مکتوب 31
توحید وجودی کے ظہور اور حق تعالٰی و تقدس کے قرب و معیت ذاتی کی حقیقت اور اس مقام سے گزر جانے اور اس مقام کی تحقیق سے متعلق رکھنے والے بعض سوال و جواب کے بیان میں شیخ صوفی1 کی طرف صادر فرمایا۔
ثَبَّتَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی عَلی مُتَابَعَۃِ سَيِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ وَ عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی آلِھِمْ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہم کو حضرت سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ و علٰی آلہ و اصحابہ وسلم کی متابعت پر ثابت قدم رکھے)
ایک شخص نے جو کہ آپ کی مبارک مجلس میں حاضر تھا نقل کیا کہ میاں شیخ نظام تھانیسری کے کسی درویش نے اس فقیر (حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) کے متعلق کہا کہ وہ وحدتِ وجود کا انکار کرتا ہے۔ اس ناقل شخص نے اس فقیر سے خواہش کی کہ اس بارے میں جو کچھ حقیقت ہے آپ کی خدمت میں لکھی جائے تاکہ لوگ اس نقل سے کئی طرح کی باتیں نہ بنائیں اور بد ظنی میں مبتلا نہ ہو جائیں، کیونکہ ﴿اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12) ”بعض گمان گناہ ہوتے ہیں“۔ اس شخص کے سوال کو قبول کرتے ہوئے چند کلمات پیش کر کے (پڑھنے) کی تکلیف دیتا ہوں۔
میرے مخدوم و مکرم! فقیر کا اعتقاد بچپن سے اہلِ توحید کے مشرب کا پھل تھا اور اس فقیر کے والد ماجد قدس سرہٗ بھی بظاہر اسی مشرب پر ہوئے اور باطن میں پوری پوری نگرانی حاصل ہونے کے با وجود جو کہ وہ مرتبۂ بے کیفی کی جانب رکھتے تھے اور دائمی طور پر اس طریقے کے ساتھ مشغول رہے ہیں اور اس مضمون کے مصداق کہ "اِبْنُ الْفَقِیْہ نِصْفُ الْفَقِیْہِ" (فقیہ کا بیٹا بھی آدھا فقیہ ہوتا ہے) فقیر کو اس مشرب سے بلحاظِ علم بہت فائدہ اور بڑی لذت حاصل تھی۔ یہاں تک کہ حق سبحانہ و تعالٰی نے محض اپنے فضل و کرم سے ارشاد و ہدایت پناہ، حقائق و معارف آگاہ، پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے، ہمارے شیخ و مولا و قبلہ حضرت خواجہ محمد باقی قدسنا اللہ تعالٰی بسرہ کی خدمت میں پہنچایا اور انھوں نے اس فقیر کو سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کا طریقہ تعلیم فرمایا اور کامل توجہ اس مسکین کے حال پر ملحوظ رکھی۔
اس طریقہ عالیہ میں محنت کے بعد تھوڑی مدت میں توحیدِ وجودی منکشف ہو گئی اور اس کشف میں بہت مبالغہ پیدا ہو گیا، اس مقام کے علوم و معارف بکثرت ظاہر ہوئے اور اس مرتبے کی باریکیوں میں سے شاید ہی کوئی باریکی رہ گئی ہو کہ جس کو اس فقیر پر ظاہر نہ کیا گیا ہو۔ حضرت شیخ محیی الدین2 ابن عربی قدس سرہٗ کے معارف کے دقائق کو جیسا کہ چاہیے ظاہر و واضح فرمایا اور جس تجلئ ذاتی کے متعلق صاحب فصوص (شیخ محی الدین ابن عربی موصوف) نے بیان فرمایا ہے کہ عروج کی انتہا اس کے سوا نہیں جانتا، اور اس تجلی کی شان میں فرمایا ہے: "وَ مَا بَعْدَ ھَذَا إِلَّا الْعَدَمُ الْمَحْضُ" (اور اس کے بعد عدم محض کے سوا اور کچھ نہیں ہے) یہ فقیر اس تجلئ ذاتی سے مشرف ہوا اور اس تجلی کے علوم و معارف بھی کہ جن کو شیخ موصوف خاتم الولایت کے ساتھ مخصوص جانتا ہے، تفصیل کے ساتھ معلوم ہوئے اور سکرِ وقت و غلبۂ حال اس توحید (وجودی) میں اس حد تک حاصل ہوا کہ بعض عریضوں میں جو کہ فقیر نے اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ (باقی باللہ) قدس سرہٗ کی خدمت میں لکھے تھے ان دو شعروں کو جو کہ سرا سر سُکر سے متعلق ہیں لکھا تھا۔ رباعی:
اے دریغا کین شریعت، ملتِ اعمائی است
ملتِ ما کافری و ملتِ ترسائی است
کفر و ایماں زلف و روئے آں پری زبیائی است
کفر ایماں ہر دو اندر راہِ ما یکتائی است
ترجمہ:
شریعت آہ اندھوں کی ہے ملت
وہ کافر کی ہے یا ترسا کی حالت
رخ و زلفِ پری ہیں کفر و ایماں
وہی میرے لیے راہ ہدایت
اور یہ حالت بہت مدت تک رہی بلکہ مہینوں نہیں کئی سالوں تک رہی، اچانک حق تعالیٰ جل شانہٗ کی بے انتہا عنایت غیب کے جھروکوں سے میدانِ ظہور میں جلوہ گر ہوئی، اور اس پردے کو جو بے چونی و بے چگونی (بے مثل وبے مثال) کے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھا اتار پھینکا اور سابقہ علوم جو اتحاد اور وحدتِ وجود کی خبر دیتے رہے تھے زائل ہونے لگے اور احاطہ3 و سریان4 و قرب و معیتِ ذاتیہ5 جو اس مقام میں ظاہر ہوئے تھے پوشیدہ ہو گئے اور پورے یقین کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ صانع (حق تعالیٰ) جل شانہٗ کو عالم کے ساتھ ان مذکورہ نسبتوں میں سے کوئی نسبت بھی ثابت نہیں ہے بلکہ حق تعالیٰ کا احاطہ و قرب علمی ہے جیسا کہ اہل حق کے نزدیک ثابت و فیصلہ شدہ بات ہے۔ حق تعالیٰ ان کی کوششوں پر جزائے خیر عطا فرمائے۔ وہ جل شانہٗ کسی چیز کے ساتھ متحد نہیں ہے، وہ تعالیٰ بہت بلند و پاک ہے اور عالَم عالَم ہے، وہ سبحانہٗ و تعالیٰ بے مثل و بے مثال ہے، اور عالم تمام کا تمام چونی و چگونی (مثل و مثال ہونے) کے داغ سے داغ دار ہے۔ بے چون کو چون کا عین نہیں کہہ سکتے اور واجب تعالیٰ شانہٗ کو ممکن کا عین نہیں کہہ سکتے، قدیم ہرگز بھی حادث کا عین نہیں ہوتا، مُمْتَنِعُ الْعَدَمِ، جَائِزُ الْعَدَمِ کا عین نہیں بن سکتا، حقائق کا بدلنا عقلًا و شرعًا محال ہے اور ایک کو دوسرے پر قیاس کرنے کا ثبوت و صحت کلی طور پر ہی ممتنع ہے۔
تعجب ہے کہ شیخ محیی الدین قدس سرہٗ اور ان کی پیروی کرنے والے حضرات واجب تعالیٰ (اللہ تعالیٰ) کی ذات کو مجہولِ مطلق کہتے ہیں یعنی اس کو کسی حکم کے ساتھ محکوم علیہ نہیں جانتے، اور اس کے با وجود اس کے لئے احاطۂ ذاتی اور قرب و معیتِ ذاتیہ ثابت کرتے ہیں حالانکہ یہ حق تعالیٰ کی ذات پر حکم لگانا ہی تو ہے۔ پس درست وہی ہے جو علمائے اہل سنت و جماعت نے کہا ہے کہ حق تعالیٰ کا قرب و احاطہ علمی ہے (ذاتی نہیں ہے)۔
اور توحیدِ وجودی کے مشرب کے خلاف علوم و معارف حاصل ہونے کے زمانے میں اس فقیر کو بہت اضطراب تھا کیونکہ اس توحید کے علاوہ کوئی اور امر اس سے بلند تر نہیں جانتا تھا اور عاجزی و زاری کے ساتھ دعا کرتا تھا کہ یہ معرفت (یعنی توحیدِ وجودی) زائل نہ ہو جائے یہاں تک کہ کام (مقصود) کے چہرے سے تمام پردے ہٹ گئے اور حقیقت پوری طرح ظاہر ہو گئی اور معلوم ہو گیا کہ تمام عالم با وجودیکہ صفاتی کمالات کے آئینے اور اسمائی ظہورات کی جلوہ گاہیں ہیں لیکن مظہر، ظاہر کا عین اور ظل، اصل کا عین نہیں ہے، جیسا کہ توحیدِ وجودی والوں کا مذہب ہے۔
یہ بحث ایک مثال سے واضح ہو جاتی ہے، مثلًا کسی صاحبِ فنون عالم نے چاہا کہ اپنے مختلف قسم کے کمالات کو ظاہر کرے اور اپنی پوشیدہ خوبیوں کو واضح کرے۔ پس اس نے حرفوں اور آوازوں کو ایجاد کیا اور ان حرفوں اور آوازوں کے آئینوں میں اپنے پوشیدہ کمالات کو ظاہر کیا اس صورت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ حروف اور آوازیں جو ان پوشیدہ کمالات کے آئینے اور جلوہ گاہیں ہیں ان کمالات کا عین ہیں یا بالذات (اپنی ذات کے ساتھ) ان کمالات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، یا بالذات ان کمالات کے قریب ہیں یا ان کے ساتھ ذاتی معیت رکھتے ہیں، بلکہ ان کے درمیان دال (دلالت کرنے والا) اور مدلول (جس پر دلالت کرے) ہونے کی نسبت ہے۔ حروف اور آوازیں ان کمالات پر صرف دلالت کرنے والے ہیں اس سے زیادہ اور کوئی تعلق نہیں، اور وہ کمالات اپنی محض آزادی (غیر مقید حالت) پر ہیں۔ وہ نسبتیں جو (ان کے درمیان) پیدا ہوئی ہیں (یعنی عینیت اتحاد، احاطہ اور قرب و معیتِ ذاتی) یہ سب وہم و خیال کی بنا پر ہیں، حقیقت میں ان نسبتوں میں سے کوئی بھی ثابت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ ان کمالات اور ان حرفوں اور آوازوں کے درمیان ظاہریت و مظہریت اور دالیت و مدلولیت کی نسبت ثابت ہے تو یہی نسبت بعض لوگوں کو بعض پیش آنے والے امور کے واسطے سے ان وہمی نسبتوں کے حاصل ہونے کا سبب بن جاتی ہے اور حقیقت میں وہ کمالات ان تمام نسبتوں سے خالی و پاک ہیں۔ حق تعالیٰ و خلق کے درمیان جس نسبت کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ بھی دالیت و مدلولیت کی نسبت ثابت ہے تو یہی نسبت بعض لوگوں کو بعض پیش آنے والے امور کے واسطے سے ان وہمی نسبتوں کے حاصل ہونے کا سبب بن جاتی ہے اور حقیقت میں وہ کمالات ان تمام نسبتوں سے خالی و پاک ہیں، اور حق تعالیٰ کے درمیان جس نسبت کا ہم ذکر کر رہے ہیں وہ بھی دالیت و مدلولیت اور ظاہریت و مظہریت کے تعلق کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ عالَم (دنیا) اپنے صانع (تعالیٰ و تقدس) کے وجود پر علامت ہے اور حق تعالیٰ سبحانہٗ کے اسمائی و صفاتی کمالات کے ظاہر ہونے کے لئے مظہر ہے اور یہی (ظاہریت و مظہریت اور دالیت و مدلولیت) کا تعلق بعض پیش آنے والے امور کے باعث بعض لوگوں کے لئے وہمی احکام کا سبب بن جاتا ہے۔
بعض لوگوں کو توحید کے مراقبوں کی کثرت ان احکام (عینیت و اتحاد وغیرہ) پر آمادہ کرتی ہے کیونکہ ان مراقبوں کی صورت قوتِ متخیلہ میں منقش ہو جاتی ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کو توحید کا علم اور اس کا تکرار (بار بار ذکر کرنا) ان احکام کے ساتھ ایک قسم کا ذوق بخش دیتا ہے لیکن توحید کی یہ دونوں صورتیں ضعیف اور علم کے دائرہ میں داخل ہیں، حال کے ساتھ ان کا کچھ تعلق نہیں ہے۔ بعض دوسرے لوگوں کے لئے ان احکام کے پیدا ہونے کا سبب محبت کا غلبہ ہے کیونکہ محبت کے غلبے کی وجہ سے محبوب کے علاوہ محبت کرنے والے کی نظر سے سب کچھ دور ہو جاتا ہے اور محبوب کے سوا وہ کچھ نہیں دیکھتا، حالانکہ یہ بات نہیں کہ حقیقت میں محبوب کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ کیونکہ یہ بات حسِ (ظاہری حواس) اور عقل و شرع کے مخالف ہے (کیونکہ حس، عقل اور شرع چیزوں کے وجود کا حکم کرتی ہیں) کبھی یہی محبت احاطہ اور قربِ ذاتی کے ساتھ حکم کرنے کا باعث بن جاتی ہے اور توحید کی یہ قسم پہلی دونوں قسموں کی توحید سے اعلیٰ اور حال کے دائرے میں داخل ہے، اگرچہ یہ بھی حقیقت کے مطابق اور شریعت کے موافق نہیں ہے اور اس کا شریعت و حقیقت کے ساتھ مطابقت کرنا فلسفیوں کے بے ہودہ تکلفات کی طرح محض تکلف ہے کیونکہ فلاسفۂ اہلِ اسلام چاہتے ہیں کہ اس سے اپنے فاسد اصولوں کو شرعی قوانین کے مطابق کر لیں۔ کتاب "اخوان الصفا" اور اسی قسم کی دوسری کتابیں اسی قبیل سے ہیں۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ ان میں سے خطائے کشفی خطائے اجتہادی کا حکم رکھتی ہے کہ ملامت اور عتاب (نا راضگی) اس سے دور کر دی گئی ہے بلکہ ثواب6 کے درجوں میں سے ایک درجہ ثواب اس کے حق میں ثابت ہے۔ خطائے کشفی و خطائے اجتہادی کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ مجتہد کی تقلید (پیروی) کرنے والے مجتہد کا حکم رکھتے ہیں اور خطا کے واقع ہو جانے پر بھی ثواب کے درجوں میں سے ایک درجہ پا لیتے ہیں بر خلاف اہلِ کشف کی پیروی کرنے والوں کے کہ وہ معذور نہیں ہیں اور خطا کے واقع ہونے پر ثواب کے درجے سے محروم ہیں کیونکہ الہام اور کشف (صاحبِ کشف کے علاوہ) دوسرے شخص پر حجت نہیں ہے اور مجتہد کا قول دوسرے شخص (یعنی مقلد) پر حجت ہے پس پہلی تقلید (یعنی اہلِ کشف کی تقلید) خطا کے احتمال کی وجہ سے جائز نہیں ہے، اور دوسری (یعنی مجتہد کی تقلید) خطا کے احتمال کے با وجود جائز بلکہ واجب ہے۔
اور بعض سالکوں کا شہود جو کہ کونی تعینات (مخلوقات) کے آئینوں میں ہوتا ہے وہ بھی سابقہ سہ گانہ احکام کی قسم سے ہے اور ان حضرات نے اس شہود کا نام "کثرت میں وحدت کا مشاہدہ" یا "کثرت میں احدیت کا شہود" رکھا ہے کیونکہ واجب تعالیٰ و تقدس جو کہ بے چون و بے چگون (بے مثل و بے مثال) ہے ہرگز چون کے آئینوں میں نہیں سما سکتا اور چندی (مقدور) کی جلوہ گاہوں میں نہیں آتا۔ وہ لا مکانی ہے پس مکان میں گنجائش نہیں رکھتا۔ بے چون کو چون کے دائرے سے باہر تلاش کرنا چاہیے، لا مکانی کو مکان کے علاوہ ڈھونڈنا چاہیے۔ جو کچھ آفاق و انفس میں دیکھا جاتا ہے یہ سب اس ذاتِ سبحانہٗ و تعالیٰ و تقدس کی نشانیاں7 ہیں۔ دائرۂ ولایت کے قطب یعنی حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہ الاقدس نے فرمایا ہے کہ جو کچھ دیکھا گیا، سنا گیا اور جانا گیا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کا غیر اور حجاب ہے کلمۂ "لا" کی حقیقت سے اس کی نفی کرنی چاہیے (تاکہ حجاب دور ہو جائے)
در تنگنائے صورت معنی چگونہ گنجد
در کلبۂ گدایاں سلطاں چہ کار دارد
صورت پرست غافل معنی چہ داند آخر
کو با جمالِ جاناں پنہاں چہ کار دارد
ترجمہ:
صورت ہے تنگ کوچہ، معنی کہاں سمائے؟
منگتے کی جھونپڑی میں کیوں بادشاہ جائے؟
صورت جو چاہے اس کو معنی سے کیا ہے نسبت؟
اس کو جمال پنہاں کس طرح راس آئے؟
اگر وہ (توحیدِ وجودی والے حضرات) یہ کہیں کہ "اکثر مشائخ کی عبارتوں میں خواہ وہ نقشبندیہ ہوں یا ان کے علاوہ دوسرے سلسلوں کے مشائخ ہوں ایسے مضامین موجود ہیں جو وحدتِ وجود و احاطہ8 و قرب و معیتِ ذاتیہ کے بارے میں اور کثرت میں وحدت اور کثرت میں احدیت کے شہود پر واضح و صریح دلالت کرتے ہیں"۔ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ احوال و شہود ان کو احوال کے درمیان میں پیش آئے ہوں گے اور اس کے بعد وہ اس مقام سے آگے گزر گئے ہوں گے جیسا کہ یہ فقیر اپنے احوال کے بارے میں پہلے لکھ چکا ہے۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ان میں سے بعض حضرات کے ظاہر کو جو کہ کثرت9 میں ہے باطن میں احدیتِ صِرف کی طرف پوری پوری نگرانی حاصل ہونے کے با وجود ان احکام اور اس شہود کے ساتھ مشرف کرتے ہیں، اور وہ حضرات باطن میں احدیت کے نگراں ہوتے ہیں اور ظاہری طور پر کثرت میں مطلوب کا مشاہدہ کرنے والے ہیں، جیسا کہ اس فقیر نے اس مکتوب کے شروع میں اپنے والد ماجد کے حال کی خبر دی ہے، اور اس جواب کی مفصل تحقیق اس رسالے (خط) میں لکھی گئی ہے جو (اس خاکسار نے) وحدتِ وجود کے مراتب کی تحقیق میں لکھا ہے، اور جو کچھ ذکر کیا جا چکا ہے اس مقام پر اس سے زیادہ بیان نہیں کیا جا سکتا۔
کوئی صاحب یہ نہ کہنے لگیں کہ جب حقیقت میں وجود متعدد ہوں گے اور قرب و احاطہ ذاتی نہیں ہو گا اور شہود وحدت در کثرت واقع کے مطابق نہیں ہو گی تو ان بزرگوں کا حکم جھوٹا ہو گا کیونکہ وہ حکم واقع اور حقیقت کے مطابق نہیں ہے (اور جھوٹ عدمِ مطابقت ہی کو کہتے ہیں) لہذا ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ ان بزرگوں نے اپنے شہود کے اندازے کے مطابق یہ حکم لگایا ہے، جیسا کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں نے زید کی صورت کو آئینے میں دیکھا ہے تو یہ حکم بھی واقع کے مطابق نہیں ہے کیونکہ اس نے آئینے میں اس صورت کو نہیں دیکھا ہے اس لئے کہ صورت آئینے میں ہرگز نہیں ہے جو اس کو دیکھا10 جاتا۔ اس شخص کو اس حکم میں عرف کے طور پر جھوٹا نہیں کہیں گے، اگرچہ یہ حکم حقیقت کے مطابق نہیں ہو گا کیونکہ یہ صاحب بیان کرنے میں معذور ہیں (کیونکہ اس نے اپنے اعتقادی شہود کو بیان کیا ہے) اور جھوٹ کی ملامت ان سے دور کر دی گئی ہے جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔
جو احوال پوشیدہ رکھنے کے لائق ہیں ان کے ظاہر کرنے سے مقصود یہ ہے کہ اس فقیر کو (ابتدا میں) جو وحدتِ وجود قبول رہا ہے تو وہ کشف کی وجہ سے تھا نہ کہ تقلید کے طور پر، اور اگر (اب) انکار ہے تو یہ بھی الہام کی وجہ سے ہے اور الہام میں انکار کی گنجائش نہیں ہے، اگرچہ الہام دوسروں کے لئے حجت نہیں ہے۔
جھوٹ کا شبہ دور کرنے کے لئے دوسرا جواب یہ ہے کہ عالم کے افراد بعض امور میں ایک دوسرے کے ساتھ مشترک ہیں اور بعض دوسرے امور میں ایک دوسرے سے ممتاز و جدا ہیں، اور اسی طرح سے بعض پیش آنے والے امور (مثلًا موجود ہونا، شئ ہونا، عالم ہونا، معلوم ہونا اور جوہر ہونا وغیرہ) میں ممکن کا واجب تعالیٰ و تقدس کے ساتھ اشتراک ہے اگرچہ بالذات دونوں ایک دوسرے سے ممتاز و جدا جدا ہیں، غلبۂ محبت ہونے کی وجہ سے دونوں میں امتیاز پیدا کرنے والی چیز نظر سے مخفی ہو جاتی ہے اور جو چیز دونوں میں مشترک ہے وہ نظر میں رہ جاتی ہے۔ پس اس صورت میں اگر (امورِ مشترکہ کی بنا پر) ایک دوسرے کے عین ہونے کا حکم کریں تو واقع کے مطابق ہو گا اور جھوٹ کا ہرگز دخل نہیں رہے گا۔ احاطۂ ذاتی اور اسی کی مانند دوسرے امور کو بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے، والسلام۔
1 مکتوباتِ شریفہ میں شیخ صوفی کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ شیخ صوفی کا نام محمد تھا، اچھے شاعر اور اکابر صوفیاء میں سے تھے۔ اکثر علوم میں تبحر حاصل تھا، درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے، بکثرت علماء نے آپ سے کسبِ کمال کیا۔ عبد الرحیم خان خاناں نے اپنے کتب خانہ کا ناظم اور اپنا مصاحب بنایا۔ پھر گوشہ نشین ہو گئے۔ سنہ 1034ھ میں انتقال ہوا۔ (نزھۃ الخواطر، صفحہ نمبر: 181/5)
2 آپ کا اسم گرامی محمد بن علی بن احمد بن عبد اللہ تھا، مرسیا (اندلس) میں شب دو شنبہ 17 رمضان سنہ 560ھ میں ولادت ہوئی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملک شام میں قیام پذیر ہو گئے۔ آپ کی تصانیف پانچ سو سے زیادہ بتائی جاتی ہیں۔ شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہوئی تو بعد میں آپ سے ان کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: " وہ سر سے پاؤں تک سنت سے پر ہیں"۔ جب شیخ سہروردی رحمۃ اللہ علیہ سے آپ کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا: "وہ حقائق کے سمندر ہیں"۔ تصوف میں سلسلہ اور نسبتِ خرقہ ایک واسطے سے حضرت شیخ عبد القادر جیلانی تک پہنچتا ہے۔ جمعرات 22 ربیع الأول سنہ 638ھ میں وفات پائی۔ (نفحات)
3 احاطہ، یعنی حق تعالیٰ کا ہر چیز کو محیط ہونا جیسا کہ آیت کریمہ میں ہے: ﴿وَ اللهُ مِن وَرَائِهِم مُّحِيطٌ﴾ (20) دیگر ﴿أَلَآ إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ﴾ (فصلت: 54)
4 سریان، یعنی حق تعالیٰ کا مومن کے قلب میں سمانا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث قدسی مروی ہے: "لَا یَسَعُنِيْ أَرْضِيْ وَ لَا سَمَائِيْ وَ لٰکِنْ یَّسَعُنِيْ قَلْبُ عَبْدِيَ الْمُؤْمِنِ" (المقاصد الحسنة، حدیث نمبر: 990)
5 اس میں اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿وَ ھُوَ مَعَکُمْ أَیْنَ مَا کُنْتُمْ﴾ (الحدید: 4)
6 اکثر فارسی نسخوں میں ثواب "ص" سے یعنی "صواب" درج ہے لیکن مولانا نصر اللہ قندھاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ صحیح "ثواب" ہے۔
7 ارشادِ ربانی ہے: ﴿سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِي الۡاٰفَاقِ وَ فِيْٓ أَنۡفُسِہِمۡ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَہُمۡ أَنَّہُ الۡحَقُّ﴾ (حم السجدۃ: 53) ”ہم انہیں اپنی نشانیاں کائنات میں بھی دکھائیں گے اور خود ان کے اپنے وجود میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل کر سامنے آجائے کہ یہی حق ہے“۔
8 جاننا چاہیے کہ حضرت مجدد الف ثانی قدس سرہٗ نے جلد اول مکتوب نمبر 266 میں تحریر فرمایا ہے: "پس ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالی تمام اشیاء کو محیط ہے اور ان کے قریب اور ان کے ساتھ ہے لیکن اللہ تعالی کے احاطے و قرب و معیت کے متعلق ہم نہیں جانتے کہ کیا ہے، اور اس کو قرب و احاطۂ علمی کہنا متشابہ کی تاویلات سے ہے اور ہم اس کی تاویلات کے قائل نہیں ہیں"اہ۔ جلد دوم مکتوب نمبر 8 میں فرماتے ہیں: " ہم ایمان لاتے ہیں کہ اللہ تعالی ہمارے قریب اور ہمارے ساتھ ہے لیکن ہم نہیں جانتے کہ قرب و معیت کے معنی کیا ہیں"۔ ان دونوں قولوں میں تضاد ہے، پس ان کو اوقات و احوال کے متعدد و مختلف ہونے پر حمل کرنا، دوسرے کشف پر اعتماد کرنا لازمی ہے۔ ہر مقام کے علوم و معارف الگ ہیں اور ہر حال کا قال علیحدہ ہے۔ مزید جلد اول مکتوب نمبر 260 کے آخری حصے کو دیکھنا چاہیے۔
9 کثرت کا مشاہدہ کرنے والے۔
10 بلکہ شعاعِ بصری آئینے میں نفوذ نہ کرنے کی وجہ سے اصل کے ساتھ منعکس ہو کر اصل کی صورت کو اس میں پاتی ہے جیسے کہ یہ بات مقرر و محقق ہے۔