مکتوب 41
بلند مرتبے و روشن سنتِ مصطفویہ علیٰ صاحبہا الصلٰوۃ و السلام و التحیۃ کی پیروی کرنے کی ترغیب میں اور اس بیان میں کہ طریقت و حقیقت دونوں شریعت کو کامل کرنے والی ہیں اور علومِ شرعیہ و علومِ صوفیہ کے درمیان جو کہ صدیقیت کے مقام میں اور ولایت کے مرتبوں میں سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے، فائز ہوتے ہیں، ہرگز کوئی مخالفت نہیں ہے اور اس کے مناسب بیان میں شیخ درویش1 کی طرف صادر فرمایا۔
حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے نبی ﷺ اور آپ کی بزرگ اولاد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل (ہمارے) ظاہر و باطن کو حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بلند و روشن سنت کی پیروی سے زینت و آراستہ فرمائے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم تمام جہانوں کے پروردگار (حق تعالیٰ) کے محبوب2 ہیں، جو چیز عمدہ اور پسندیدہ ہے وہ مطلوب و محبوب کے لئے ہے، اسی لئے حق سبحانہٗ و تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: ﴿إِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ﴾ (القلم: 4) ”اور یقینا تم اخلاق کے اعلیٰ درجے پر ہو“۔ نیز حق سبحانہٗ و تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿إنَّکَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ عَلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ﴾ (یٰسٓ: 3) ”تم یقینا پیغمبروں میں سے ہو، بالکل سیدھے راستے پر“۔ اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے: ﴿وَ أَنَّ ھٰذَا صِرَاطِی مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ﴾ (الأنعام: 153) ”اور (اے پیغمبر! ان سے) یہ بھی کہو کہ: یہ میرا سیدھا سیدھا راستہ ہے، لہذا اس کے پیچھے چلو، اور دوسرے راستوں کے پیچھے نہ پڑو“۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے (اس تیسری آیتِ کریمہ میں) آنحضرت علیہ الصلٰوۃ و السلام کی ملّت کو صراطِ مستقیم فرمایا ہے اور اس کے علاوہ دوسرے طریقوں کو (محض) راستوں میں داخل فرمایا اور ان کی پیروی کرنے سے منع فرمایا ہے۔ آنسرورِ عالم علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا شکر ظاہر کرنے، مخلوق کو خبر دار کرنے اور ان کو ہدایت کرنے کے طور پر فرمایا ہے: "خَیْرُ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ"3 ”سب ہدایتوں سے بہتر حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ہدایت ہے“۔ نیز آپ علیہ الصلوۃ و السلام نے یہ بھی فرمایا: "اَدَّبَنِی رَبِّی فَاَحْسَنَ تَاْدِیْبِی"4 ”میرے رب نے مجھے ادب سکھایا پس مجھ کو بہت ہی اچھا ادب سکھایا“۔ باطن ظاہر کی تکمیل کرنے والا ہے، اور اس کو مکمل کرنے والا ان دونوں میں بال بھر بھی مخالفت نہیں رکھتا۔ مثلاً زبان سے جھوٹ نہ بولنا شریعت ہے اور دل میں جھوٹ کا خیال بھی نہ آنے دینا طریقت و حقیقت ہے (یعنی) اگر یہ خیال کا نہ آنے دینا تکلّف اور مشقّت سے ہے تو طریقت ہے اور اگر تکلّف کے بغیر حاصل ہے تو حقیقت ہے۔ پس در اصل باطن جو کہ طریقت و حقیقت کہلاتا ہے ظاہر کو جو کہ شریعت ہے پورا اور کامل کرنے والا ہے۔
پس اگر طریقت و حقیقت کے راستوں پر چلنے والوں کو اثنائے راہ میں ایسے امور پیش آئیں جو بظاہر شریعت کے خلاف ہوں تو وہ سُکرِ وقت (مستی) کی کیفیت اور و جد و حال کے غلبے کے باعث ہوں گے، اگر اُن کو اس مقام سے گزار کر صحو (ہوش) میں لے آئیں تو یہ(شریعت سے) مخالفت بالکل رفع ہو جاتی ہے اور وہ متضاد (ایک دوسرے کے مخالف) علوم سب کے سب دُور ہو جاتے ہیں۔
مثلًا صوفیائے کرام کی ایک جماعت سُکر کی وجہ سے احاطۂ ذاتی کی قائل ہوئی ہے اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو بالذات (بلا کیف) عالم کا محیط جانتے ہیں، اور یہ حکم اہلِ حق علمائے کرام کی آراء کے مخالف ہے کیونکہ وہ (علمائے حق) احاطۂ علمی5 کے قائل ہیں۔ حقیقت میں علماء کی آراء درستی کے زیادہ قریب ہیں۔ جب کہ یہی صوفیائے کرام اس بات کے قائل ہوئے ہیں کہ ذاتِ حق تعالیٰ و تقدس کسی حکم کی پابند نہیں ہوتی اور کسی علم سے معلوم نہیں ہوتی تو اس میں احاطہ و سریان (سرایت کرنا) کا حکم لگانا اس قول کے مخالف ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حق تعالیٰ کی ذات بے چون و بے چگون (بے مثل و بے کیف) ہے، کسی حکم کو اس ذات کی طرف راہ نہیں، وہاں صرف حیرت و نادانی ہے اور اس مقام میں خالص جہل اور محض حیرانی و پریشانی ہے۔ اس پاک بارگاہ میں احاطہ و سریان کی کیا مجال، مگر یہ کہ ان صوفیائے کرام کی جانب سے جو اِن احکام کے قائل ہیں یہ عذر کیا جائے کہ ذات سے ان کی مراد تعینِ اول ہے، اور چونکہ وہ اس (تعینِ اول) کو متعین پر زائد نہیں جانتے اس لئے اس تعین کو عینِ ذات کہتے ہیں اور وہ تعینِ اول جس کو وحدت سے تعبیر کیا گیا ہے تمام ممکنات میں جاری و ساری ہے تو (اس لحاظ سے) احاطۂ ذاتی کا حکم کرنا درست ہے۔
یہاں ایک دقیقہ (باریک نکتہ) ہے، جاننا چاہیے کہ حق تعالیٰ کی ذات علمائے اہلِ حق کے نزدیک بے چون و بے چگون (بے مثل و بے کیف) ہے اور اس کے سوا جو کچھ ہے اس پر زائد ہے، وہ تعین بھی اگر ان کے نزدیک ثابت ہو جائے تو زائد ہی ہو گا اور اس کو حضرت بے چون (بے مثل) کی ذات سے باہر ہی جانیں گے اس لئے اس کے احاطہ کو احاطۂ ذاتی نہیں کہیں گے۔ پس علماء کی نظر ان صوفیوں سے بلند ہوئی، اور اُن صوفیوں کے نزدیک جو ذاتِ حق ہے وہ ان علماء کے نزدیک ما سوا میں داخل ہے اور قرب و معیتِ ذاتی بھی اسی قیاس پر ہے۔ باطنی معارف اور شریعت کے ظاہری علوم کے درمیان اس حد تک پورے کامل طور پر موافقت کا ہونا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیزوں میں بھی مخالفت کی مجال نہ رہے صدیقیت کے مقام میں حاصل ہوتی ہے جو ولایت کے مقامات میں سب سے اعلیٰ مقام ہے۔ صدیقیت کے مقام کے اوپر مقامِ نبوت ہے، جو علوم آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو وحی کے ذریعے پہنچے ہیں وہ صدیق (رضی اللہ عنہ) کو الہام کے ذریعہ منکشف ہوئے ہیں۔ ان دونوں علموں (علمِ نبی و علم صدیق) میں وحی اور الہام کے فرق کے سوا اور کوئی فرق نہیں ہے تو پھر دونوں میں مخالفت کی کیا مجال ہو گی۔ مقامِ صدیقیت سے نیچے جو مقام بھی ہو گا اس میں ایک قسم کا سُکر پایا جائے گا، کامل صحو ( پوری طرح ہوش) مقامِ صدیقیت میں ہے اور بس۔
اور ان دونوں علموں کے درمیان دوسرا فرق یہ ہے کہ وحی کا حکم قطعی ہے اور الہام کا ظنّی، کیونکہ وحی فرشتے کے واسطے سے آتی ہے اور فرشتے معصوم6 ہیں اور ان میں خطا کا احتمال نہیں ہے، الہام اگرچہ بلند مقام رکھتا ہے جو کہ قلب ہے اور قلب عالم امر سے ہے لیکن قلب کا عقل اور نفس کے ساتھ ایک قسم کا تعلق ثابت ہے اور نفس اگرچہ تزکیہ کے ساتھ مطمئنہ ہو گیا ہو لیکن، بیت
ہر چند کہ مطمئنہ گردد
ہرگز ز صفاتِ خود نہ گردد
ترجمہ:
نفس گو مطمئنّہ ہو جائے
خاصیت اپنی چھوڑتا ہی نہیں
اس لئے اس مقام میں خطا کی گنجائش ظاہر ہو گئی۔
جاننا چاہیے کہ نفس کے مطمئنہ ہو جانے کے با وجود اس کی صفات کے باقی رکھنے میں بہت سے فائدے اور منافع ہیں، اگر نفس کو اس کی اپنی صفات کے ظہور سے بالکل روک دیا جائے تو ترقی کا راستہ بند ہو جائے گا اور روح فرشتے کا حکم پیدا کر لے گی اور اپنے (ایک ہی) مقام میں بند ہو کر رہ جائے گی (کیونکہ) اس (روح) کی ترقی نفس کی مخالفت کے سبب سے ہے اگر نفس میں مخالفت نہ رہے تو (روح کو) ترقی کہاں سے ہو گی۔
سرورِ کائنات علیہ من التحیات أتمہا و من التسلیمات أکملہا جب کفار کے جہاد سے واپس تشریف لاتے تو فرماتے: "رَجَعْنَا مِنَ الْجِھَادِ الْاَصْغَرِ اِلَی الْجِھَادِ الْاَکْبَرِ"7 یعنی ”ہم نے جہادِ اصغر (قتال بالکفار) سے جہادِ اکبر (جہادِ نفس) کی طرف رجوع کیا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے اس ارشا د میں نفس کے جہاد کو جہادِ اکبر فرمایا۔
اور اس مقام میں نفس کی مخالفت عزیمت اور اولیٰ کے ترک کرنے میں ہے بلکہ حتی الامکان اس ترکِ عزیمت کا ارادہ کرنے میں ہے کیونکہ اس مقام میں نفس کی مخالفت ترکِ عزیمت کے تحقق و ثبوت سے نا ممکن ہے اور اسی ارادے کی وجہ سے اس کو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کی بارگاہ میں اس قدر ندامت و پشیمانی، التجا اور آہ و زاری حاصل ہوتی ہے کہ ایک سال کا کام اس کو ایک گھڑی میں حاصل ہو جاتا ہے۔
اب ہم اصل بات بیان کرتے ہیں، یہ بات (شرعی اور عقلی طور پر) مقرر و ثابت ہے کہ جس چیز میں محبوب کے اخلاق و عادات پائے جائیں محبوب کے تابع ہونے کی وجہ سے وہ چیز بھی محبوب ہو جاتی ہے اور آیتِ کریمہ ﴿فَاتَّبِعُوْنِی یُحْبِبْکُمُ اللہُ﴾ (آل عمران: 31) ”یعنی تم میری پیروی کرو تاکہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے“۔ میں اس رمز کا بیان ہے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متابعت میں کوشش کرنا مقامِ محبوبیت تک لے جانے والا ہے، پس ہر عقل مند سمجھ دار شخص پر واجب ہے کہ ظاہر و باطن میں اللہ تعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوۃ و السلام کی کامل طریقے پر اتباع کرے۔
بات بہت لمبی ہو گئی، معذور فرمائیں۔ بات کا جمال چونکہ جمیلِ مطلق (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے ہے تو جس قدر بھی لمبی ہو جائے اچھا ہی ہے: ﴿لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّيْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّيْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا﴾ (الکہف: 109) ”(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ: اگر میرے رب کی باتیں لکھنے کے لیے سمندر روشنائی بن جائے، تو میرے رب کی باتیں ختم نہیں ہوں گی کہ اس سے پہلے سمندر خشک ہو چکا ہو گا، چاہے اس سمندر کی کمی پوری کرنے کے لیے ہم ویسا ہی ایک اور سمندر کیوں نہ لے آئیں“۔
اب بات کو کسی اور طرف لے جانا چاہیے۔ اس دعائیہ خط کا حامل مولانا محمد حافظ، صاحبِ علم اور کثیر العیال (بال بچہ دار) ہے، گزارے کے اسباب حاصل نہ ہونے کی و جہ سے لشکر کی طرف متوجہ ہوا ہے، اگر توجہ فرما کر فتح کے نشان والی اور سرداری و شرافت کے مرتبے والی سرکار شیخ جیو سے وظیفہ یا کچھ امداد مذکورہ شیخ کے لئے حاصل کر دیں تو آپ کی عین نوازش ہو گی، زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔
1 مکتوبات شریفہ میں شیخ درویش کے نام حسب ذیل تین مکتوبات ہیں: دفتر اول مکتوب نمبر: 41، 42 اور 97۔ آپ امرائے سلطنت میں سے معلوم ہوتے ہیں کیونکہ تینوں مکتوبات میں نصائح کے علاوہ کسی نہ کسی کے لئے امداد و سفارش کا ذکر ہے۔
2 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَّضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلّى اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: "أَلَا وَأَنَا حَبِيبُ اللَّهِ وَلَا فَخْرَ" (سنن الترمذي، حدیث نمبر: 3616) یعنی ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اللہ تعالیٰ کا حبیب (محبوب) ہوں اور میں بغیر فخر کے کہتا ہوں۔ جاننا چاہیے کہ اگرچہ تمام انبیاء و رسل بلکہ تمام مومنین اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کے محبوب ہیں جیسا کہ حق تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ﴿یُحِبُّھُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗ﴾ (المائدہ: 54) لیکن یہاں محبوبیت کے کمال کے اعلیٰ مرتبے کا ذکر ہے۔
3 یہ حدیث امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے۔
4 اس حدیث کو ابن سمعانی رحمۃ اللہ علیہ نے ادب الاملا حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے جامع صغیر میں اسے صحیح کہا ہے اور امام سخاوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے اور اس کے معنی صحیح ہے۔
5 اس مسئلے میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیق وہ ہے جو جلد اول مکتوب 266 میں آپ نے تحریر فرمائی ہے۔
6 قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿لَا یَعۡصُوۡنَ اللّٰہَ مَاۤ أَمَرَہُمۡ وَ یَفۡعَلُوۡنَ مَا یُؤۡمَرُوۡنَ﴾ (التحریم: 6) یعنی ”جو اللہ کے کسی حکم میں اس کی نا فرمانی نہیں کرتے، اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے“۔ نیز فرمایا: ﴿وَ مَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّکَ﴾ (مریم: 64)
7 اس حدیث کو خطیب نے اپنی تاریخ میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تائید میں متعدد حدیثیں نقل کی ہیں۔