مکتوب نمبر 294
جامع علومِ ظاہرہ و معارف و اسرارِ باطنہ مخدوم زادہ مَجۡد الدین خواجہ محمد معصوم سلمہ اللّٰہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا۔
ان معارف کے بیان میں جو واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی صفات ثمانیہ (آٹھ صفات) کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں، اور انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے مبادی تعینات اور تمام مخلوقات کے مبادی تعینات کی تحقیق ہیں اور اس بیان میں کہ جزئیات اپنے کلی کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں اور ایک کلی کے جزئیات اس سے منتقل ہو کر دوسری کلی کے ساتھ ملنے کے عدمِ جواز میں۔ اور انبیا و اولیا علیہم الصلوات و التسلیمات کی تجلی اور شہود کے فرق کے بیان میں، نیز انبیاء علیہم الصلوات والتسلیمات کے توسط کے باوجود ان کے کامل تابعداروں کیلئے وصلِ عریاں کے حصول کے بیان میں اور مشائخ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم کی عبارات میں جو محو و اضمحلال کے الفاظ ہیں، اس کی تحقیق کے بارے میں اور اس کے مناسب بیان میں۔
واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی صفاتِ ثمانیہ حقیقیہ (یعنی آٹھ حقیقی صفات) ہیں، جن میں اول شان "صفت الحیات" ہے اور آخری شان "صفتِ تکوین" ہے۔ صفاتِ ثمانیہ کی تین قسمیں ہیں: ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق عالم کے ساتھ غالب ہے اور اس کی اضافت و نسبت مخلوق کے ساتھ زیادہ تر ہے جیسے تکوین۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ سنت و جماعت کے ایک گروہ نے اس کے وجود کا انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ تکوین صفات اضافیہ میں سے ہے۔ اور حق یہی ہے کہ وہ حقیقی صفات میں سے ہے جس میں اضافت غالب ہے۔ اور دوسری قسم وہ ہے جو (عالم کے ساتھ بھی) اضافت رکھتی ہے لیکن پہلی قسم سے کم تر درجہ میں۔ جیسے کہ علم، قدرت، ارادہ، سمع، بصر اور کلام۔ اور تیسری قسم ان دونوں قسموں سے اعلیٰ ہے جس کو عالم کے ساتھ کسی طرح کا بھی تعلق نہیں ہے اور وہ اضافت کی بو تک نہیں رکھتی۔ جیسے حیات۔ یہ صفت تمام صفات کی "اُمْ" (جَڑ) ہے اور سب کی اصل ہے اور سب سے اسبق ہے۔ اور اس صفت کے قریب ترین صفتِ علم ہے جو حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات اتمہا و اکملہا کا مبدأ تعین ہے۔ اور دوسری صفات دوسری مخلوقات کے تعینات کی مبادی ہیں۔ اور چونکہ ہر صفت متعدد تعلقات کے اعتبار سے بہت سی جزئیات رکھتی ہے جیسے تکوین کہ اس سے متعدد تعلقات کے اعتبار سے تخلیق (پیدا کرنا)، ترزیق (رزق دینا)، احیا (زندہ کرنا) اور اماتت (مارنا) کی جزئیات پیدا ہوئی ہیں، یہ جزئیات بھی اپنی کلیات کی طرح مخلوقات کے تعینات کی مبادی ہیں۔ اور جس کا مبدأ تعین کلی ہے وہ دوسرے تعینات (کے اشخاص) جن کے مبادی اس کلی کے جزئیات ہیں وہ اس شخص کے تابع ہوں گے اور اسی کے زیرِ قدم زندگی بسر کریں گے۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ فلاں (شخص) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و سلم) کے زیرِ قدم ہے اور فلاں حضرت عیسیٰؑ کے زیرِ قدم اور فلاں حضرت موسیٰ علیہم الصلوات و التحیات و التسلیمات اتمہا واکملہا کے زیرِ قدم ہے۔ اور چونکہ یہ جزئیات سلوک کے طریقے پر ترقی حاصل کرتی ہیں، اس لئے اپنی کلیات کے ساتھ ملحق ہو جاتی ہیں اور ان جزئیات کا شہود کلیات کا شہود ہی ہو جاتا ہے، البتہ ان میں صرف اصالت اور تبعیت کا فرق رہ جاتا ہے۔ اور امتیاز صرف توسط اور عدم توسط کی بنا پر ہو گا، کیونکہ تابع جو کچھ پاتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے وہ اصل کے توسط کے بغیر ناممکن ہے، ہاں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تابع اپنی کوتاہی کی وجہ سے اصل کو متوسط نہیں جانتا۔ لیکن حقیقت میں اصل، تابع اور اس کے مشہود کے درمیان حائل ہوتا ہے، اور ایسا حائل نہیں ہوتا جو شہود کا مانع ہو بلکہ وہ صاف عینک کے مانند شہود کا باعث ہوتا ہے اور جائز نہیں ہے کہ ایک کلی کی جزئیات ترقی کر کے اپنی کلی سے باہر نکل کر دوسری کلی کے تحت آجائے اور اُن کا مشہود بن کر دوسری کلی کا مشہود بن جائے۔ مثلاً: ایک جماعت جو حضرت موسی علیہ السلام کے زیرِ قدم ہے، منتقل ہو کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زیرِ قدم آجائے (ایسا نہیں ہو سکتا) لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ حضرت محمد علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کے زیرِ قدم آ جائے بلکہ ہمیشہ آپ ﷺ کے زیرِ قدم ہی ہیں۔ کیونکہ حضرت محمد ﷺ کا ربّ، ربُّ الارباب ہے اور ان تمام کلیات کی اصل ہے۔ لہذا اس (ربِّ محمد ﷺ) کی نسبت ان تمام (منتقلہ) جزئیات کے لئے اصل الاصل کی ہو گی، اور یہ ترقی گویا اصل الاصل کی طرف ہو گی نہ کہ اصل کے ساتھ، جو کہ ان کی اصل کے مخالف ہے۔ اور ان کی جزئیات و کلیات کے درمیان فرق اس قدر رہ جائے گا کہ جزئی کے لئے دو حائل درمیان میں ہیں ایک اپنی اصل جو اس کی کُلّی ہے اور دوسری اصل الاصل حائل ہے۔ اور اس کی کُلّی کےلئے حجاب اصل الاصل ہے اور بس۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد رسول ﷺ کا شہود بے پردۂِ تعینات ہے اور دوسروں کا شہود تعینات کے پردے میں ہے یا از کم از کم تعینِ محمدی ﷺ کا پردہ (حائل ہے)۔ اسی وجہ سے کہتے ہیں کہ تجلیٔ ذات حضرت محمد رسول صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ و سلم کا خاصہ ہے اور دوسروں کے لئے تجلی پردۂ صفات میں ہے، یا کم از کم رب الارباب کے پردہ میں ہے جو حضرت محمد ﷺ کا رب ہے اور جو صفت الحیات کے علاوہ تمام اسماء و صفات سے فوق (وراء الورا) ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اس بیان سے لازم آتا ہے کہ تمام انبیاء علیٰ نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات کا شہود مبدأ تعینِ محمدی ﷺ کے پردہ میں ہے جو کہ ان کا رب ہے اور آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی امت کے وہ جو اولیا جو بالاصالت آپ کے زیرِ قدم ہیں ان کا شہود بھی تمام انبیاء کے شہود کے مانند رب الارباب کے پردہ میں ہو گا لہذا تمام انبیا علی نبینا و علیہم الصلوات و التحیات کے درمیان اور آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی امت کے اولیاء کے درمیان کیا فرق ہوا؟
جواب میں ہم کہتے ہیں کہ انبیاء کے لئے اس شہود کے علاوہ جو حقیقتِ محمدی ﷺ کے پردہ میں ہے ایک دوسرا شہود بھی حاصل ہے جو ان کے تعیناتِ مبادی کی راہ سے پیدا ہوتا ہے اور اصالتاً اپنی مخصوص عینکوں کو بصیرت کی آنکھوں پر رکھ کر غیب الغیب کا مشاہدہ کرتے ہیں۔
جاننا چاہئے کہ یہ دو شہود اس معنی میں نہیں ہیں کہ ہر دو بیک وقت متحقق ہوتے ہیں بلکہ اس معنی میں ہیں کہ (سالک) اگر ترقی کر کے اصل الاصل تک پہنچ جائے تو اس کا شہود حقیقتِ محمدی کے پردہ میں ہے جس طرح حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کہ وہ نزول کے بعد اس دولت سے مشرف ہوں گے۔ اور یہ ترقی بہت دشور ہے اور تقریباً ناممکن الحصول ہے۔ اس کے حصول کے لئے خداوند جل سلطانہٗ کا فضلِ عظیم درکار ہے اور عالمِ اسباب میں محمدی المشرب شیخ کی مہربانی کی ضرورت ہے۔ اور اگر کسی نے اپنی اصل سے ترقی نہ کی اور اپنی حقیقت سے حقیقت الحقائق تک نہ پہنچا تو اس کا شہود اس کی اپنی حقیقتِ مخصوصہ کے پردے میں ہے۔
(اے فرزند!) جان اور آگاہ ہو! جس طرح حقیقت الحقائق سے حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف ایک راستہ ہے جو بہت سے منازل طے کرنے کے بعد اس تک وصول میسر ہوتا ہے اسی طرح تمام حقائق کلیات سے بھی حضرت حق تعالیٰ و تقدس تک ایک راہ ہے جس میں بہت سے مراحل طے کرنے کے بعد وصول حاصل ہوتا ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ حقیقت الحقائق کی راہ میں وصلِ عریاں ہے، اگرچہ دوسرے طریقوں سے بھی وصلِ ذات حاصل ہو جاتا ہے لیکن اصولِ عالیہ کے منتہا کا ایک باریک پیراہن یعنی حقیقتِ محمدی ﷺ درمیان میں حائل ہے اگرچہ وہ حجاب استوار نہیں ہے اور مانع و مضبوط بھی نہیں ہے بلکہ صرف اسی قدر مانع حجاب ہے کہ تجلیٔ ذات کے اطلاق کا مانع ہے ورنہ عام انبیا کے لئے بھی بالاصالت ذات عالیٰ سے حصہ نصیب ہے۔ اور ان کی امت کے کاملین کو ان بزرگوں (انبیاء) علیہم و علی اممہم الصلوات و التحیات کی پیروی کے باعث حصہ حاصل ہوتا ہے۔
سوال: جبکہ صفت الحیات، صفت العلم سے بالاتر ہے لہذا حقیقت الحقائق کی راہ میں بھی صفت الحیات کا تعین حائل ہو گیا پھر وصلِ عریاں کس طرح حاصل ہو گا اور اس کو تجلیٔ ذات کیوں کہتے ہیں؟
جواب: وہ تعین لا تعین کے مانند ہے، کیونکہ فوق کے مراتب میں وہ تعین (تعین صفات الحیات) نابود و لاشے ہو جاتا ہے اور حضرت ذات تعالیٰ کے مرتبہ میں اس کا کوئی اعتبار نہیں رہتا۔ اگرچہ دوسری صفات کے لئے بھی حضرت ذات تعالیٰ کے مرتبہ میں کچھ اعتبار نہیں ہے لیکن وہ مرتبۂ ذات تک اس طرح نہیں پہنچتیں کہ (راستے میں) معدوم ہو جائیں۔ بخلاف صفت الحیات کے کہ جو وہاں تک پہنچ کر لاشے ہو جاتی ہے لہذا حقیقتِ محمدی ﷺ کا تعین اور دوسری تمام خلائق کے تعینات دائمی ہوئے اور مراتب کے کسی مرتبہ میں بھی زوال محال ہے۔ ہاں کسی چیز تک پہنچنا اور بات ہے۔ اور اس شے میں فانی ہونا امرِ دیگر ہے۔ اور بعض مشائخ قدس اللّٰہ تعالیٰ ارواحہم کی عبارت میں جو لفظ "محو و اضمحلال" استعمال ہوتا ہے اس سے مراد محوِ نظری ہے نہ کہ محوِ عینی (یعنی حقیقی اور ذاتی نہیں) یعنی سالک کا تعین (اپنا وجود شخصی) اس کی نظر سے مرتفع (زائل) ہو جاتا ہے نہ یہ کہ نفس الامر (فی الواقع) محو ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ الحاق و زندقہ ہے۔ اس راستہ کے ناقصوں کی ایک جماعت ان وہم میں ڈالنے والے الفاظ سے محو و اضمحلالِ عینی خیال کر کے زندقہ تک پہنچ گئے ہیں اور آخرت کے عذاب و ثواب کا انکار کر دیا ہے اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ جس طرح (آغاز میں) وحدت سے کثرت میں آئے ہیں اسی طرح دوسری مرتبہ (انجام کار) کثرت سے وحدت میں چلے جائیں گے اور یہ کثرت اس وحدت میں مضمحل (نابود) ہو جائے گی۔ اور ان زندیقوں میں سے ایک جماعت نے اس محو ہونے کو قیامتِ کبریٰ خیال کیا ہے۔ اور حشر و نشر، حساب اور صراط و میزان سے انکار کیا ہے۔ ضَلُّوۡا فَأَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا مِّنَ النَّاسِ (یہ لوگ خود بھی گمراہ ہوئے اور بہت سے لوگوں کو بھی گمراہ کیا)
(اس فقیر نے) اس جماعت کے ایک شخص کو دیکھا کہ اپنے مطلب کی وضاحت میں مولانا عبد الرحمن جامی قدس اللّٰہ سرہٗ کے اس شعر کو بطور شہادت پیش کرتا تھا
جامی معاد و مبدأ ما وحدت است و بس
ما درمیانہ کثرت موہوم و السلام
(وحدت نہیں ہے جامی مگر مبدا و معاد
کثرت میں ہم ہیں اور نہیں کچھ ہے و السلام)
یہ (ناقص) لوگ نہیں جانتے کہ مولانا کی اس بیت سے مراد وحدت کی طرف عود و رجوع کرنا نظر و شہود کے اعتبار سے ہے کیونکہ اس ذات کے علاوہ ان کا کچھ مشہود نہیں ہے اور تمام کی تمام کثرتیں ان کی نظر سے پوشیدہ ہوگئیں لہذا اس (بیت) سے رجوعِ عینی و وجودی مراد نہیں ہے۔ یہ لوگ شاید اندھے ہیں اور دیکھتے نہیں کہ جب کسی کامل سے عَجز و نقص اور احتیاج زائل نہیں ہوئے تو پھر وحدت کی طرف رجوعِ وجودی کے کیا معنی ہوئے؟ اور اگر وحدت کی طرف رجوع کرنا موت کے بعد خیال کیا ہے تو کافر زندیق ہیں کہ عذابِ آخرت سے انکار کرتے ہیں اور انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات اتمہا واکملہا کی دعوت کو باطل سمجھتے ہیں۔
سوال: (از مکتوب الیہ) آپ نے اپنے بعض رسالوں میں لکھا ہے کہ "لطیفۂ فنائے اخفیٰ ولایتِ محمدی ﷺ کے ساتھ مخصوص ہے" اس کلام کے کیا معنی ہیں؟
جواب: گزشتہ تحقیق سے یہ معلوم ہو گیا کہ "وصلِ عریاں "صرف ولایتِ محمدی ﷺ" کے ساتھ مخصوص ہے اور دوسروں کے لئے بھی اگرچہ حجابات اٹھ جاتے ہیں لیکن پھر بھی ایک حیلولہ (پردہ) پیراہنِ شعر (بال سے باریک کپڑے) کی مانند جو حقیقتِ محمدی ﷺ کے توسط کی راہ سے ہوتا ہے درمیان میں حائل رہنے سے چارہ نہیں ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا۔
لہذا (لطیفۂ) اخفیٰ سے جو کہ انسانی مراتب کی انتہا ہے بلندی میں اس حیلولہ کے اندازے کے مطابق باقی رہتی ہے، پس اس باقی ماندہ کے لحاظ سے فنائے مطلق کا اطلاق جائز نہیں ہوگا۔ اور اس بقیہ کی بقا کو محمدی ﷺ (مشرب) کے علاوہ کوئی اور معلوم نہیں کر سکتا۔ اگر ہزاروں محمدی المشرب میں سے کسی ایک کو بھی یہ تیزیٔ نظر حاصل ہو جائے تو بسا غنیمت ہے۔ مختلف طبقات کے مشائخ میں سے اکثر حضرات نے صرف روح اور سِرّ کے متعلق گفتگو کی ہے لیکن ایسے بہت ہی کم ہیں جنہوں نے خفی کے راز کو بیان کیا ہو تو پھر وہ اخفیٰ کی کیفیت کس طرح بیان کر سکتے ہیں۔ اور جس شخص نے دریائے اخفیٰ میں غوطہ لگایا ہو اور اس کے ذرات میں سے ہر ذرے تک پہنچ کر اس کی حقیقت پر اطلاع پا چکا ہو وہ کبریتِ احمر کی مانند ہے۔ ﴿ذٰلِكَ فَضْلُ اللّٰهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِـيْمِ﴾ (جمعہ: 4) (یہ اللّٰہ تعالیٰ کا فضل ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے)۔
سوال: آپ اس پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ جو کچھ نبی علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کو کمالات حاصل ہوئے ہیں تو آپ ﷺ کے کامل تابعداروں کو بھی (آپ ﷺ کی) پیروی کی بدولت ان کمالات سے حصہ حاصل ہے۔ لہذا لازم ہو گا کہ وصلِ عریاں میں بھی ان کو حصہ حاصل ہو۔ حالانکہ وہی (حیلولۂ) نبی درمیان میں حائل ہے؟
جواب: وصلِ عریاں میں "حیلولۂ نبی" کوئی ضرر نہیں رکھتا کیونکہ وہ وصل تابعداری کی بنیاد پر ہے نہ کہ اصالت کے طور پر، لہذا حیلولۂ نبی تبعیت (اتباع کے مفہوم) کی مزید تاکید کرنا ہے نہ کہ اس کے منافی، کیونکہ تبعیت کے معنی متوسط کا حاصل ہونا ہے نہ کہ اس توسط کا رفع ہونا کہ وہ اصالت کے مقام کے مناسب ہے، لہذا وہ حیلولہ یعنی توسط بھی ہوگا اور وصلِ عریاں بھی جو کہ تبعیت کے طور پر میسر ہوتا ہے۔ پس خوب سمجھ لیں۔
سوال: کیا سبب ہے کہ ہمارے نبی علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل تابعداروں کے حق میں تو وصلِ عریاں اور تجلیٔ ذات کا اطلاق کرتے ہیں اور دوسرے انبیاء صلوات اللّٰہ تعالیٰ و تسلیماتہ علیٰ نبینا و علیہم کے لئے اس اطلاق کو تجویز نہیں کرتے حالانکہ ہمارے نبی علیہ الصلوۃ و السلام کا حیلولہ (توسط) دونوں کے حق میں ثابت ہے۔
جواب: اس اطلاق کی تجویز مکمل طور پر پیروی کرنے والوں کے حق میں تبعیت (تابعداری) کے اعتبار سے ہے کہ اس کا اطلاق نبی کے توسط کے منافی نہیں ہے، جیسا کہ پہلے گزر چکا ہے۔ اور دوسرے انبیا علیٰ نبینا و علیہم الصلوات و التحیات کے حق میں اگر اس اطلاق کو تجویز کیا جائے تو وہ اصالت کے اعتبار سے ہو گا کیونکہ یہ بزرگوار اصالت کے طور پر قطع منازل کر کے حضرت ذات تعالیٰ و تقدس تک پہنچے ہیں۔ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ اصالت کی صورت میں توسط کا حصول اس اطلاق کے منافی ہو گا، لہذا فرق واضح ہو گیا۔
جاننا چاہئے کہ گزشتہ انبیائے کرام علی نبینا و علیہم و علی اممہم الصلوۃ و السلام و التحیہ اور اس امت کے کامل تابعداروں کے درمیان اصالت اور تبیعت کا فرق انبیاء علیٰ نبینا و علیہم الصلوات و التحیات کی افضلیت کے سبب سے ہے، کیونکہ اصل ایک مقصد ہوتا ہے اور تابع اس کے طفیلی ہوتے ہیں۔ اگرچہ پیروی کرنے والوں پر وصلِ عریاں اور تجلیٔ ذات کا اطلاق صحیح ہے اور متبوعان میں یہ اطلاق درست نہیں ہے، کیونکہ طفیلی کی کیا حقیقت ہے کہ وہ مقصود کے ساتھ برابری کرے۔ اور (طفیلی) کو یہ برابری کیسے میسر آ سکتی ہے کیونکہ وہ (قرب کی) دولت اتم و اکمل طریقہ پر اصل کے لئے ہے اور تابع میں اسم و رسم کے طور پر۔ لیکن اس قدر مناسبت بھی تشبیہ کی تصحیح کرتی ہے اور تابع کو متبوع کی مانند بنا دیتی ہے۔ لہذا خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات نے اپنی امت کے علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء کی مانند فرمایا ہے۔
لہذا اس بیان سے یہ بات لازم آتی ہے کہ اس امت کے اولیاء کے لئے تجلیٔ ذات کا حاصل ہونا ان انبیاء پر جن کو تجلی ذات حاصل نہیں فضیلت کا باعث نہیں ہے۔ اس بات پر غور کرنا چاہئے، کیونکہ یہ مقامِ لغزش ہے اور انصاف سے کام لینا چاہئے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے حبیب حضرت محمد علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کے طفیل ان علوم کے ساتھ اس ضعیف بندے کو ممتاز فرمایا ہے۔
سوال: یہ بات طے شدہ ہے کہ آفرینش (کائنات کی پیدائش) سے مقصود خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات ہیں اور دوسرے سب نفسِ وجود اور حصولِ کمالات میں آپ کے طفیلی ہیں اور آپ ﷺ کی پیروی کی وجہ سے بلند درجات پر پہنچے ہیں، لہذا قیامت کے دن حضرت آدمؑ اور دوسرے تمام (پیغمبران) آپ علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔ اور آپ (یعنی حضرت مجددؒ) کہتے ہیں کہ تمام انبیاء علیٰ نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات کو وصول کی دولت بطریقِ اصالت ہے نہ کہ بطریقِ تبعیت اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب: جس طرح حضرت محمد رسول اللّٰہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ و سلم کے لئے اپنی حقیقت کی جہت سے حضرت حق تعالیٰ و تقدس کی طرف ایک راہ ہے، اسی طرح دوسرے انبیا علی نبینا و علیہم الصلوات و التسلیمات کے لئے بھی اپنی حقیقتوں کی جہت سے حضرت حق تعالیٰ شانہٗ تک راستے ہیں (اس لئے) اس وصول میں تابع ہونے کا معنی ملحوظ نہیں ہے بخلاف امتیوں کے جو انبیاء کی پیروی کی وجہ سے ان کے حقائق کی راہ سے اپنی اپنی استعدد کے مطابق اپنے مطلب تک پہنچتے ہیں ان کے حق میں اصالت مفقود ہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ چونکہ دوسروں کا وصل اگرچہ بالاصالت ہو وصلِ عریانی نہیں ہے اس لئے حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی حقیقت مطلوب کا پیراہنِ شعر (باریک پردہ کی مانند) حائل ہے، لہذا لازمی طور پر جو فیض بھی پہنچتا ہے وہ آپ ﷺ کی حقیقت کے ساتھ اتصال پاتا ہے۔ اس کے بعد آپ ﷺ کے توسط سے دوسروں تک پہنچتا ہے۔ اور تبعیت کے معنی یہی حصولِ توسط ہے، لہذا وہ اصالت اس تبعیت کے خلاف نہیں ہے۔ اور اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ وہ تبعیت (پیروی) جو امتوں کے حق میں کہی گئی ہے وہ اس تبعیت سے وراء ہے جو اصالت کے منافی ہے جیسا کہ پہلے کئی بار بیان کیا جاچکا ہے۔ پس دونوں کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔
(سوال): اگر یہ کہا جائے کہ عروج کے مراتب میں صفت الحیات سے بھی کاملین کو حصہ ملتا ہے یا نہیں؟ تو میں کہتا ہوں کہ ہاں ملتا ہے۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ اوپر بیان ہو چکا ہے کہ جب یہ صفت (صفت الحیات) اپنی انتہا کو پہنچ کر حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے حضور میں نابود و لاشے ہو جاتی ہے تو مقام محو و لاشے سے کاملین کو کیا نصیب ہو گا؟ اور حالانکہ آپ نے اوپر بیان کیا ہے کہ تعنیاتِ حقائق کے لئے اضمحلالِ عینی نہیں ہے اور اگر ہے تو وہ نظری ہے کیونکہ اضمحلالِ عینی الحاد و زندقہ تک پہنچا دیتا ہے۔
جواب: اضمحلالِ عینی کی کیا ضرورت ہے، اضمحلالِ نظری ہی کافی ہے اگرچہ اس اضمحلال میں بہت سے مراتب متفاوت ہیں، پس سمجھ لیں۔ وَاللّٰہُ سُبۡحَانَہٗ اَعۡلَمُ بِحَقِیۡقَۃِ الۡحَالِ وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الۡھُدٰی وَالۡتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الۡمُصۡطَفٰی عَلَیۡہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَالتَّسۡلِیۡمَاتُ اَتَمُّھَا وَاَکۡمَلُھَا (حقیقتِ حال اللّٰہ سبحانہٗ ہی جانتا ہے۔ اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علی آلہ الصلوات والتسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا)