مکتوب 53
یہ مکتوب بھی سرداری کی نسبت والے شیخ فرید کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ برے علماء کا اختلاف دنیا کی تباہی کا باعث ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔
ثَبَّتَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَلَی جَادَّۃِ آبَآءِکُمُ الْکِرَامِ (اللہ سبحانہ آپ کو بزرگ آبا و اجداد کے راستہ پر ثابت قدم رکھے)۔ سنا گیا ہے کہ بادشاہِ اسلام (جہانگیر) نے مسلمانی کی نیک فطرت پر ہونے کی وجہ سے جو کہ وہ اپنی ذات میں رکھتا ہے، آپ سے فرمایا کہ "دین دار علما میں سے چار شخص (علما) مہیا کریں جو کہ دربارِ شاہی میں حاضر رہ کر شرعی مسائل بیان کیا کریں تاکہ (بادشاہ سے) خلافِ شرع کوئی امر واقع نہ ہو۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَہٗ عَلَی ذَالِکَ (اس پر اللہ سبحانہ کی حمد و ثنا ہے)
مسلمانوں کے لئے اس سے بڑھ کر اور کون سی خوشی ہو گی اور ماتم زدوں کو اس سے بہتر اور کونسی خوش خبری ہو گی، لیکن چونکہ یہ فقیر بھی اسی (دینی) غرض کے لئے آپ کی خدمتِ عالیہ کی طرف متوجہ ہے جیسا کہ کئی مرتبہ اس امر کا اظہار کیا جا چکا ہے اس لئے اس بارے میں کہنے اور لکھنے سے اپنے آپ کو ہرگز معاف نہیں رکھ سکے گا، امید ہے کہ مجھے معذور قرار دیں گے کیونکہ "صَاحِبُ الْغَرْضِ مَجْنُوْنٌ" (غرض مند دیوانہ ہو تا ہے)، (یہ فقیر) عرض کرتا ہے کہ ایسے دین دار عالم جو حُبِّ جاہ و ریاست سے خالی ہوں اور شریعت کی ترویج اور ملتِ (اسلامیہ) کی تائید کرنے کے علاوہ اور کچھ مطلب نہ رکھتے ہوں بہت کم بلکہ کم سے کم ہیں۔ حُبِّ جاہ ہونے کی صورت میں ان علما میں سے ہر ایک اپنی ایک الگ لائن اختیار کرے گا اور اپنی بزرگی کا اظہار کرے گا اور اختلافی باتیں درمیان میں لا کر اس کو بادشاہ کے قرب کا وسیلہ بنائے گا، لا محالہ دین کی مہم ضائع ہو جائے گی۔
گزشتہ زمانے (عہدِ اکبری) میں بھی علما کے اختلافات نے دنیا کو بلا و مصیبت میں ڈال دیا تھا اور (اب بھی) وہی بُرے علما کی صحبت کا اندیشہ در پیش ہے۔ اس صورت میں (شریعت کی) ترویج کی کیا گنجائش ہے، بلکہ (یہ) دین کی خرابی کا باعث ہو گا، وَ الْعِیَاذُ بِاللّٰہِ سُبْحَانَہٗ مِنْ ذَالِکَ وَ مِنْ فِتْنَةِ الْعُلَمَآءِ السُّوٓءِ (اللہ تعالیٰ سبحانہ اس امر سے اور بُرے علماء کے فتنہ سے بچائے)
اگر اس غرض کے لئے (صرف) ایک عالمِ (دین) کا انتخاب کر لیں تو بہتر معلوم ہوتا ہے اور اگر علمائے آخرت میں سے (یعنی جو دنیا سے بے رغبت ہو) کوئی دستیاب ہو جائے تو بہت بڑی سعادت ہے کیونکہ اس کی صحبت سرخ گندھک (یعنی اکسیر کی مانند) ہے اور اگر (ایسا عالم) نہ مل سکے تو صحیح غور و فکر کے بعد اس قسم کے علما (یعنی علماءِ سوء) میں سے کسی بہتر کا انتخاب کر لیں۔ مَا لَا یُدْرَکُ کُلُّہٗ لَا یُتْرَکُ کُلُّہٗ (جو چیز پورے طور پر حاصل نہ ہو سکے اس کو بالکل نہیں چھوڑ دینا چاہیے، یعنی جس قدر بھی حاصل ہو سکے حاصل کر لی جائے)
میں نہیں سمجھتا کہ (اس کے سوا اور) کیا لکھوں (کہ) جس طرح مخلوق کی نجات علما کے وجود کے ساتھ وابستہ ہے، دنیا کا خسارہ بھی انہی پر موقوف ہے۔ علما میں سے بہترین عالم تمام دنیا کے انسانوں میں سب سے بہتر ہے اور علما میں سے بد ترین عالم تمام دنیا کے انسانوں میں سب سے بد تر1 ہے۔ (کیونکہ) ہدایت اور گمراہی ان ہی کی ذات کے ساتھ وابستہ ہے۔ کسی بزرگ نے ابلیسِ لعین کو دیکھا کہ فارغ و بے کار بیٹھا ہے، اس نے اس (بے کاری) کا سبب پوچھا۔ اس (ابلیس) نے جواب دیا کہ اِس وقت کے علما (سوء) میرا کام کر رہے ہیں اور بہکانے و گمراہ کرنے میں وہ کافی ہیں؎
عالم کہ کامرانی و تن پروری کند
او خو یشتن گم است کرا رہبری کند
ترجمہ:
عالمِ جو کامرانی و تن پروری کرے
بھٹکا ہوا ہے آپ وہ کیا رہبری کرے
غرض (امید ہے کہ) اس بارے میں صحیح و کامل غور و فکر سے کام لے کر کوئی قدم اٹھائیں گے، جب کام ہاتھ سے جاتا رہے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں ہو سکتا۔ اگرچہ شرم آتی ہے کہ اس قسم کی باتیں صحیح دانائی و عقل مند حضرات کے سامنے ظاہر کرے لیکن (فقیر) اس مقصد کو اپنی سعادت کا وسیلہ جانتے ہوئے آپ کو تکلیف دیتا ہے۔2
1 اس میں ان احادیث کی طرف اشارہ ہے جو اس بارے میں وارد ہوئی ھیں جیسا کہ حضرت احوص بن حکیم رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں: قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: "أَلَا إِنَّ شَرَّ الشَّرِّ شِرَارُ الْعُلَمَاءِ وَ إِنَّ خَيْرَ الْخَيْرِ خِيَارُ الْعُلَمَاءِ" رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ. (المشکوٰۃ، حدیث نمبر: 267)
2 اس مکتوب میں حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے شریعت کی ترویج و اشاعت کے لئے علماء سے متعلق چند بصیرت افروز نکات بیان فرمائے ہیں: یعنی ایسے علما ہونے چاہئیں جو حبِ جاہ و ریاست سے بے نیاز ہوں اور ترویجِ شریعت کے علاوہ ان کا کوئی مقصد نہ ہو۔ اگر ایسا صرف ایک عالم مل جائے تو کافی ہے اس لیے کہ مخلوق کی ہدایت اور گمراہی دونوں انہی علماء سے وابستہ ہیں۔ بہترین عالم تمام انسانوں سے بہتر ہے اور بد ترین عالم بد ترینِ خلائق ہے۔