دفتر 1 مکتوب 301: قربِ نبوت اور قربِ ولایت اور ان راہوں کے بیان میں جو قربِ نبوّت تک پہنچانے والی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں۔

دفتر اول مکتوب 301

مولانا امان اللّٰہ کی طرف صادر فرمایا۔

قربِ نبوت اور قربِ ولایت اور ان راہوں کے بیان میں جو قربِ نبوّت تک پہنچانے والی ہیں اور اس کے مناسب بیان میں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

حمد و صلوٰۃ کے بعد میرے فرزند مولانا امان اللّٰہ کو معلوم ہو کہ نبوت سے مراد وہ قربِ الہیٰ ہے جس میں ظلیت کا کچھ بھی شائبہ نہیں۔ اس قرب کا عروج حق جل و علا کی طرف رُخ رکھتا ہے، اور اس کا نزول مخلوق کی طرف۔ یہ قرب بالاصالت انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے نصیبب ہے اور یہ منصب انہی بزرگوں علیہم الصلوات و البرکات کے ساتھ مخصوص ہے۔ نیز یہ منصب حضرت سید البشر علیہ وعلی آلہ الصلوٰۃ والسلام پر ختم ہو چکا ہے۔ لہذا حضرت عیسیٰ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃ والتحیۃ بھی نزول کے بعد حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوٰۃ والسلام کی متابعت کریں گے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ (جس طرح) متبعین اور خادموں کو اپنے مالکوں کی دولت اور ان کے پس خوردہ سے حصہ حاصل ہوتا ہے (اسی طرح) انبیاء علیہم الصلوات و التحیات کی دولتِ قرب سے ان کے کامل متبعین کو بھی حصہ حاصل ہوتا ہے۔ نیز اس مقام کے علوم و معارف اور کمالات سے وراثت کے طریق پر کامل متبیعین کو بھی حصہ نصیب ہوتا ہے۔

خاص کند بندۂ مصلحت عام را

ترجمہ:

عام کے فائدے کو خاص آیا

پس آنحضرت خاتم الرسل علیہ وعلی آلہ وعلیٰ جمیع الانبیاء والرسل الصلوات والتحیات کی بعثت کے بعد آپ کے متبعین کو تبعیت و وراثت کے طریق پر کمالاتِ نبوت کا حاصل ہونا آپ علیہ و علی آلہ الصلوۃ والسلام کی خاتمیت کے منافی نہیں۔ ﴿فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِيْنَ‌ (البقرہ: 147)

ترجمہ: "پس آپ شک کرنے والوں میں سے نہ ہوں"۔

اللّٰہ تعالیٰ آپ کو سعادت مند کرے، آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کمالاتِ نبوت تک پہنچانے والے دو راستے ہیں: ایک وہ راستہ جو مقامِ ولایت کے مفصل کمالات طے کرنے پر موقوف ہے اور اُن تجلیاتِ ظلیہ اور معارفِ سکریہ کے حصول پر منحصر ہے جو مرتبۂ ولایت کے قرب کے مناسب ہیں۔ ان کمالات کے طے کرنے اور ان تجلیات کے حاصل ہونے کے بعد کمالاتِ نبوت میں قدم رکھا جاتا ہے، اس مقام میں اصل تک وصول ہوتا ہے اور ظلیت کی طرف التفات کرنا گناہ ہے۔ دوسرا راستہ وہ ہے جس میں ولایت کے ان کمالات کے حصول کے بغیر ہی کمالاتِ نبوت تک وصول (پہنچنا) میسر ہوجاتا ہے۔ یہ دوسرا راستہ شاہراہ ہے اور کمالاتِ نبوت تک پہنچنے کا قریب ترین راستہ ہے۔ انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام اور ان کے اصحابِ کرام میں سے جو بھی ان انبیائے کرام علیہم وعلیٰ اصحابہم الصلوۃ والسلام والتحیۃ کی تبعیت و وراثت کی طریق پر کمالاتِ نبوت تک پہنچے ہیں، الا ما شاء اللّٰہ تعالیٰ، وہ اسی راستے سے پہنچے ہیں۔ اور پہلا راستہ بہت دور و دراز والا ہے اور اس کا حاصل ہونا دشوار اور اس کا وصول محال ہے۔

اولیاء کی ایک جماعت جو ولایت کے مقام میں نزول کے شرف سے مشرف ہوئی ہے، اس نے مقامِ نزول کے کمالات کو کمالاتِ نبوت خیال کر لیا ہے اور مخلوق کی طرف متوجہ ہونے کو جو مقامِ دعوت کے مناسب ہے، مقامِ نبوت کی خصوصیت میں سے سمجھا ہے، ایسا نہیں ہے، بلکہ یہ نزول اس کے عروج کے رنگ میں دونوں ولایتوں سے متعلق ہے۔ وہ عروج و نزول دوسری چیز ہے جو مقامِ ولایت سے اوپر ہے اور نبوت سے تعلق رکھتا ہے، اور مخلوق کے ساتھ یہ توجہ مخلوق کی اس توجہ کے ما سوا ہے جو کہ نبوت کے مناسب ہے اور یہ دعوت اُس دعوت (خلق) کے بغیر ہے جس کو کمالاتِ نبوت سے شمار کیا گیا ہے۔ یہ گمان کرنے والے کیا کریں کہ انہوں نے ولایت کے دائرہ سے باہر قدم ہی نہیں رکھا اور نبوت کے کمالات کی حقیقت کو بھی نہیں سمجھا بلکہ ولایت کے نصف حصہ کو جو اس کے عروج کی جانب ہے، کامل ولایت گمان کر لیا ہے اور اس کے دوسرے نصف حصے کو جو نزول کی جانب ہے، مقامِ نبوت تصور کر لیا ہے۔

چو آں کرمے کہ در سنگے نہاں است

زمین و آسمانِ او ہماں است

ترجمہ:

وہ کیڑا جو کہ پتھر میں نہاں ہے

وہی اس کا زمین و آسماں ہے

اور ممکن ہے کہ کوئی شخص پہلی راہ سے بھی وصول حاصل کر لے اور ولایت و نبوت کے مفصل کمالات کو جمع کر لے اور ان دونوں مقامات کے کمالات کے درمیان جیسا کہ ان کا حق ہے، تمیز حاصل کر لے اور ہر ایک کے عروج و نزول کو جدا کر لے اور اس بات کا حکم کرے کہ نبی کی نبوت اس کی ولایت سے بہتر ہے۔

جاننا چاہئے کہ دوسری راہ سے وصول کے بعد اگرچہ مقامِ ولایت کے مفصل کمالات حاصل نہیں ہوتے لیکن ولایت کا خلاصہ اور نچوڑ بہت خوبی کے ساتھ میسر آجاتا ہے اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ اہلِ ولایت نے کمالاتِ ولایت کا پوست (چھلکا) حاصل کر لیا ہے اور اس واصل نے اس کے مغز کو حاصل کیا ہے۔ ہاں! بعض علومِ سُکریہ اور ظہوراتِ ظلّیہ کی وجہ سے جو اربابِ ولایت کو حاصل ہوتے ہیں، وہ واصل ان علوم و ظہورات سے کم بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ معنی ان کے لئے برتری یا فضیلت کا باعث نہیں، کیونکہ اس واصل کے لئے یہ علوم و ظہورات موجبِ ننگ و عار ہیں، بلکہ مناسب ہے کہ وہ ان کو اپنے حق میں گناہ اور سوءِ ادب سمجھے۔ ہاں! اصل کا واصل اس اصل کے ظلال سے بھاگتا اور پناہ مانگتا ہے، ظل کے ساتھ گرفتاری اس ظل کے اصل تک نہ پہنچنے کے وقت تک ہے۔ اصل کے ساتھ واصل ہونے کے بعد ظل بے حاصل ہوجاتا ہے اور ظل کی طرف توجہ کرنا بے ادبی ہے۔

اے فرزند! کمالاتِ نبوت کا حصول محض بخشش اور اس کے فضل و کرم پر موقوف ہے، کسب و عمل کو اس دولتِ عظمیٰ کے حصول میں کچھ دخل نہیں۔ بھلا وہ کسب و عمل کون سا ہے جو اس دولتِ عظمیٰ کے حصول کا نتیجہ ہو اور وہ کون سی ریاضت و مجاہدہ ہے جو اس روشن ترین نعمت (کے حصول) کا ذریعہ ہو۔ بخلاف کمالاتِ ولایت کے کہ جس کی ابتدا اور مقامات کسبی ہیں اور اس کا حصول ریاضت و مجاہدے پر منحصر ہے۔ اگرچہ یہ بھی جائز ہے کہ بعض کو بغیر کسب و عمل کی محنت کے اس دولت سے نواز دیا جائے، اور فنا و بقا کہ جس سے ولایت مراد ہے وہ بھی (حق تعالیٰ) کی بخشش ہے کہ مقدمات کے کسب کے بعد اپنے فضل و کرم سے جس کو چاہے عنایت کردے اور فنا و بقا کی دولت سے مشرف کردے۔ اور آں سرور علیہ وعلی جمیع الانبیاء والمرسلین وعلی الملائکۃ المقربین وعلی اہل طاعتہ اجمعین الصلوات والتسلیمات کی بعثت سے قبل اور بعثت کے بعد کے ریاضات و مجاہدات اس دولت کے حاصل کرنے کے لئے نہ تھے، بلکہ ان سے دوسرے منافع اور فوائد منظور تھے۔ مثلًا: حساب کی کمی، بشری لغزشوں کی تلافی، درجات کی بلندی اور مرسل فرشتوں کی صحبت کی رعایت جو کھانے پینے سے پاک ہیں، اور خوارق کے ظہور کی کثرت، جو مقامِ نبوت کے مناسب ہے اور اسی طرح کی اور مصلحتیں۔

جاننا چاہئے کہ اس بخشش کا حصول انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے حق میں بلا واسطہ ہے اور انبیاء علیہم الصلوات والتحیات کے اصحاب کے حق میں جو تبعیت و وراثت کے طور پر اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، وہ بھی ان انبیاء علیہم الصلوات والبرکات کے توسط سے ہیں۔ انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات اور ان کے اصحاب کے بعد بہت کم حضرات اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں۔ اگرچہ جائز ہے کہ کسی دوسرے کو بھی تبعیت و وراثت کے طور پر اس دولت سے سر فراز کیا جائے۔

فیض روح القدس ار باز مدد فرماید

دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا می کرد

ترجمہ:

وحی کا فیض اگر پھر سے میسر آجائے

دوسرے بھی وہ کریں جو کہ مسیحا نے کیا

میں خیال کرتا ہوں کہ اس دولت نے کبارِ تابعین پر بھی اپنا پَرتَو ڈالا ہے اور اکابر تبع تابعین پر بھی سایہ فگن ہوئی ہے۔ بعد ازاں یہ دولت پوشیدہ ہوگئی حتی کہ آں سرور علیہ وعلی آلہ الصلوات والتسلیمات کی بعثت سے الفِ ثانی (دوسرے ہزار سال) کی باری آگئی اور اس وقت پھر وہ دولت تبعیت و وراثت کے طور پر منصۂ شہود میں آگئی اور آخر (زمانے) کو اول (زمانے) کے مشابہ بنا دیا ہے۔

اگر پادشہ بر درِ پیر زن

بیاید تو اے خواجہ سبلت مکن

ترجمہ:

اگر بادشہ آئے بڑھیا کے گھر

تو اے خواجہ! ہر گز تعجب نہ کر

وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَالْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَعَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسْلِیْمَاتُ أَتَمُّھَا وَأَکْمَلُھَا

اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ و سلم کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا