مکتوب 54
یہ مکتوب بھی سرداری کی پناہ والے شیخ فرید کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ بدعتی کی صحبت سے بچنا لازم و ضروری ہے، بدعتی کی صحبت کا ضرر کافر کی صحبت کے ضرر سے بھی بڑھ کر ہے اور بدعتی فرقوں میں سب سے بد ترین فرقہ شیعہ شنیعہ ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب سید البشر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل جو کجئ چشم سے پاک ہیں آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے اور آپ کی قدر و منزلت بلند کرے اور آپ کے کام میں آسانی عطا فرمائے اور آپ کو شرح صدر مرحمت فرمائے۔ "مَنْ لَّمْ یَشْکُرِ النَّاسَ لَمْ یَشْکُرِ اللّٰہَ"1 ترجمہ: ”جو شخص لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ تعالیٰ کا شکر بھی بجا نہیں لاتا“۔ پس ہم فقیروں پر آپ کے احسانات کا شکر (دو وجہ سے) لازم ہے۔ اول اس لئے کہ ہمارے حضرت خواجہ (پیر و مرشدنا خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ) کی ظاہری جمعیت کا سبب آپ ہی ہوئے ہیں، ہم نے آپ ہی کے طفیل اس (ظاہری) جمعیت (کی حالت) میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طلب کی اور بہت سے فائدے حاصل کئے۔ دوسرے "کُبِّرْتُ بِمَوْتِ الْکُبَرَاءِ" (بڑوں کی موت کی وجہ سے میں بڑا سمجھ لیا گیا ہوں) کے مصداق جب نوبت اس طبقہ (حضرت مجدد قدس سرہ) تک پہنچی تو فقرا کے اجتماع کا ذریعہ اور طالبان (طریقت) کے انتظام کا باعث بھی آپ ہی ہیں جَزَاکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَنَّا خَیْرَ الْجَزَاءِ (یعنی حق تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے جزائے خیر عطا فرمائے)؎
گر بر تنِ من زباں شود ہر موئے
یک شکرِ تو از ہزار نتوانم کرد
ترجمہ:
ہر رُؤاں تن کا گر زباں ہو جائے
شکر کیا ہو ادا ہزار سے ایک
آرزو یہی ہے کہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کو آپ کے جد بزرگوار سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل دنیا و آخرت میں نا مناسب و نا شائستہ امور سے محفوظ رکھے۔
یہ فقیر آپ کی صحبت با عظمت سے دور پڑا ہوا ہے، معلوم نہیں کہ آپ کی مجلس شریف میں کس قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور خلوت و جلوت میں آپ کا غم خوار کون ہے؎
خوابم بشد از دیدہ دریں فکرِ جگر سوز
کآغوشِ کہ شد منزل و آ سائش خوابت
ترجمہ:
تمام شب مجھے اس فکر میں نہ نیند آئی
کہ کس کی گود میں تو نے گزاری رات اپنی
یقین جانئے کہ بدعتی کی صحبت کا فساد کافر کی صحبت کے فساد سے بھی زیادہ ہے، اور تمام بدعتی فرقوں میں سب سے بُرا وہ فرقہ ہے جو پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ بُغض رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ خود قرآن مجید میں ان کو کفار کے نام سے موسوم فرماتا ہے: (یعنی) ﴿لِیَغِیْظَ بِھِمُ الْکُفَّارَ﴾ (الفتح: 29) ترجمہ: ”تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی سے) کافروں کا دل جلائے“۔ قرآن مجید اور شریعت کی تبلیغ اصحابِ (کرام) ہی نے کی ہے، جب ان پر طعن کیا جائے گا تو قرآن و شریعت پر طعن لازم آئے گا۔ قرآن مجید کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جمع کیا ہے، اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مطعون ہوں گے تو قرآن مجید بھی مطعون ہو گا، أَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَمَّا یَعْتَقِدُ الزَّنَادِقَةُ (اللہ تعالیٰ ہمیں ان زندیقوں کے اعتقادات سے بچائے)
جو اختلافات اور جھگڑے اصحاب کرام علیہم الرضوان کے درمیان واقع ہوئے تھے وہ نفسانی خواہشوں پر محمول نہیں ہیں (اس لئے کہ) حضرت سید البشر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی صحبت (با برکت) میں (رہ کر) ان کے نفسوں کا تزکیہ ہو گیا تھا اور (اُن کا نفس) امّارہ پن سے آزاد ہو چکا تھا۔ میں اس قدر جانتا ہوں کہ اس معاملے میں حضرت امیر (سیدنا علی رضی اللہ عنہ) حق پر تھے اور ان کے مخالف (حضرت امیر معاویہ وغیرہ رضی اللہ عنہم) خطا پر تھے۔ لیکن یہ خطا، خطائے اجتہادی ہے جو (ان کو) فسق کی حد تک نہیں پہنچاتی، بلکہ اس قسم کی خطا میں ملامت کی بھی گنجائش نہیں ہے کیونکہ ایسی خطا کرنے والے کو بھی ثواب کا ایک درجہ حاصل ہے۔ اور یزید بد نصیب اصحاب کرام رضی اللہ عنہم میں سے نہیں ہے، اس کی بد بختی میں کس کو کلام ہے، جو کام اس بد بخت نے کیا (یعنی واقعہ کربلا) کوئی کافِر فرنگ بھی نہیں کرتا۔ اہلِ سنت و جماعت کے بعض علما نے جو اس پر لعنت کرنے کے بارے میں توقف کیا ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس سے راضی ہیں بلکہ اس کے اپنے کئے سے رجوع و پشیمانی اور توبہ کے احتمال کی رعایت کرتے ہوئے کیا ہے۔
آپ کی مجلس شریف میں قطب زمان بندگی مخدوم جہانیاں2 (قدس سرہ العزیز) کی معتبر کتابوں میں سے ہر روز کچھ پڑھا جانا چاہیے، تاکہ (لوگوں کو) معلوم ہو جائے کہ انھوں نے پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے اصحابِ کرام کی کس طرح تعریف کی ہے اور کس ادب کے ساتھ اِن کو یاد کیا ہے، تاکہ (صحابہ رضی اللہ عنہم کے) بد خواہ مخالفین شرمندہ و ذلیل ہوں۔ اس زمانے میں اس بد اندیش گروہ (رافضیوں) کی بہت کثرت ہو گئی ہے اور گرد و نواح میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اسی لئے اس بارے میں چند کلمات لکھے گئے ہیں تاکہ آپ کی صحبتِ مبارکہ میں اس قسم کے بد اندیش لوگوں کے لئے کوئی گنجائش نہ ہو۔ ثَبَّتَکُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَی الطَّرِیْقَةِ الْمَرْضِیَّةِ (اللہ تعالیٰ آپ کو پسندیدہ طریقے پر (اہل سنت و جماعت کے طریقہ پر) ثا بت قدم رکھے)۔
1 اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو ترمذی نے ابواب البر و الصلۃ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔ اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس کو روایت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں: "مَنْ لَّا یَشْکُرُ النَّاسَ لَا یَشْکُرُ اللّٰہَ"۔ اور کہا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
2 حضرت میر سید جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو حضرت شیخ جلال الدین شریف اللہ سرخ بخاری اُوچی کے پوتے ہیں اور سید احمد کبیر بن سید جلال الدین سرخ برادر حقیقی سید صدر الدین کے صاحب زادے ہیں۔ آپ پیدائشی ولی تھے، بچپن سے بزرگی کے آثار آپ کی پیشانئ حال سے نمایاں تھے۔ آپ سات سال کے تھے کہ آپ کے والد بزرگوار آپ کو شاہ جمال الدین خنداں رُو کی خدمت میں لے گئے اور ان کی دست بوسی سے مشرف کرایا۔ شیخ بہت خوش ہوئے اور مخدوم کے حق میں دعا فرمائی کہ تم خاندان اور مشائخ عظام کے خاندان کو روشن کرو گے۔ جاننا چاہیے کہ حضرت مخدوم جہانیاں چودہ خانوادوں میں خلیفہ تھے۔ آپ نے دو مرتبہ ربع مسکون کی سیر کی اور سینکڑوں فقرا اور مشائخ کو دیکھا اور ان سے فیوض و برکات حاصل کیں اور کلاہ و خرقۂ خلافت پایا لیکن آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ سے محبت و اعتقاد تھا۔ آپ کی ولادت سنہ 707ھ اور وفات سنہ 785ھ یا 788ھ میں ہوئی۔(خزینۃ الأصفیاء بتغیر) یہ عجیب بات ہے کہ بہاول پور والے اچ میں بھی حضرت جلال الدین بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے اور ریاست دیر والے اوچ کے قریب تالاش میں بھی ان کا مزار ہے۔