مکتوب 36
اس بیان میں کہ شریعتِ مقدسہ دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں کی ضامن ہے اور کوئی مقصد ایسا نہیں ہے جس کے حاصل کرنے میں شریعت کے ما سوا کسی اور چیز کی ضرورت پڑے اور طریقت و حقیقت دونوں شریعت کے خادم ہیں اور اس کے مناسب امور کے بیان میں۔ یہ بھی ملا حاجی محمد لاہوری کی طرف صادر ہوا۔
حَقَّقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ بِحَقِیْقَةِ الشَّرِیْعَةِ الْمُصْطَفَوِیَّةِ عَلٰی صَاحِبِھَا الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ وَ التَّحِیَّةُ وَ یَرْحَمُ اللہُ عَبْداً قَالَ اٰمِیْنًا (حق تعالیٰ سبحانہٗ ہم کو اور آ پ کو حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم و تحیتہ کی شریعت کی حقیقت سے آگاہ فرمائے اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم کرے جس نے اس دعا پر آمین کہی)۔
شریعت کے تین جزو ہیں: ۱۔ علم، ۲۔ عمل اور ۳۔ اخلاص، جب تک یہ تینوں جزو ثابت نہ ہو جائیں اس وقت تک (حقیقت میں) شریعت ثابت نہیں ہوتی، اور جب (حقیقت میں) شریعت ثابت ہو گئی تو حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہو گئی جو کہ دنیا اور آخرت کی تمام سعادتوں سے اوپر(افضل) ہے۔ ﴿وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللہِ أَکْبَرُ﴾ (توبہ: 72) ”اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوش نودی تو سب سے بڑی چیز ہے“۔
پس شریعت تمام دنیوی و اخروی سعادتوں کی ضامن ہوئی، کوئی بھی مقصد نہیں جس کے حاصل کرنے میں شریعت کے ما سوا کسی اور چیز کی ضرورت پیش آئے۔ طریقت اور حقیقت1 کہ جس کے ساتھ صوفیائے کرام ممتاز ہیں، شریعت کے تیسرے جزو یعنی اخلاص کے تکمیل میں شریعت کے خادم ہیں پس ان دونوں کے حاصل کرنے سے مقصود شریعت کا کامل کرنا ہے نہ کہ شریعت کے سوا کوئی اور امر ہے۔
احوال و مواجید (وجد و حال)، علوم و معارف جو کہ صوفیائے کرام کو راہ ِ سلوک طے کرنے کے دوران حاصل ہوتے ہیں (اصلی) مقاصد میں سے نہیں ہیں بلکہ وہم و خیالات ہیں جن سے طریقت کے طلبا کی تربیت کی جاتی ہے۔ ان سب سے گزر کر مقامِ رضا تک پہنچنا چاہیے جو کہ جذبہ و سلوک کے مقامات میں آخری مقام ہے کیونکہ طریقت و حقیقت کی منزلوں کے طے کرنے سے اس کے سوا اور کچھ مقصود نہیں ہے کہ اخلاص حاصل ہو جائے جو کہ حق تعالیٰ کی رضا (خوشنودی) حاصل ہونے کے لئے لازمی ہے۔
تینوں قسم کی تجلیات (یعنی تجلیاتِ افعالیہ، صفاتیہ اور ذاتیہ) اور عارفانہ مشاہدات سے گزار کر ہزاروں سالکوں میں سے کسی ایک کو اخلاص اور مقامِ رضا کی دولت نصیب فرماتے ہیں، کم سمجھ لوگ احوال و مواجید (حال و وجد) کو اصلی مقاصد میں سے شمار کرتے ہیں اور مشاہدات و تجلیات کو اصل مطلب خیال کرتے ہیں اس لئے وہ وہم و خیال کی بندش میں پھنسے رہتے ہیں اور شریعت کے کمالات سے محروم رہتے ہیں۔ ﴿کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ إِلَیْہِ اَللہُ یَجْتَبِیٓ إِلَیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَ یَھْدِی إِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ﴾ (الشورٰی: 13) ”مشرکین کو وہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوتے دے رہے ہو۔ اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے اور جو کوئی اس سے لو لگاتا ہے اسے اپنے پاس پہنچا دیتا ہے“۔
ہاں اخلاص کے مقام کا حاصل ہونا اور رضا کے مرتبے تک پہنچنا ان احوال و مواجید کے طے کرنے پر موقوف اور ان علوم و معارف کے ساتھ وابستہ ہے، پس یہ سب امور مطلوب حاصل کرنے کے وسائل اور مقصود تک پہنچنے کے ابتدائی اسباب ہیں اور اس فقیر (حضرت مجدد علیہ الر حمۃ) پر اس مطلب کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے حبیب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے طفیل اس راہِ سلوک میں پورے دس سال گزرنے کے بعد واضح طور پر ظا ہر ہوئی اور "شاہدِ شریعت" (شریعت کا معشوق) کما حقہ جلوہ گر ہوا۔ اگرچہ شروع ہی سے احوال و مواجید میں گرفتار نہیں تھا اور شریعت کے حقیقت کے ساتھ متحقق ہونے کے سوا اور کوئی مطلب پیش نظر نہیں تھا لیکن پورے دس سال گذرنے کے بعد معاملے کی اصل حقیقت جیسی کہ چاہیے تھی ظاہر ہوئی۔ اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی ذٰلِکَ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا فِیْہِ مُبَارَکًا عَلَیْہِ2 (اس پر اللہ تعالیٰ کا بے حد حمد و شکر ہے، ایسا حمد و شکر جو کہ اغراضِ فاسدہ، ریا و سمعہ سے پاک اور اس کی ذات و صفات کے اعتبار سے مبارک ہے)
مغفرت پناہ میاں شیخ جمال کے فوت ہونے سے تمام مسلمانوں کے لئے ر نج و غم اور پریشانی لاحق ہے، ان کے مخدوم زادوں کو اس فقیر کی جانب سے تعزیت کرنے کے بعد فاتحہ پڑھیں۔ و السلام
1 جاننا چاہیے کہ حقیقت سے مراد شریعت کی حقیقت ہے، پس حقیقت، شریعت سے جدا کوئی امر نہیں ہے، اور طریقت سے مراد شریعت کی حقیقت تک پہنچنے کا طریقہ۔ شریعت کی حقیقت حاصل ہونے سے پہلے شریعت کی صرف صورت حاصل ہوتی ہے اور حقیقتِ شریعت کا حصول مقامِ اطمینان حاصل ہونے اور درجۂ ولایت تک پہنچنے کے بعد ہے۔(معارف لدنیہ، معرفت: 25)
2 حاکم نے اپنی کتاب مستدرک میں روایت کیا ہے: "مَا أَنْعَمَ اللہُ عَلٰی عَبْدٍ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَقَالَ: اَلْحَمْدُ لِلہِ، إِلَّا وَ قَدْ أَدّٰی شُکْرَہَا فَإِنْ قَالَھَا الثَّانِیَۃَ جَدَّدَ اللہُ لَہٗ ثَوَابَھَا فَإِنْ قَالَھَا الثَّالِثَۃَ غَفَرَ اللہُ لَہٗ ذُنُوْبَہٗ"(مستدرک حاکم، حدیث نمبر: 1871) انتہٰی