دفتر 1 مکتوب 302: اس بیان میں کہ ولایت کی تین قسمیں ہیں: (1) ولایتِ اولیاء (2) ولایتِ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات (3) اور ولایتِ ملاءِ اعلیٰ علی نبینا و علیہم الصلوات والتحیات، اور ان کے درمیان فرق کے بیان میں، اور اس بیان میں کہ نبوت ولایت سے افضل ہے، نیز ان بعض خاص معارف کے بیان میں جن کا تعلق نبوت سے ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

دفتر اول مکتوب 302

جامع علومِ ظاہری اور اسرار و معارفِ باطنی اعنی مخدوم زادہ مجد الدین خواجہ محمد معصوم سلمہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا۔

اس بیان میں کہ ولایت کی تین قسمیں ہیں: (1) ولایتِ اولیاء (2) ولایتِ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات (3) اور ولایتِ ملاءِ اعلیٰ علی نبینا و علیہم الصلوات والتحیات، اور ان کے درمیان فرق کے بیان میں، اور اس بیان میں کہ نبوت ولایت سے افضل ہے، نیز ان بعض خاص معارف کے بیان میں جن کا تعلق نبوت سے ہے اور اس کے مناسب بیان میں۔

اللّٰہ تعالیٰ تم کو رشد و ہدایت عنایت فرمائے۔ جان لیں کہ ولایت سے مراد قربِ الہیٰ جل سلطانہٗ ہے جو ظلیت کی آمیزش کے بغیر ممکن نہیں، اور حجابات کے پردوں کے بغیر حاصل نہیں۔ اگر اولیاء کی ولایت ہے تو وہ ظلیت کے داغ سے داغ دار ہے اور انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کی ولایت اگرچہ ظلیت سے نکل چکی ہے لیکن اسماء و صفات کے حجابات کے پردوں کے بغیر متحقق نہیں ہے، اور ولایتِ ملاءِ اعلیٰ علی نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات اگرچہ اسماء و صفات کے حجابات سے بلند و برتر ہے لیکن شیون و اعتباراتِ ذاتیہ کے حجابات اس میں بھی موجود ہیں۔ یہ صرف نبوت و رسالت ہی ہے کہ جس میں ظلیت کی کوئی آمیزش نہیں ہے اور صفات و اعتبارات کے سب حجابات راستے ہی میں رہ جاتے ہیں، لہذا لازمی طور پر نبوت ولایت سے افضل ہوئی، اور قربِ نبوت ذاتی اور اصلی ہے۔ اور جو شخص ان دونوں کی حقیقت پر مطلع نہیں ہوا، اس نے اس کے خلاف حکم دیا اور حقیقت کے بر عکس یقین کیا ہے۔ لہذا وصول مرتبۂ نبوت میں ہے اور حصول مقامِ ولایت میں۔ کیونکہ حصول ملاحظۂ ظلیت کے بغیر صورت پذیر نہیں ہو سکتا بخلاف وصول کے۔ نیز کمالِ حصول میں دوئی زائل ہو جاتی ہے اور کمالِ وصول میں دوئی باقی رہتی ہے، لہذا دوئی کا دور ہونا مقامِ ولایت کے مناسب اور دوئی کا باقی رہنا مقامِ نبوت کے مناسب ہے اور جب دوئی کا زوال ہونا مقامِ ولایت کے مناسب ہے تو لازمی طور پر ہمہ وقت سکر (مستی) کا طاری رہنا مقامِ ولایت کے لئے ضروری ہوا، اور نبوت کے مرتبے میں چونکہ دوئی باقی رہتی ہے، لہذا صحو (ہوشیاری) بھی اس مرتبے کی خصوصیت میں سے ہے۔ نیز تجلیات کا حصول خواہ صورت و شکل کے لباس میں ہو یا رنگوں اور انوار کے پردوں میں، وہ سب مقاماتِ ولایت سے متعلق ہیں اور اس کے مقدمات اور مبادی طے کرنے میں سے ہیں، بخلاف مرتبۂ نبوت کے کہ اس مقام میں اصل کے ساتھ وصول ہے اور ان تجلیات و ظہورات سے جو اس اصل کے ظلال ہیں، ان سے استغناء حاصل ہوتا ہے اور اسی طرح اس (مرتبۂ نبوت) کے مقدمات و مبادی طے کرنے کے وقت میں ان تجلیات کی ضرورت نہیں بجز اس کے کہ ولایت کے راستے سے عروج واقع ہو لیکن اس وقت بھی ان تجلیات کا حصول ولایت کے واسطے سے ہے نہ کہ وصولِ نبوت کے راستے سے مسافت طے کرنے کے ذریعے۔ مختصر یہ کہ تجلیات و ظہورات ظلال کی خبر دیتے ہیں اور وہ شخص جو ظلال کی گرفتاری سے آزاد ہو چکا ہے اور تجلیات سے نجات پائے ہوئے ہے، اس کو اس جگہ ﴿مَا زَاغَ الْبَصَرُ کا راز طلب و تلاش کرنا چاہئے۔

اے فرزند! عشق کا ولولہ، محبت کا طنطنہ اور شوق انگیز نعرے، درد بھری آہیں، وجد و تواجد، رقص و رقاصی، یہ سب ظلال کے مقام ہیں اور ظہورات و تجلیاتِ ظلیہ کے وقت میں یہ سب ہوتے ہیں۔ اصل کے ساتھ وصول ہونے کے بعد ان امور کا حصول متصور نہیں ہے۔ اس مقام میں محبت کے معنی ارادۂ اطاعت ہے جیسا کہ علماء نے فرمایا ہے نہ کہ اس سے کوئی اور زائد معنی جو کہ ذوق و شوق کا منشا ہیں، جیسا کہ بعض صوفیوں نے بھی ایسا گمان کیا ہے۔

اے فرزند! غور سے سنو، چونکہ مقامِ ولایت میں دوئی کا زوال (دور ہونا) مطلوب ہے اس لئے لازمی طور پر اولیاء ارادے کے زوال میں کوشش کرتے ہیں۔ شیخ (با یزید) بسطامی فرماتے ہیں: "اُرِیْدُ أَنْ لَّا أُرِیْدُ" (میرا ارادہ یہ ہے کہ میرا کوئی ارادہ نہ رہے) اور نبوت کے مرتبے میں چونکہ دوئی کا زوال در کار نہیں ہے اس لئے نفسِ ارادہ کا زوال بھی مطلوب نہیں، اور کیسے (زوال) مطلوب ہو سکتا ہے جب کہ ارادہ فی حدّ ذاتہٖ (اپنی ذات کی حد میں) ایک کامل صفت ہے۔ اگر کوئی نقص اس کے اندر پایا جاتا ہے تو وہ اس کے متعلق کی نا پاکی اور خبث کی وجہ سے ہے، لہذا چاہئے کہ اس کا متعلق کوئی برا اور نا پسندیدہ امر نہ ہو بلکہ اس کی تمام مرادیں حق جل و علا کی مرضی کے موافق ہوں۔ اور اسی طرح مقامِ ولایت میں تمام بشری صفات کی نفی میں کوشش کرتے ہیں اور مرتبۂ نبوت میں ان صفات کے بُرے متعلقات کی نفی کرتے ہیں نہ کہ ان صفات کے اصل کی نفی جو فی حد ذاتہٖ (اپنی ذات کی حد میں) کامل ہیں۔ مثلًا: "صفتِ علم" جو اپنی ذات کی حد میں صفاتِ کاملہ میں سے ہے، اگر اس میں کوئی نقص واقع ہو گیا ہے تو وہ اس کے بُرے متعلق کی راہ سے ہے لہذا اس صفت کے برے متعلق کی نفی ضروری ہے نہ کہ اس صفت کے اصل کی نفی، علیٰ ہذا القیاس۔ پس جو شخص ولایت کے راستے سے مقامِ نبوت میں آیا ہے اس کے لئے اثناءِ راہ میں اصل صفات کی نفی سے چارہ نہیں اور جو شخص اس (مرتبۂ نبوت کے) مقام پر ولایت کی راہ کے توسط کے بغیر پہنچا ہے اس کے لئے اصل صفات کی نفی کوئی ضروری نہیں بلکہ صرف ان صفات کے بُرے متعلقات کی نفی ضروری ہے۔

جاننا چاہئے کہ اس ولایت سے مراد جس کا ابھی ذکر ہوا ہے ولایتِ ظلی ہے جس کو ولایتِ صغریٰ اور ولایتِ اولیاء سے تعبیر کرتے ہیں۔ ولایتِ انبیاء جو ظل سے گزر چکی ہے وہ دوسری ہے، وہاں صفاتِ بشریت کے بُرے متعلقات کی نفی ہے نہ کہ ان صفات کے اصل کی نفی۔ اور جب صفات کے بُرے متعلقات کی نفی حاصل ہو گئی تو گویا انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی ولایت کے حصول سے پیوستہ ہو گیا۔ اس کے بعد جو عروج واقع ہو گا وہ کمالاتِ نبوت کے متعلق ہوگا۔

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ (کمالاتِ) نبوت کے لئے اصل ولایت کا ہونا ضروری ہے کیونکہ ولایت اس کے مبادی اور مقدمات میں سے ہے، لیکن کمالاتِ نبوت تک پہنچنے میں ولایتِ ظلی کا حاصل ہونا کوئی ضروری نہیں، بعض کو تو اس کا اتفاق ہو جاتا ہے اور بعض کا ہرگز اس طرف گزر نہیں ہوتا۔ پس خوب سمجھ لو۔

اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اصل صفات کی نفی کرنا ان صفات کے بُرے متعلقات کے دور کرنے کی نسبت بہت دشوار ہے، لہذا کمالاتِ نبوت کا حصول، کمالاتِ ولایت کے حصول کی نسبت آسان اور نزدیک تر ہے۔ اور ہر وہ کام جو اپنی اصل کے ساتھ وصول رکھتا ہے اس کو آسانی اور قرب کی یہی نسبت ہے، بخلاف ان امور کے جو اصل سے جدا ہیں۔

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اصل کیمیا آسان عمل کے ساتھ میسر ہوتا ہے اور قریب ترین راستے سے حاصل ہو جاتا ہے اور جو شخص اس کے اصل (عمل و نسخہ) سے جدا اور دور ہے وہ محنت و مشقت میں پڑا رہتا ہے اور اپنی ساری عمر اس کے حاصل کرنے میں ضائع کردیتا ہے پھر بھی اس کے وقت کی دولت حرمان و مایوسی ہے، اور وہ چیز جو اس کو محنتِ شاقہ کے بعد حاصل ہوتی ہے وہ اصل کی شباہت لئے ہوئے ہے اور بسا اوقات وہ عارضی شباہت بھی اس سے زائل ہو جاتی ہے اور اپنی اصل کی طرف رجوع کر جاتی ہے اور مکاری و حیلہ سازی تک نوبت پہنچ جاتی ہے، بخلاف اصل سے واصل کے جو باوجود عمل کی سہولت اور راہ کی نزدیکی کے کہ وہ دھوکے اور جھوٹ کے خوف سے امن میں ہے۔ اس راہ کے سالکوں کی ایک جماعت جو ریاضاتِ شاقہ اور مجاہداتِ شدیدہ کی وجہ سے ظلال میں سے ایک وصل تک رسائی حاصل کر لیتی ہے، اس نے یہ گمان کر لیا ہے کہ مطلب کا وصول ریاضاتِ شاقہ اور مجاہداتِ شدیدہ پر منحصر ہے۔ اور یہ نہیں جانتے کہ دوسری راہ اس راہ سے زیادہ اقرب ہے جو نہایت النہایت تک پہنچا دینے والی ہے اور وہ راستہ اجتباء (برگزیدگی) کا راستہ ہے جو محض اس (حق تعالیٰ) کے فضل و کرم پر موقوف ہے، اور وہ راہ جو انھوں نے اختیار کی ہے وہ راہِ انابت ہے جو مجاہدات سے وابستہ ہے۔ اس راہ کے واصل اقلّ قلیل (بہت ہی کم) ہیں، مگر راہِ اجتبا (برگزیدگی) کے واصل جمِ غفیر (بہت زیادہ) ہیں۔ تمام انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات اسی اجتباء کے راستے سے گئے ہیں اور ان (انبیاء) علیہم الصلوات و التحیات کے اصحاب بھی وراثت و تبعیت کے طور پر اجتبا کی راہ سے واصل ہوئے ہیں۔ اربابِ اجتباء کی ریاضتیں وصولِ نعمت کے شکر کی ادائیگی کی وجہ سے ہیں۔ آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام سے ایک سائل نے عرض کیا کہ جب آپ کے اول و آخر کے تمام گناہ بخشش دیئے گئے ہیں تو پھر آپ یہ ریاضاتِ شاقّہ کیوں کرتے ہیں؟ آپ (ﷺ) نے جواب میں فرمایا:

"أَفَلَا أَکُوْنَ عَبْداً شَکُوْرًا

ترجمہ: "کیا میں اللّٰہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں"۔

اور اہلِ انابت کے مجاہدات وصول کے حاصل کرنے کے لئے ہیں۔ ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔ "راہِ اجتباء راہ بردن" (برگزیدہ راہ پر دوسروں کو لے جانے والا) اور "راہِ انابت راہِ رفتن" (یعنی خود چل کر راستہ طے کرنے والا)۔ از بردن تا رفتن (یعنی راہ طے کرانا اور خود چلنے) میں بڑا فرق ہے۔ (راہِ اجتباء والے) جلدی جلدی لے جاتے ہیں اور جلدی ہی پہنچا دیتے ہیں اور "راہ رفتن" والے دیر دیر سے چلتے ہیں اور راہ ہی میں رہ جاتے ہیں۔

حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ فرماتے ہیں "ما فضلیا نیم" (یعنی ہم فضلی ہیں اور حق جل و علا کی نسبت ِفضل ہم کو حاصل ہے)۔ بے شک جب تک اس کا فضل شاملِ حال نہ ہو دوسروں کی نہایت ان کی بدایت میں کس طرح مندرج ہو سکتی ہے۔ ﴿ذَٰلِكَ فَضْلُ اللهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ (جمعہ: 4)

ترجمہ: "یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللّٰہ بڑے فضل والا ہے"۔

اب ہم اصل بات کو بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ عریضے جو اس فقیر نے اپنے پیر بزرگوار قدس سرہٗ کی خدمت میں لکھے ہیں، ان میں لکھا ہے کہ "تمام مرادیں ختم ہو چکی ہیں لیکن نفسِ ارادہ ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے" پھر ایک مدت کے بعد (خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں) تحریر کیا کہ "وہ ارادہ بھی مرادات کی مانند زائل ہو گیا ہے"۔ اور جب حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس فقیر کو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی وراثت سے مشرف فرمایا تو اس فقیر نے جانا کہ اصل مقصد اس ارادے کی برائی کے متعلق کو زائل کرنا ہے نہ کہ نفسِ ارادہ کو ختم کرنا۔ کیونکہ یہ لازم نہیں ہے کہ اصل (نفسِ ارادہ) کے زائل ہونے کے بعد بُرے متعلق کا رفع ہونا اتم و اکمل طور حاصل ہو جائے۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ محض فضل سے وہ کچھ میسر ہو جاتا ہے کہ تعمل و تکلّف (عمل اور محنت سے) اس کا سواں حصہ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

اے فرزند! مقامِ ولایت میں دنیا و آخرت (دونوں) سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں، اور آخرت کی گرفتاری کو دنیا کی گرفتاری کی مانند شمار کرنا چاہئے اور آخرت کے درد کو بھی دنیا کے درد کی مانند محمود (اچھا) نہیں سمجھنا چاہئے۔ امام داود طائی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "اگر تم سلامتی چاہتے ہو تو دنیا کو سلام کہہ دو اور اگر کرامت کا ارادہ رکھتے ہو تو آخرت پر تکبیر کہہ دو (یعنی نا امید ہو جاؤ)"۔ اور اسی گروہ میں سے ایک دوسرے بزرگ کہتے ہیں: "آیۂ کریمہ

﴿مِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الـدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَّنْ يُّرِيْدُ الْاٰخِرَةَ (آل عمران: 152)

ترجمہ: "تم میں سے بعض دنیا چاہتے ہیں اور تم میں سے بعض آخرت چاہتے ہیں"۔ گویا (حق تعالیٰ کو) دونوں فریقوں سے شکایت ہے"۔

مختصر یہ کہ "فنا" جس سے مراد حق جل و علا کے سوا (ہر شئ کو) فراموش کر دینا ہے، وہ دنیا و آخرت دونوں کو شامل ہے اور فنا و بقا دونوں ولایت کے اجزاء ہیں، لہذا ولایت میں آخرت کی فراموشی سے چارہ نہیں اور کمالاتِ نبوت میں آخرت کی گرفتاری محمود ہے اور آخرت کا درد پسندیدہ و مقبول ہے بلکہ اس مقام میں درد آخرت کا درد ہے اور گرفتاری آخرت کی گرفتاری ہے۔ جیسا کہ آیۂ کریمہ میں ہے: ﴿يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا (السجدہ: 16)

ترجمہ: "وہ اپنے رب کو خوف اور طمع (امید) سے پکارتے ہیں"۔

اور آیتِ کریمہ: ﴿وَيَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ (الرعد: 21)

ترجمہ: "اور وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں"۔

﴿وَيَخَافُوْنَ عَذَابَهٗ (بنی اسرائیل: 57)

ترجمہ: "اور اس کے عذاب سے خائف ہیں"۔

اور آیۂ کریمہ ﴿اَلَّذِيْنَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَيْبِ وَهُمْ مِّنَ السَّاعَةِ مُشْفِقُوْنَ (الانبیاء: 49)

ترجمہ: "جو لوگ اپنے رب سے بے دیکھے ڈرتے ہیں اور قیامت کی گھڑی سے بھی ڈرتے رہتے ہیں"۔

(یہ آیتیں) اس مقام والوں کے لئے نقدِ وقت ہیں۔

ان کا گریہ و نالہ آخرت کے احوال یاد کرنے سے ہے۔ اور ان کا درد و الم احوالِ قیامت کے خوف کی وجہ سے ہے، وہ ہمیشہ فتنۂ قبر سے پناہ مانگتے رہتے ہیں، اور ہمیشہ آتشِ دوزخ سے بھی پناہ تلاش کرتے ہیں اور گریہ و زاری میں مصروف رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک حق جل و علا کا درد، آخرت کا درد ہے۔ اور ان کا شوق و محبت آخرت کے شوق و محبت کی وجہ سے ہے، کیونکہ اگر لقا (ملاقات) ہے تو اس کا وعدہ بھی آخرت میں ہے، اور اگر رضا ہے تو اس کا کمال بھی آخرت پر موقوف ہے۔ دنیا حق جل و علا کی مبغوضہ اور آخرت اس بزرگ و برتر کی مرضیہ اور پسندیدہ ہے۔ مبغوضہ کی مرضیہ کے ساتھ کسی امر میں بھی برابری نہیں ہو سکتی، لہذا نا پسندیدہ سے منہ پھیر لینا چاہئے اور پسندیدہ (آخرت) کو قبول کرنا اس کے شایاں ہے۔ البتہ پسندیدہ سے رو گردانی کرنا عین سکر ہے اور اس تعالیٰ کی مرضی و موعود کے خلاف ہے۔ آیۂ کریمہ:

﴿وَاللّٰهُ يَدْعُوْٓا إِلٰى دَارِ السَّلَامِ (یونس: 25)

ترجمہ: "اور اللّٰہ تعالیٰ دارالسلام (جنت) کی طرف بلاتا ہے"۔

اس معنی پر گواہ ہے۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے (قرآنِ کریم میں جگہ جگہ) مبالغہ اور تاکید کے ساتھ آخرت کی ترغیب دی ہے لہذا آخرت سے رو گردانی کرنا در حقیقت حق جل و علا سے مقابلہ کرنا ہے، اور اس بزرگ و بر تر کی مرضی کے خلاف کرنا ہے۔

امام داود طائی رحمۃ اللہ علیہ نے با وجود اس بزرگی کے کہ ولایت میں قدم راسخ رکھتے تھے اس لئے ترکِ آخرت کو کرامت کہہ دیا مگر یہ نہیں سمجھا کہ اصحاب کرام علیہم الرضوان سب کے سب آخرت کے درد میں گرفتار اور آخرت کے عذاب سے ترساں و لرزاں رہتے تھے۔

ایک دن حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اونٹ پر سوار ایک گلی سے گزر رہے تھے کسی قاری نے اس آیت کو پڑھا:

﴿إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ ۝ مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍ (الطور: 7، 8)

ترجمہ: "بے شک تیرے رب کا عذاب واقع ہو کر رہے گا، اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا"۔

اس آیت کے سنتے ہی آپ کے ہوش اڑ گئے اور آپ بے خود ہو کر اونٹ سے زمین پر گر گئے (لوگوں نے) وہاں سے اٹھا کر گھر پہنچا دیا اور ایک عرصے تک اس درد کی وجہ سے بیمار رہے اور لوگ آپ کی عیادت کے لئے آتے رہے۔

ہاں بے شک مقامِ فنا میں اور احوال کے توسط میں دنیا و آخرت سے نسیان (فراموشی) میسر ہو جاتی ہے اور (سالک) آخرت کی گرفتاری کو دنیاوی گرفتاری کی طرح جانتا ہے، لیکن جب بقا کے شرف سے مشرف ہو کر کام انجام تک پہنچ جاتا ہے اور کمالاتِ نبوت اس پر پَرتَو ڈالتے ہیں تو اس وقت سارا درد و الم آخرت کے لئے ہو جاتا ہے، اور دوزخ سے پناہ مانگنا اور بہشت کی تمنا کرنا یہ سب موجود ہو جاتی ہیں۔ بہشت کے درخت، نہریں اور حور و غلمان دنیاوی چیزوں سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے، بلکہ یہ دونوں (دنیا کی اشیا اور آخرت کی اشیا) ایک دوسرے کی نقیض (ضد) ہیں جیسے غضب اور رضا ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ وہ درخت اور نہریں جو بہشت میں ہیں وہ (بندوں کے) اعمالِ صالحہ کے نتائج و ثمرات ہیں۔ (جیسا کہ) حضرت پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے کہ بہشت میں درخت نہیں ہیں، وہاں درخت لگاؤ۔ صحابہؓ نے دریافت کیا کہ وہاں کس طرح درخت لگائیں؟ آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ تسبیح، تحمید، تمجید اور تہلیل کے ذریعے۔ یعنی "سُبْحَانَ اللّٰہِ" کہو تاکہ بہشت میں ایک پودا لگا دیا جائے۔ لہذا بہشت کے درخت تسبیح کا نتیجہ ہیں۔ جس طرح کمالاتِ تنزیہی اس کلمے "سُبْحَانَ اللّٰہِ" کے اندر حروف و آواز کے لباس میں مندرج ہیں، اسی طرح بہشت میں ان کمالات کو درخت کے لباس میں پنہاں کردیا گیا ہے۔ علی ہذا القیاس جو کچھ بھی بہشت میں ہے وہ عملِ صالح کا نتیجہ ہے اور جو کچھ کہ کمالاتِ وجوبی تعالیٰ و تقدس سے قول و عملِ صالح کے لباس میں اندراج ہوئے ہیں بہشت میں وہی کمالات لذتوں اور نعمتوں کے پردے میں ظہور کریں گے۔ لہذا وہاں کی لذتیں اور نعمتیں (اللّٰہ تعالیٰ) کی پسندیدہ اور مقبول ہیں اور لقا و وصول (حق تعالیٰ سے ملاقات اور اس تک پہنچنے) کا وسیلہ ہیں۔

رابعہ بے چاری اگر اس راز سے واقف ہوتیں تو بہشت کو جلانے کی فکر نہ کرتیں اور اس کی گرفتاری کو حق جل و علا کی گرفتاری کے علاوہ نہ جانتیں۔ بخلاف دنیاوی لذتوں اور نعمتوں کے کہ ان کا منشا خباثت و شرارت ہے جس کا نتیجہ آخرت میں محرومی ہے۔ اللّٰہ سبحانہٗ و تعالیٰ ہم کو اس سے محفوظ رکھے۔

یہ دنیاوی لذتیں اگرچہ شرعی طور پر مباح ہیں لیکن (آخرت میں) ان کا محاسبہ در پیش ہے، اگر رحمتِ حق دست گیری نہ فرمائے، تو افسوس صد افسوس۔ اور اگر وہ (لذت) مباح شرعی نہیں ہے تو پھر موردِ وعید ہے۔

﴿رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَإِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَـرْحَـمْنَا لَنَكُـوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِيْنَ (الاعراف: 23)

ترجمہ: "اے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہم کو نہ بخشے اور رحم نہ فرمائے تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے"۔

لہذا اس لذت کو اُس لذت سے کوئی نسبت نہیں، اور یہ (دنیاوی) لذت زہرِ قاتل ہے اور وہ (اُخروی) لذت تریاقِ نافع ہے۔ پس آخرت کا درد یا تو عام مومنین کو نصیب ہے یا اخصِ خواص کا حصہ ہے، خواص اس درد سے پرہیز کرتے ہیں اور کرامت و بزرگی اس کے خلاف میں سمجھتے ہیں۔

آں ایشانند من چنینم یا رب

ترجمہ:

وہ ایسے ہیں میں ایسا ہوں خدایا