابت ہو چکا ہے لہذا یہ اجماع قطعی ہوا جس کا انکار جائز نہیں ہے۔

اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی مثال حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی مانند ہے، جو اس پر سوار ہوا وہ نجات پا گیا اور جو اس سے دُور رہا وہ ہلاک ہو گیا۔ بعض عارفوں نے فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کو ستاروں کی مانند قرار دیا اور لوگ ستاروں سے راستے (کی سمت) معلوم کرتے ہیں، اور اہلِ بیت عظام کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سے تشبیہ دی ہے، اس میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ کشتی کے سوار کے لئے ستاروں کی رعایت رکھنا ضروری ہے تاکہ وہ ہلاک ہونے سے بچ جائے اور ستاروں کو مدِّ نظر رکھے بغیر نجات (ہلاکت سے بچنا) قطعی نا ممکن ہے۔

اور یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ بلا شبہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کے انکار سے تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کا انکار لازم آتا ہے کیونکہ حضرت خیر البشر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت کی فضیلت میں سب صحابہ مشترک ہیں اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی) صحبت کی فضیلت تمام فضیلتوں اور کمالات سے بڑھ کر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ جو کہ تمام تابعین میں بہتر ہیں، آنسرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے ادنیٰ صحابی کے مرتبے کو نہیں پہنچے۔ پس صحبت کی فضیلت کے برابر کوئی چیز نہیں ہے اور نہ ہو سکتی ہے، کیونکہ ان کا ایمان نبی علیہ الصلوۃ و السلام کی صحبت اور نزولِ وحی کی برکت سے شہودی ہو گیا تھا، اور صحابہ کرام کے بعد کسی کو ایمان کا یہ مرتبہ نصیب نہیں ہوا، اور اعمال ایمان پر مرتب ہوتے ہیں (یعنی اعمال ایمان کے ثمرات و نتائج ہیں) اور ان کا کمال ایمان کے کمال کے مطابق ہوتا ہے۔

اور جو لڑائی جھگڑے (مثلًا جنگ جمل و صفین و غیرہ) اُن صحابہ کرام) کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ سب نیک گمانوں اور کامل حکمتوں پر محمول ہیں۔ وہ نفسانی خواہشات اور جہالت سے صادر نہیں ہوئے تھے بلکہ اجتہاد و علم کی رُو سے تھے اور اگر ان میں سے بعض حضرات نے اجتہاد میں خطا کی ہے تو اجتہاد میں خطا کرنے والے کے لئے بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے نزدیک ایک درجہ ثواب ہے۔ یہی افراط و تفریط کے درمیان سیدھا راستہ ہے جس کو اہلِ سنت و جماعت نے اختیار کیا ہے اور یہی زیادہ سلامتی کا طریقہ اور زیادہ مضبوط راستہ ہے۔ غرض کہ علم و عمل (دونوں) شریعت سے حاصل ہوتے ہیں، اور اخلاص جو کہ علم و عمل کے لئے روح کی طرح ہے، اس کا حاصل ہونا صوفیہ کے طریقہ پر چلنے سے تعلق رکھتا ہے۔ (سالک) جب تک سیر الی اللہ؂3 قطع نہ کر لے اور سیر فی اللہ حاصل نہ ہو جائے اخلاص کی حقیقت سے دُور اور مخلصوں کے کمالات سے محروم ہے۔ ہاں عام مؤمنوں کو بھی تعمل و تکلف کے ساتھ بعض اعمال میں مجمل طور پر اخلاص حاصل ہو جاتا ہے لیکن جس اخلاص کو ہم بیان کر رہے ہیں وہ تمام اقوال و افعال اور حرکات و سکنات میں تکلف و بناوٹ کے بغیر اخلاص ہے، اور یہ اخلاص آفاقی و انفسی معبودوں کی نفی کرنے پر موقوف ہے جو فنا و بقا کے ساتھ وابستہ ہے اور ولایتِ خاصہ کے مرتبے تک پہنچنا ہے۔ جو اخلاص حیلہ و تکلف کا محتاج ہے وہ ہمیشہ قائم نہیں رہتا۔ (اخلاص میں) دوام (ہمیشگی) حاصل ہونے میں جو کہ مرتبۂ حق الیقین میں ہوتا ہے، بے تکلّف ہونا ضروری ہے۔

پس اولیاء اللہ جو کچھ کرتے ہیں حق سبحانہ و تعالیٰ کے لئے کرتے ہیں نہ کہ اپنے نفس کے لئے کیونکہ ان کا نفس حق تعالیٰ پر قربان ہو چکا ہے۔ اخلاص حاصل ہونے میں ان کے لئے نیت کا صحیح کرنا ضروری نہیں ہے ان کی نیت فنا فی اللہ و بقا با للہ سے درست ہو چکی ہے۔ مثلًا جو شخص اپنے نفس کا گرفتار ہے وہ جو کچھ کرتا ہے اپنے نفس کے لئے کرتا ہے خواہ وہ اس کی نیت کرے یا نہ کرے، اور جب یہ نفس کی گرفتاری سے دور ہو جائے اور حق سبحانہ و تعالیٰ کی گرفتاری اس کی جگہ قائم ہو جائے تو بالضرور وہ جو کچھ کرے گا حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لئے کرے گا خواہ وہ اس کی نیت کرے یا نہ کرے، نیت کا ہونا ظنی امر میں ضروری ہے یقینی و متعین امر میں تعین نیت کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ اللّٰہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعۃ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

دائمی اخلاص والا شخص مخلَص بفتح لام ہے اور جس شخص کو دوام حاصل نہیں ہے اور (ابھی) اخلاص کا کسب کرتا ہے وہ مخلِص بکسرِ لام ہے اور ان دونوں کے درمیان بڑا فرق ہے۔ اور صوفیہ کے طریقہ سے جو نفع علم و عمل میں حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ علمِ کلام و استدلال سے تعلق رکھنے والے علوم کشفی ہو جاتے ہیں، اور اعمال کے ادا کرنے میں نہایت آسانی پیدا ہو جاتی ہے اور جو سُستی نفس و شیطان کی جانب سے واقع ہوتی ہو وہ دُور ہو جاتی ہے۔ ع

ایں کارِ دولت است کنوں تا کرا رسد

ترجمہ:

یہ ہے عظیم کام، ملے دیکھئے کسے

وَ السَّلَامُ أَوَّلًا وَّ آخِرًا (اور اول و آخر (یعنی ہر حالت میں) سلامتی ہو)

؂1 حضرت سیدۃ النساء فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی عظمت و بزرگی اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحب زادی ہیں۔ سنہ 2ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے شادی ہوئی، اولادِ امجاد میں حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ دو صاحب زادے اور دو صاحب زادیاں حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور حضرت زینب رضی اللہ عنہا ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے چھ ماہ بعد رمضان المبارک سنہ 11ھ میں انتقال فرمایا۔

؂2 حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی عبد اللہ تھا، آپ کا سلسلۂ نسب ساتویں پشت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے سے مل جاتا ہے۔ یہ فخر صرف آپ ہی کو حاصل ہے کہ آپ کے والدین اور اولاد سب صحابی ہیں۔ کیونکہ داماد کے مقابلے میں خسر کا مرتبہ بڑا ہوتا ہے، اس اعتبار سے آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفۂ اول ہوئے، پھر دوسرے خسر حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفۂ دوم ہوئے، پھر دامادوں میں حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ سوم، بعد ازاں دوسرے داماد حضرت علی رضی اللہ عنہ خلیفۂ چہارم ہوئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دو سال تین ماہ نو دن سریر آرائے خلافت رہ کر 63 سال کی عمر میں 23 جمادی الأخریٰ سنہ 13ھ کو وصال فرمایا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن ہونے کی سعادت سے مشرف ہوئے۔

؂3 سیر الی اللہ اور سیر فی اللہ کی تحقیق دفتر اول مکتوب 144 میں درج ہے۔