دفتر 1 مکتوب 32: اس کمال کے بیان میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ مخصوص ہے اور اولیاء رحمہم اللہ میں سے بہت کم اس کمال کے ساتھ مشرف ہوئے ہیں اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ میں وہ کمال بدرجہ اتم ظہور پذیر ہو گا اور وہ کمال جذبہ و سلوک کی نسبت کے اوپر ہے، اور اس بیان میں کہ صنعت کا کمال بہت سے افکار کے آپس میں ملنے پر موقوف ہے اور اس کی زیادتی بہت سے نظریات و افکار کی متابعت و پیروی کرنے پر منحصر ہے۔ مرشد کی نسبت اگر اسی خالصیت و اصلیت پر رہے تو نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔ ہدایت یافتہ مرید اس کو کامل کر سکتا ہے اور اس کے مناسب امور کے بیان میں

مکتوب 32

اس کمال کے بیان میں جو صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ مخصوص ہے اور اولیاء رحمہم اللہ میں سے بہت کم اس کمال کے ساتھ مشرف ہوئے ہیں اور حضرت امام مہدی رضی اللہ عنہ میں وہ کمال بدرجہ اتم ظہور پذیر ہو گا اور وہ کمال جذبہ و سلوک کی نسبت کے اوپر ہے، اور اس بیان میں کہ صنعت کا کمال بہت سے افکار کے آپس میں ملنے پر موقوف ہے اور اس کی زیادتی بہت سے نظریات و افکار کی متابعت و پیروی کرنے پر منحصر ہے۔ مرشد کی نسبت اگر اسی خالصیت و اصلیت پر رہے تو نقصان کا سبب بن جاتی ہے۔ ہدایت یافتہ مرید اس کو کامل کر سکتا ہے اور اس کے مناسب امور کے بیان میں مرزا حسام الدین احمد؂1 کی طرف ارسال فرمایا۔

آپ کا بزرگی والا مکتوب مبارک صادر ہوا، اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کا احسان ہے کہ دور پڑے ہوئے کو آپ بھولے نہیں اور کسی نہ کسی موقع پر یاد آ ہی جاتے ہیں۔ ع

بارے بہیچ خاطرِ خود شاد می کنم

ترجمہ:

اچھا ہے کچھ خوشی کا تو سامان ہو گیا

آپ نے پیر دستگیر (یعنی حضرت خواجہ باقی باللہ) علیہ الرحمۃ کی نسبتِ خاصہ کے معلوم نہ ہونے کے بارے میں لکھا تھا اور اس کا سبب دریافت کیا تھا۔

میرے مخدوم! اس قسم کی باتوں کی تشریح، تحریر بلکہ تقریر میں بھی مناسب نہیں، کیونکہ معلوم نہیں کسی کی سمجھ میں کیا آئے اور وہ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرے۔ اس کے لئے پیرِ طریقت کے ساتھ حسنِ ظن رکھتے ہوئے اس کی خدمت میں حاضر ہونا یا زمانہ دراز تک پیر کی صحبت میں رہنا ہر لحاظ سے ضروری ہے، وَ بِدُوْنِہٖ خَرْطُ الْقَتَادِ (اس کے علاوہ بے فائدہ رنج و محنت اٹھانا ہے)

آسودہ شبے باید و خوش مہتابے

تا با تو حکایت کنم از ہر بابے

ترجمہ:

پر سکون اور چاندنی ہو ایک رات

تجھ سے دلبر کی کہوں اک ایک بات

لیکن اس بنا پر کہ سوال کا جواب ضرور ہونا چاہیے، یہ فقیر اس قدر ظاہر کرتا ہے کہ ہر مقام کے علوم و معارف مختلف ہوتے ہیں اور احوال و مواجید جدا، کسی ایک مقام میں ذکر و توجہ مناسب ہے اور کسی دوسرے مقام میں تلاوتِ قرآن مجید و نماز مناسب ہے۔ کوئی مقام جذبہ (سیر انفسی) کے ساتھ مخصوص ہے اور کوئی مقام سلوک (سیر آفاقی) کے ساتھ اور کسی مقام میں یہ دونوں دولتیں مخلوط (ملی جلی) ہیں اور کوئی مقام ایسا ہے کہ جذبہ و سلوک کی دونوں جہتوں سے علیحدہ ہے (یعنی اس میں ان دونوں میں سے ایک بھی موجود نہیں) نہ جذبہ کو اس مقام سے کوئی واسطہ ہے اور نہ سلوک کو اس مقام سے کوئی تعلق ہے، یہ مقام نہایت عجیب و غریب ہے۔

آنحضرت سرورِ عالم ﷺ کے اصحاب کرام اس مقام کے ساتھ ممتاز اور اس بڑی دولت سے مشرف ہیں۔ اس مقام والے کو دوسرے مقامات والوں سے پورا پورا امتیاز حاصل ہے اور اس مقام والے حضرات ایک دوسرے کے ساتھ بہت کم مشابہت رکھتے ہیں بخلاف دوسرے مقامات والے حضرات کے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں، اگرچہ وہ مشابہت کسی سے ایک لحاظ سے ہو اور دوسری وجہ سے نہ ہو، اور یہ نسبت اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد ان شاء اللہ تعالیٰ حضرت امام مہدی موعود علیہ الرضوان میں پوری طرح ظاہر ہو گی۔

سلسلوں کے مشائخ میں سے بہت کم مشائخ نے اس مقام کی خبر دی ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ انھوں نے اس مقام کے علوم و معارف کے متعلق گفتگو کی ہو، ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَ اللہُ ذُوْ الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعة: 4) ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

حاصل کلام یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ نادر الوجود نسبت پہلے ہی قدم میں ظاہر ہو جاتی تھی اور ایک مدت گزرنے کے بعد درجۂ کمال تک پہنچ جاتی تھی اور دوسرے شخص (یعنی غیر صحابی) کو اگر اس دولت سے مشرف کرتے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی نسبت کے قدم پر تربیت دیتے ہیں تو وہ جذبہ و سلوک کی منزلوں کو قطع کرنے اور ان کے علوم و معارف کو طے کرنے کے بعد اس دولت عظمیٰ سے سعادت مند و سر فراز فرماتے ہیں۔

ابتدا میں اس نسبت کا ظہور سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التحیات و البرکات و التسلیمات کی صحبت کی برکت کے ساتھ مخصوص تھا لیکن ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین میں سے بھی کسی کو اس برکت سے مشرف فرما دیں تاکہ اس کی صحبت بھی ابتدا میں اس بلند نسبت کے ظہور کا سبب بن جائے؎

فیض روح القدس ار باز مدد فرماید

دیگراں نیز کنند آنچہ مسیحا می کرد

ترجمہ:

گر کرے امداد پھر روح القدس بس ایک بار

دوسرے بھی کر دکھائیں جو مسیحا نے کیا

اس وقت اس نسبت میں بھی اندراج النہایت فی البدایت (ابتدا میں انتہا کا درج ہونا) ثابت ہو جاتا ہے جیسا کہ جذبے کے سلوک پر مقدم ہونے کی صورت میں ثابت ہوتا ہے۔ یہ مضمون اس بیان سے زیادہ کی گنجائش نہیں رکھتا۔ شعر

وَ مِنْ بَعْدِ ھٰذَا مَا یَدِقُّ صِفَاتُہٗ

وَ مَا كَتْمُہٗ أَحْظٰی لَدَیْہٖ وَ اَجْمَلُ؂2

ترجمہ:

بعد ازاں باریک ہیں اس کی صفات

ان کے ہے پوشیدہ رکھنے میں نجات

اس کے بعد اگر ملاقات نصیب ہوئی اور سننے والوں کی جانب سے سننے کا نیک گمان معلوم ہوا تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کی نسبت کچھ بیان کیا جائے گا۔ وَ ھُوَ سُبْحَانَہُ الْمُوَفِّقُ (اور اللہ سبحانہٗ توفیق بخشنے والا ہے)

آپ نے بعض دوستوں کے بارے میں لکھا تھا، اس فقیر نے ان کی لغزشوں کو معاف کر دیا، حق سبحانہٗ و تعالیٰ سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے وہ بھی معاف فرمائے، لیکن آپ ان دوستوں کو نصیحت فرما دیں کہ حضور اور غیبت (سامنے اور پیٹھ پیچھے) میں (اس فقیر کو) آزار و تکلیف دینے کے درپے نہ ہوا کریں اور اپنی وضع قطع اور حالتوں کو نہ بدلیں۔ ﴿اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِھِمْ وَاِذَا اَرَادَ اللہُ بِقَوْمٍ سُوٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَہُ وَمَا لَھُمْ مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ وَّالٍ﴾ (الرعد: 11) ”یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے۔ اور جب اللہ کسی قوم پر کوئی آفت لانے کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کا ٹالنا ممکن نہیں، اور ایسے لوگوں کا خود اس کے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہو سکتا“۔

آپ نے میاں شیخ اللہ داد؂3 کے بارے میں خاص طور پر لکھا تھا، فقیر کو اس میں کچھ مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن مشارٌ الیہ (شیخ اللہ داد مذکور) کے لئے اپنی وضع تبدیل کرنے سے نادم ہونا ضروری ہے کیونکہ "اَلنَّدَمُ تَوْبَةٌ"؂4 ”ندامت بھی توبہ ہی ہے“۔ شفاعت (معافی) چاہنا ندامت کی فرع ہے، بہر حال فقیر اپنی طرف سے معاف کرتا ہے، دوسری جانب کو آپ جانیں۔

دوسرے یہ کہ سرہند کو اپنا گھر تصور فرمائیں۔ محبت کا تعلق اور پیر بھائی ہونے کی نسبت اس قسم کی نہیں ہے کہ عارضی باتوں سے ٹوٹ جائے، زیادہ کیا لکھوں والسلام۔ مخدوم زادے اور گھر کے سب حضرات دعا کے ساتھ مخصوص ہیں۔

اس خط کے لکھنے کے بعد دل میں خیال آیا کہ دوستوں کی لغزشوں اور ان سے معاف کر دینے کے بارے میں بات کو زیادہ وضاحت کے ساتھ لکھا جائے کیونکہ مختصر طور پر لکھنے میں بات صاف نہیں ہوتی، نہ معلوم کیا سمجھا جائے۔ میرے مخدوم معاف کرنا اس وقت سمجھا جائے جب کہ وہ لوگ ان وضع قطع کو برا جانیں اور ان سے پشیمان ہوں ورنہ معافی کی کوئی گنجائش نہیں۔

اور آپ نے لکھا تھا کہ "پیر دستگیر (حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ) نے یہ مقام (یعنی خلافتِ دہلی کی سجادگی) ان لوگوں کی موجودگی میں شیخ الہ داد کے سپرد کیا تھا"۔ یہ ایک بات ذرا وضاحت چاہتی ہے۔ اگر انھوں نے سپرد کرنا اس معنی میں کہا ہے کہ فقرا اور آنے جانے والے لوگوں کی خدمت کرے اور ان کے کھانے پینے کا خیال رکھے، تو یہ بات ماننے کے قابل ہے اور اگر اس معنی میں کہا ہے کہ طالبانِ طریقت کی تربیت کرے اور پیری کی گدی پر بیٹھے تو یہ بات قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ آخری مرتبہ کی ملاقات میں حضرت پیر و مرشد قدس سرہٗ نے اس فقیر سے فرمایا تھا کہ تم تجویز کرو کہ شیخ الہ داد ہماری جانب سے جا کر بعض طالبوں کو ذکر بتائے اور بعض طالبوں کے حالات ہم تک پہنچائے کیونکہ اب ہم اپنے سامنے بلانے اور ذکر بتانے اور احوال پوچھنے کی طاقت نہیں ہے۔ فقیر اس بارے میں بھی تردد میں تھا چونکہ ضرورت تھی اس لئے اس فقیر نے بھی اس قدر تجویز کر دیا۔ اس قسم کی تبلیغ محض ایک طرح کی سفارت (ایلچی) کی قسم سے ہے، خاص طور پر جب کہ ضرورت کی وجہ سے ہو۔ وَ الضَّرُوْرَۃُ تُقَدَّرُ بِقَدَرِھَا (اور ضرورت کی چیز بقدر ضرورت ہے حاصل کی جاتی ہے) پس یہ سفارت بھی آں موصوف قدس سرہٗ کی زندگی تک ہی رہے گی، آں موصوف قدس سرہٗ کی رحلت فرمانے کے بعد (ان کی طرف سے) ذکر بتانا اور طالبوں کا حال پوچھنا خیانت میں داخل ہے۔

آپ نے تحریر فرمایا تھا کہ پیر دستگیر (حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ) کی نسبت باقی رہتی ہے، یعنی اس میں زیادتی اور نقصان واقع نہیں ہوتا۔ میرے مخدوم! ہر فن و صنعت کا مکمل ہونا بہت سی فکروں کے ملنے پر موقوف ہے، جو علمِ نحو سیبویہ؂5 نے وضع کیا تھا متاخرین کی فکروں نے اس کو دس گنا زیادہ کر دیا ہے، اسی اصلیت پر رہنا خود عین نقص ہے۔ وہ نسبت جو حضرت خواجہ نقشبند (سید بہاؤ الدین بخاری) قدس سرہٗ رکھتے تھے حضرت خواجہ عبدالخالق (غجدوانی قدس سرہ العزیز) کے زمانہ میں نہیں تھی و علیٰ ہذا القیاس۔ خاص طور پر ہمارے حضرت خواجہ (باقی باللہ) قدس سرہٗ اس نسبت کی تکمیل کے درپے رہے ہیں اور اس کو مکمل نہیں جانتے تھے۔ اگر ان کی زندگی وفا کرتے (یعنی مزید زندہ رہتے) تو اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کے ارادے کے ساتھ اس نسبت کو معلوم نہیں کہاں تک لے جاتے، اس نسبت کے متعلق یہ کوشش کرنا کہ اس میں زیادتی و اضافہ نہ ہو، مناسب نہیں ہے۔

یہ فقیر نہیں جانتا کہ یہ نسبت (ایک ہی مقام پر) کس طرح باقی رہے گی۔ آپ خود ایک علیحدہ نسبت رکھتے ہیں جو ان (یعنی پیر و مرشدنا) کی نسبت سے کچھ تعلق نہیں رکھتی، اور یہ بات کئی دفعہ حضرت قدس سرہٗ کے حضور میں متعین ہو چکی تھی۔ بے چارہ شیخ اللہ داد کیا جانے کہ نسبت کیا ہوتی ہے، تھوڑا سا قلبی حضور اس کو حاصل ہے، نیز اس کو خود بھی معلوم ہے کہ اس کی کیا حالت ہے۔ بیان فرمائیں کہ اس نسبت کا باقی رکھنے والا کون ہے تاکہ فقیر بھی اس شخص کا مدد گار ہو، واقعات کا کچھ اعتبار نہ کریں کیونکہ وہ تو خیالی ہیں اور کچھ صداقت نہیں رکھتے، شیطان طاقت ور دشمن ہے اس کے بہکانے اور مکروں سے بچنا بہت مشکل ہے إِلَّا مَنْ عَصَمَہُ اللہُ تَعَالٰى (مگر جس کو اللہ تعالیٰ بچائے وہ بچ جاتا ہے)۔

اور آپ نے حاصل شدہ نسبتوں کے سلب ہونے کے بارے میں لکھا تھا۔ میرے مخدوم! وہ سلب کرنا اختیار کے ساتھ نہیں تھا جیسا کہ آپ کے سامنے ذکر ہوا تھا، وہ سلب اب بھی اپنی حالت پر باقی ہے، دور نہیں ہوا۔ اس کے دور ہو جانے کا خیال کرنا وہم و خیال ہے، وہ آواز جو دل سے سنیں اس حالت سے کوئی تعلق نہیں رکھتی، جب آگ کے انگارے کو سرد کر دیتے ہیں اور آگ اس سے ختم ہو جاتی ہے تو پانی ڈالنے کے بعد بھی کچھ آواز اس میں باقی رہتی ہے لیکن یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابھی آگ اس میں چھپی ہوئی ہے۔ واقعات کا کچھ اعتبار نہیں ہے، یہ بات اگر آج پوشیدہ ہے تو انتظار کریں کل ان شاء اللہ تعالیٰ ظاہر ہو جائے گی۔ چونکہ آپ نے مبالغے کے ساتھ لکھا تھا اس لئے ضروری سمجھتے ہوئے اس کے جواب میں یہ بات لکھی گئی ورنہ بے موقع بات کرنے کی فرصت کہاں!۔

؂1 مکتوب شریف میں آپ کے نام سولہ عدد مکتوب ہیں: دفترِ اول مکتوب 32، 62، 207، 216، 229، 247، 248، 267، 273۔ دفترِ دوم مکتوب 17، 26، 45۔ دفترِ سوم مکتوب 40، 72، 115، 121۔ مرزا حسام الدین احمد بن نظام الدین احمد حنفی بدخشی ثم دہلوی مشائخ نقشبندیہ میں سے ہیں، سنہ 977ھ میں بدخشان کے قصبہ قندوز میں پیدا ہوئے اور علم کے گہوارے میں پرورش پائی۔ تحصیل علوم کے بعد شیخ ابو الفضل مبارک ناگوری کی بہن سے شادی ہوئی۔ والد ماجد کے انتقال کے بعد منصب اور جاگیر پائیں اور اکبر بادشاہ نے آپ کو عبدالرحیم خان خاناں کی زیر قیادت لشکر میں شامل کر دیا۔ مجبورًا ایک زمانے تک لشکر میں رہے۔ کیونکہ آپ کی طبیعت ترک و تجرید کی طرف مائل تھی اس لیے سلطان کی خدمات سے استعفی دے کر عزلت اختیار کی۔ آپ کی اہلیہ نے بھی ترک و تجرید میں آپ کی موافقت کی۔ بعد ازاں آپ دہلی آئے اور حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کی صحبت میں بقیہ زندگی گزار کر معارف الہیہ میں اعلیٰ مرتبے پر پہنچے۔ ترک و تجرید کے غلبے کے سبب آپ مسند ارشاد پر بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے لہذا اپنے شیخ کی زندگی تک ان کی خدمت میں لگے رہے اور ان کے بعد ان کے صاحب زادوں کی تربیت میں مشغول رہے۔ یکم صفر سنہ 1043ھ اکبر آباد میں وفات پائی۔ وہیں دفن کئے گئے پھر کچھ عرصہ بعد آپ کی نعش کو دہلی لا کر حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ کے قبرستان میں دفن کیا گیا۔ (ماخوذ از زبدۃ المقامات و نزھۃ الخواطر وغیرہ)

؂2 فنِ معانی کا اصول ہے: "اَلْکِنَایَۃُ أَبْلَغُ مِنَ التَّصْرِیْحِ" (رمز و اشارہ میں بات کرنا وضاحت اور تصریح سے کہیں زیادہ بہتر ہے)

؂3 شیخ اللہ داد کے متعلق مولانا محمد ہاشم کشمی زبدۃ المقامات میں تحریر فرماتے ہیں: "جس زمانے میں حضرت خواجہ باقی باللہ قدس سرہٗ لاہور سے ما وراء النہر (ترکستان) تشریف لے جانے کی تیاری فرما رہے تھے شیخ اللہ داد حضرت کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بیعت ہو کر طریقہ نقشبندیہ حاصل کیا۔ سفر سے واپسی پر حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے درگاہ کی خدمت اور مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام شیخ کے سپرد کر دیا تھا۔ نیز زبدۃ المقامات مطبوعہ استنبول کے حاشیے پر درج ہے: " وفات شیخ اللہ داد در سنہ 1049ھ است" (زبدۃ المقامات صفحہ نمبر: 88)

؂4 اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں اور ابن ماجہ اور حاکم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ مناوی نے اس حدیث کو صحیح اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے فتح الباری میں اس کو حدیثِ حسن کہا ہے۔

؂5 سِیْبوَیْہ عمرو بن عثمان شیرازی کا لقب ہے جو فنِ نحو و صرف کا مشہور امام گزرا ہے۔