دفتر 1 مکتوب 34: عالمِ امر کے جواہرِ خمسہ (پانچ لطائف) کے حتی الامکان شرح و تفصیل کے ساتھ بیان میں

مکتوب 34

عالمِ امر کے جواہرِ خمسہ (پانچ لطائف) کے حتی الامکان شرح و تفصیل کے ساتھ بیان میں۔ یہ بھی ملا حاجی محمد لاہوری کی طرف صادر ہوا۔

دونوں جہان کی سعادت کا حاصل ہونا سردارِ دو عالم ﷺ کی اتباع پر وابستہ ہے۔ وہ فلسفی جس نے اپنی بصیرت کی آنکھ میں صاحبِ شریعت ﷺ کی متابعت کا سرمہ نہیں لگایا ہے، وہ عالمِ امر کی حقیقت (کو دیکھنے) سے اندھا ہے، چہ جائیکہ اس کو مرتبہ وجوب تعالیٰ و تقدس کا شعور ہو۔ اس کی کوتاہ نظر صرف عالمِ خلق پر لگی ہوئی ہے اور وہاں بھی نا مکمل ہے۔ جن پانچ جواہر؂1 کو اہلِ فلسفہ نے ثابت کیا ہے وہ سب عالمِ خلق میں ہیں۔ نفس اور عقل کو جو انھوں نے مجردات (یعنی جو مادہ سے پاک ہو) شمار کیا ہے، یہ ان کی نادانی ہے۔ نفسِ ناطقہ تو یہی نفسِ امارہ (برائی کی طرف بہت امر کرنے والا) ہی ہے جو کہ تزکیہ (رذائل سے پاک کرنے) کا محتاج ہے اور اس کی ہمت ذاتی طور پر کمینگی اور پستی کی طرف ہے۔ اس کو عالمِ امر کے ساتھ کیا نسبت، اور تجرد کے ساتھ کیا مناسبت، اور عقل خود معقولات میں سے سوائے ان امور کے جو محسوسات کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں بلکہ انھوں نے محسوسات کا حکم پیدا کر لیا ہے اور کچھ ادراک نہیں کرتی۔ لیکن جو امر محسوسات کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اور جس کی نظیر و مثال مشاہدات میں ظاہر نہیں ہے وہ عقل کے ادراک میں نہیں آتا اور اس کی بندش عقل کی کنجی سے نہیں کھلتی۔ اس لئے اس (عقل) کی نظر بے چونی کے احکام (معلوم کرنے) سے کوتاہ ہے اور غیبِ محض میں گمراہ ہے اور یہ (عقل کے) عالمِ خلق (سے ہونے) کی علامت ہے۔ عالمِ امر کا رخ بے چونی کی طرف اور اس کی توجہ بے چگونی کی طرف ہے۔ عالم امر کی ابتدا مرتبۂ قلب؂2 ہے اور قلب کے اوپر روح اور روح کے اوپر سر اور سر کے اوپر خفی اور خفی کے اوپر اخفیٰ ہے۔ اگر عالمِ امر کے (ان) پانچ مراتب کو جواہرِ خمسہ کہیں تو اس کی گنجائش ہے اور فلسفی نے چند ٹھیکریوں کو جمع کر کے اپنی نظر کی کوتاہی کے باعث ان کو جواہر سمجھ لیا ہے۔

عالمِ امر کے ان جواہرِ خمسہ کا حاصل کرنا اور ان کے حقائق پر اطلاع پانا حضرت سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کے کامل فرماں برداروں کو حاصل ہے۔ جب عالمِ صغیر یعنی انسان کے اندر عالمِ کبیر کی ہر چیز کا نمونہ ہے تو عالمِ کبیر میں بھی ان جواہرِ خمسہ کے اصول ثابت ہیں۔ انسان کے قلب کی طرح عرشِ مجید عالمِ کبیر کے ان جواہرِ خمسہ کا مبدأ ہے اور اسی مناسبت کی وجہ سے قلب کو بھی اللہ تعالیٰ کا عرش کہتے ہیں۔ جواہر خمسہ کے باقی مراتب عرش کے اوپر ہیں۔

عالمِ کبیر میں عرش عالمِ خلق اور عالمِ امر کے درمیان برزخ (واسطہ) ہے جس طرح عالمِ صغیر میں انسان کا قلب عالمِ خلق؂3 اور عالمِ امر کے درمیان برزخ ہے۔ قلب و عرش اگرچہ بظاہر عالمِ خلق میں ہیں لیکن (حقیقت میں) یہ عالمِ امر سے ہیں اور بے چونی و بے چگونی (بے کیف ہونے) سے کچھ حصہ رکھتے ہیں۔ ان جواہرِ خمسہ کی حقیقت پر مطلع ہونا اولیاء اللہ میں سے کاملین کے حق میں ثابت ہے جو مراتبِ سلوک کو تفصیل کے ساتھ طے کر کے مرتبہ نہایت النہایت تک پہنچ گئے ہیں؎

ہر گدائے مردِ میداں کے شود

پشۂ آخر سلیماں کے شود

ترجمہ:

نہیں ہوتا بھکاری مردِ میداں

کہ مچھر بن نہیں سکتا سلیماں

اگر محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی صاحبِ دولت کی بصیرت کی آنکھ کو مرتبۂ وجوب کی تفصیل کے لئے بقدرِ امکان کھول دیں تو وہ بھی اس مقام میں ان جواہر کے اصول کا مطالعہ کر لیتا ہے اور عالمِ صغیر و کبیر کے ان جواہر کو اُن حقیقی جواہر کے ظلال کی صورت میں معلوم کر لیتا ہے۔ ع

ایں کارِ دولت ست کنوں تا کرا رسد

ترجمہ:

یہ ہے عظیم کام، ملے دیکھئے کسے

﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَ اللہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعہ: 4) ”یہ اللہ کا فضل ہے، وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

جب عالمِ امر کے حقائق کا ظاہر نہ کرنا اس کے پوشیدہ معنوں اور دقیق مطالب کی وجہ سے ہے تو پھر ہر کوتاہ نظر شخص اس سے کیا حاصل کر سکتا ہے۔ راسخ العلم حضرات (جن کو علم میں رسوخ حاصل ہے) جو کہ ﴿وَ مَا أُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِیْلًا﴾ (بنی اسرائیل: 85) ”اور تمہیں جو علم دیا گیا ہے وہ بس تھوڑا سا ہی علم ہے“۔ کے شرف سے مشرف ہیں، وہ اس کی حقیقت سے آگاہ ہیں۔ ع

ھَنِیْئًا لِّاَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا

ترجمہ:

مبارک منعموں کو ان کی نعمت

مصلحت نیست کہ از پردہ بروں افتد راز

ورنہ در مجلسِ رنداں خبرے نیست کہ نیست

ترجمہ:

مصلحت کا یہ تقاضا ہے عیاں راز نہ ہو

ورنہ رندوں سے تو پوشیدہ کوئی راز نہیں

وَ السَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَةَ الْمُصْطَفٰے عَلَیْہِ وَ عَلَیْھِمْ مِنَ الصَّلَوَاتِ وَ التَّسْلِیْمَاتِ أَتَمُّھَا وَ أَدْوَمُھَا (اور سلام ہو آپ پر اور اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے اور حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کی پیروی کو لازم پکڑے)

نیز دل میں آیا کہ جواہرِ مقدسہ علیا کا تھوڑا سا بیان بھی تحریر کیا جائے۔ جاننا چاہیے کہ ان جواہر کی ابتدا صفات اضافیہ؂4 سے جو کہ وجوب اور امکان کے درمیان برزخوں (واسطوں) کی مانند ہیں اور ان کے اوپر صفاتِ حقیقيہ؂5 ہیں جن کی تجلیات سے روح کو حصہ حاصل ہے۔ قلب کو صفاتِ اضافیہ کے ساتھ تعلق ہے اور وہ ان کی تجلیات سے مشرف ہے۔ ان جواہرِ علیا (یعنی جواہرِ خمسہ مذکورہ) میں سے باقی جواہر جو کہ صفات حقیقيہ سے اوپر ہیں، حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے دائرے میں داخل ہیں اسی لئے ان تین مراتب (یعنی سِر، خفی اور اخفیٰ) کی تجلیات کو تجلیاتِ ذاتیہ کہتے ہیں۔ ان کے متعلق گفتگو کرنا مصلحت کے خلاف ہے۔

قلم ایں جا رسید و سر بشکست

ترجمہ:

قلم آیا یہاں تو ٹوٹ گیا

؂1 فلسفیوں کے جواہر خمسہ سے مراد حال، محل اور ان دونوں سے مرکب نفس و عقل ہے۔ یعنی صورت خواہ جسمیہ ہو یا نوعیہ، ہیولیٰ، جسم، نفس اور عقل۔

؂2 جاننا چاہیے کہ صوفیائے کرام نے لطائف کے مقامات انسان کے جسم میں متعین فرمائے ہیں۔ ان میں سے بعض کے تعین میں صوفیائے کرام کا اختلاف ہے۔ لطیفۂ قلب کا مقام بائیں پستان سے دو انگشت نیچے مائل بہ پہلو ہے اور اس کا نور سفید ہے۔ لطیفۂ سِر کا مقام بائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بوسطِ سینہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مقام سینے کے درمیان اور اس کا نور سبز ہے۔ لطیفۂ خفی کا مقام دائیں پستان کے برابر دو انگشت کے فاصلے پر مائل بوسطِ سینہ ہے۔ بعض کے نزدیک اس کا مقام ابرو کے اوپر ہے اور اس کا نور نیلگوں ہے۔ لطیفہ اخفیٰ کا مقام عین وسطِ سینہ ہے اور بعض کے نزدیک اس کا مقام ام الدماغ ہے۔ اس کا نور سیاہ آنکھ کی سیاہ پتلی کی مانند ہے

؂3 قَالَ اللہُ تَعَالٰی: ﴿ألَآ لَہُ الْخَلْقُ وَ الْأَمْرُ﴾ (الأعراف: 54) یعنی خبر دار! عالمِ خلق اور عالمِ امر دونوں حق تعالیٰ ہی کے لئے ہیں۔ تفسیر مظہری میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے: "قَالَتِ الصُّوْفِيَّةُ: اَلْمُرَادُ بِالْخَلْقِ وَ الْأَمْرِ عَالَمُ الْخَلْقِ يَعْنِي الْجُسْمَانِيَّةَ وَ الْعَرْشَ وَ مَا تَحْتَهٗ مِنَ السَّمٰوَاتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا وَ أُصُوْلُهَا الْعَنَاصِرُ الْأَرْبَعَةُ النَّارُ وَ الْهَوَاءُ وَ الْمَاءُ وَ التُّرَابُ وَ يَتَوَلَّدُ مِنْهَا النُّفُوْسُ الْحَيْوَانِيَّةُ وَ النَّبَاتِيَّةُ وَ الْمَعْدَنِيَّةُ وَ هِىَ أَجْسَامٌ لَطِيْفَةٌ سَارِيَةٌ فِيْ أَجْسَامٍ كَثِيْفَةٍ وَّ عَالَمِ الْأَمْرِ يَعْنِي الْمُجَرَّدَاتِ مِنَ الْقَلْبِ وَ الرُّوْحِ وَ السِّرِّ وَ الْخَفِيِّ وَ الْأَخَفَى الَّتِيْ هِيَ فَوْقَ الْعَرْشِ سَارِيَةٌ فِي النُّفُوْسِ الْإِنْسَانِيَّةِ وَ الْمَلَكِيَّةِ وَ الشَّيْطَانِيَّةِ سَرَيَانَ الشَّمْسِ فِي الْمِرْآةِ سُمِّيَتْ بِعَالْمِ الْأَمْرِ لِأَنَّ اللهَ تَعَالٰى خَلَقَهَا بِلَا مَادَّةً بِأَمْرِهٖ كُنْ. قَالَ الْبَغْوِيُّ قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: فَرِّقْ بَيْنَ الْخَلْقِ وَ الْأَمْرِ فَمَنْ جَمَعَ بَيْنَهُمَا فَقَدْ كَفَرَ" (تفسیر مظہری، جلد 3، صفحہ نمبر: 360)

؂4 صفاتِ اضافیہ یعنی پیدا کرنا، رزق دینا، مارنا، زندہ کرنا، رنج و الم دینا اور انعام کرنا وغیرہ۔

؂5 صفاتِ حقیقیہ یعنی ارادہ و قدرت، سمع و بصر، کلام، علم، حیوٰۃ اور تکوین۔