مکتوب نمبر295
حاجی یوسف کشمیری کی طرف صادر فرمایا۔
نظر بر قدم، ہوش در دم، سفر در وطن اور خلوت در انجمن کے بیان میں جو کہ مشائخِ طریقۂ عالیہ نقشبندیہ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم کے مقررہ اصول ہیں۔
جاننا چاہئے کہ مشائخِ طریقۂ نقشبندیہ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم کے مقررہ اصولوں میں سے ایک اصول "نظر بر قدم" ہے۔ نظر بر قدم سے یہ مراد نہیں کہ نظر قدم سے تجاوز نہ کرے اور قدم سے آگے نہ بڑھائے کیونکہ یہ چیز خلافِ واقع ہے، بلکہ (مراد یہ ہے کہ) نظر ہمیشہ قدم سے آگے رہے اور قدم کو اپنے پیچھے رکھے کیونکہ بلند زینوں پر جانے کے لئے پہلے نظر چڑھتی ہے اس کے بعد قدم آگے بڑھتا ہے اور جب قدم نظر کے مرتبہ پر پہنچ گیا تو نظر بھی زینے کے اگلے حصے پر پہنچ جاتی ہے اور قدم اس کی پیروی میں اوپر چلا جاتا ہے اس کے بعد نظر اس مقام سے آگے ترقی کرتی ہے، علیٰ ہذا القیاس۔ اور اگر مراد یہ ہے کہ نظر اس مقام تک ترقی کرے جہاں پر قدم کی گنجائش نہ ہو تو یہ بھی خلافِ واقع ہے، کیونکہ قدم کے تمام ہونے کے بعد اگر نظر تنہا نہ ہو تو بہت سے کمال کے مراتب فوت ہو جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ قدم کی انتہا سالک کی استعداد کے مراتب کی انتہا ہے بلکہ اس نبی کی استعداد کی انتہا تک ہے جس کے قدم پر وہ سالک ہے، لیکن قدمِ اول اصالت کے ساتھ ہے اور قدمِ ثانی اس نبی کی پیروی میں ہے اور ان دو استعدادوں کے مرتبوں سے اوپر اس کا قدم نہیں جا سکتا البتہ نظر جاسکتی ہے۔ اور یہ نظر جب حدت (تیزی) حاصل کر لیتی ہے تو اس کی انتہا اس نبی علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی نظر کے مرتبوں کی انتہا ہو جاتی ہے جس کے قدم پر وہ سالک ہے کیونکہ نبی کی کامل پیروی کرنے والوں کو بھی اس کے جملہ کمالات سے حصہ حاصل ہوتا ہے لیکن مراتبِ استعداد کی انتہا تک جو کہ سالک کی اصالت و تبعیت پر منحصر ہے قدم اور نظر موافقت رکھتے ہیں اس کے بعد قدم کوتاہی اور نظر تنہا صعود کرتی ہے اور اس نبی کی نظر کے مراتب کی انتہا تک ترقی کر لیتی ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی نظر بھی ان کے قدموں سے آگے صعود کرتی ہے اور ان بزرگوں یعنی انبیاء کی کامل تابعداری کرنے والوں کو بھی ان کی نظروں کے مقامات سے حصہ حاصل ہوتا ہے جیسا کہ ان کے قدموں کے مقامات سے ان کو حصہ ملتا ہے۔ اور خاتم الانبیا علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کے قدمِ مبارک کے اوپر مقامِ رویت سے جس کا وعدہ دوسروں کے لئے آخرت میں ہے۔ اور جو کچھ دوسروں کے لئے ادھار ہے وہ آپ ﷺ کے لئے نقد ہے اور آپﷺ کی کامل تابعداری کرنے والوں کو بھی اس مقام سے حصہ حاصل ہے، اگرچہ رویت نہیں ہے۔
فریادِ حافظ ایں ہمہ آخر بہرزہ نیست
ہم قصۂ غریب وحدیثِ عجیب ہست
(نہیں بکواس یہ حافظ کی فریاد
وہ البتہ عجیب احوال کی ہے)
اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر "نظر بر قدم" سے مراد یہ ہو کہ قدم کو چاہئے کہ نظر سے پیچھے نہ رہے اس طرح پر کہ کسی وقت میں بھی قدم مقامِ نظر تک نہ پہنچے تو یہ درست ہے، کیونکہ یہ معنی ترقی کو روکتے ہیں۔ اور اسی طرح اگر قدم اور نظر سے ظاہری قدم و نظر مراد لی جائے تو بھی گنجائش ہے کیونکہ راستہ چلتے وقت نظر پراگندگی پیدا کرتی ہے اور مختلف چیزوں کے دیکھنے کی وجہ سے انتشار پیدا ہوتا ہے اور اگر نظر کو قدم پر جما لیا جائے تو جمعیت (اطمینان) کے لئے بہت اقرب ہے اور یہ مراد دوسرے کلمہ کے معنی کے قریب ہے، اور وہ کلمہ "ہوش در دم" ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ پہلا کلمہ پراگندگی کو دور کرنے کے لئے ہے جو آفاق (بیرونی حالات) سے پیدا ہوتی ہے اور کلمۂ ثانی انفس (اندرون) کی پراگندگی کو دور کرنے کے لئے ہے۔ اور تیسرا کلمہ جو دونوں کلموں کے قریب ہے وہ کلمہ "سفر در وطن" ہے اور اس سے مراد انفس کی سیر ہے کہ اس کا منشا حصول "اندراج النہایت فی البدایت" ہے (یعنی ابتدا میں انتہا کا حاصل ہونا) جو اس طریقۂ عالیہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اگرچہ "سیر انفسی" تمام طریقوں میں ہے لیکن "سیر آفاقی" حاصل ہونے کے بعد ہے اور اس طریقے میں ابتدا ہی اس سیر سے ہوتی ہے اور سیرِ آفاقی اس سیر کے ضمن میں مندرج ہے۔ اس اعتبار سے اس طریقۂ عالیہ کو "اندراج البدایۃ فی النہایۃ" کہنے کی گنجائش رکھتا ہے۔ اور کلمۂ چہارم جو ان تینوں کلموں کے ساتھ ہے وہ کلمہ "خلوت در انجمن" ہے۔ جب "سفر در وطن" میسر ہو جائے تو انجمن (لوگوں میں رہتے ہوئے) میں بھی خلوت خانۂ وطن میں سفر جاری رہتا ہے اور آفاق کی پرگندگی انفس کے حجرے میں داخل ہونے نہیں پاتی۔ یہ بھی اس وقت ہے جب کہ حجرۂ (نفس) کے دروازے اور سوراخوں کو بند کیا ہوا ہو۔ لہذا انجمن میں متکلم اور مخاطب کا تفرقہ نہ ہونا چاہئے اور کسی کی طرف بھی متوجہ نہ ہوں۔ اور یہ تمام حیلے اور تکلفات ابتدائے سیر اور اس کے وسط میں اختیار کرنے پڑتے ہیں لیکن سیر کی انتہا میں ان کا کوئی کام نہیں ہے، عین تفرقہ میں بھی جمعیت حاصل ہوتی ہے اور عین غفلت میں حاضر (یعنی حضوری حاصل رہتی ہے)۔ اس جگہ کوئی شخص یہ گمان نہ کر لے کہ منتہی کے حق میں تفرقہ اور عدم تفرقہ مطلقاً برابر ہے، ایسا نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ تفرقہ اور عدم تفرقہ اس کی باطن کی جمعیت کے لئے برابر ہے۔ اس کے باوجود اگر ظاہر کو باطن کے ساتھ جمع کر لے اور تفرقہ کو ظاہر سے دفع کر دے تو یہ اولیٰ و انسب ہوگا۔ اللّٰہ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنے نبی علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام سے فرماتا ہے: ﴿وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ إِلَيْهِ تَبْتِيۡلًا﴾ (مزمل: 73، آیت: 8) (اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے قطع تعلق کر کے اسی کی طرف متوجہ رہو)۔
جاننا چاہئے کہ بعض اوقات ظاہری تفرقہ کے بغیر چارہ نہیں ہوتا کیونکہ مخلوق کے حقوق بھی ادا کرنے پڑتے ہیں لہذا ظاہری تفرقہ بھی بعض اوقات مستحسن ہوتا ہے لیکن باطنی تفرقہ اوقات میں سے کسی وقت بھی مستحسن نہیں ہے کیونکہ وہ (باطن) خالص حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے لئے ہے لہذا بندوں کے (اوقات کے) تین حصے حق جل شانہٗ کے لئے مسلم ہیں، باطن کُل کا کُل، اور ظاہر کا نصف حصہ اور ظاہر کا دوسرا نصف حصہ مخلوق کے حقوق کی ادائیگی کے لئے ہے۔ اور ان حقوق کی ادائیگی چونکہ حق سبحانہٗ کے احکام کی فرمانبرداری میں ہے لہذا وہ نصف حصہ بھی حق تعالیٰ و تقدس کی طرف راجع ہو گیا۔ ﴿وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُ كُلُّهُ فَاعْبُدْهُ﴾ (ہود: 11، آیت: 123) (تمام کام اسی کی طرف رجوع کرتے ہیں پس تم اسی کی عبادت کرو)
والسلام