دفتر 1 مکتوب 4: بڑی قدر و شان والے ماہ مبارک ماہ رمضان کی فضیلتوں کے بیان میں اور حقیقت محمدی علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کے بیان میں

مکتوب نمبر: 4

بڑی قدر و شان والے ماہ مبارک ماہ رمضان کی فضیلتوں کے بیان میں اور حقیقت محمدی علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کے بیان میں۔

یہ عریضہ بھی اپنے پیر و مرشد بزرگوار کی خدمت میں لکھا۔

عریضہ:

آنجناب کا کم ترین خادم گزارش کرتا ہے کہ مدت سے حضور کا کوئی گرامی نامہ صادر نہیں ہوا جس کی وجہ سے اس بلند بارگاہ کے خادموں کی کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی، ہر وقت انتظار ہے۔ ماہ مبارک رمضان شریف کا آنا مبارک ہو، اس مبارک مہینے کو قرآن مجید کے ساتھ (جو کہ تمام ذاتی و شیونی کمالات کا جامع ہے اور اس دائرہ اصل میں داخل ہے جس میں کسی ظلّیت و فرعیّت کو دخل نہیں ہے اور قابلیت اولیٰ یعنی حقیقت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) اس کا ظل ہے) کامل مناسبت حاصل ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قرآن مجید کانزول اسی ماہ مبارک میں واقع ہوا ہے۔ آیہ کریمہ ﴿شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ أُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ﴾ (البقرة: 185) ”رمضان المبارک وہ مہینہ ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا“ میں اسی بات کا بیان ہے۔ اور اسی مناسبت کی وجہ سے یہ مہینہ بھی تمام بھلائیوں او برکتوں کا جامع ہے۔ جو برکت اور بھلائی تمام سال میں جس کسی شخص کو اور جس راستہ سے بھی پہنچتی ہے وہ اس عظیم الشان ماہ مبارک کی برکتوں کے بے پایاں سمندر کا ایک قطرہ ہے۔ اور اس ماہ مبارک میں دل جمعی کا حاصل ہونا تمام سال کی جمعیت حاصل ہونے کا سبب ہے اور اس ماہ مبارک کا تفرقہ (انتشار و پراگندگی) تمام سال کے تفرقہ کا سبب ہے۔ پس اس شخص کے لئے خوش خبری ہے جس پر یہ مہینہ اس حالت میں گزر گیا کہ وہ اس سے راضی و خوش ہوا اور اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جس پر یہ مہینہ ناراض ہوا اور وہ شخص اس ماہ مبارک کی خیرات و برکات سے محروم رہا۔ اور ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید کا ختم کرنا اس ماہ مبارک میں اسی لئے سنت ہوا ہو تاکہ تمام اصلی کمالات؂1 اور ظلی برکات؂2 حاصل ہو جائیں۔ پس جس نے ان دونوں (یعنی کمالات اصلیہ و برکات ظلیہ) کو جمع کیا امید ہے کہ وہ اس ماہ مبارک کی برکتوں اور نیکیوں سے محروم نہیں رہے گا۔ جو برکتیں اس ماہ مبارک کے دنوں سے وابستہ ہیں وہ اور ہیں اور جو برکتیں اس ماہ مبارک کی راتوں سے تعلق رکھتی ہیں وہ اور ہیں۔ اور ہو سکتا ہے کہ روزہ کے افطار؂3 میں جلدی کرنا اور سحری کھانے میں تاخیر کرنا افضل و اولی ہونے کا حکم اسی حکمت کی وجہ سے ہوا، تاکہ دونوں وقتوں کے اجزاء کے درمیان پوری طرح امتیاز حاصل ہو جائے۔

قابلیت اولیٰ جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے اور جس کو حقیقت محمدی بھی کہتے ہیں (اس کے مظہر یعنی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوات و تسلیمات ہوں) اس سے مراد ذات کی قابلیت تمام صفات کے ساتھ متصف ہونے کی وجہ سے نہیں ہے جیسا کہ بعض صوفیائے کرام نے یہ حکم بیان کیا ہے۔ بلکہ ذات عز شانہ کی قابلیت اس علم کے اعتبار سے ہے جو کہ ان تمام ذاتی و شیونی؂4 کمالات سے تعلق رکھتا ہے جو قرآن مجید کی حقیقت کا حاصل ہیں اور قابلیت اتصاف جو کہ خانۂ صفات کے مناسب ہے اور اللہ تعالی جل شانہ کی ذات اور صفات کے درمیان برزخ؂5 ہے وہ دوسرے انبیاء علی نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات کے حقائق ہیں، یہی قابلیت ان اعتبارات کے لحاظ سے جو اس میں مندرج (شامل) ہیں بہت سے حقائق بن گئی ہے۔ وہ قابلیت جس کو حقیقت محمدی علیہ الصلوۃ والتحیۃ کہتے ہیں، اگرچہ ظلیت رکھتی ہے (ظل آمیز ہے) لیکن صفات کا رنگ اس کے ساتھ ملا ہوا نہیں ہے اور پردہ و واسطہ درمیان میں حائل نہیں ہے۔ اور محمدی المشرب جماعت کے حقائق خاص اس علم کے اعتبار سے جو بعض ان کمالات کے ساتھ تعلق رکھتا ہے (اللہ تعالیٰ کی) ذات کی قابلیتیں ہیں اور وہ قابلیت محمدیہ اللہ تعالیٰ جل شانہ کی ذات پاک اور ان متعدد قابلیتوں کے درمیان برزخ ہے۔ اور ان بعض صوفیائے کرام کا یہ حکم لگانا (کہ حقیقت محمدی ذات کی قابلیت ہے جو کہ تمام صفات کے ساتھ متصف ہے) اس وجہ سے ہے کہ خانۂ صفات میں قابلیتِ محمدیہ کی قدم گاہ ہے اور بس، اور خانۂ صفات کے عروج کی انتہا اس قابلیت تک ہے، اسی لئے ضروری طور پر اس قابلیت کو آنسرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ اور چونکہ یہ قابلیت اتصاف ہرگز دور نہیں ہوتی اسی وجہ سے ان بعض صوفیائے کرام نے بھی یہ حکم لگایا ہے کہ حقیقت محمدی ہمیشہ حائل ہے ورنہ قابلیت محمدیہ عَلٰی مَظْہَرِہَا الصَّلٰوۃُ وَ التَّحِیَّۃُ (اس کے مظہر پر صلوۃ و سلام ہو) جو کہ ذات باری جل شانہ میں مجرد اعتبار ہے جس کا نظر سے دور ہونا ممکن بلکہ واقع ہے۔ اور قابلیت اتصاف بھی اگرچہ اعتبار ہی ہے لیکن برزخ ہونے کی وجہ سے اس نے ان صفات کا رنگ اختیار کر لیا ہے جو وجودِ زائد کے ساتھ خارج میں موجود ہیں اور اس کا دور ہونا ممکن نہیں ہے اسی لئے اس حائل کے ہمیشہ موجود ہونے کا حکم کرتے ہیں۔

اس قسم کے علوم جو اصالت وظلیت کی جامعیت سے پیدا ہوتے ہیں بہت وارد ہوتے ہیں، ان میں سے اکثر کاغذ کے پرچوں پر لکھے جاتے ہیں۔ مقامِ قطبیت مقامِ ظلیت کے علوم کے دقائق کے پیدا ہونے کا مقام ہے اور فردیت کا مرتبہ دائرۂ اصل کی معرفتوں کے وارد ہونے کا ذریعہ ہے، ان دو دولتوں یعنی مقامِ قطبیت؂6 اور مرتبۂ فردیت کے جمع ہونے کے بغیر ظل اور اصل کے درمیان تمیز کرنا حاصل نہیں ہوتا، اسی لئے بعض مشائخ قابلیتِ اولیٰ کو جسے تعینِ اول کہتے ہیں، ذات پر زائد نہیں جانتے اور اس قابلیت کے شھود (مشاہدہ میں آنے) کو تجلیٔ ذاتی خیال کرتے ہیں۔ اور حق وہی ہے جو میں نے تحقیق کیا ہے اور حقیقت امر وہی ہے جس کو میں نے واضح طور پر بیان کیا ہے۔ اور اللہ سبحانہ و تعالی ہی حق کو ظاہر فرماتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت بخشتا ہے۔

وہ رسالہ جس کے لکھنے کے لئے اس خاکسار کو حکم ہوا تھا اس کے پورا کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہو رہی ہے اور مسوّدے (تحریرات) اسی طرح پڑے ہوئے ہیں۔ معلوم نہیں اس توقف (رکاوٹ) میں اللہ تعالی جل شانہ کی کیا حکمت ہے۔ زیادہ لکھنے کی جرأت کرنا ادب کے خلاف ہے۔

؂1 کمالات قرآن مجید

؂2 وہ برکات جو قرآن مجید کے اس ماہ مبارک میں نازل ہونے سے تعلق رکھتی ہیں۔

؂3 حدیث میں وارد ہے کہ لوگ ہمیشہ خیر پر گامزن رہیں گے جب تک کہ وہ افطار میں (وقت ہو جانے کے بعد) عجلت سے کام لیں گے۔ (متفق علیہ از مشکوٰۃ)

؂4 جاننا چاہیے کہ صفات و شیونات میں بہت باریک فرق ہے، تمام صفات الہیہ خارج میں ذات تعالی و تقدس پر وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں۔ ض اور شیونات محض اعتبارات ہیں جو ذاتِ جل شانہٗ میں اعتبار کیے گئے ہیں۔ جیسا کہ حضرت مجدد صاحب موصوف قدس سرہٗ نے مکتوب نمبر 287 جلد اول میں اس فرق کو ایک مثال سے واضح فرمایا ہے اور اس مکتوب کو اس مکتوب چہارم کی شرح قرار دیا ہے۔ ان مضامین کو اس مکتوب میں مطالعہ کرنا چاہیے۔

؂5 برزخ بالفتح دو چیزوں کے درمیان حائل کو کہتے ہیں۔ اور مرنے کے بعد سے قیامت تک کے زمانے کو بھی اسی لئے برزخ کہتے ہیں۔

؂6 مقامِ قطبیت و مرتبۂ فردیت، جاننا چاہیے کہ ابدال و اقطاب و اغواث و افراد و اوتاد و اخیار و ابرار اور نقباء؛ اولیاء اللہ کی اقسام ہیں۔ ان میں سے بعض مخلوق سے پوشیدہ ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کو بھی نہیں جانتے اور اپنے حال کی عمدگی کو بھی نہیں جانتے اور وہ چار ہزار ہیں۔ اور ان میں سے بعض اہل حل و عقد ہیں اور وہ بارگاہ حق جل مجدہٗ کے سردار ہیں اور وہ تین سو ہیں جیسا کہ ''نفحات الانس'' میں لکھا ہے۔ امام احمد بن حنبل رضی اللہ عنہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے آپ نے فرمایا کہ ابدال شام میں رہتے ہیں اور وہ چالیس مرد ہیں۔ جب ان میں سے کوئی مر جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں کسی دوسرے آدمی کو مقرر فرما دیتا ہے۔ اور ان کے وجود کی برکت سے بارش برستی ہے اور انصاف حاصل کیا جاتا ہے اور ان کی مدد سے دشمنوں سے انتقام لیا جاتا ہے۔ اور ان کی برکت سے اہل شام سے عذاب لوٹا دیا جاتا ہے۔ اہل شام کی تخصیص قرب و جوار کی وجہ سے ہے ورنہ ان کی برکت و امداد تمام دنیا کے لیے ہے۔ خاص طور پر اس شخص کے لئے جو ان سے مدد و اعانت طلب کرے۔ (ماخوذ از ترجمۂ مشکوٰۃ و تفصیلہ فی المرقاۃ وغیرہ)