مکتوب 29
فرائض کے ادا کرنے اور سنن و مستحبات کی رعایت کرنے کی ترغیب اور فرضوں کے مقابلے میں نفلوں کے ادا کرنے کی طرف توجہ نہ دینے کے بیان میں اور عشاء کی نماز کو آدھی رات کے بعد ادا کرنے اور وضو کے مستعمل پانی کے پینے کو جائز سمجھنے اور مریدوں کے سجدہ کرنے کو جائز سمجھنے سے منع کرنے کے بیان میں شیخ نظام تھانیسری1 کی طرف صادر فرمایا۔
عَصَمَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ عَنِ التَّعَصُّبِ وَ التَّعَسُّفِ وَ نَجَّانَا وَ إِیَّاکُمْ عَنِ التَّلَھُّفِ وَ التَّاَسُّفِ بِحُرْمَۃِ سَیِّدِ الْبَشَرِ الْمَنْفِیِّ عَنْهُ زَیْعُ الْبَصَرِ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہٖ مِنَ الصَّلَوٰاتِ أَتَمُّھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا۔ (حق سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اور آپ کو تعصب (طرف داری و ہٹ دھرمی) اور تعسف (غلط راستے پر چلنے) سے بچائے اور تلہف و تاسف (افسوس اور رنج و غم کرنے) سے بچائے بطفیل حضرت سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ کجئ بصر سے پاک ہیں۔ آپ پر اور آپ کی آل پر کامل ترین صلوات اور اکمل ترین تسلیمات ہوں)
وہ اعمال جن سے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل ہوتا ہے فرائص ہیں یا نوافل۔ فرضوں کے مقابلے میں نفلوں کا کچھ اعتبار نہیں ہے، فرضوں میں سے کسی ایک فرض کا اس کے اپنے وقت میں ادا کرنا ہزار سال کے نوافل ادا کرنے سے بہتر ہے اگرچہ وہ نوافل خلوصِ نیت کے ساتھ ادا کئے جائیں خواہ وہ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور ذکر و فکر وغیرہ میں سے کوئی بھی نفل ہو۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ فرائض کے ادا کرنے کے وقت سنتوں میں سے کسی سنت کی اور مستحبات میں سے کسی مستحب کی رعایت کرنے کا بھی یہی حکم ہے۔ (کہ وہ نوافل کے ادا کرنے سے بہتر ہے)
منقول ہے کہ "ایک روز امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فجر کی نمازِ جماعت سے فارغ ہونے کے بعد مقتدیوں کی طرف دیکھا تو اپنے ساتھیوں میں سے ایک شخص (سلیمان ابن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ) کو اس وقت موجود نہ پایا۔ (دریافت) فرمایا کہ فلاں شخص جماعت میں حاضر نہیں ہوا؟ حاضرین نے عرض کیا کہ وہ رات کا اکثر حصہ جاگتا رہتا ہے گمان ہے کہ وہ اس وقت سو گیا ہو گا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر وہ تمام رات سوتا رہتا اور فجر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرتا تو زیادہ اچھا ہوتا2"۔
پس کسی مستحب کی رعایت کرنا اور کسی مکروہ سے بچنا خواہ وہ مکروہِ تحریمی نہ ہو بلکہ مکروہ تنزیہی ہی ہو، ذکر و فکر اور توجہ و مراقبے سے بہتر ہے۔ ہاں اگر ان امور (ذکر و فکر اور مراقبے وغیرہ) کو مستحبات کی رعایت اور مکروہات سے بچنے کے ساتھ جمع کرے تو ﴿فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا﴾ (الأحزاب: 71) ”اس نے وہ کامیابی حاصل کر لی جو زبر دست کامیابی ہے“ وَ بِدُوْنِہٖ خَرْطُ الْقَتَادِ (ورنہ بے فائدہ رنج اٹھانا ہے)۔ مثلًا زکوٰۃ کے حساب میں ایک دانگ (چھ رتی وزن کا سکہ مراد ہے یعنی معمولی رقم) صدقہ کرنا جس طرح سے کہ نفلی طور پر سونے کے بڑے بڑے پہاڑ صدقہ کرنے سے کئی درجے بہتر ہے، اسی طرح اس دانگ کے صدقہ کرنے میں کسی مستحب کی رعایت کرنا مثلًا اس کا کسی قریبی محتاج کو دینا بھی اس (نفلی صدقہ) سے کئی درجے بہتر ہے۔ لہذا عشاء کی نماز کو رات کے دوسرے نصف حصہ میں (آدھی رات کے بعد) ادا کرنا اور اس تاخیر کو قیامِ لیل (نماز تہجد کی تاکید) کا ذریعہ بنانا بہت ہی برا ہے کیونکہ فقہائے احناف رضی اللہ تعالی عنہم کے نزدیک عشاء کی نماز کو اس وقت میں (یعنی آدھی رات کے بعد) ادا کرنا مکروہ3 ہے، بظاہر اس کراہت سے ان کی مراد کراہتِ تحریمہ4 ہے، کیونکہ ان کے نزدیک نماز عشاء کا آدھی رات تک ادا کرنا مباح ہے اور آدھی رات کے بعد ادا کرنا مکروہ کہا ہے۔ پس وہ مکروہ جو مباح کے بالمقابل ہے وہ مکروہِ تحریمی ہے۔
فقہائے شافعیہ5 رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک آدھی رات کے بعد عشاء کی نماز ادا کرنا جائز ہی نہیں ہے۔ لہذا قیام لیل یعنی نماز تہجد کے لئے اور اس وقت میں ذوق و جمعیت حاصل ہونے کے لئے اس امر (تاخیرِ نمازِ عشاء بعد نصفِ شب) کا مرتکب ہونا نہایت برا ہے۔ اس مقصد کے لئے نمازِ وتر کی ادائیگی میں (بعد نصفِ شب تک) تاخیر کرنا بھی کافی ہے، اور یہ تاخیر مستحب6 بھی ہے، وتر بھی افضل وقت میں ادا ہو جاتے ہیں اور قیامِ لیل (نمازِ تہجد) اور صبح کے وقت جاگنے کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے لہذا اس عمل (تاخیر نمازِ عشاء بعد نصفِ شب) کو ترک کرنا چاہیے اور گزشتہ دنوں کی نمازوں کو پھر سے ادا کرنا چاہیے۔ امام اعظم کوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وضو کے مستحبات میں سے کسی ایک مستحب کے ترک ہونے کی وجہ سے چالیس سال کی نمازوں کو قضا فرمایا تھا۔
اور نیز مستعمل پانی جس سے حدث کو دور کیا ہو (یعنی وضو کا مستعمل پانی ہو) یا وہ مستعمل پانی جس کو قربت یعنی عبادت و ثواب کی نیت سے وضو میں استعمال کیا ہو (یعنی با وجود وضو ہونے کے ثواب کی نیت سے پھر وضو کیا ہو تو اس وضو کا مستعمل پانی) لوگوں کے لئے اس پانی کا پینا جائز نہ کریں، کیونکہ وہ پانی امام اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نزدیک نجس مغلّظ ہے (یعنی نجاستِ غلیظہ ہے) اور فقہاء نے اس پانی کے پینے سے منع فرمایا ہے اور اس کے پینے کو مکروہ کہا ہے۔ ہاں وضو کے بچے ہوئے پانی کے پینے کو شفا کہا ہے، اگر کوئی شخص اعتقاد کے ساتھ طلب کرے تو اس کو وہ پانی (یعنی وضو کا بچا ہوا پانی) دے سکتے ہیں۔ اس فقیر کو اس دفعہ دہلی میں اس قسم کی آزمائش پیش آئی تھی (یعنی) بعض دوستوں کو واقعہ (حال) میں دکھایا گیا کہ اس فقیر کے وضو کے مستعمل پانی کو پئیں ورنہ بڑی تکلیف لاحق ہو جائے گی۔ (فقیر نے) بہت زیادہ منع کیا مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا، آخر کار فقہ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا تو نجات کی ایک صورت نکل آئی کہ اگر ہر عضو کو تین مرتبہ دھونے کے بعد چوتھی مرتبہ دھویا جائے اور اس میں قربت یعنی عبادت و ثواب کی نیت نہ کی جائے تو چوتھی مرتبہ کا پانی مستعمل نہیں ہو گا۔ یہ حیلہ تجویز کر کے عبادت و ثواب کی نیت کے بغیر چوتھی مرتبہ کے دھونے کا مستعمل پانی ان حضرات کو پینے کے لئے دیا۔
اور نیز معتبر آدمیوں نے بیان کیا ہے کہ آپ کے بعض خلفاء کو ان کے مرید سجدہ7 کرتے ہیں اور زمین بوسی پر بھی کفایت نہیں کرتے۔ اس فعل کی برائی آفتاب سے بھی زیادہ (یعنی خوب اچھی طرح) ظاہر ہے، آپ ان کو منع کریں اور منع کرنے میں تاکید سے کام لیں۔ اس قسم کے افعال سے پرہیز کرنا ہر شخص کے لئے ضروری ہے، خاص طور پر جو شخص لوگوں کا پیشوا و مقتدا بنا ہوا ہو، اس کو اس قسم کے افعال سے پرہیز کرنا اشد ضروری ہے کیونکہ اس کے پیرو اس کے اعمال کی پیروی کریں گے اور مصیبت میں گرفتار ہو جائیں گے۔
اور نیز اس جماعت کے علوم، احوال کے علوم ہیں۔ اور احوال، اعمال کے نتیجے و ثمرات ہیں، اور احوال کے علوم سے اسی شخص کو میراث (ورثہ) ملتی ہے جس نے اپنے اعمال کو درست کیا ہو اور ان کا حق ادا کرنے پر قائم رہا ہو، اور اعمال کی درستی اس وقت حاصل ہوتی ہے جب کہ اعمال کو پہچانے اور ہر عمل کی کیفیت کو جانے اور وہ احکامِ شرعیہ یعنی نماز، روزہ اور باقی فرائض، معاملات و نکاح و طلاق و خرید و فروخت اور ہر اس چیز کا علم ہے جس کو حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے اور اس کو اس کی طرف دعوت دی ہے۔ یہ علوم کسب (اپنی محنت) سے حاصل ہوتے ہیں، ان کے سیکھنے سے کسی شخص کو بھی چارہ نہیں ہے۔
اور علم دو مجاہدوں کے درمیان ہے، ایک مجاہدہ علم کے حاصل ہونے سے پہلے اس کی طلب میں ہوتا ہے اور دوسرا مجاہدہ علم حاصل ہونے کے بعد اس کے استعمال (اس پر عمل کرنے) میں ہوتا ہے۔ پس جس طرح آپ کی مبارک مجلس میں تصوف کی کتابوں میں سے کچھ بیان ہوتا رہتا ہے اسی طرح فقہ کی کتابوں میں کچھ بیان ہوتا رہنا چاہیے، اور فقہ کی کتابیں فارسی میں بہت ہیں مثلًا مجموعہ خانی، عمدۃ الاسلام و کنز فارسی۔ بلکہ اگر تصوف کی کتابوں میں سے بیان نہ بھی کیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں کیونکہ وہ احوال سے تعلق رکھتی ہیں اور بیان کرنے8 میں نہیں آتیں اور فقہ کی کتابوں میں سے بیان نہ ہونے میں نقصان کا احتمال ہے اور زیادہ لمبی گفتگو کیا کی جائے۔ اَلْقَلِیْلُ یَدُلُّ عَلَی الْکَثِیْرِ (تھوڑی بات کثیر پر دلالت کرتی ہے)
اندکے پیشِ تو گفتم غمِ دل ترسیدم
کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است
ترجمہ:
بہت تھوڑی کہی ہے ڈرتے ڈرتے داستانِ غم
کہیں آزردہ ہو جائے نہ دل تیرا، مرے ہم دم!
رَزَقَنَا اللہُ سُبْحَانَہٗ وَ إِیَّاکُمْ کَمَالَ اتِّبَاعِ حَبِیْبِہٖ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ (حق تعالیٰ ہم کو اور آپ کو اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری پوری متابعت نصیب فرمائے آمین۔
1 مکتوبات شریفہ میں آپ کے نام دفترِ اول مکتوب 29، 30 صرف دو مکتوبات ہیں۔ شیخ نظام الدین بن شیخ عبد الشکور عمری بلخی تھانیسری ظاہری و معنوی کمالات سے متصف، شریعت و طریقت اور علم و عمل کے جامع تھے۔ سلسلہ امدادیہ صابریہ چشتیہ کے اکابر اور شیخ جلال الدین تھانیسری کے برادر زادہ داماد اور خلیفہ تھے۔ نیز متعدد کتابوں کے مصنف تھے۔ شہزادہ خرم کے ساتھ تعاون کرنے پر جہانگیر سے مخالفت ہو گئی تھی۔ سنہ 1024ھ میں وفات پائی۔ (نزھۃ الخواطر صفحہ نمبر: 418/5، تذکرہ علمائے ہند، نور العارفین)
2 اس کو امام مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے مؤطا میں روایت کیا ہے اور مشکوٰۃ میں اس طرح روایت کی گئی ہے: "عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ سُلَيْمَانَ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ، قَالَ: إِنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، فَقَدَ سُلَيْمَانَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ فِي صَلَاةِ الصُّبْحِ، وَ إِنَّ عُمَرَ غَدَا إِلَى السُّوقِ، وَ مَسْكَنُ سُلَيْمَانَ بَيْنَ الْمَسْجِدِ وَ السُّوقِ، فَمَرَّ عَلَى الشِّفَاءِ أُمِّ سُلَيْمَانَ، فَقَالَ لَهَا: لَمْ أَرَ سُلَيْمَانَ فِي الصُّبْحِ، فَقَالَتْ: إِنَّهُ بَاتَ يُصَلِّي فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ، فَقَالَ عُمَرُ: لَأَنْ أَشْهَدَ صَلَاةَ الصُّبْحِ فِي جَمَاعَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُومَ لَيْلَةً" (مشكاة المصابيح، حدیث نمبر: 1080)
3 البحر الرائق میں ہے: "وَ أَفَادَ أَنَّ التَّاخِیْرَ إِلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ لَیْسَ بِمُسْتَحَبٍّ وَّ قَالُوْا إِنَّہٗ مُبَاحٌ وَ إِلٰی مَا بَعْدَہٗ مَکْرُوْہٌ" یعنی اس سے مستفید ہوا کہ عشاء کی نماز کو آدھی رات تک مؤخر کرنا مستحب نہیں ہے اور فقہاء نے اس کو مباح کہا ہے اور آدھی رات کے بعد ادا کرنا مکروہ ہے۔
4 نیز البحر الرائق میں قنیہ سے منقول ہے: "تَاخِیْرُ الْعِشَاءِ إِلٰی مَا زَاد عَلٰی نِصْفِ اللَّیْلِ یُکْرَہُ کَرَاھَۃَ تَحْرِیْمٍ" یعنی عشاء کے نماز کو آدھی رات کے بعد تک مؤخر کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
5 اس لئے کہ مسلم شریف کی حدیث میں وارد ہے: "وَ وَقْتُ صَلوٰةِ الْعِشَاءِ إِلٰی نِصْفِ اللَّيْلِ الْأَوْسَطِ" (صحيح مسلم، حدیث نمبر: 173) یعنی عشاء کی نماز کا وقت (شفق غائب ہونے کے بعد سے شروع ہو کر) آدھی رات تک ہے اور احناف کے نزدیک یہ حدِ مختار ہے، جواز کا وقت طلوع فجر سے ذرا پہلے تک ہے۔
6 یعنی نماز وتر کے لئے تاخیر اس شخص کے لئے مستحب ہے جس کو تہجد کے وقت جاگنے اور اٹھنے پر پورا اعتماد و بھروسہ ہو ورنہ نماز وتر بھی سونے سے پہلے ہی پڑھ لینا مستحب بلکہ واجب ہے۔
7 جاننا چاہیے کہ سجدے کی حقیقت پیشانی کو زمین پر رکھنا ہے اور یہ دو طرح پر واقع ہوتا ہے: ایک یہ کہ بندگی کا حق ادا کرنے کے لئے ہو اور یہ تمام مذاہب و ملل میں اللہ تعالی کے سوا کسی دوسرے کے لئے کرنا حرام و ممنوع ہے اور کبھی بھی جائز نہیں ہے۔ دوم یہ کہ کسی کی تعظیم و تکریم کے لئے ہو جیسا کہ سر کو جھکا کر سلام کرنا۔ اس کا حکم رسوم و عادت اور تبدیلئ اوقات و زمانے کے لحاظ سے مختلف ہے، کبھی جائز ہے اور کبھی حرام۔ یہ پہلی امتوں میں جائز تھا اور ہماری شریعت میں یہ طریقہ بھی حرام و ممنوع ہے کیونکہ اس کی ممانعت میں متواتر احادیث وارد ہوئی ہیں۔ (کذا في التفسیر العزیزي) امراء و مشائخ کے لئے زمین کو بوسہ دینا بھی حرام ہے اور اس فعل کے کرنے والا اور اس سے خوش و راضی ہونے والا دونوں گناہ گار ہوں گے۔ (کذا في الکافي) ففیہ ابو جعفر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے کہ جو شخص بادشاہ یا امیر کے سامنے زمین کو بوسہ دے یا سجدہ کرے، اگر وہ سجدہ تعظیمی ہو گا تو اس سے وہ شخص کافر تو نہیں ہو گا لیکن گناہ گار و گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو گا اور اگر عبادت کی نیت سے کرے گا تو کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح اگر اس کی کچھ بھی نیت موجود نہیں ہو گی تو اکثر علماء کے نزدیک وہ کافر نہیں ہو گا۔ زمین کو بوسہ دینا، رخسار یا پیشانی زمین پر لگانے سے کم درجے پر ہے۔ (کذا في الظہیریۃ) طیبی نے محیی السنہ سے نقل کیا ہے کہ کمر جھکانا مکروہ ہے کیونکہ صحیح حدیث میں اس سے نہی وارد ہے۔ اگرچہ بہت سے علم و صلاح والے حضرات بھی اس فعل کے ساتھ منسوب ہیں تو ان کے اس فعل پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔ مطالب المؤمنین میں شیخ ابو منصور سے نقل کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے سامنے زمین کو بوسہ دے یا کمر یا سر کو جھکا دے وہ شخص کافر نہیں ہوتا لیکن گناہ گار ہوتا ہے۔ بعض مشائخ نے کہا ہے: "کَادَ الِانْحِنَاءُ أَنْ یَّکُوْنَ کُفْرًا" ”یعنی کمر کو جھکانا کفر کے قریب ہے“۔ (کذا في ترجمۃ المشکوٰۃ للشیخ دہلوي رحمۃ اللہ علیہ)
8 کسی نے کیا اچھا کہا ہے:
مغرورِ سخن مشو کہ توحیدِ خدا
واحد دیدن بود نہ واحد گفتن
پس زبان سے کہنے اور وجدان سے پانے میں بہت فرق ہے، کسی چیز کے متعلق کان سے سننے اور اس چیز کو خود حاصل کر لینے میں بہت سے درجے ہیں، صرف شَکر کا نام لینے سے حلق میٹھا نہیں ہوتا جب تک اس کو کھایا نہ جائے۔