دفتر اول مکتوب 293
شیخ محمد چتری1 کی طرف صادر فرمایا۔ ان کے سوالات کے جواب میں جو کہ انہوں نے دریافت کئے تھے۔(سوال نمبر: 1) "لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ"2 حدیثِ نبوی علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام میں آیا ہے۔ اور ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے بھی اسی طرح کہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ اور (سوال نمبر: 2) دریافت کیا تھا "قَدَمِیْ ھَذِہِ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہِ" حضرت شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے اور دوسروں نے بھی ایسا ہی کہا ہے۔ اس معاملے کی حقیقت کیا ہے؟ اور (سوال نمبر: 3) دریافت کیا تھا کہ جن اولیاء کی گردن پر آپ کا قدم ہے ان سے مراد کے ہم عصر اولیاء ہیں یا مطلقًا تمام اولیاء مراد ہیں؟
اَلْحَمْدُ للّٰہ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (اللّٰہ تعالیٰ کی حمد ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو) صحیفہ گرامی جو آپ نے ارسال کیا تھا موصول ہونے پر مسرت و خوشی کا باعث ہوا۔ یہ کتنی بڑی نعمت ہے کہ حق جل و علا کے دوست دور افتادوں کو بھی یاد فرمائیں۔
(آپ کے گرامی نامہ میں) تحریر تھا کہ حضرت رسالت پناہ علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے فرمایا ہے: "لِیْ مَعَ اللّٰہِ وَقْتٌ" ترجمہ: ”میرے لئے اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ ایک وقت ہے“ اور حضرت ابو ذر غفاری3 رضی اللہ عنہ نے بھی ایسا ہی کہا ہے، اور حضرت میران محیی الدین (شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ) نے فرمایا ہے کہ "میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے"۔ اور دوسروں نے بھی ایسا ہی کہا ہے"۔ اکثر اوقات ان دونوں جملوں پر بہت شور و غوغا ہوتا ہے۔ مہربانی فرما کر ان دونوں باتوں کی حقیقت حال سے آگاہ فرمائیں کہ ان دونوں کے درمیان کیا فرق ہے؟ اور پوری توجہ فرما کر وضاحت سے تحریر فرمائیں تاکہ اس غریب کے فہم میں آجائے۔
میرے مخدوم! اس فقیر نے اپنے رسائل میں لکھا ہے کہ آں سرور علیہ الصلوۃ واسلام کو با وجود استمرار وقت (دائمی حضوری) ایک نادر وقت بھی حاصل تھا اور وہ وقت ادائے نماز کے دوران میسر آتا تھا: "اَلصَّلوۃُ مِعْرَاجُ المَوْمِنِ" ترجمہ: ”نماز مومن کے لئے معراج ہے“ آپ نے سنا ہوا گا اور "أَرِحْنِیْ یَا بِلَالُ" ترجمہ:”اے بلال مجھے راحت پہنچا“۔ اس مطلب کے ثبوت کے لئے شاہدِ عدل ہے۔ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی وراثت اور تبعیت کی بنا پر اس دولت سے مشرف ہوئے تھے کیونکہ آں سرور علیہم الصلوات و التسلیمات کے کامل تابع داروں کے لئے بھی آپ کے تمام کمالات سے وراثت اور تبعیت کے طور پر بہت بڑا حصہ اور حظِ کامل حاصل ہے۔
اور جو کچھ کہ حضرت شیخ عبد القادر قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ "قَدَمِیْ ھَذِہِ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہِ" (میرا قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے)۔ صاحب عوارف4 جو مرید اور شیخ ابو نجیب سہروردی کے پروردہ ہیں اور حضرت شیخ عبد القادر کے مصاحبوں اور راز داروں میں سے ہیں، نے اس کلمے کو ان کلموں میں سے بتایا ہے جو عجب اور خود بینی پر مشتمل ہیں، اور جو مشائخ سے احوال کی ابتدا میں سکر کے باقی ماندہ اثرات کی وجہ سے صادر ہوئے ہیں۔ "نفحات" میں شیخ حماد دباس5 نے جو حضرت شیخ (عبد القادر جیلانی) کے شیوخ میں سے ہیں نقل کیا ہے کہ انہوں نے فراست کے طور پر یہ فرمایا تھا کہ اس عجمی (شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ) کا ایسا مبارک قدم ہے کہ اس وقت کے تمام اولیاء کی گردن پر ہو گا اور وہ (اس بات کے کہنے پر) مامور ہو گا کہ "قَدَمِیْ ھَذِہِ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہِ" اور جس وقت وہ یہ کہیں گے تو یقینًا تمام اولیاء اپنی گردنیں جھکا دیں گے۔ بہر حال حضرت شیخ اس بات (کے اظہار) میں حق بجانب ہیں، اس کلام کو خواہ انہوں نے بقیۂ سکر کی حالت میں کہا ہو، یا خواہ وہ اس کلام کے اظہار پر مامور ہوں، بہر صورت ان کا قدم اس وقت کے تمام اولیاء کی گردنوں پر ہوا ہے۔ اور اس وقت کے تمام اولیاء ان کے زیر قدم ہوئے ہیں۔ لیکن جاننا چاہیے کہ یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے لئے ہی مخصوص تھا، ان سے پہلے کے اولیاء اور بعد کے آنے والے اولیاء اس حکم سے خارج ہیں جیسا کہ شیخ حماد کے کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ ان کا قدم ان کے اپنے وقت میں تمام اولیاء کی گردن پر ہو گا۔
نیز ایک غوث جو اس وقت بغداد میں تھے، حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اور ابن سقا عبد اللّٰہ ان کی زیارت کے لئے گئے تھے تو غوث نے اپنی فراست کی بنا پر شیخ رحمۃ اللہ علیہ کے حق میں فرمایا تھا کہ میں دیکھتا ہوں تو بغداد میں منبر پر بیٹھا ہوا کہ رہا ہے "قَدَمِیْ ھَذِہِ عَلٰی رَقَبَۃِ کُلِّ وَلِیِّ اللّٰہِ" اور میں دیکھتا ہوں کہ تمام اولیاء نے تیرے اجلال و اکرام کی وجہ سے اپنی گردنوں کو جھکا لیا ہے۔ اس بزرگ (غوث) کے کلام سے بھی یہی مفہوم ہوتا ہے کہ یہ حکم اس وقت کے اولیاء کے ساتھ ہی مخصوص تھا۔ اگر حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اس وقت بھی کسی کو چشم بینا عطا فرمائے تو وہ بھی دیکھ سکتا ہے جیسا کہ اس غوث نے دیکھا تھا کہ اس وقت کے اولیاء کی گردنیں ان کے قدم کے نیچے ہیں، اور یہ حکم اس وقت کے اولیاء سے تجاوز کر کے کسی اور وقت کے اولیاء تک نہیں پہنچا۔ کیونکہ اولیائے متقدمین کے بارے میں یہ حکم کس طرح جائز ہو سکتا ہے کہ جن میں اصحاب کرام رضی اللہ عنہم بھی شامل ہیں جو یقینًا حضرت شیخ (عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ) سے افضل ہیں اور متاخرین میں بھی یہ حکم کیسے ہو سکتا ہے کہ ان میں حضرت مہدی رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں جن کی تشریف آوری کی بشارت آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے دی ہے اور امت کو آپ کے وجود کی خوش خبری دی ہے اور ان کو خلیفۃ اللّٰہ فرمایا ہے۔ اسی طرح اولو العزم پیغمبر حضرت عیسیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اصحاب جو کہ سابقین میں سے ہیں، اور اس شریعت کی متابعت کی وجہ سے حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلوۃ و السلام کے اصحاب سے ملحق ہیں۔ متاخرین کی اسی بزرگی کے باعث ممکن ہے کہ آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے یہ فرمایا ہو: "لَا یُدْرٰی أَوَّلُھُمْ خَیْرٌ أَمْ آخِرُھُمْ" (سنن ترمذی) ترجمہ: ”نہیں معلوم کہ (اس امت کے) اول لوگ بہتر ہیں یا آخر کے“۔ مختصر یہ کہ حضرت شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ ولایت میں بہت بڑی شان اور بلند درجہ رکھتے ہیں، اور (آپ رحمۃ اللہ علیہ نے) ولایتِ خاصہ محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیۃ کو لطیفہ سر کی راہ سے آخری نقطے تک پہنچایا ہے اور اس دائرہ کے سرِ حلقہ ہوئے ہیں۔
اس بیان سے کوئی شخص یہ وہم نہ کر لے کہ چونکہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ ولایت محمدیہ کے سرِ حلقہ ہیں اس لئے وہ تمام اولیاء سے افضل ہیں، کیونکہ ولایتِ محمدی علیٰ نبینا و علیہم الصلوات و التحیات تمام ولایتوں سے بلند ہے، کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ ولایتِ محمدیہ کے سرِ حلقہ ہیں جو لطیفۂ سر کی راہ سے حاصل ہوتی ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے نہ کہ مطلق اس ولایت کے سرِ حلقہ ہیں جس سے ان کی (تمام اولیاء پر) فضیلت لازم آئے۔ یا ہم یہ کہتے ہیں کہ مطلق ولایتِ محمدیہ کے سرِ حلقہ ہونے سے ان کی افضلیت لازم نہیں آتی کیونکہ ہو سکتا ہے کہ کوئی دوسرا بھی کمالات نبوت محمدیہ میں تبعیت اور وراثت کے طریق پر پیش قدمی حاصل کئے ہوئے ہو، اور ان کمالات کی وجہ سے افضلیت اس کے لئے ثابت ہو۔
حضرت شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ کے مریدوں کی ایک جماعت شیخ کے حق میں بہت زیادہ غلو کرتی ہے اور محبت کی وجہ سے افراط کی طرف چلے جاتے ہیں جیسا کہ حضرت امیر (علی) کرم اللّٰہ تعالیٰ وجہہ کے محبان ان کی محبت میں افراط کرتے ہیں۔ اس جماعت کی گفتگو اور کلام سے مفہوم ہوتا ہے کہ وہ حضرت شیخ کو پہلے اور ان کے بعد کے تمام اولیاء سے افضل جانتے ہیں، اور انبیا علیہم الصلوات و التسلیمات کے علاوہ معلوم نہیں کہ کسی دوسرے کو حضرت شیخ پر فضیلت دیتے ہیں، یہ حد سے زیادہ محبت کی وجہ ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ خوارق و کرامات جس قدر شیخ رحمۃ اللہ علیہ سے وجود میں آئے ہیں کسی دوسرے ولی سے ظہور میں نہیں آئے اس لئے فضیلت انہی کے لئے ہوئی۔ لہذا ہم یہ کہتے ہیں کہ خوارق کے ظہور کی کثرت افضلیت کی دلیل نہیں ہے، ہو سکتا ہے کہ کسی ولی سے کوئی خوارق ظہور میں نہ آئے لیکن وہ اس ولی سے افضل ہو جس سے خوارق و کرامات بکثرت ظاہر ہوئے ہیں۔
شیخ الشیوخ (شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ) عوارف میں مشائخ کے خوارق و کرامات کے ذکر کے بعد فرماتے ہیں کہ "یہ سب (خوارق و کرامت) اللّٰہ تعالیٰ کی بخشش و عطا ہے جو بعض لوگوں پر (بطور مکاشفہ) ظاہر کرتا ہے اور ان کو عطا فرماتا ہے اور ان کے ساتھ عزت بڑھاتا ہے، اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں کہ جو مرتبے میں ان سے بڑھ کر ہیں لیکن ان کو (خوارق و کرامات) سے کچھ بھی حاصل نہیں، کیونکہ کرامات یقین کی تقویت کا باعث ہیں اور جس کو صرف یقین عطا کیا گیا ہو اس کو ذکر قلبی اور ذکر ذات کے علاوہ ان کرامات کی کچھ حاجت نہیں6"۔ خوارق کے ظہور کی کثرت کو افضلیت کی دلیل قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص حضرت امیر (علی رضی اللہ عنہ) کے مناقب اور فضائل کی کثرت کی وجہ سے حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر ان کے افضل ہونے کی دلیل بنائے۔ کیونکہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے اس قدر فضائل و مناقب ظہور میں نہیں آئے (جس قدر کہ حضرت علی سے ظہور میں آئے ہیں)۔
اے بھائی! غور سے سنو کہ خوارقِ عادات کی دو قسمیں ہیں۔ قسم اول: وہ علوم و معارف الہیٰ جل سلطانہٗ ہیں کہ جن کا تعلق ذات و صفات اور افعال واجبی جل و علا کے ساتھ ہے اور وہ نظرِ عقل کے دائرے سے ما وراء ہیں اور متعارف و متعاد (جانا پہچانا اور عرف و عادات) کے خلاف ہیں۔ لہذا (حق تعالیٰ نے) اپنے خاص بندوں کو ان کے ساتھ ممتاز فرمایا ہے۔ قسم دوم مخلوقات کی صورتوں کا کشف ہونا اور ان عینی باتوں پر اطلاع پانا اور ان کی خبریں دینا ہے جو اس عالم کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ نوع اول کا تعلق اہلِ حق اور اربابِ معرفت کے ساتھ مخصوص ہے اور نوعِ دوم میں محق اور مبطل (سچے اور جھوٹے دونوں طرح کے لوگ) شامل ہیں کیونکہ دوسری قسم اہلِ استدراج کو بھی حاصل ہے۔ قسمِ اول خدائے جل و علا کے نزدیک بزرگی اور اعتبار رکھتی ہے، اسی وجہ سے اس نے اس کو (قسم اول کو) اپنے اولیاء کے ساتھ مخصوص کر دیا ہے اور اپنے دشمنوں کو اس میں شریک نہیں کیا۔ دوسری عام خلائق کے نزدیک معتبر ہے اور ان کی نظروں میں معزز محترم ہے۔ یہی باتیں (یعنی خرقِ عادت) اگرچہ استدراج والوں سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن ممکن ہے کہ عام لوگ اپنی نا دانی کی وجہ سے ان کی پرستش شروع کر دیں اور جو رطب و یابس (وہ تصنع سے کریں) اس کی وجہ سے اس کے مطیع و فرماں بردار بن جائیں۔ بلکہ یہ محجوبان (عام لوگ) قسمِ اول کو خوارق سے نہیں جانتے اور کرامات میں سے شمار نہیں کرتے کیونکہ ان کے نزدیک خوارق قسمِ دوم میں منحصر ہیں، اور کرامات ان نا واقف لوگوں کے خیال میں مخلوقات کی صورتوں کا کشف اور غیب کی خبروں سے متعلق ہے۔ ان بے وقوفوں پر افسوس ہے جو اتنا بھی نہیں جانتے کہ وہ علم جو حاضر یا غائب مخلوقات کے احوال سے تعلق رکھتا ہے، اس میں کون سی شرافت و کرامت پائی جاتی ہے، بلکہ یہ علم تو اس قابل ہے کہ وہ جہالت سے بدل جائے تاکہ مخلوقات سے اور ان کے احوال سے نسیان حاصل ہو جائے۔ وہ تو حق تعالیٰ و تقدس کی معرفت ہی ہے جو شرافت و کرامت کے لائق ہے اور اعزاز و احترام بھی اسی کے شایانِ شان ہے۔
پری نہفتہ رخ و دیو در کرشمہ و ناز
بسوخت عقل ز حیرت کہ ایں چہ بو العجبی ست
ترجمہ:
پری چھپی ہے، دکھاتا ہے دیو نازو ادا
عجب معاملہ ہے عقل جس سے حیران ہے
ہم نے جو کچھ ذکر کیا ہے وہ تقریبًا وہی جو شیخ الاسلام ہروی رحمۃ اللہ علیہ اور امام انصاری7 رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب "منازل السائرین" میں اور اس کے شارح8 نے فرمایا ہے کہ میرے نزدیک جو بات تجربے سے ثابت ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ اہلِ معرفت کی فراست یہ ہے کہ وہ لوگ تمیز کر لیتے ہیں کہ کون شخص حضرت حق جل و علا کی بارگاہ کے شایان ہے اور کون سا نہیں، اور ان اہل استعداد کو بھی پہچان لیتے ہیں جو حق سبحانہٗ کے ساتھ مشغول ہیں اور حضرت حق سبحانہٗ کے حضور میں مقام جمع تک پہنچے ہوئے ہیں اور یہی معرفت کی فراست ہے۔ لیکن اہل ریاضت جن کو بھوک، گوشہ نشینی اور تصفیۂ باطن کے ذریعے وصول الی الحق کے بغیر فراست حاصل ہوتی ہے، ان کی فراست یہ ہے کہ مخلوقات کی تصویروں کے کشف کرتے اور غیب کی خبریں دیتے ہیں جو مخلوقات سے مختص ہیں لہذا یہ لوگ صرف مخلوقات ہی کی خبریں دے سکتے ہیں (اس کا حق تعالیٰ کی خوش نودی سے کوئی واسطہ نہیں) کیونکہ وہ حق تعالیٰ سے محجوب (حجاب میں) ہوتے ہیں، اور چونکہ اہلِ معرفت حق تعالیٰ کی طرف مشغول رہتے ہیں اور جو علوم و معرفت ان پر وارد ہوتے ہیں (ان کی روشنی میں وہ جو خبریں دیتے ہیں وہ حق تعالیٰ ہی کی طرف سے دیتے ہیں۔ اور چونکہ اکثر دنیا داروں کے دل حق سبحانہٗ و تعالیٰ سے منقطع ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں ہمہ تن مشغول ہیں اس لئے ان کے دل ارباب کشف اور غیب کی خبریں دینے والوں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ ان کو بزرگ جانتے ہیں اور یہ اعتقاد کر لیتے ہیں کہ یہ لوگ اہل اللّٰہ اور اس کے خاص بندے ہیں، اور اہل حقیقت کے کشف سے منہ موڑ لیتے ہیں اور وہ (اولیاء) جو کچھ حق تعالیٰ سبحانہٗ کے بارے میں ان کو بتاتے ہیں اس کے ساتھ ان پر اتہام لگاتے ہیں، اور اہل دنیا کہتے ہیں کہ اگر یہ لوگ اہل حق ہوتے جیسا کہ لوگ گمان کرتے ہیں تو یہ ضرور ہمارے احوال اور مخلوقات کے احوال سے ہم کو خبر دیتے، اور یقینًا جب یہ مخلوقات کے احوال کے کشف پر قدرت نہیں رکھتے تو امور اعلیٰ کے کشف پر کس طرح قادر ہو سکتے ہیں۔ اہل دنیا اس خام خیالی کی وجہ سے ان کو جھوٹا سمجھتے ہیں اور صحیح خبروں سے نا واقف رہتے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ حق تعالیٰ نے ان کو خلق کے ملاحظے سے محفوظ کر کے اپنے لئے مخصوص کر لیا ہے اور اپنے ما سوا سے ان کی حمایت پر شک کرنے کی وجہ سے ان کو دور کر دیا ہے۔ اگر وہ لوگ مخلوق کی طرف رغبت کرنے والے ہوتے تو وہ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی شان کے لائق نہ ہوتے۔ یقینًا ہم نے اکثر اہلِ حق کو دیکھا ہے کہ جب وہ صورتوں کے کشف کی طرف تھوڑی سی بھی توجہ کرتے ہیں تو وہ کچھ پا لیتے ہیں جو دوسرے ان کی فراست کے ادراک پر کچھ بھی قدرت نہیں رکھتے جیسی کہ اہل معرفت رکھتے ہیں۔ یہ وہ فراست ہے جو حق تعالیٰ اور ان چیزوں سے جو اس کے قریب ہیں، تعلق رکھتی ہے، لیکن اربابِ صفا جو اس خصوصیت سے خارج ہیں اور مخلوق سے متعلق ہیں ان کی فراست نہ تو حضرتِ حق سبحانہٗ سے تعلق رکھتی ہے اور نہ حق سبحانہٗ سے قرب رکھنے والی چیزوں سے۔ اور اس فراست میں مسلمان، نصاری، یہود اور دوسرے گروہ بھی شامل ہیں کیونکہ اس فراست میں حق سبحانہٗ کے نزدیک کوئی بزرگی نہیں ہے جس سے وہ اپنے خاص بندوں کو مخصوص فرماتا۔
1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہی تذکرہ و تفصیل دفتر اول مکتوب 37 پر ملاحظہ ہو۔
2 تشریح کے لیے ملاحظہ ہو دفتر اول مکتوب 99 کا آخری حصہ۔
3 مکہ مکرمہ سے جو کاروانی راستہ شام کی طرف جاتا ہے اس پر "قبیلۂ غِفار" آباد تھا۔ آپ حنادہ بن کعب صعیر بن الواقعہ بن سفیان ابن حرام بن غفار کے صاحب زادے ہیں۔ آپ کا نام جندب اور کنیت ابو ذر ہے۔ آخر حق سبحانہٗ و تعالیٰ افضل آپ کے شامل حال ہوا تو آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کسی سے دریافت کیا تو غل مچ گیا کہ یہ صابی ہے، لہذا اہلِ مکہ نے خوب زد و کوب کیا حتیٰ کہ آپ بے ہوش ہو گئے۔ حسنِ اتفاق سے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ملاقات ہو گئی اور آپ ان کے ہمراہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اسلام سے مشرف ہو گئے۔ اسلام لانے کے بعد مسجد حرام میں پہنچے اور بلند آواز سے کلمہ شہادت کا نعرہ بلند کیا۔ یہ سنتے ہی قریش نے مارنا شروع کر دیا۔ اتفاق سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ادھر سے گزر ہوا تو انہوں نے قریش سے کہا کہ یہ آدمی قبیلہ غفار کا ہے جہاں سے تمہاری شامی تاجروں کا راستہ ہے، تب انہوں نے چھوڑا۔ کچھ عرصہ قیام کے بعد آپ وطن واپس آ گئے اور تبلیغِ اسلام میں کوشاں رہے حتیٰ کہ سنہ 5ھ میں قبیلہ غفار اور قبیلہ اسلم کو ہمراہ لے کر حاضرِ خدمت ہو گئے اور بقیہ عمر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں گزاری۔ آپ کو امارت سے نفرت اور فقر پر فخر تھا۔ 8 ذی الحجہ سنہ 32ھ کو آپ کا انتقال ہوا اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔ ربذہ کے مقام پر جو مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع ہے، مزار مبارک ہے۔
4 حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی کا نسب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ رجب یا شعبان سنہ 526ھ شہر سہرورد میں پیدا ہوئے اور حصول علم کے لئے اپنے چچا شیخ نجیب کی خدمت میں بغداد پہنچے۔ شیخ نجیب ہی سے تعلیم کی تکمیل کر کے خلافت حاصل کی۔ یکم محرم سنہ 632ھ بغداد میں وصال ہوا۔ شیخ نجیب کی ولادت سنہ 490ھ اور وفات 17 جمادی الاخریٰ سنۃ 563 میں ہوئی۔
5 آپ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ آپ اُمّی تھے لیکن آپ پر معارف و اسرار کے دروازے کھل گئے جن کی وجہ سے بڑے بڑے مشائخ کے پیشوا بن گئے۔ ماہ رمضان سنہ 525ھ میں وفات پائی۔ منقول ہے کہ شیخ حماد نے حضرت شیخ کے متعلق فرمایا تھا کہ "وقت آئے گا کہ اس عجمی شخص کے قدم اولیاء کی گردن پر ہوں گے"۔
6 عوارف المعارف، جلد ثانی، باب: 27۔
7 الحنبلی الصوفی المتوفی سنہ 481ھ۔
8 یعنی الشیخ کمال الدین عبد الرزاق الکاشی المتوفی سنہ 730ھ (کشف الظنون)