مکتوب 43
اس بیان میں کہ توحید دو قسم کی ہے: شہودی اور وجودی، اور جو توحید ضروری ہے وہ توحیدِ شہودی ہے جس کے ساتھ فنا وابستہ ہے۔ توحیدِ شہودی عقل اور شرع کے مخالف نہیں ہے بخلاف توحیدِ وجودی کے، اور ان مشائخ کے اقوال کو جو توحید کے دیکھنے والے ہیں توحیدِ شہودی کی طرف تاویل کرنی چاہیے تاکہ مخالفت کی گنجائش نہ رہے اور توحیدِ شہودی عین الیقین کے مقام میں ہے جو کہ حیرت کا مقام ہے اور جب اس مقام سے گزر کر حق الیقین کے مقام میں پہنچتے ہیں تو اس قسم کے احوال سے کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں، اور اس مضمون کے مناسب سوالات و جوابات اور وضاحت کرنے والی مثالوں کے بیان میں، سرداری کی پناہ والے اور شرافت کے سرمایہ والے شیخ فرید بخاری1 کی طرف صادر فرمایا۔
سَلَّمَکُمُ اللہُ تَعَالیٰ وَ سُبْحَانَہُ وَ عَصَمَکُمْ عَمَّا یَصِمُکُمْ وَ صَانَکُمْ عَمَّا شَانَکُمْ (اللہ تعالیٰ آپ کو (ظاہری و باطنی آفتوں سے) سلامت رکھے اور اس چیز سے بچائے جو آپ کو عیب لگائے اور اس چیز سے محفوظ رکھے جو آپ کے لئے برائی کا سبب ہو)
جو توحید راہِ سلوک طے کرنے کے عرصے میں اس بزرگ گروہ (صوفیائے کرام) کو حاصل ہوتی ہے وہ دو قسم کی ہے: 1۔ توحیدِ وجودی اور 2۔ توحیدِ شہودی۔ توحید شہودی، ایک ذات ہی کو دیکھنا ہے یعنی سالک کو ایک ذات کے سوا کچھ مشہود نہیں ہوتا اور توحیدِ وجودی ایک ہی ذات کو موجود جاننا ہے اور اس کے غیر کو نیست و نا بود سمجھنا (اور اُس ایک ذات کے سوا باقی سب کو) عدم (یعنی نیست و نا بود) جاننے کے با وجود اس کی جلوہ گاہیں اور مظاہر کو ایک سمجھنا ہے۔ پس توحیدِ وجودی علم الیقین2 کی قسم سے ہے اور توحیدِ شہودی عین الیقین کی قسم سے۔ توحیدِ شہودی اس راستے کی ضروریات میں سے ہے کیونکہ فنا اس توحید کے بغیر متحقق نہیں ہوتی، اور مرتبۂ عین الیقین بھی اس کے بغیر میسر نہیں ہوتا کیونکہ اس (ذات) کے غلبے کے باعث ایک کو دیکھنے سے اس کے ما سوا کا نہ دیکھنا لازم آتا ہے بخلاف توحیدِ و جودی کے کہ وہ ایسی نہیں ہے (یعنی اس میں ایسا ہونا ضروری نہیں ہے) کیونکہ علم الیقین اس معرفت کے بغیر حاصل ہے اس لئے کہ (کسی چیز کا) علم الیقین حاصل ہونے سے اس کے ما سوا کی نفی لازم نہیں آتی۔ حاصل کلام یہ ہے کہ اس ایک کے علم کے غلبے کے وقت اس کے ماسوا کے علم کی نفی لازم آتی ہے۔
مثلًا جس شخص کو آفتاب کے وجود کا یقین حاصل ہو گیا تو اس کو اس یقین کے غلبے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ اس وقت ستاروں کو معدوم اور نیست و نا بود جانے، لیکن جس وقت وہ آفتاب کو دیکھے گا تو یہ ضروری ہے کہ وہ ستاروں کو نہیں دیکھ سکے گا اور آفتاب کے سوا اس کو اور کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اور اس وقت جب کہ وہ ستاروں کو نہیں دیکھ رہا ہے جانتا ہے کہ ستارے نیست و نا بود نہیں ہیں بلکہ جانتا ہے کہ ستارے موجود ہیں لیکن چُھپے ہوئے ہیں اور آفتاب کے نور کی روشنی میں مغلوب ہیں، اور یہ شخص اس جماعت (گروہ) کے خیال کا انکار کرتا ہے جو اس وقت میں ستاروں کے وجود کی نفی کرتے ہیں اور جانتا ہے کہ یہ معرفت یعنی ستاروں کے وجود کی نفی کرنا خلافِ واقع ہے۔ پس توحیدِ وجودی کہ جس میں ایک ذات واحد حق تعالیٰ و تقدس کے ما سوا کی نفی کا نام ہے عقل و شرع کے خلاف ہے۔ بخلاف توحیدِ شہودی کے کہ (صرف) ایک دیکھنے میں (عقل و شرع کی) کوئی مخالفت نہیں ہے۔ مثلًا آفتاب کے طلوع ہونے کے وقت ستاروں کی نفی کرنا اور ان کو نیست و نا بود جاننا حقیقت کے خلاف ہے لیکن ستاروں کو اس وقت نہ دیکھنے میں (عقل و شرع کی) کچھ مخالفت نہیں ہے بلکہ یہ نہ دیکھنا آفتاب کے نور کے ظاہر ہونے کے غلبے اور دیکھنے والے کی نگاہ کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔ اگر دیکھنے والے کی نگاہ اُسی آفتاب کے نور سے سرمہ آلود ہو جائے (یعنی روشن ہو جائے) اور قوت پیدا کر لے تو وہ ستاروں کو آفتاب سے جدا دیکھ لے گا اور یہ دیکھنا حق الیقین کے مقام میں سے ہے۔
پس بعض مشائخ کے جو اقوال ظاہر میں شریعتِ حقہ کے مخالف نظر آتے ہیں اور بعض لوگ ان اقوال کو توحیدِ وجودی سے تعبیر کرتے ہیں مثلًا ابن منصور الحلاج3 کا "أَنَا الْحَقُّ" کہنا اور با یزید بسطامی4 رحمۃ اللہ علیہ کا "سُبْحَانِيْ مَا أَعْظَمَ شَانِيْ" کہنا اور اسی قسم کے دوسرے اقوال، بہتر اور مناسب یہ ہے کہ ان اقوال کو توحیدِ شہودی پر محمول کیا جائے اور (عقل و شریعت کی) مخالفت کو دور کیا جائے۔ جس وقت ما سوائے حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان کی نظر سے پوشیدہ ہو گیا تو اس حالت کے غلبے کے وقت ان بزرگوں نے یہ الفاظ کہہ دیئے، اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے سوا اور کچھ ثابت نہیں کیا۔ "أَنَا الْحَقُّ" کے معنی یہ ہیں کہ "حق ہے نہ کہ میں"۔ چونکہ وہ اپنے آپ کو نہیں دیکھتا اس لئے اپنے آپ کو ثابت نہیں کرتا، نہ یہ کہ وہ اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اس کو حق کہتا ہے، یہ البتہ کفر ہے۔
یہاں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ اثبات نہ کرنا (غیر حق کی) نفی تک پہنچا دیتا ہے اور یہ عین توحیدِ وجودی ہے۔ کیونکہ ہم (اس کے جواب میں) کہتے ہیں کہ اثبات نہ کرنے سے (غیر حق کی) نفی لازم نہیں آتی، بلکہ اس مقام میں حیرت ہے، یہاں تمام احکام ساقط ہو چکے ہیں۔ اور "سُبْحَانِيْ" کہنے میں بھی حق تعالیٰ کی تنزیہ ہے نہ کہ اس کی اپنی، کیونکہ وہ خود اپنی نظر سے پوری طرح دور ہو چکا ہے اور کوئی حکم اس کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا۔ اور اس قسم کی باتیں عین الیقین کے مقام میں جو کہ حیرت کا مقام ہے، بعض سالکوں سے ظاہر ہوتی ہیں اور جب اس مقام سے ترقی دے کر حق الیقین کے مقام میں پہنچاتے ہیں تو وہ بزرگ اس قسم کے کلمات سے اجتناب کرنے لگتے ہیں اور اعتدال کی حد سے تجاوز نہیں کرتے۔
ہمارے زمانے میں اس گروہ کے بہت سے لوگ جو صوفیوں کے لباس میں اپنے آپ کو ظاہر کرتے ہیں، توحیدِ وجودی کو عام کرنے میں مصروف ہیں اور اس کے عام کرنے ہی کو کمال سمجھتے ہیں اور عین الیقین کی بجائے علم الیقین ہی میں رُکے ہوئے ہیں اور اقوالِ مشائخ کی تاویل اپنے خیال کے مطابق کرتے ہیں اور خود کو مقتدائے زمانہ بنائے بیٹھے ہیں اور اپنےکھوٹے (بے رونق) بازار کو ان خیالی باتوں کے ساتھ رونق دے رہے ہیں۔ اگر بالفرض گزشتہ زمانے کے بعض مشائخ کی عبارتوں میں جو ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جن سے واضح طور پر توحیدِ وجودی ظاہر ہوتی ہے تو ان کی ایسی باتوں پر یہ قیاس کرنا چاہیے کہ انھوں نے ابتدا میں علم الیقین کے مقام میں اس قسم کے الفاظ کہے ہیں، اور آخر کار ان کو اس مقام سے ترقی دے کر عین الیقین5 تک لے گئے ہیں۔
اس جگہ کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ توحیدِ وجودی والے حضرات بھی جس طرح ایک ہی ذات کو جانتے ہیں (اسی طرح) ایک ہی کو دیکھتے بھی ہیں پس ان کو عین الیقین سے بھی کچھ حصہ حاصل ہے۔ تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اس توحید (وجودی) والے حضرات نے توحیدِ شہودی کی مثالی صورت6 کو دیکھا ہے نہ یہ کہ وہ اس توحید (شہودی) کے ساتھ متحقق ہو گئے ہیں۔ توحیدِ شہودی کو اپنی اس مثالی صورت کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے، کیونکہ اس توحید کے حاصل ہونے کے وقت حیرت ہے، اس مقام میں کسی امر کے ساتھ حکم نہیں لگایا جا سکتا اور توحیدِ وجودی والا اُس توحیدِ شہودی کی مثالی صورت کا مشاہدہ کرنے کے با وجود علم الیقین والوں میں سے ہے کیونکہ وہ ما سوا اللہ کے وجود کی نفی کرتا ہے، اور یہ نفی مقولۂ علم الیقین کے احکام میں سے ایک حکم ہے، اور حیرت اور علم ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔
پس ثابت ہو گیا کہ توحیدِ وجودی والے کو عین الیقین سے کچھ بھی حصہ حاصل نہیں ہے، ہاں البتہ توحیدِ شہودی والے حضرات کو اگر مقامِ حیرت کے بعد ترقی واقع ہو جائے تو معرفت کے مقام میں جو کہ حق الیقین ہے، پہنچاتے ہیں اور اس مقام میں علم اور حیرت دونوں جمع ہو جاتے ہیں اور جو علم مقامِ حیرت کے بغیر اور مقامِ حیرت سے پہلے ہے، وہ علم الیقین ہے۔
یہ جواب ایک مثال سے واضح ہو جاتا ہے مثلًا کسی شخص نے اپنے اندر بادشاہت کے مقام کے ساتھ مناسبت رکھنے کی وجہ سے خواب میں اپنے آپ کو بادشاہ دیکھا اور بادشاہت کے لوازم (یعنی لینا دینا، حکم کرنا، منع کرنا، تخت نشین ہونا اور شاہانہ لباس و تاج پہننا وغیرہ) اپنے اندر پائے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ وہ بادشاہ نہیں ہوا ہے بلکہ بادشاہت کی مثالی صورت کو اپنے آپ میں دیکھا ہے اور حقیقت میں بادشاہت کو اس مثالی صورت کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں ہے۔ ہاں وہ شہود اگرچہ مثالی صورت میں ہوا ہے لیکن اس مثالی صورت کی حقیقت سے اس شخص کے متصف ہونے کی استعداد کی خبر دیتا ہے، اگر وہ شخص بہت ریاضت و مجاہدہ کرے اور اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی عنایت بھی اس کے شامل حال ہو جائے تو اس (بلند) مقام (بادشاہت) پر پہنچ جائے لیکن قوت سے فعل (یعنی قابلیت سے حصول) تک پہنچنے میں بہت فرق ہے۔ بہت سے لوہے آئینہ بننے کی قابلیت رکھتے ہیں لیکن جب تک وہ آئینہ نہ بن جائیں بادشاہوں کے ہاتھ میں نہیں پہنچتے اور ان کا جمال حاصل نہیں کر سکتے۔
میں کہاں پہنچ گیا، مگر میں کہتا ہوں کہہ ان دقیق (پیچیدہ و مشکل) علوم کے لکھنے کا سبب یہ ہے کہ اس زمانے کے اکثر لوگ بعض تقلید کے طور پر اور بعض (بغیر ذوق کے) محض علم کی بنا پر اور بعض ذوق ملے ہوئے علم کے ساتھ اگرچہ قلیل ہو، اور بعض الحاد و زندقہ (بے دینی) کے باعث اس توحیدِ وجودی سے وابستہ ہیں اور سب کچھ حق تعالیٰ سے جانتے ہیں بلکہ حقیقت میں سب کو حق تعالیٰ ہی جانتے ہیں اور اس حیلے سے اپنی گردنوں کو شرعی پابندیوں کی رسی سے آزاد کرتے ہیں اور شرعی احکام بجا لانے میں سُستی کرتے ہیں اور اس معاملے پر بہت ہی مسرور و خوش ہیں، اور اگر شرعی احکامات کے بجا لانے کا اقرار بھی کریں تو ان کو طفیلی جانتے ہیں اور اصلی مقصود شریعت کے سوا کچھ اور خیال کرتے ہیں۔ حَاشَا وَ کَلَّا ثُمَّ حَاشَا وَ کَلَّا نَعُوْذُ بِاللہِ سُبْحَانَہٗ مِنْ ھَذَا الْاِعْتِقَادِ السُّوْءِ (ہرگز ہرگز ایسا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ ایسے بُرے اعتقاد سے ہم کو بچائے)
طریقت اور شریعت ایک دوسرے کا عین ہیں، ان کے درمیان بال برابر بھی مخالفت واقع نہیں ہے فرق صرف اجمال و تفصیل اور استدلال و کشف کا ہے۔ جو کچھ بھی شریعت کے مخالف ہے وہ مردود ہے "کُلُّ حَقِیْقَةٍ رَّدَّتْہُ الشَّرِیْعَةُ فَھُوَ زَنْدَقَةٌ" ”ہر وہ حقیقت جس کو شریعت نے رد کر دیا ہو زندقہ (بے دینی) ہے“۔ شریعت کو اپنی جگہ پر قائم رکھ کر حقیقت کو طلب کرنا بہادروں کا کام ہے، رَزَقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ الْاِسْتِقَامَةَ عَلٰی مُتَابَعَةِ سَیِّدِ الْبَشَرِ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ وَ التَّحِیَّاتُ ظَاھِرًا وَّ بَاطِنًا (اللہ تعالیٰ ہم کو اور آپ کو ظاہر و باطن میں حضرت سید البشر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی متابعت پر استقامت نصیب فرمائے۔ آمین)
معرفت کی پناہ والے ہمارے قبلہ گاہ حضرت خواجہ باقی باللہ قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ کچھ عرصے تک توحیدِ وجودی کا مشرب رکھتے تھے اور اپنے رسالوں اور مکتوبات میں بھی اس کا اظہار فرمایا کرتے تھے، لیکن آخر کار حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنی نہایت مہربانی کے ساتھ اس مقام سے ترقی عطا فرما کر شاہراہ پر ڈال دیا اور اس معرفت کی تنگی سے رہائی عنایت فرمائی۔ میاں عبد الحق7 نے جو کہ حضرت قدس سرہٗ کے مخلص دوستوں میں سے ہیں، بیان کیا ہے کہ حضرت (خواجہ باقی باللہ) قدس سرہٗ نے اپنے مرضِ موت سے ایک ہفتہ پہلے فرمایا کہ "مجھ کو عین الیقین سے معلوم ہو گیا کہ توحیدِ وجودی ایک تنگ کوچہ ہے اور شاہراہ اور ہی ہے۔" اس سے پہلے بھی میں جانتا تو تھا لیکن اب ایک قسم کا دوسرا یقین حاصل ہو گیا ہے۔ یہ فقیر (حضرت مجدد قدس سرہٗ) بھی کچھ مدت تک حضرت خواجہ قدس سرہٗ کی خدمت میں اسی توحیدِ وجودی کا مشرب رکھتا تھا اور اس طریقے کی تائید میں بہت سے کشفی حالات و واردات ظاہر ہوئے تھے لیکن حق تعالیٰ جل شانہٗ کی عنایت نے اس مقام سے ترقی دے کر اس مقام کے ساتھ جس کو کہ اللہ تعالیٰ نے چاہا مشرف فرمایا ہے اس سے زیادہ لکھنا طول کلامی ہے۔
میاں شیخ زکریا8 اپنے پرگنہ (ضلع کا ایک حصہ) سے بار بار لکھتے ہیں اور آپ کی خدمت عالیہ میں بہت نیاز مندی کی نسبت ظاہر کرتے ہیں اور کروڑی گری (یعنی تحصیل داری کے عہدہ) سے ہراساں و پریشان ہیں اور عالمِ اسباب میں آپ کی بزرگ جناب میں التجا اور اعتصام رکھتے ہیں۔ بظاہر آپ کی بلند توجہ کے بغیر اور کوئی ٹھکانا اور جائے پناہ نہیں رکھتے، امید وار ہیں کہ جس طرح پہلے آپ ان پر نوازش فرماتے رہے ہیں اب بھی دست گیری (مدد) فرماتے رہیں گے اور حوادث کے بھیڑیوں سے ان کو محفوظ رکھیں گے۔ کمالِ ادب کے باعث آپ کی خدمت میں عرض کرنے کی جرأت نہیں کرتے، فقیر کے ذریعے اپنے احوال کا اظہار چاہتے ہیں۔ امید ہے کہ آپ ان کا سوال قبول فرمائیں گے۔
1 سیادت پناہ نواب شیخ فرید بخاری کے نام مکتوبات شریفہ میں کل 22 مکتوبات ہیں، یعنی دفتر اول مکتوب نمبر 43 تا 54، 63، 64، 103، 152، 163، 165، 193، 213، 233 اور 269۔ جہانگیر بادشاہ نے آپ کی حسنِ خدمات کے صلہ میں مرتضی خاں کا خطاب سرفراز کیا۔ (توزک جہانگیر، صفحہ نمبر: 32) غالباً اسی بنا پر مکتوب نمبر 269 میں مرتضی خان نام درج ہے۔ شیخ فرید ولد شیخ احمد صحیح النسب سید تھے آپ کا نسب نو واسطوں سے حضرت سید جلال الدین اعظم حسینی بخاری تک پہنچ کر ستائیس واسطوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک منتہی ہوتا ہے۔ (از تجلیاتِ ربانی، صفحہ نمبر: 56) شیخ فرید دہلی میں پیدا ہوئے، تحصیل علوم کے بعد اکبر بادشاہ کے ملازم ہو گئے اور اپنی معاملہ فہمی، ذہانت، ایمان داری، دیانت داری اور بہادری کی وجہ سے بہت جلد شہرت حاصل کر لی۔ گجرات اور پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ شیخ فرید درویش صفت امیر تھے جن پر مشائخ کو بھی رشک آتا تھا۔ آپ کا دستر خوان بڑا وسیع تھا۔ شیخ کا رہنے کا مکان بھی معمولی سا تھا لیکن جگہ جگہ سرائیں تعمیر کرائیں۔ غرض شیخ فضائل کثیرہ کے حامل تھے۔ سنہ 1025ھ میں وفات پائی۔ چراغ دہلی کے راستے پر آپ کا مزار ہے۔
2 علم الیقین کا مطلب بالتفصیل اور عین الیقین وحق الیقین کا اجمالی طور پر حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ نے دفتر دو مکتوب نمبر 4 میں بیان کیا ہے۔
3 ابن منصور یعنی حسین بن منصور حلاج، کنیت ابو مغیث، وطن بیضائے فارس ہے۔ منصور حلاج کے حالات سے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے بعض حضرات نے آپ کو اولیاء کرام میں شمار کیا ہے اور بعض نے آپ کو گمراہ کہا ہے۔ بہر حال حکومت وقت نے شریعت کے خلاف ورزی کے جرم میں 24 ذو القعدہ سنہ 309ھ بمطابق 922ء منگل کے دن بغداد میں آپ کو قتل کر دیا۔
4 آپ کا اسم گرامی طیفور بن عیسیٰ بن آدم بن سروشان تھا اور کنیت ابو یزید، لقب سلطان العارفین اور وطن بسطام تھا۔ اس لیے بسطامی مشہور ہوئے۔ آپ کے دادا آتش پرست تھے بعد میں مسلمان ہو گئے تھے۔ آپ نے حضرت جعفر صادق رضی اللہ عنہ کی روحانیت سے فیض حاصل کیا۔ احمد خضرویہ ابو حفص یحیی بن معاذ کے ہم عصر ہیں۔ حضرت جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ راہ توحید کے سالکوں کی انتہا با یزید کی ابتدا کے برابر ہے۔ تہتر سال کی عمر میں سنہ 234ھ یا سنہ 261ھ 15 شعبان کو بسطام میں وفات پائی۔
5 جیسا کہ بعض عارفوں نے کہا ہے کہ اگر کوئی عارف اپنے شعور سے بالکل بے خبر ہو جائے اور اپنے آپ کو وہی دیکھے اور "ہُو ہُو" کہے تو وہ معذور ہے کیونکہ وہ اپنی حقیقت حال سے واقف نہیں ہے۔ جب وہ ہوشیار ہو جاتا اور اپنی حقیقتِ حال سے خبر دار ہو جاتا ہے تو پھر خود ہی کہتا ہے کہ میرا کمال یہ ہے کہ میں عبد اللہ (اللہ کا بندہ) ہوں، چنانچہ حضرت سلطان العارفین با یزید بسطامی قدس سرہٗ السامی فرماتے ہیں کہ اگر میں نے کسی دن "سُبْحانِيْ مَا أَعْظَمَ شَأْنِيْ" کہا تو میں اس روز کافر مجوسی ہوں اور میں آج اپنا زنار توڑتا ہوں اور کہتا ہوں: "أَشْهَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہَ إِلَّا اللہُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ" (از رسالہ عقائد صوفیہ)
6 کسی چیز میں اور اس کی مثالی صورت میں بہت فرق ہے اور اسی طرح کسی چیز کے دیکھنے اور اس چیز سے متصف ہونے میں نمایاں فرق ہے، سمجھ لیجئے۔
7 غالبًا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مراد ہیں۔
8 شیخ زکریا برادر شیخ سلطان (یعنی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے خسر) ہیں جو کسی پرگنہ کے کروڑی (تحصیل دار) تھے۔ (رود کوثر، صفحہ نمبر: 247) نیز دفتر اول مکتوب نمبر 50 میں بھی شیخ زکریا کے لئے سفارش فرمائی ہے۔