دفتر 1 مکتوب 35: محبتِ ذاتی کے مقام کے بیان میں جس میں کہ انعام و ایلام برابر ہوتا ہے

مکتوب 35

محبتِ ذاتی کے مقام کے بیان میں جس میں کہ انعام و ایلام برابر ہوتا ہے۔ یہ بھی میاں حاجی محمد لاہوری کی طرف صادر ہوا۔

نَجَّانَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَنْ زَیْغِ الْبَصَرِ بِحَرْمَةِ سَیِّدِ الْبَشَرِ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (اللہ تعالیٰ بطفیل حضرت سید البشر ﷺ نظر کی کجی یعنی غیر اللہ کی طرف مائل ہونے سے بچائے) سیر و سلوک سے مراد نفس امارہ کا تزکیہ اور اس کی تطہیر (پاک کرنا) ہے تاکہ جھوٹے خداؤں کی عبادت سے جو کہ خواہشات نفسانی کے وجود سے پیدا ہوتے ہیں، چھٹکارا حاصل ہو جائے اور حقیقت میں ایک واحد و بر حق معبود خدائے تعالیٰ و تقدس کے سوا کوئی توجہ کا قبلہ نہ رہے اور اس پر کسی بھی مقصد کو اختیار نہ کرے خواہ وہ دینی مقاصد میں سے ہو یا دنیوی مطالب میں سے۔ دینی مقاصد اگرچہ نیکیوں میں سے ہیں لیکن یہ ابرار کا کام ہے، مقربین ان کو برائیاں جانتے ہیں اور سوائے ایک ذاتِ حق کے اور کسی کو اپنا مقصود خیال نہیں کرتے۔ یہ دولت فنا؂1 کے حاصل ہونے اور محبتِ ذاتی کے ثابت ہونے پر منحصر ہے کیونکہ اس مقام میں انعام (نعمت دینا) و ایلام (رنج و الم دینا) برابر ہے، عذاب میں بھی وہی لذت ہے جو کہ نعمت دینے میں ہے۔ (یہ حضرات) اگر بہشت کی طلب کرتے ہیں تو اسی لئے کہ وہ حق تعالیٰ و تقدس کی رضا کا مقام ہے اور اس کے طلب کرنے میں حق تعالیٰ شانہٗ کی رضا مندی ہے اور دوزخ سے پناہ اس لئے مانگتے ہیں کہ وہ حق تعالیٰ کے غضب کا مقام ہے۔ بہشت کے طلب کرنے سے ان کا مقصد نفس کی لذت طلب کرنا نہیں ہے اور نہ ہی دوزخ سے ان کا پناہ مانگنا رنج و تکلیف کے باعث ہے، کیونکہ جو کچھ محبوب کی طرف سے ہے وہ ان بزرگوں کے نزدیک پسندیدہ اور عین مرضی کے مطابق ہے۔ ’’کُلُّ مَا یَفعَلُہُ الْمَحْبُوْبُ مَحْبُوْبٌ‘‘ (محبوب جو کام کرتا ہے وہ بھی محبوب (پسندیدہ) ہی ہوتا ہے) اخلاص کی حقیقت یہاں حاصل ہوتی ہے اور باطل خداؤں (کی عبادت) سے چھٹکارا اسی مقام میں میسر ہوتا ہے اور کلمہ توحید اسی وقت درست ہوتا ہے ’’وَ بِدُوْنِہٖ خَرْطُ الْقَتَادِ‘‘؂2 (اور اس کے بغیر بے فائدہ رنج و تکلیف اٹھانا ہے)۔

محبتِ ذاتی جو کہ اسماء و صفات کے ملاحظے اور محبوب کے انعام و اکرام کے وسیلے کے بغیر ہو مقصود کا حاصل ہونا بہت مشکل ہے اور شرکت کو جلا دینے والی اس محبت کے بغیر فنائے مطلق حاصل نہیں ہوتی۔ مثنوی:

عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت

ہرچہ جز معشوق باقی جملہ سوخت

تیغِ لا در قتلِ غیرِ حق براند

در نگر زاں پس کہ بعدِ لَا چہ ماند

ماند إِلَّا اللہ باقی جملہ رفت

شاد باش اے عشق! شرکت سوز زفت

ترجمہ:

جب کہ روشن عشق کا شعلہ ہوا

ما سوا معشوق کے سب جل گیا

غیرِ حق کو تیغِ لا سے قتل کر

بعد ازاں کر اس کے باقی پر نظر

رہ گیا اللہ باقی سب فنا

عشق! شرکت سوز تجھ کو مرحبا


؂1 فنا سے مراد مشاہدۂ ذاتِ حق تعالیٰ کے غلبے کی وجہ سے ما سوائے حق تعالیٰ کا نسیان ہے۔(معارف)

؂2 یعنی فنائے مطلق حاصل ہونے اور محبتِ ذاتی ثابت ہونے کے بغیر بے فائدہ رنج و تکلیف اٹھانا ہے۔