مکتوب 30
شہودِ آفاقی و انفسی اور شہودِ انفسی و تجلّئِ صوری کے درمیان فرق کے بیان میں اور مقامِ عبدیت کی شان کی بلندی اور اس مقام کے علوم شرعیہ کے مطابق ہونے اور اس کے مناسب امور کے بیان میں، ملا محمد صدیق جو کہ اس درگاہ (مجددیہ) کے پرانے خادموں میں سے ہیں، فرماتے تھے کہ یہ مکتوب گرامی بھی شیخ نظام تھانیسری کی طرف صادر فرمایا۔
شَرَّفَکُمُ اللہُ سُبْحَانَہٗ بِکَمَالِ الْاِتِّبَاعِ الْمُحَمَّدِیِّ وَ زَيَّنَکُمْ بِالزِّیِّ السَّنِیِّ الْمُصْطَفَوِیِّ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّحِیَّاتِ أَکْمَلُھَا (حق سبحانہٗ و تعالیٰ آپ کو حضرت محمد مصطفٰے احمد مجتبٰی ﷺ کی کامل اتباع سے مشرف فرمائے اور آپ کو آنحضرت ﷺ کی روشن وضع وقطع و لباس سے آراستہ فرمائے)۔
میں نہیں جانتا کہ کیا لکھوں، اگر اپنے مولا تعالیٰ و تقدس (اللہ تعالیٰ) کی پاک بارگاہ کی نسبت کوئی بات زبان پر لاؤں تو جھوٹ اور بہتان ہو گا، حق سبحانہ و تعالیٰ کی اعلیٰ بارگاہ اس سے بہت بلند ہے کہ مجھ جیسا بیہودہ گو اپنی زبان سے اس کی تعریف کرے۔ چوں (مثل و مانند والا) بے چون (بے مثل) کے بارے میں کیا بیان کرے، مُحدَث (غیر ازلی) قدیم (ازلی) کے متعلق کیا ڈھونڈے، مکانی (محدود) لامکانی (لا محدود) کے بارے میں کب تک دوڑے، بے چارہ اپنی ذات سے باہر کچھ نہیں رکھتا اور اپنے آپ کے علاوہ کسی چیز میں کچھ گذر نہیں رکھتا؎
ذرّہ گر بس نیک ور بس بد بود
گرچہ عمرے تگ زند در خود بود
ترجمہ:
ذرّہ خواہ نیک ہو یا بد، مگر
عمر بھر دوڑتا رہے گا بس وہیں
یہ معنی1 بھی سیر انفسی2 میں حاصل ہوتے ہیں جو کام کی انتہا میں میسر ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ بزرگ خواجہ بہاؤ الدین نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہ الاقدس نے فرمایا ہے کہ اہل اللہ فنا و بقا کے بعد جو کچھ دیکھتے ہیں اپنی ذات میں دیکھتے ہیں اور جو کچھ پہچانتے ہیں اپنی ذات میں پہچانتے ہیں اور ان کی حیرت اپنے وجود میں ہوتی ہے، ﴿وَ فِيْ أَنْفُسِکُمْ أَ فَلَا تُبْصِرُوْنَ﴾ (الذاریات: 21) ”اور خود تمہارے اپنے وجود میں بھی۔ کیا پھر بھی تمہیں دکھائی نہیں دیتا؟“ اس سے پہلے جو سیر بھی ہے وہ سیرِ آفاقی میں داخل ہے جس کا حاصل کچھ حاصل نہ ہونا ہے۔ یہاں بے حاصلی کے لفظ کا اطلاق اصل مطلب کے حاصل ہونے کی نسبت سے ہے ورنہ وہ منجملہ شرائط و آمادہ کرنے والے امور کے ہے۔
شہودِ انفسی سے کوئی شخص وہم میں نہ پڑے اور اس کو تجلئ صوری کے شہود کی مانند جو کہ متجلّٰی لہٗ (جس کو تجلی منکشف ہو) کے نفس میں ہے خیال نہ کرے، ایسا ہرگز نہیں ہے، تجلئ صوری خواہ کسی قسم کی ہو سیرِ آفاقی میں داخل ہے اور علم الیقین کے مرتبہ (مقام) میں حاصل ہوتی ہے اور شہود انفسی حق الیقین کے مرتبے (مقام) میں ہے جو کہ کمال کے مرتبوں کی انتہا ہے۔ شہود کا لفظ اس جگہ عبارت کے میدان کی تنگی کی وجہ سے بولا گیا ہے ورنہ جیسا کہ ان کا مطلب بے چون و بے چگون (بے مثل و بے مثال) ہے اس مطلب کے ساتھ ان کی نسبت بھی بے چون و بے چگون (بے مثل و بے مثال) ہے، چون کو بے چون کی طرف کوئی راہ نہیں ہے، مثنوی؎
اتصالے بے تکیف بے قیاس
ہست رب الناس را با جانِ ناس
لیک گفتم ناس را، نسناس نہ
ناس غیر از جان جاں اشناس نہ
ترجمہ:
اتصال اللہ کا انسان سے
ہے کچھ ایسا، کب بیاں میں آ سکے
ذکر یاں انسانِ ناقص کا نہیں
بلکہ جو ہو مردِ کامل بالیقین
اور شہودِ صوری مذکور کے ساتھ شہودِ انفسی کے متحد ہونے کا وہم پیدا ہونے کی جگہ ان دونوں مقامات میں آدمی کے بقا کا حاصل ہونا ہے کیونکہ تجلئ صوری (متجلّی لہٗ کو) فنا کرنے والی نہیں ہے۔ اگرچہ قیود میں سے کسی قید کو کسی قدر دور کر دیتی ہے لیکن فنا کی حد تک نہیں پہنچاتی، پس اس تجلی میں سالک کے وجود کا باقی رہنا پایا جاتا ہے اور سیر انفسی خود پوری پوری فنا اور کامل ترین بقا کے بعد ہے، پس نا چار معرفت کی کمی کی وجہ سے ان دونوں بقاؤں میں فرق نہیں کر سکتے، اس لئے مجبورًا اتحاد (ایک ہی ہونے) کا حکم لگا دیتے ہیں۔ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ دوسری بقا ان کے نزدیک بقا باللہ سے تعبیر کی گئی ہے اور وہ اس وجود کو وجود موہوب حقانی یعنی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا بخشا ہوا وجود کہتے ہیں تو شاید اس وہم سے نجات حاصل کر لیں۔
اس مضمون سے کوئی شخص یہ نہ سمجھے کہ بقا باللہ سے مراد یہ ہے کہ سالک اپنے آپ کو حق تعالیٰ و تقدس کا عین پائے، ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اگر اس گروہ کی بعض عبارتوں سے یہ مطلب بھی ظاہر ہوتا ہو تو ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ یہ بقا (یعنی اپنے آپ کو حق تعالیٰ کا عین معلوم کرنا) جذبے کے مقام میں بعض حضرات کو استہلاک (استغراق) و اضمحلال (نیستی) کے بعد جو کہ فنا کے مشابہ ہے (در حقیقت فنا نہیں ہے) اور اکابر نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم اس کو وجودِ عدم3 سے تعبیر کرتے ہیں اور یہ (حقیقی و کامل) فنا4 سے پہلے حاصل ہوتی ہے اس کا زائل ہونا ممکن ہے بلکہ وہ زائل ہوتی رہتی ہے، کبھی اس فنا کو سالک سے لے لیتے ہیں اور کبھی اس کو واپس دے دیتے ہیں۔
وہ بقا جو کامل فنا کے بعد حاصل ہوتی ہے وہ زائل ہونے سے محفوظ اور خلل واقع ہونے سے مامون ہے ان بزرگوں (اکابر نقشبندیہ) کی فنا دائمی فنا ہے یہ حضرات عینِ بقا میں فانی اور عینِ فنا میں باقی ہیں۔ اور جو فنا و بقا زوال پذیر ہیں وہ احوال و تلوینات میں سے ہیں اور ہم جس فنا کا ذکر کر رہے ہیں وہ ایسی نہیں ہے۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہٗ نے فرمایا ہے کہ وجودِ عدم وجودِ بشریت کی طرف عود کرتا ہے، لیکن وجودِ فنا5 وجودِ بشریت کی طرف عود نہیں کرتا پس لازمی طور پر ان کا وقت دائمی ہو گا اور حال سرمدی (ہمیشہ) ہو گا۔ بلکہ ان کے لئے نہ وقت ہے نہ حال، ان کا کام وقتوں کے پیدا کرنے والے (یعنی حق تعالیٰ) کے ساتھ ہے اور ان کا معاملہ احوال کے پھیرنے والے کے ساتھ ہے لہذا زوال کا قبول کرنا وقت و حال کے ساتھ مخصوص ہوا اور جو شخص وقت و حال سے گزر گیا وہ زوال سے محفوظ رہا۔ ﴿ذٰلِکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَاءُ وَ اللہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الجمعہ: 4) ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ وقت کا دائمی ہونا اس وقت کے تعین وغیرہ کا اثر باقی رہنے کے اعتبار سے کہا گیا ہے (نہ کہ وقت کی وجہ سے) یہ بات نہیں ہے بلکہ دوام عین وقت کے لئے ہے اور مدام (ہمیشگی) نفسِ حال کے لئے، بے شک ظن (گمان) کسی چیز کی حقیقت کو پہچاننے کا فائدہ نہیں دیتا ( یعنی ظن سے کوئی حق بات ثابت نہیں ہوتی) بلکہ ہم کہتے ہیں کہ بعض ظن گناہ6 ہیں۔ بات بہت لمبی ہو گئی۔
اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چونکہ حق تعالیٰ جل شانہ کی مقدس بارگاہ کے میدان میں بات کرنے کی مجال نہیں ہے اس لئے ہم اپنی بندگی کے مقام اور ذلت و عاجزی کے بارے میں بات کرتے ہیں کہ انسان کے پیدا کرنے سے مقصود بندگی کے معمولات بجا لانا ہے، اور اگر ابتدا (شروع) اور وسط (درمیان) میں کسی کو عشق و محبت دیا گیا ہے تو اس سے مقصود ما سوی اللہ (حق تعالیٰ کے سوا سب سے) اس کا تعلق قطع کرنا ہے۔ عشق و محبت بھی مقاصد میں سے نہیں ہیں بلکہ عبودیت (بندگی) کا مقام حاصل ہونے کا ذریعہ ہیں۔ انسان حق تعالیٰ شانہٗ کا بندہ اس وقت بنتا ہے جب ما سوی اللہ کی گرفتاری و بندگی سے پوری طرح آزاد ہو جائے اور عشق و محبت صرف ان تعلقات کے منقطع کرنے کا وسیلہ ہونے سے زیادہ اور کچھ نہیں ہیں لہذا مراتبِ ولایت کا آخری مرتبہ مقامِ عبدیت ہے، ولایت کے درجات میں مقامِ عبدیت سے اوپر کوئی مقام نہیں ہے، اس مقام میں بندہ اپنے مولا کے ساتھ اپنے لئے اس کے سوا اور کچھ مناسبت نہیں پاتا کہ بندے کی جانب سے احتیاج ہے اور مولا تعالیٰ و تقدس کی جانب سے ذات و صفات کے اعتبار سے پوری پوری استغناء و بے نیازی ہے۔ یہ بات ہرگز نہیں ہے کہ اپنی ذات کی حق تعالیٰ جل شانہٗ کی ذات کے ساتھ اور اپنی صفات کی اس کی صفات کے ساتھ اور اپنے افعال کی اس کے افعال کے ساتھ کسی لحاظ سے بھی مناسبت محسوس کرے، ظلیت کا اطلاق (ظل کہنا) بھی منجملہ مناسبات سے ہے، اس سے بھی پاک و منزہ ظاہر کرتے ہیں، حق سبحانہٗ و تعالیٰ کو خالق اور اپنے آپ کو مخلوق جانتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ کہنے کی جرأت نہیں کرتے۔
توحیدِ فعلی ان بزرگوں کی ایک جماعت کو راہ سلوک کے دوران حاصل ہوتی ہے اور وہ سوائے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے کسی کو فاعل نہیں پاتے۔ یہ بزرگ یعنی حضرات نقشبندیہ قدس سرہم جانتے ہیں کہ ان افعال کا خالق (پیدا کرنے والا) وہی ایک ذات یعنی حق تعالیٰ ہے نہ کہ ان افعال کا مرتکب بندہ، کیونکہ یہ بات خود زندقہ و الحاد تک پہنچانے والی ہے۔ ہم اس کو ایک مثال سے واضح کرتے ہیں، مثلًا کوئی شعبدہ باز پردے کے پیچھے بیٹھ کر چند جماد (بے جان) مورتیوں (تصویروں) کو حرکت دیتا ہے اور ان میں نئے عجیب و غریب افعال حرکت میں لاتا ہے، تیز نظر و باریک بین لوگ جانتے ہیں کہ ان بے جان مورتیوں میں ان افعال کا بنانے والا وہی شخص ہے جو پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا ہے لیکن ان افعال کو اختیار کرنے والی وہی صورتیں ہیں اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ مورت متحرک ہے اور یہ نہیں کہتے کہ شعبدہ باز متحرک ہے۔ در حقیقت یہ لوگ (حضرات نقشبندیہ قدس سرہم) اس حکم میں حق کو ثابت کرنے والے ہیں، انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی شریعتیں بھی اسی حکم کو بیان کرتی ہیں اور وحدت فعل کے ساتھ حکم کرنا سُکر والوں کا کلام ہے، بلکہ صریح حق بات یہ ہے کہ فاعل متعدد ہیں اور افعال کا خالق ایک ہی ہے۔ اسی کی مانند وہ کلام ہے جو بعض صوفیوں نے توحیدِ وجودی کے بارے میں کہا ہے وہ بھی سکرِ وقت اور غلبہ حال پر مبنی ہے۔ علوم لدنیہ (کشف) کے درست ہونے کی علامت یہ ہے کہ وہ علوم شرعیہ کے ساتھ واضح طور پر مطابق ہوں اگر اس میں شرعی علوم سے بال برابر بھی تجاوز ہوا تو وہ سکر کی وجہ سے ہے اور حق وہی ہے جس کو علمائے اہل سنت و جماعت نے تحقیق کیا ہے اور اسکے علاوہ زندقہ و الحاد (محض بے دینی) ہے یا سکر وقت و غلبہ حال ہے اور یہ تمام مطابقت مقامِ عبدیت میں حاصل ہوتی ہے، اس مقام کے سوا ایک قسم کا سکر ثابت ہوتا ہے؎
گر بگویم شرحِ ایں بے حد شود
ترجمہ:
شرح اس کی بیاں سے باہر ہے
کسی شخص نے حضرت خواجہ نقشبند قدس اللہ تعالیٰ سرہ الاقدس سے دریافت کیا کہ سلوک سے مقصود کیا ہے؟ آپ نے فرمایا یہ ہے کہ اجمالی معرفت تفصیلی اور استدلالی معرفت کشفی ہو جائے، اور یہ نہیں فرمایا کہ معارفِ شرعیہ سے زیادہ کوئی اور معرفت حاصل کی جائے، اگرچہ راستے میں (علومِ شرعیہ پر) زائد امور پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر یہ حضرات انتہائے مقصد تک پہنچا دیئے جائیں تو یہ زائد امور منتشر و ناپید ہو جائیں اور وہی معارف شرعیہ تفصیلی طور پر معلوم ہو جاتے ہیں اور استدلال کی تنگی سے (نکل کر) کشف کے وسیع میدان میں آ جاتے ہیں یعنی جس طرح نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام ان علوم کو وحی سے اخذ فرمایا کرتے تھے یہ حضرات الہام کے طریق پر ان علوم کو اصل سے (یعنی حق تعالیٰ سے) اخذ کرتے ہیں، علما نے ان علوم کو شریعتوں سے اخذ کر کے اجمال کے طور پر بیان کیا ہے، یہی علوم جس طرح انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کو تفصیلی اور کشفی طور پر حاصل تھے ان بزرگوں کو بھی اسی طرح پر حاصل ہو جاتے ہیں، ان کے درمیان صرف اصالت اور تبعیت کا فرق ہے ( یعنی انبیا علیہم الصلوۃ و السلام کو اصالتًا حاصل ہیں اور اولیاء اللہ کو انبیائے کرام علیہم السلام کی متابعت سے حاصل ہو جاتے ہیں) اس قسم کے کمال کے لئے کامل اولیا میں سے بعض کو کئی صدیوں اور بہت زمانوں کے بعد منتخب فرماتے ہیں۔
جی چاہتا تھا کہ ایک اجمالی استدلالی مسئلے کو مفصل لکھوں لیکن کاغذ نے کوتاہی کی (یعنی ختم ہو گیا) شاید حق تعالیٰ جل شانہٗ کی کوئی حکمت اسی میں ہو گی۔ و السلام۔
1 یعنی معرفت و دانش آخر میں میسر ہوتی ہے ابتدا میں نہیں، اور حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی معرفت بشر کو تو کیا ملائکہ کو بھی حیرت و نا دانی کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہے جیسا کہ کہا گیا ہے: "اَلْعِجْزُ عَنِ الْإِدْرَاکِ إِدْرَاکٌ" یعنی ادراک سے عاجز رہنا یہ بھی ایک طرح کا ادراک ہی ہے۔
2 سیرِ انفسی و سیرِ آفاقی کے معنی اور ان دونوں کی تفصیل دفتر دوم مکتوب 42 میں مذکور ہے۔
3 جاننا چاہیے کہ عدم جو اس سلسلۂ عالیہ کے اکابر کی عبارتوں میں آتا ہے، اس سے مراد اس اسمِ الہی جل شانہٗ کی ہستی کا ورود ہے جو کہ عارف کا مبدءِ تعین ہے۔ کسی پردے کے پیچھے سے جذب و محبت کے راستے سے مدرکۂ سالک پر وارد ہونا ہے۔ جس کے پہلو میں سالک کی ہستی چھپ جاتی ہے اور سالک اپنے آپ کو اور اپنے اوصاف کو گم کر دیتا ہے اور نہیں پاتا۔ وجود عدم سے مراد اس ہستی کا ثابت ہونا ہے یعنی وہ وجود و بقا جو عدم پر مرتب ہوتی ہے۔ یہ بھی احتمال ہے کہ وجودِ عدم سے مراد حالتِ عدمیہ کے ساتھ متحقق ہونا ہے، یعنی سال کے اندر صفتِ عدم کا پیدا ہونا۔ یہ عدم اور وجودِ عدم بمعنیٰ اول جہتِ جذبہ میں فنا و بقا ہے۔ اس ظہور کو ہمیشگی (دوام) نہیں ہے۔ پس جو فنا و بقا اس پر مترتب ہو گی وہ بھی دائمی نہیں ہو گی اور وجودِ بشریت کی طرف عود کرنے سے محفوظ نہیں ہو گی۔ جب تک وہ ظہور واقع ہے اس وقت تک سالک کی ہستی چھپی ہوئی ہے اور جب وہ ظہور پوشیدہ ہو جائے گا وجودِ بشریت عود کر آئے گا۔ (از مکتوبات حضرت خواجہ محمد معصوم قدس سرہٗ)
4 یعنی فنائے حقیقی سے پہلے جس سے مراد محبوب کی ہستی کا عارف پر اس قدر غلبہ ہونا کہ تمام تعلقات سے خالی ہو جائے۔
5 وجودِ فنا سے مراد وہ بقا ہے جو فنائے حقیقی پر مترتب ہوتی ہے اور دوسری ولادت میں موہوب وجود کے ساتھ موجود ہو جاتی ہے۔ اس فنا و بقا کو دوام لازمی ہیں اور یہ وجودِ بشریت کی طرف عود کرنے سے محفوظ ہے۔ (حضرت خواجہ محمد معصوم رحمۃ اللہ علیہ)
6 اس میں آیتِ کریمہ: ﴿إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ﴾ (الحجرات: 12) کی طرف اشارہ ہے۔