مکتوب 44
یہ مکتوب گرامی بھی سرداری و تعریف کی پناہ والے شیخ فرید کی طرف حضرت خیر البشر علیہ و علٰی آلہ الصلوۃ و السلام کی مدح و نعت میں اور اس بیان میں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کی تصدیق کرنے والے تمام امتوں سے بہتر ہیں اور آپ کی شریعت کے جھٹلانے والے اور منکر لوگ بنی آدم میں سب سے بد تر ہیں، اور آپ کی روشن سنت کی پیروی کی ترغیب میں تحریر فرمایا۔
آپ کا بزرگ و بلند مرحمت نامہ عزیز ترین زمانے میں شرف صدور ہوا اور اس کے مطالعے سے مشرف ہوا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی حمد و احسان ہے کہ آپ نے فقرِ محمدی علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و السلام کی کچھ میراث حاصل کی ہے۔ فقرا سے محبت کرنا اور ان سے میل جول رکھنا اسی کا نتیجہ ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بے سر و سامان فقیر اس کے جواب میں اس کے سوا اور کیا لکھے کہ عربی عبارت میں چند فقرے جو آپ کے جد بزرگوار خیر العرب (یعنی جو اہل عرب میں سے بہتر اور اہل عجم میں بدرجہ اولیٰ سب سے بہتر ہیں) صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل میں ماثور ہیں، لکھ دے اور اس سعادت نامے کو اپنی آخرت کی نجات کا وسیلہ بنائے۔ اور اس سے مقصود یہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ کی مدح و تعریف کرے بلکہ مقصود یہ ہے کہ اپنے کلام کو آنحضرت ﷺ کے مقدس تذکرے سے آراستہ و مزین کرے۔ شعر
مَا إِنْ مَّدَحْتُ مُحَمَّدًا بِمَقَالَتِی
لٰکِنْ مَّدَحْتُ مَقَالَتِی بِمُحَمَّدٍ
ترجمہ بشعر فارسی:
از سخن نہ گفتم وصفِ محمدی را
لیکن سخن ستودم با نسبتِ محمد
ترجمہ بشعر اردو:
ادا حق ہو نہیں سکتا محمد کی ستائش کا
مگر مقبول ہو گا اس کی برکت سے سخن مرا
(یعنی میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی تعریف کا حق ادا نہیں کر سکتا لیکن آپ کے نامِ نامی سے اپنے کلام کو آراستہ و مزین کرتا ہوں)
حضرت محمد1 رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و سلم) حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کے سردار ہیں اور قیامت کے روز آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع و فرماں بردار تمام انبیائے کرام کے تابع و فرماں برداروں سے زیادہ ہوں گے۔ آپ2 صلی اللہ علیہ و سلم اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب اولیں و آخرین3 سے زیادہ بزرگ و معزز ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم قیامت4 کے روز سب سے پہلے قبر مبارک سے باہر تشریف لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی سب سے اول شفاعت کریں گے اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی کی شفاعت قبول کی جائے گی اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے پس اللہ تعالیٰ آپؐ5 کے لئے جنت کا دروازہ کھول دے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہی قیامت کے روز لواء حمد (اللہ تعالیٰ کی حمد و ستائش کا جھنڈا) اٹھانے والے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام اور دیگر تمام انبیاء علیہم السلام اس جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ وہ آپ6 علیہ الصلوۃ و السلام ہی کی ذات گرامی ہے جس نے فرمایا: "نَحْنُ الْآخِرُوْنَ وَ نَحْنُ السَّابِقُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ" (سنن الدارمي: حدیث نمبر 55) ”یعنی قیامت کے دن ہم ہی (وجود و ظہور کے اعتبار سے) آخرین ہیں اور ہم ہی (مرتبہ و روز قیامت قبر سے اٹھنے کے اعتبار سے) سابقین و اولین ہیں“۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "یہ بات بغیر کسی فخر کے کہتا ہوں کہ میں اللہ تعالیٰ کا حبیب ہوں اور میں تمام انبیاء و مرسلین کا قائد و پیش رو ہوں اور بلا فخر کہتا ہوں کہ میں تمام نبیوں کا خاتم (مہر اور آخری نبی) ہوں اور میں بلا فخر کہتا ہوں کہ میں محمد7 بن عبد اللہ ابن عبد المطلب ہوں بے شک جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا تو مجھ کو سب سے بہتر مخلوق (یعنی انسان) میں پیدا کیا پھر ان کو دو گروہ (عرب و عجم) بنایا اور مجھے ان میں سے بہترین گروہ میں بنایا، پھر ان کو قبیلوں میں تقسیم کیا تو مجھے ان میں سے بہترین قبیلے میں بنایا، پھر ان کو گھروں میں تقسیم کیا تو مجھے ان میں سے بہترین گھر میں پیدا کیا پس میں ذات8 و گھر کے لحاظ سے سب مخلوق سے بہتر ہوں اور جب قیامت9 کے روز لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں گے تو سب سے پہلے میں (قبر سے) باہر نکلوں گا اور جب تمام بنی آدم حق تعالیٰ کے سامنے گروہ در گروہ پیش ہوں گے تو میں ان سب کا قائد و رہنما ہوں گا اور جب وہ سب خاموش ہوں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا اور جب وہ (جنت میں داخل ہونے سے میدان حشر میں) روک دیئے جائیں گے تو میں ان کا شفیع ہوں گا اور جب وہ (دیگر انبیاء علیہم السلام کے جوابوں سے) نا امید ہو جائیں گے تو میں ان کو (شفاعت کی) بشارت دینے والا ہوں گا اور اس دن کرامت (رحمت و بزرگی) اور جنت (کے دروازوں) کی کنجیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور لواء حمد بھی میرے ہاتھ میں ہو گا اور میں اپنے رب کے نزدیک تمام اولاد آدم میں سب سے بزرگ ہوں۔ ہزار ایسے خادم (حور و غلمان) میرے گرد طواف کریں گے جو خوش نما، آب دار، سفید صدف کے اندر چھپے ہوئے موتیوں کی طرح ہوں گے، اور جب قیامت کا دن ہو گا تو میں تمام انبیائے کرام علیہم السلام کا امام اور ان کا خطیب اور ان کی شفاعت کرنے والا ہوں گا اور مجھے اس بات پر فخر نہیں ہے۔
اگر حضور انور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ذات گرامی صفات نہ ہوتی تو حق سبحانہ و تعالیٰ خلقت کو پیدا نہ فرماتا اور اپنی ربوبیت (رب ہونے کو) ظاہر نہ فرماتا10 اور آپ11 صلی اللہ علیہ و سلم اس وقت نبی تھے جب کہ آدم علیہ السلام ابھی پانی اور مٹی کے درمیان تھے (یعنی آدم علیہ السلام پیدا بھی نہیں ہوئے تھے بلکہ ان کے پتلے کے لئے کیچڑ تیار ہوئی تھی)
نماند بعصیاں کسے در گِرو
کہ دارد چنیں سید پیش رو
ترجمہ:
نہیں ہے خوف کچھ عصیاں کا اس کو
محمدؐ پاک جس کا پیشوا ہو
پس بلا شک و شبہ سید البشر علیہ الصلوٰۃ و السلام کی تصدیق کرنے والے تمام امتوں سے افضل ہیں آیت: ﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ…الخ﴾ (آل عمران: 110) ”(مسلمانو) تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے فائدے کے لیے وجود میں لائی گئی ہے“۔ ان پر صادق آتی ہے اور اس پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام کے جھٹلانے والے بنی آدم میں سب سے بد تر ہیں۔ آیت: ﴿اَلْأَعْرَابُ أَشَدُّ کُفْرًا وَّ نِفَاقًا﴾ (التوبہ: 97) ”جو دیہاتی (منافق) ہیں، وہ کفر اور منافقت میں زیادہ سخت ہیں“۔ ان کے حال کا پتہ دیتی ہے۔ دیکھئے کس خوش نصیب کو آنحضرت ﷺ کی روشن و بلند سنت کی پیروی نصیب فرماتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی پسندیدہ شریعت کی پیروی سے سر فرازی بخشتے ہیں۔
آج آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے دین کے بر حق ہونے کی تصدیق کرتے ہوئے تھوڑا سا عمل بجا لانا بھی عمل کثیر کے برابر شمار ہوتا ہے۔ اصحاب کہف (رضی اللہ عنہم) نے یہ اعلیٰ درجات صرف ایک ہی نیکی کے ذریعے سے حاصل کئے ہیں اور وہ نیکی یہ تھی کہ وہ دشمنانِ دین کے غلبے کے وقت نورِ ایمان و یقین کے ساتھ حق تعالیٰ کے دشمنوں (کے مقام) سے ہجرت کر گئے تھے۔ مثلًا دشمنوں اور مخالفوں کے غلبے کے وقت اگر سپاہی تھوڑا سا بھی تردد کریں تو وہ اس قدر نمایاں اور معتبر ہوتا ہے کہ امن کی حالت میں اس سے کئی گنا تردد بھی معتبر نہیں ہوتا۔
نیز چونکہ آں سرور عالم صلی اللہ علیہ و سلم رب العالمین کے محبوب ہیں اس لئے آپ کی متابعت کرنے والے بھی آپ کی متابعت کے باعث محبوبیت کے درجے کو پہنچ جاتے ہیں کیونکہ محبت کرنے والا (محب) جس شخص میں اپنے محبوب جیسے اخلاق و عادات دیکھتا ہے اس شخص کو بھی اپنا محبوب ہی جانتا ہے اور مخالفوں کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔ شعر
محمدؐ عربی کا بروے ہر دو سرا ست
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سرِ او
ترجمہ:
محمد عربی دو جہاں کی عزت ہیں
جو منکر آپ کے ہیں مبتلائے ذلت ہیں
اگر ظاہری ہجرت میسر نہ ہو سکے تو باطنی ہجرت کو پوری طرح مد نظر رکھنا چاہیے۔ مخلوق کے درمیان رہ کر ان سے الگ رہنا چاہیے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی اور امر (راستہ) پیدا فرما دے گا۔
نو روز کا موسم آ گیا ہے اور یہ معلوم ہے کہ ان ایام میں وہاں کے رہنے والے لوگ معاملے کو پراگندہ رکھتے ہیں لہذا اس ہنگامے کے گزر جانے کے بعد اگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آنجناب کی ملاقات کا شرف حاصل ہو گا زیادہ طول کلامی موجبِ تکلیف ہے۔ ثَبَّتَکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَلٰی جَادَّۃِ آبَائِکُمُ الْکِرَامِ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلَیْھِمْ إِلَی یَوْمِ الْقِیَامَةِ (اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے بزرگ آباد و اجداد کے طریق پر ثابت قدم رکھے آپ پر اور ان پر قیامت تک سلامتی ہو)۔
1 یہ مضمون امام مسلم کی روایت سے ماخوذ ہے۔
2 یہ مضمون ترمذی اور دارمی کی روایت سے ماخوذ ہے۔
3 اس حدیث میں اولین و آخرین سے مراد تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام ہیں اور اگر اولین میں ملائکہ کو بھی داخل کیا جائے تو کوئی بعید نہیں ہے۔ (از شیخ عبد الحق قدس سرہٗ)
4 مَأْخُوْذٌ مِّنْ حَدِیْثٍ رَّوَاہُ مُسْلِمٌ
5 مَأْخُوْذٌ مِّنْ حَدِیْثٍ رَّوَاہُ التِّرْمَذِيُّ وَ الدَّارِمِيُّ
6 رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ
7 رَوَاهُ التِّرْمَذِيُّ
8 یہاں سے معلوم ہوا کہ پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام صاحب نسبت عظیم ہوتا ہے۔ دوسری احادیث سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے لیکن نبوت فضل خداوندی ہے نسبت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے جیسا کہ حق تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَللّٰهُ أَعْلَمُ حَيْثُ يَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ﴾ (الأنعام: 124) اور دوسری جگہ فرماتا ہے: ﴿وَ اللّٰهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهٖ مَن يَّشَاءُ﴾ (البقرۃ: 105) ایضًا: ﴿وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا﴾ (النساء: 113) (الشیخ عبد الحق قدس سرہٗ)
9 رَوَاهُ التِّرْمَذِيُّ
10 اس میں اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس کو دیلمی نے مسند الفردوس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے: "يَقُوْلُ اللہُ وَ عِزَّتِيْ وَ جَلَالِيْ لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّنْيَا وَ لَوَ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْجَنَّۃَ وَ أَوْرَدَهٗ فِي الْمَوَاهِبِ مَعْزِيًّا إِلَى ابْنِ طُغْرَيْكَ بِلَفْظِ لَوْ لَاهُ مَا خَلَقْتُكَ خِطَابًا لِآدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَ لَا خَلَقْتُ سَمَآءً وَّ لَا أَرْضًا ثُمَّ قَالَ: وَ لْيَشْهَدْ لِهٰذَا مَا رَوَاهُ الْحَاكِمُ فِيْ صَحِيْحِهٖ: "عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْهُ أَنَّ آدَمَ رَاٰي اِسْمَ مُحَمَّدٍ مَّكْتُوْبًا عَلَى الْعَرْشِ وَ أَنَّ اللهَ قَالَ لِآدَمَ لَوْ لَا مُحَمَّدٌ مَّا خَلَقْتُكَ". قَالَ الزُّرْقَانِيُّ: رَوَاهُ أَبُو الشَّيْخِ وَ الْحَاكِمُ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْهُمَا أَوْحَى اللهُ تَعَالٰى إِلٰى عِيْسٰى آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَّ أْمُرْ أُمَّتَكَ أَنْ يُّؤْمِنُوْا بِهٖ فَلَوْ لَا مُحَمَّدٌ مَّا خَلَقْتُ آدَمَ وَ لَا الْجَنَّةَ وَ لَا النَّارَ…الحديث. وَ أَقَرَّہُ السَّبَكِيُّ فِيْ شِفَاءِ الْأَسْقَامِ وَ الْبَلْقِيْنِيُّ فِيْ فَتَاوَاهُ وَ مِثْلُهٗ لَا يُقَالُ رَأْيًا. وَ عِنْدَ الدَّيْلَمِيِّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللهُ تَعَالٰی عَنْهُمَا رَفَعَهٗ أَتَانِيْ جِبْرِيْلُ فَقَالَ: إِنَّ اللهَ يَقُوْلُ: "لَوْ لَاكَ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَ لَوْ لَاكَ مَا خَلَقْتُ النَّارَ" قُلْتُ: مَعْنَى هٰذَا الْحَدِيْثِ لَا شُبْهَةَ فِيْ صِحَّتِهٖ وَ مُطَابَقَتُهٗ لِنَفْسِ الْأَمْرِ عِنْدَ كَافَّةِ الصُّوْفِيَّةِ وَ عَامَّةِ مَنْ سِوَاهُمْ فَھُوَ صَحِيْحٌ إِنْ شَآءَ اللهُ تَعَالٰى" (هذا كله ما قاله العلامة محمد مراد المكي في معرب المكتوبات)
11 رَوَاهُ التِّرْمَذِيُّ فِيْ شَرْحِ السُّنَّةِ وَ هٰذَا كُلُهٗ مُلْتَقَطٌ مِّنَ الْمِشْكوٰۃِ