دفتر اول مکتوب 292
شیخ عبد الحمید1 بنگالی کی طرف صادر فرمایا۔ مریدوں کے لئے ضروری آداب کے بیان میں اور ان کے بعض شبہات دُور کرنے اور اس کے مناسب بیان میں۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَدَّبَنَا بِالْآدَابِ النَّبَوِّیَۃِ وَ ھَدَانا لِأَخْلَاقِ الْمُصْطَفَوِیَّۃِ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ أَتَمُّھَا وَ أَکْمَلُھَا (شروع اللّٰہ تعالیٰ کے نام سے جو بہت مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ تمام تعریفیں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہم کو آدابِ نبوی کے ساتھ مؤدب کیا اور اخلاق مصطفویہ علیہ و علی آلہ الصلوۃ و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی جانب ہم کو ہدایت فرمائی)۔
جاننا چاہیے کہ اس راہ کے سالک دو حال سے خالی نہیں ہیں: یا تو وہ مرید ہیں یا مراد ہیں، اگر مراد ہیں تو اُن کے لئے مبارک بادی ہے کیونکہ (کار کنانِ قضا و قدر) ان کو انجذاب و محبت کی راہ سے کشاں کشاں لے جائیں گے اور مطلبِ اعلیٰ پر پہنچا دیں گے، اور ہر ادب جو بھی در کار ہو گا وہ توسط سے یا بلا توسط ان کو سکھا دیں گے، اور اگر کوئی لغزش واقع ہو گئی تو جلد ان کو آگاہ کر دیا جائے گا، اور اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا، اور اگر ظاہری پیر کی ضرورت ہو گی تو بغیر کسی کوشش کے ان کو اس دولت (مرشدِ کامل) کی طرف رہنمائی فرما دیں گے۔ مختصر یہ کہ عنایتِ ازلی جل سلطانہٗ ان بزرگوں کے حال کی مُتکفّل ہوتی ہے، (حق تعالیٰ کسی ذریعے سے) سبب اور بلا سبب ان کے کام کی کفایت فرماتا ہے: ﴿اَللهُ يَجْتَبِيْٓ إِلَيْهِ مَنْ يَشَآءُ﴾ (الشوری: 13) ترجمہ: ”اللہ جس کو چاہتا ہے چن کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے“۔
اور اگر مریدوں میں سے ہیں تو ان کا کام پیرِ کامل و مکمل کے توسط کے بغیر دشوار ہے، بلکہ (ان کے لئے) ایسا پیر ہونا چاہیے جو ’’ دولتِ جذبہ و سلوک‘‘ سے مشرف کیا گیا ہو، اور ’’فنا و بقا‘‘ کی سعادت سے بھی بہرہ مند ہو چکا ہو۔ اگر اس کا جذبہ اس کے سلوک پر مقدم ہے اور وہ مراد (والے حضرات) کی تربیت کا پروردہ ہے تو وہ (مرشد) کبریتِ احمر (سرخ گندھک یعنی اِکسیر) کی مانند ہے۔ اس کا کلام دوا ہے، اور اس کی نظر شفا ہے، مُردہ دلوں کو زندہ کرنا اس کی توجہ شریف پر وابستہ ہے اور پژمُردہ جانوں کی تازگی اس کے التفاتِ لطیف سے مربوط ہے۔ اگر اس قسم کا ’’صاحبِ دولت شیخ‘‘ میسر نہ ہو تو سالک مجذوب بھی غنیمت ہے، اس سے بھی ناقصوں کی تربیت ہو جاتی ہے اور اس کے توسط سے فنا و بقا کی دولت تک پہنچ جاتے ہیں
آسماں نسبت بعرش آمد فرود
ورنہ بس عالی ست پیشِ خاکِ تود
ترجمہ:
عرش سے نیچے ہے بے شک آسماں
پھر بھی اونچا ہے زمیں سے وہ مکاں
جاننا چاہیے کہ صحبتِ (شیخ) کے آداب کی رعایت اور شرائط کو مدِّ نظر رکھنا اس راہ کی ضروریات میں سے ہے تاکہ افادے اور استفادے کا راستہ کُھل جائے، ورنہ (آداب کی رعایت کے بغیر) صحبت سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہو گا اور اس کی مجلس سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو گا (اس لئے) بعض ضروری آداب و شرائط لکھے جاتے ہیں، گوشِ ہوش سے سننے چاہئیں:
جان لیں کہ طالب کو چاہیے کہ اپنے ’’چہرۂ دل‘‘ کو تمام اطراف و جوانب سے ہٹا کر اپنے مرشد کی طرف متوجہ کرے اور پیر کی خدمت میں رہتے ہوئے اس کی اجازت کے بغیر نوافل و اذکار میں بھی مشغول نہ ہو، اور نہ ہی اس کے حضور میں اس کے علاوہ کسی اور کی طرف التفات کرے، اور پوری طرح اسی کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھا رہے حتیٰ کہ جب تک وہ حکم نہ کرے ذکر میں بھی مشغول نہ ہو، اور اس کی خدمت میں رہتے ہوئے نمازِ فرض و سنت کے علاوہ کچھ ادا نہ کرے۔
سلطانِ ایں وقت (جہانگیر) کا واقعہ منقول ہے کہ اس کا وزیر اس کے سامنے کھڑا تھا، اسی اثناء میں اتفاقًا وزیر کی نظر اس کے اپنے کپڑے پر پڑی اور وہ اس کے بند کو اپنے ہاتھ سے درست کرنے لگا۔ اسی حال میں تھا کہ اچانک بادشاہ کی نظر وزیر پر پڑ گئی کہ وہ اس کے غیر (یعنی اپنے کپڑے) کی طرف متوجہ ہے، تو بادشاہ نے نہایت عتاب آمیز لہجہ میں کہا کہ "میں اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا کہ میرا وزیر میرے حضور میں اپنے کپڑے کے بند کی طرف توجہ کرے"۔ سوچنا چاہیے کہ جب کمینی دنیا کے وسائل (مثلًا بادشاہ) کے لئے چھوٹے چھوٹے آداب ضروری ہیں تو وصول الی اللّٰہ کے وسائل (مثلًا پیر) کے لئے ان آداب کی کامل درجہ رعایت نہایت ہی ضروری ہو گی۔ لہٰذا جہاں تک ممکن ہو سکے ایسی جگہ کھڑا نہ ہو کہ اس کا سایہ پیر کے کپڑے یا سایہ پر پڑے اور اس کے مصلّے پر پاؤں نہ رکھے اور اس کے وضو کی جگہ پر وضو نہ کرے اور اس کے خاص برتنوں کو استعمال نہ کرے اور اس کے حضور میں پائی نہ پئے، کھانا نہ کھائے اور نہ کسی سے گفتگو کرے بلکہ کسی دوسرے کی طرف متوجہ بھی نہ ہو۔ پیر کی غیبت (غیر موجودگی) میں جہاں پیر رہتا ہے اس جگہ کی طرف پاؤں نہ پھیلائے، اور نہ اس کی طرف تھوکے اور جو کچھ پیر سے صادر ہو اس کو صواب (درست) جانے اگرچہ بظاہر درست معلوم نہ ہو۔ وہ جو کچھ کرتا ہے الہام سے کرتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کے اذن سے کرتا ہے لہذا اس صورت میں اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اگرچہ بعض صورتوں میں اس کے الہام میں خطا کا ہونا ممکن ہے لیکن "خطائے الہامی" خطائے اجتہادی کی مانند ہے، اس پر ملامت و اعتراض جائز نہیں۔ نیز چونکہ اس مرید کو اپنے پیر سے محبت پیدا ہو چکی ہے اس لئے جو کچھ محبوب (پیر) سے صادر ہوتا ہے محب (مرید) کی نظر میں محبوب دکھاتی دیتا ہے لہذا اعتراض کی گنجائش نہیں ہے۔ کھانے پینے، پہننے، سونے اور طاعت کرنے کے ہر چھوٹے بڑے کاموں میں پیر ہی کی اقتدا کرنی چاہیے، نماز کو بھی اسی کی طرز پر ادا کرنا چاہیے اور فقہ کو بھی اس کے عمل سے اخذ کرنا چاہیے؎
آں را کہ در سرائے نگار یست فارغ است
از باغ و بوستاں و تماشائے لالہ زار
ترجمہ:
جو شخص ہو نگار کے گھر سب ہے اس کے پاس
باغ اور لالہ زار کی حاجت نہیں اسے
اور اس (پیر) کی حرکات و سکنات پر کسی قسم کے اعتراض کو دخل نہ دے اگرچہ وہ اعتراض رائی کے دانے کے برابر ہو کیونکہ اعتراض سے سوائے محرومی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ بد بخت وہ شخص ہے جو اس بزرگ گروہ کا عیب بیں (عیب دیکھنے والا) ہے، اللّٰہ تعالیٰ ہم کو اس بلائے عظیم سے بچائے۔ اپنے پیر سے خوارق و کرامات طلب نہ کرے اگرچہ وہ طلب خطراتِ (قلبی) اور وساوس کے طریق پر ہوں۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ کسی مؤمن نے اپنے پیغمبر سے معجزہ طلب کیا ہے (یعنی ایسا کبھی نہیں ہوا) معجزہ طلب کرنے والے کافر اور منکر لوگ ہوتے ہیں؎
معجزات از بہرِ قہرِ دشمن است
بوئے جنسیت پئے دل بُردن است
موجبِ ایماں نباشد معجزات
بوئے جنسیت کند جذبِ صفات
ترجمہ:
معجزہ ہے عجز دشمن کے لئے
اپنے اپنایت سے ہیں اپنے بنے
موجب ایماں نہیں ہیں معجزات
بلکہ اپنایت سے ہے جذب صفات
اگر دل میں کسی قسم کا شبہ پیدا ہو تو اس کو بلا توقف (پیر کی خدمت میں) عرض کر دے (پھر بھی) اگر حل نہ ہو تو اپنی تقصیر سمجھے اور پیر کی طرف کسی قسم کی کوتاہی یا عیب و نقص منسوب نہ کرے۔ جو واقعہ بھی ظاہر ہو پیر سے پوشیدہ نہ رکھے اور واقعات کی تعبیر اسی سے دریافت کرے اور جو تعبیر خود طالب پر منکشف ہو وہ بھی عرض کر دے، اور صواب و خطا کو اسی سے طلب کرے۔ اپنے کشفوں پر ہرگز بھروسہ نہ کرے کیونکہ اس دارِ (فانی) میں حق، باطل کے ساتھ ملا ہوا ہے اور خطا، صواب کے ساتھ ملی جُلی ہوئی ہے۔ بے ضرورت اور بلا اجازت اس سے جدا نہ ہو، کیونکہ اس کے غیر کو اس کے اوپر اختیار کرنا ارادت کے منافی ہے۔ اپنی آواز کو اس کی آواز سے بلند نہ کرے اور بلند آواز سے اس کے ساتھ گفتگو نہ کرے کہ یہ بے ادبی میں داخل ہے۔ ظاہر و باطن میں) جو فیض و فتوح اس کو پہنچے اس کو اپنے پیر ہی کے ذریعے سمجھے، اور اگر واقعہ میں دیکھے کے فیض دوسرے مشائخ سے پہنچا ہے اس کو بھی اپنے پیر ہی سے جانے اور یہ سمجھے کہ چونکہ پیر تمام کمالات و فیوض کا جامع ہے اس لئے پیر کا خاص فیض مرید کی خاص استعداد کے مناسب اس شیخ کے کمال کے موافق جس سے یہ صورتِ افاضہ ظاہر ہوئی ہے، مرید کو پہنچا ہے، اور وہ پیر کے لطائف میں سے ایک لطیفہ ہے جو اس فیض سے مناسبت رکھتا ہے اور اس شیخ کی صورت میں ظاہر ہوا ہے، ابتلا و آزمائش کی وجہ سے مرید نے اس کو دوسرا شیخ خیال کیا ہے اور فیض کو اس کی طرف سے جانا ہے۔ یہ بڑا بھاری مغالطہ ہے، حق سبحانہٗ اس لغزش سے محفوظ رکھے اور سید البشر علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل پیر کے ساتھ حسنِ اعتقاد اور اس کی محبت پر ثابت قدم رکھے (آمین)۔
غرض اَلطَّرِیْقُ کُلُّہٗ أَدَبٌ (طریقت سراپا ادب ہے) مثل مشہور ہے۔ کوئی بے ادب خدا تک نہیں پہنچا۔ اگر مرید بعض آداب کے بجا لانے میں اپنے آپ کو عاجز جانے اور ان کو کما حقہ ادا نہ کر سکے اور کوشش کرنے کے بعد بھی اس سے عہدہ برآ نہ ہو سکے تو قابلِ معافی ہے لیکن اس کو اپنے قصور کا اقرار ضروری ہے، اور اگر اعاذنا اللّٰہ سبحانہٗ آداب کی رعایت بھی نہ کرے اور اپنے آپ کو قصور وار بھی نہ جانے تو وہ ان بزرگوں کی برکات سے محروم رہتا ہے
ہر کرا روئے بہ بہبود نہ بود
دیدن روئے نبی سود نہ بود
ترجمہ:
جس کی قسمت میں نہ وہ بہبود تھی
دیدِ پیغمبر ﷺ اسے بے سود تھی
ہاں اگر کوئی مرید اپنے پیر کی توجہ کی برکت سے فنا و بقا کے مرتبے پر پہنچ جائے اور اس پر الہام و فراست کا طریقہ کھل جائے اور پیر بھی اس کو تسلیم کر لے اور اس کے کمال کی گواہی دے تو اس مرید کے لئے جائز ہے کہ وہ بعض الہامی امور میں اپنے پیر کے خلاف کرے اور اپنے الہام کے تقاضے پر عمل کرے، اگرچہ پیر کے نزدیک اس کے خلاف ہی متحقق ہو چکا ہو، کیونکہ وہ مرید اس وقت پیر کی تقلید کے حلقے سے باہر نکل آیا ہے اور اس کے حق میں تقلید کرنا خطا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ اصحابِ پیغمبر صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات نے بعض اجتہادی اُمور اور غیر منزلہ احکام میں آں سرور علیہ الصلوٰۃ و السلام سے اختلاف کیا ہے اور بعض اوقات صواب اور صحیح ہونا ان اصحاب کی طرف ظاہر ہوا ہے جیسا کہ اربابِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے۔
پس معلوم ہوا کہ مرتبۂ کمال پر پہنچنے کے بعد مرید کو پیر سے اختلاف کرنا جائز ہے اور سوءِ ادب سے مبرا ہے، بلکہ اس جگہ پر تو یہی ادب ہے ورنہ اصحابِ پیغمبر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کہ جو کمالِ ادب میں مؤدب تھے، سوائے تقلیدِ امر کے اور کوئی کام نہ کرتے۔ (امام) ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے لئے مرتبۂ اجتہاد پر پہنچنے کے بعد (امام) ابو حنیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی تقلید کرنا خطا ہے بلکہ اپنی رائے کی متابعت میں صواب ہے نہ کہ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی رائے میں۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول ہے: ’’میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ مسئلہ خلقِ قرآن میں چھ مہینے تک جھگڑتا رہا‘‘۔ آپ نے سُنا ہو گا کہ ’’ایک صنعت کی بہت سے افکار کے ملنے سے تکمیل ہوتی ہے‘‘۔ اگر (فن اور علم) ایک ہی فکر پر قائم رہتے تو ان میں کوئی اضافہ نہ ہوتا۔ وہ علمِ نحو جو امام سیبویہ کے زمانے میں تھا آج (نحویوں کی) مختلف آراء اور بہت سے نظائر کے ملنے سے ہزار گنا زیادہ کامل ہو چکا ہے لیکن چونکہ اس کی بنا (امام سیبویہ) نے رکھی ہے اس لئے فضیلت اسی کے لئے ہے (یعنی) فضیلت متقدمین کے لئے ہے لیکن کمال ان (متاخرین)کے لئے۔ "مَثَلُ اُمَّتِیْ کَمَثَلِ الْمَطَرِ لَا یُدْرٰی أَوَّلُھُمْ خَیْرٌ أَمْ آخِرُھُمْ" ترجمہ :”میری امت کی مثال بارش کی مانند ہے نہیں معلوم کہ اس کا اوّل اچھا ہے یا آخر“۔ حدیث نبوی علیہ الصلوۃ و السلام ہے۔
تتمّہ: بعض مریدوں کے شبہ دُور کرنے کے بیان میں
جاننا چاہیے کہ بزرگوں نے کہا ہے: "اَلشَّیْخُ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ" (شیخ زندگی بھی دے سکتا ہے اور مار بھی سکتا ہے)۔ (یعنی احیاء اور اماتت مقامِ شیخی کے لوازمات میں سے ہے لیکن اس ’’احیا‘‘ سے مراد احیائے روحی ہے نہ کہ جسمی، اور اسی طرح ’’اماتت‘‘ سے مراد بھی روحانی موت ہے نہ کہ جسمانی، اور حیات و موت سے مراد فنا و بقا ہے جو مقامِ ولایت و کمال کو پہنچاتا ہے۔ شیخِ مقتدا اللّٰہ سبحانہٗ کے اذن سے ان دونوں امر کا کفیل و ضامن ہے، لہٰذا شیخ کے لئے اس احیاء اور اماتت کے بغیر چارا نہیں ہے۔ یُحْیِیْ وَ یُمِیْتُ کے معنی یُبْقِیْ وَ یُفْنِیْ ہیں (یعنی باقی رکھنا اور فنا کرنا) جسمانی احیاء و اماتت کو منصبِ شیخی سے کوئی سر و کار نہیں ہے۔ شیخ مقتدا کہربا (مقناطیس) کی طرح ہے، جس کو اس سے مناسبت ہو گی وہ خس و خاشاک کی طرح اس کے پیچھے دوڑتا چلا آتا ہے اور اپنا حصہ اس کے ذریعے حاصل کر لیتا ہے۔ خوارق و کرامات مریدوں کے جذب کرنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ باطنی مریدین تو بہر طور پر معنوی مناسبت سے اس کی جانب کھنچے چلے آتے ہیں اور جو شخص ان بزرگوں سے نسبت نہیں رکھتا وہ ان کے کمالات کی دولت سے بھی محروم رہتا ہے، اگرچہ وہ ہزار معجزے اور خوارق و کرامات دیکھے۔ ابو جہل اور ابو لہب کا حال اس معنیٰ اور مطلب کے لئے شاہد ہے۔ اللّٰہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے کفار کے حق میں فرمایا ہے: ﴿وَ إِنْ يَّرَوْا كُلَّ آيَةٍ لَّا يُؤْمِنُوْا بِهَا حَتّٰى إِذَا جَاءُوْكَ يُجَادِلُوْنَكَ يَقُوْلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِنْ هٰذَا إِلَّا أَسَاطِيْرُ الْأَوَّلِيْنَ﴾ (الأنعام: 25) ترجمہ:”اور اگر وہ ایک ایک کر کے ساری نشانیاں دیکھ لیں تب بھی وہ ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ انتہا یہ ہے کہ جب تمہارے پاس جھگڑا کرنے کے لیے آتے ہیں تو یہ کافر لوگ یوں کہتے ہیں کہ یہ (قرآن) پچھلے سلوں کی داستانوں کے سوا کچھ نہیں“۔ و السّلام
1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ و تفصیل دفتر اول مکتوب 158 پر ملاحظہ فرمائیں۔
2 "رَوَاہُ فِیْ شَرْحِ السُّنَّۃِ۔ وَ قَالَ النُّوَوِیُّ ہٰذَا حَدِيْثٌ صَحِیْحٌ" قَالَہٗ فِی الْمِشْکوٰۃِ۔