مکتوب 38
ذاتِ بحت (خالص ذات) تعالیٰ و تقدس کے ساتھ جو اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات سے منزّہ و پاک ہے تعلق قائم کرنے کے بارے میں ان ناقص لوگوں کی مذمت میں جو چون کو بے چون تصور کر کے اس کے ساتھ پھنسے ہوئے ہیں اور اہلِ فنا کے مرتبوں کے مختلف ہونے کے بارے میں کیونکہ اسی تفاوت پر علوم و معارف مرتب ہوتے ہیں اور اسی قسم کے دوسرے امور کے بیان میں۔ یہ بھی شیخ محمد چتری کی طرف صادر فرمایا۔
آپ کا مکتوب شریف موصول ہو کر باعثِ مسرت ہوا، حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھے اور ایک لمحے کے لئے بھی اپنے غیر کے حوالے نہ کرے۔ جو کچھ حق تعالیٰ شانہٗ کی ذاتِ محض کے سوا ہے اس کو غیرِ حق سے تعبیر کیا جاتا ہے اگرچہ وہ حق تعالیٰ کے اسماء و صفات ہی ہوں، اور یہ جو متکلمین نے صفاتِ حق جل شانہٗ کو لَا ھُوَ وَ لَا غَیْرُہٗ کہا ہے اس کے کچھ اور معنی ہیں۔ غیر سے ان کی مراد اصطلاحی غیر1 ہے اور انھوں نے انہی (اصطلاحی معنی) کی نفی کی ہے، مطلق طور پر نفی نہیں کی، اور کسی خاص لحاظ سے نفی کرنے سے عام طور پر نفی کرنا لازم نہیں آتا، اور حق تعالیٰ کی ذاتِ بحت (محض) سے سلب2 یعنی نفی کرنے کے سوا اور کچھ تعبیر نہیں کر سکتے۔ اس مرتبے میں جو کچھ اثبات ہے وہ الحاد ہے اور تمام تعبیروں سے بہتر تعبیر اور سب عبارتوں سے جامع عبارت ﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَيءٌ﴾ (الشوری: 11) ہے جس کا فارسی ترجمہ بے چون و بے چگون ہے (یعنی وہ بے مثل و بے مثال ہے) اور علم و شہود اور معرفت کو اس سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف کوئی راہ3 نہیں ہے جو کچھ دیکھتے، جانتے اور پہچانتے ہیں، یہ سب اس (حق تعالیٰ شانہٗ) کا غیر ہے، اس کے ساتھ گرفتار ہونا (تعلق قائم کرنا) اس کے غیر کے ساتھ گرفتار ہونا ہے، پس ان سب کی نفی کرنا لازمی ہے اور ان سب کو کلمۂ لَآ إِلٰہَ کے نیچے لا کر کلمۂ إِلَّا اللہُ کے ساتھ اس ذاتِ بے چون و بے چگون کا اثبات کرنا چاہیے۔ یہ اثبات شروع میں تقلید کے طور پر ہوتا ہے اور آخر میں تحقیق کے طور پر۔
بعض سالکوں نے جو مقصد کی انتہا تک نہیں پہنچے ہیں چون کو بے چون خیال کر لیا ہے اور اس کو شہود و معرفت سمجھ لیا ہے، تقلید والے لوگ ان (ناقص سالکین) سے کئی درجے بہتر ہیں کیونکہ ان کی تقلید نورِ نبوت علی صاحبہا الصلٰوۃ و التسلیمات کی قندیل سے حاصل کی گئی ہے جس میں سہو و خطا کو دخل نہیں ہے اور ان ناقص سالکین جماعت کا مقتدا (یعنی جس کی وہ تقلید کرتے ہیں) وہ غیر صحیح (یعنی غلط) کشف ہے۔ ع
ببیں تفاوتِ رہ از کجاست تا بہ کجا
ترجمہ:
دیکھو ایک راستے کا دوسرے راستے سے کس قدر فرق ہے۔
اور در حقیقت وہ جماعت ذات کی منکر ہے کیونکہ وہ اگرچہ مشاہدۂ ذات کا اثبات کرتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ یہ ثابت کرنا ہی عین انکار4 ہے۔ مسلمانوں کے امام، امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: "سُبْحَانَکَ مَا عَبَدْنَاکَ حَقَّ عبِاَدَتِکَ وَ لَکِنْ عَرَفْنَاكَ حَقَّ مَعْرِفَتِکَ" ”یعنی اے اللہ! تو پاک ہے، ہم نے کما حقہ تیری عبادت نہیں کی ہے لیکن ہم نے جیسا کہ تیرے پہچاننے کا حق ہے تجھ کو پہچان لیا ہے“۔ عبادت کا حق ادا نہ ہونا خود ہی ظاہر ہے لیکن معرفت کے حق کا حاصل ہونا اس بِنا پر ہے کہ اس ذاتِ تعالیٰ و تقدس میں معرفت کی انتہا اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ اس کو بے چون و بے چگون ہونے کے ساتھ پہچان لیں۔
کوئی سادہ دل (بے قوف) آدمی یہ گمان نہ کرے کہ اس معرفت میں تو عام و خاص، مبتدی و منتہی سب برابر ہیں (تو پھر عوام و خواص میں کیا فرق ہے) ہم (اس کے جواب میں) کہتے ہیں کہ اس (سادہ دل) نے علم اور معرفت میں امتیاز نہیں کیا ہے۔ مبتدی کو (اس امر کا) علم ہے اور منتہی کو اس کی معرفت حاصل ہے۔ معرفت فنا کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور یہ دولت فانی فی اللہ کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ مولانا روم فرماتے ہیں:؎
ہیچ کس را تا نگردد او فنا
نیست رہ در بارگاہِ کبریا
ترجمہ:
جب تک انساں کو نہ حاصل ہو فنا پائے کیونکر بارگاہِ کبریا
پس جب معرفت علم کے علاوہ ہوئی تو جاننا چاہیے کہ عقلِ مشہور کے سوا ایک اور امر ہے جس کو معرفت سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کو ادراکِ بسیط بھی کہتے ہیں۔ شعر:
فریادِ حافظ ایں ہمہ آخر بہ ہرزہ نیست
ہم قصۂ غریب و حدیثِ عجیب ہست
ترجمہ:
حافظ جو کہہ رہا ہے وہ بے کار تو نہیں
یہ بات بس غریب بھی ہے اور عجیب بھی
مثنوی:
اتصالے بے تکیف بے قیاس ہست رب الناس را با جانِ ناس
لیک گفتم ناس را نسناس نے ناس غیر از جانِ جاں آشناس نے
ترجمہ:
حق سے انساں کا عجب ہے اتّصال
عقل و کیفیت میں کیونکر آئے گا؟
یہ ہے بات انسان کی، حیواں کی نہیں
جانِ جاں کا بس ہے انساں آشنا
اور جب کہ فنا میں بھی مرتبے مختلف ہیں اس لئے بالضرور منتہیوں کو بھی حق تعالیٰ کی معرفت میں ایک دوسرے پر فضیلت ہو گی۔ جس شخص کی فنا کامل ترین ہو گی اس کی معرفت بھی کامل ترین ہو گی اور جس کی فنا کم درجے کی ہو گی اس کی معرفت بھی کم درجے کی ہو گی، علیٰ ہذا القیاس۔
سبحانہ اللہ! بات کہاں پہنچ گئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ میں اپنی بے حاصلی و نا مرادی، بے استقامتی اور بے ثباتی کی نسبت کچھ لکھتا اور دوستوں سے مدد طلب کرتا، مجھے اس قسم کی باتوں سے کیا مناسبت؎
آ گہ از خویشتن چو نیست جنین چہ خبر دارد از چناں و چنیں
ترجمہ:
جب کہ واقف نہیں ہے خود سے جنین
پھر وہ کیا جانے ہے چنان و چنیں
لیکن بلند پایہ ہمت اور ذاتی خصلت اجازت نہیں دیتی کہ انسان کمینے مرتبوں اور ادنیٰ سرمایوں کی طرف اُتر آئے یا ان کی طرف توجہ کرے۔ اگر کہتا ہے تو اسی (حق تعالیٰ) کے بارے میں کہتا ہے اگرچہ کچھ نہیں کہتا ہے اور اگر تلاش کرے تو اسی کو تلاش کرے اگرچہ کچھ بھی نہیں پاتا ہے، اگر کچھ حاصل رکھتا ہے تو اسی کو رکھتا ہے اگرچہ کچھ بھی نہیں رکھتا ہے، اور اگر واصل ہے تو اسی کے ساتھ واصل ہے اگرچہ (یہ واصل ہونا) بے حاصلی ہو۔
بعض بزرگانِ طریقت قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم العَلیّہ (اللہ تعالیٰ ان کے بلند رازوں کو پاکیزہ بنائے) کی عبارتوں میں جو شہودِ ذاتی واقع ہوا ہے اس کے معنی کاملین کے سوا کسی دوسرے پر ظاہر نہیں ہیں، ناقصوں کے لئے ان کے معنی کا سمجھنا نا ممکن ہے؎
در نیابد حال پختہ ہیچ خام
پس سخن کوتاہ باید والسلام
ترجمہ:
حالِ کامل جب نہ جانے کوئی خام
پھر تو خاموشی ہے بہتر، و السلام
آپ نے اپنے مکتوب کے عنوان کو کلمۂ ھُوَ الظَّاہِرُ ھُوَ الْبَاطِنُ سے مزّین فرمایا تھا۔
میرے مخدوم! ھُوَ الظَّاہِرُ ھُوَ الْبَاطِنُ درست ہے لیکن کچھ عرصہ گزرا ہے کہ فقیر اس عبارت سے توحیدِ (وجودی) کے معنی نہیں سمجھتا، اور اس کے معنی سمجھنے میں علماء کے موافق ہے اور ان (علماء) کی درستی توحیدِ (وجودی) والوں کی درستی سے بڑھ کر معلوم ہوئی۔ "کُلٌّ مُیَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَہٗ"5 ”ہر ایک کے لئے وہی چیز آسان ہوتی ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے“۔ مصرع:
ہر کسے را بہرِ کارے ساختند
ترجمہ:
ہر کسی کے واسطے ایک کام ہے
جو کچھ انسان پر لازمی ہے اور جس کے ساتھ وہ مکلّف ہے وہ اوامر کا بجا لانا اور نواہی سے بچنا ہے (جیسا کہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے) ﴿وَ مَا اٰتَاکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوا وَ اتَّقُوا اللہَ﴾ (الحشر: 7) ”اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو، اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ، اور اللہ سے ڈرتے رہو“ اور چونکہ انسان کو اخلاص کا حکم دیا گیا ہے اور یہ (اخلاص) فنا کے بغیر حاصل نہیں ہوتا اور محبتِ ذاتیہ کے بغیر میسّر نہیں ہوتا اس لئے بالضرور فنا کے مقدمات یعنی مقاماتِ عشرہ6 (دس مقامات) کو حاصل کرنا چاہیے۔ اگرچہ فنا محض اللہ تعالیٰ کی بخشش (سے حاصل ہوتی) ہے لیکن اس کے مقدمات اور مبادی (ابتدائی امور) کسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگرچہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان مقدمات (ابتدائی امور) کا کسب کئے بغیر اور اپنی حقیقت کو ریاضتوں اور مجاہدوں کے ذریعے پاک صاف کئے بغیر حقیقتِ فنا سے مشرف کر دیئے جاتے ہیں، اور اس وقت اس کا حال دو صورتوں سے خالی نہیں ہے، یا تو اس کو مقامِ نہایت النہایات میں روک لیتے ہیں یا اس کو ناقص لوگوں کی تکمیل کے لئے عالَم (دنیا) کی طرف لوٹا دیتے ہیں۔ پہلی صورت میں اس کی سَیر مذکورہ بالا (دس 10) مقامات میں واقع نہیں ہوتی اور وہ تجلیاتِ اسمائی و صفاتی کی تفصیلات سے بے خبر رہتا ہے اور دوسری صورت میں جب اس کو عالَم کی طرف لوٹاتے ہیں تو (رجوع کے وقت) اس کی سیر مقامات کی تفصیل پر واقع ہوتی ہے اور ان تجلیات سے جن کی انتہا نہیں ہے اس کو مشرف کرتے ہیں۔ وہ (ظاہر میں) مجاہدے کی صورت رکھتا ہے لیکن حقیقت میں کمال درجے کے ذوق و لذت میں ہے، بظاہر ریاضت میں ہے لیکن باطن میں نعمت و لذت میں ہے۔ مصرع
ایں کارِ دولت، ست کنوں تا کرا دہند
ترجمہ:
یہ ہے عظیم کام ملے دیکھئے کسے
اگر یہ کہا جائے کہ جب اخلاص ان احکامات میں سے ہے جن کا بجا لانا واجب ہے اور ان کی حقیقت فنا کے بغیر حاصل نہیں ہوتی تو نیک و ابرار عالم اور اچھے صالحین حضرات جو فنا کی حقیقت سے مشرف نہیں ہوئے ہیں وہ اخلاص کے ترک کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے تو ہم (اس کے جواب میں) کہیں گے کہ نفسِ اخلاص ان کو حاصل ہے اگرچہ اخلاص کے بعض افراد کے ضمن میں ہو اور فنا حاصل ہونے کے بعد کمالِ اخلاص حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے تمام افراد کو شامل ہوتا ہے اور اسی لئے (مشائخ قدس سرہم کے کلام میں) کہا گیا ہے کہ اخلاص کی حقیقت فنا کے بغیر حاصل نہیں ہوتی اور (ان حضرات نے) یہ نہیں کہا کی نفسِ اخلاص، فنا کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔
1 غیر یعنی جو نہ ذات کا عین ہو اور نہ ذات سے قائم ہو اور "لَا ھُوَ" عینیت و اتحاد کی نفی کے معنی میں ہے۔ پس ان کے قول "لَا ھُوَ وَ لَا غَیْرُہٗ" کے معنی یہ ہیں کہ صفاتِ باری تعالیٰ ذات پر زائد ہیں اور ذات کے ساتھ قائم ہیں۔
2 سلب بمعنی نفی کرنا، یعنی اس کا جسم نہیں ہے، نہ وہ جوہر ہے نہ عرض، نہ وہ متصل ہے نہ منفصل اور نہ خارج ہے نہ داخل وغیرہ۔
3 اس معنی میں بعض اکابر نے فرمایا ہے: "سُبْحَانَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلْ إِلَیْہِ سَبِیْلًا إِلَّا بِا لْعِجْزِ عَنْ مَّعْرِفَتِہٖ" اور "لَا یُعْرِفُ اللہَ إِلَّا اللہُ"
4 کیوں کہ انہوں نے چون کو حقیقت کے بر خلاف بے چون تصور کر لیا ہے اور مطلبِ حقیقی چون و چگون ہونے سے پاک ہے۔
5 یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس کو بخاری و مسلم میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا گیا ہے۔
6 مقامات عشرہ یعنی راہ سلوک کے دس مقام ہیں جن میں سے پہلا مقام توبہ اور آخری مقام رضا ہے اور درمیان کے مقامات: زہد، توکل، صبر، قناعت، شکر، خوف، رجا اور فقر ہیں۔ تفصیل کے لئے احیاء علوم الدین، عوارف المعارف اور قوت القلوب وغیرہ ملاحظہ فرمائیں۔ جاننا چاہیے کہ مراتبِ کمال میں مقامِ رضا سے اوپر اور کوئی مقام متصور نہیں ہے اور مقامِ رضا کی حقیقت کما حقہٗ آخرت میں ظاہر ہو گی۔
7 قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿أَلَا لِلّٰهِ ٱلدِّينُ ٱلْخَالِصُ﴾ (الزمر: 3) أَیضًا قُوْلُہٗ تَعَالٰی: ﴿وَ مَآ أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ﴾ (البینہ: 5)