مکتوب نمبر 291
مولانا عبد الحی کی طرف صادر فرمایا-
توحید وجودی و شہودی کے مراتب اور ان کے متعلقہ معارف کے بیان میں
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ
اللہ تعالیٰ آپ کو رشد و ہدایت عطا فرمائے۔ اس بات کو جان لیں کہ ایک جماعت کے لئے توحیدِ وجودی کا منشا مراقبات کی کثرت سے مشق کرنا اور کلمۂ طیبہ "لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ" کے معنی کو "لَا مَوْجُوْدَ اِلَّا اللہُ" کے ساتھ سمجھنا ہے۔ اس قسم کی توحید حیلہ سازی اور تامل و تخیل کے بعد سلطانِ خیال کے غلبہ و ذریعے سے ظاہر ہوتی ہے کیونکہ توحید کے معنی کی کثرتِ مزاولت کی وجہ سے اس کی معرفت کا نقش قوتِ متخیلہ میں بن جاتا ہے۔ چونکہ اس قسم کی توحید اس صاحبِ توحید کی اپنی بنائی ہوئی ہوتی ہے، اس لئے وہ علت سے خالی نہیں ہے۔ یہ توحید والا شخص اربابِ احوال میں سے نہیں ہے کیونکہ اربابِ احوال، اربابِ قلوب ہوتے ہیں اور اس توحید والے کو ابھی مقامِ قلب کی بھی کچھ خبر نہیں، اس لئے کہ یہ توحید محض علمی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں (یعنی حال والی نہیں ہے) لیکن علم کے بھی کئی درجے ہیں، بعض کا درجہ بعض سے اوپر ہے۔
اور دوسری جماعت کے لئے "توحیدِ وجودی" کا منشا انجذاب اور محبتِ قلبی ہے کیونکہ وہ لوگ ابتدا میں ان اذکار و مراقبات میں مشغول ہوتے ہیں جو توحید کے معنی کے تخیل سے خالی ہوتے ہیں اور پھر اپنی محنت و کوشش سے یا صرف عنایتِ ازلی سے مقامِ قلب تک پہنچتے ہیں اور ایک طرح کا جذب پیدا کر لیتے ہیں، اگر اس مقام میں ان پر توحیدِ وجودی کا جمال ظاہر ہوجائے تو اس کا سبب محبوب کی محبت کا غلبہ ہوگا کہ جس نے محبوب کے ماسویٰ کو ان کی نظر سے مخفی و پوشیدہ کردیا ہے اور چونکہ وہ ماسوائے محبوب کسی کو نہیں دیکھتے اور نہ ہی پاتے ہیں، اس لئے محبوب کے علاوہ کسی کو موجود نہیں جانتے۔ توحید کی یہ قسم احوال سے ہے اور تخیل کی علت اور توہم کی آمیزش سے پاک و مبرا ہے۔ اور اگر اربابِ قلوب کی اس جماعت کو اس مقام سے عالم کی طرف واپس لے آئیں تو وہ لوگ اپنے محبوب کو ذراتِ عالم میں سے ہر ذرہ میں مشاہدہ کرتے ہیں اور موجودات کو اپنے محبوب کے حسن و جمال کے آئینے اور مظاہر سمجھتے ہیں اور اگر محض فضلِ خداوندی جل شانہٗ سے یہ اربابِ قلوب مقامِ قلب سے نکل کر مقلبِ قلب (حق جل و علا) کی بارگاہ کی طرف متوجہ ہوجائیں، تو یہ توحیدی معرفت جو ان کو مقامِ قلب میں پیدا ہوئی تھی، زائل ہونے لگتی ہے اور جس قدر وہ عروج کی بلندیوں میں ترقی کرتے جاتے ہیں اپنے آپ کو اس معرفت کے ساتھ اسی قدر زیادہ نامناسب پاتے ہیں حتیٰ کہ ان میں سے بعض اس معرفت والوں کے طعن و انکار کی حد تک پہنچ جاتے ہیں۔ مثل رکن الدین ابو المکارم شیخ علاء الدولہ سمنائی رحمۃ اللہ علیہ کے اور بعض دوسرے حضرات کے لئے اس معرفت کے زائل ہونے کے بعد اس کی نفی کرنے یا ثابت کرنے سے کچھ کام نہیں رہتا۔ ان سطور کا کاتب اس معرفت والوں کے انکار سے اجتناب کرتا ہے اور ان کو طعن کرنے سے اپنے آپ کو دور رکھتا ہے۔ انکار و طعن کی مجال اس وقت ہوتی ہے جبکہ اس حال کے ظہور میں اس حال والوں کا اپنا قصد و اختیار ہو، ان کے ارادہ کے بغیر یہ معنی ان سے ظاہر ہو رہے ہیں، وہ اس حال میں مغلوب ہیں، اس لئے معذور ہیں اور معذور و مضطر پر کوئی رد و طعن کی گنجائش نہیں ہے، لیکن (اس کے باوجود یہ فقیر) اس قدر جانتا ہے کہ اس معرفت کے اوپر بھی ایک اور معرفت ہے اور اس حال سے آگے بھی ایک دوسری حالت ثابت ہے۔ اس مقام پر رکے ہوئے حضرات بہت سے کمالات سے رکے ہوئے ہیں اور بے شمار مقامات سے محروم رہتے ہیں۔
یہ بے سروسامان حقیر (یعنی حضرت مجدد بغیر اس بات کے کہ معنی توحید میں مشق کرے اور مراقبات و اذکار کے ضمن میں ان کے لئے محنت و کوشش کرے، محض فضلِ ایزدی سے اور ہدایت و افاضت پناہی، حقائق و معارف آگاہی مؤید الدین الرضی شیخنا و مولانا محمد الباقی قدس اللہ تعالیٰ سرہ الاقدس کی صحبت میں ذکر کی تعلیم کے بعد اور ان کی التفات و توجہ سے قلب کے مقام میں لا کر اس معرفت کا دروازہ کھول دیا اور اس مقام کے علوم و معارف بہت عطا فرمائے اور ان معارف کے دقائق منکشف کر کے ایک مدت تک اسی مقام میں رکھا۔ آخرُ الامر کمال بندہ نوازی سے مقامِ قلب سے نکال لائے اور اس اثنا میں وہ (توحید وجودی کی) معرفت زوال پذیر ہوکر رفتہ رفتہ پورے طور پر معدوم ہوگئی۔
اپنے احوال کے اظہار کا مقصد یہ ہے کہ معلوم ہوجائے کہ اس مضمون کا لکھنے والا اپنے کشف اور ذوق کی وجہ سے اس بات کو تحریر میں لایا ہے نہ کہ ظن و تقلید کی بنیاد پر۔ اور وہ معارف توحیدی جو بعض اولیاء اللہ سے ظاہر ہوئے ہیں اور چونکہ ابتدائے حال میں اور مقامِ قلب پر صادر ہوئے ہیں اس لئے ان کو اس راہ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔ اس حقیر نے بھی اس وقت (زمانے میں) معارفِ توحیدی پر کئی رسائل لکھے ہیں اور چونکہ بعض دوستوں نے ان تحریروں کو منتشر کردیا، اس لئے ان کو جمع کرنا دشوار ہوگیا اور ان رسائل کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ نقص اس وقت لازم آتا، جبکہ اس مقام سے اوپر نہ لے جائیں۔
اربابِ توحید میں سے ایک گروہ کے لوگ وہ ہیں جو اپنے مشہود میں استہلاک (نیستی) و اضمحلال (فنائیت) کامل طور پر پیدا کر لیتے ہیں اور ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ اپنے مشہود میں ہمیشہ مضمحل و معدوم رہیں اور ان کے وجود سے کوئی اثر ظاہر نہ ہو، یہ لوگ کلمہ "اَنَا" کے رجوع کو اپنے لئے کفر جانتے ہیں اور ان کے نزدیک کام کی انتہا فنا و نیستی ہے۔ مشاہدہ (عالم میں مشہودِ حق) کو بھی گرفتاری جانتے ہیں۔ ان میں سے بعض فرماتے ہیں: اَشْتَھِیْ عَدَمًا لَّا اَعُوْدُ اَبَدًا (میں ایسا عدم چاہتا ہوں کہ جس کا وجود ہرگز کبھی نہ ہو) یہی لوگ محبت کے مقتول ہیں۔ اور حدیثِ قدسی مَنْ قَتَلْتُہٗ فَاَنَا دِیَّتُہٗ (جس کو میں قتل کرتا ہوں، اس کا خون بہا بھی میں خود ہوتا ہوں) انہی کی شان میں ثابت ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ وجود کے زیرِ بار رہتے ہیں اور ایک لمحہ بھی آرام نہیں پاتے۔ کیونکہ آرام غفلت میں ہوتا ہے، دائمی فنائیت کے ہوتے ہوئے غفلت کی گنجائش نہیں ہے۔ شیخ الاسلام ہروی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ "جو شخص مجھ کو ایک ساعت کے لئے حق تعالیٰ سے غافل کردے، امید ہے کہ اس کے گناہ بخش دیئے جائیں اور وجودِ بشریت کے لئے غفلت درکار ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے کمالِ کرم ان میں سے ہر ایک کے ظاہر کو ان کی استعداد کے موافق ان امور میں جو غفلت کو مستلزم ہیں، مشغول کردیا ہے، تاکہ وہ بارِ وجود کسی قدر ان سے ہلکا ہوجائے۔ چنانچہ ایک جماعت کو سماع و رقص کی الفت دے دی، اور ایک گروہ کو کتابوں کی تصنیف اور علوم و معارف تحریر کرنا شعار بنا دیا گیا، اور ایک گروہ کو بعض مباح امور میں مشغول کردیا ہے۔ (جیسا کہ) عبد اللہ اصطخری سگ بانوں (کتوں والوں) کے ہمراہ جنگل میں چلے جایا کرتے تھے۔ کسی نے ایک بزرگ سے اس کا راز دریافت کیا تو ان بزرگ نے فرمایا: یہ اس لئے تاکہ ان کا نفس کچھ وقت کے لئے بارِ وجود سے خلاصی حاصل کرلے اور بعض کو توحید وجودی کے علوم اور وحدت میں کثرت کے مشاہدہ سے آرام دیا، تاکہ اس بار سے ایک ساعت کے لئے آرام پالیں۔
اور وہ توحید جو مشائخ تقشنبدیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے بعض اکابر بزرگوں سے ظاہر ہوئی ہے اسی قسم سے ہے۔ ان بزرگوں کی نسبت تنزیۂ صرف کی طرف لے جاتی ہے، وہ عالم اور مشہود در عالم سے کچھ واسطہ نہیں رکھتے اور وہ معارف جو ارشاد پناہی حقائق و معارف دستگاہی ناصر الدین خواجہ عبید اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے توحید وجودی اور کثرت میں وحدت کے شہود کے مناسب تحریر فرمائے ہیں، توحید کی اسی اخیر قسم سے ہیں۔ ان کی کتاب "فقرات" جو بعض علومِ توحید وغیرہ پر مشتمل ہے، اس کتاب کا منشا اور ان معارف کا مقصود ان کا عالم کے ساتھ انس و الفت پیدا کرنا ہے۔ اور ہمارے خواجہ (باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کے وہ معارف جو آپ نے بعض رسالوں میں کتاب "فقرات" کے کلام کے مطابق تحریر فرمائے ہیں، اسی قسم سے ہیں۔ ان علومِ توحید کا منشا نہ جذبہ ہے اور نہ غلبہ محبت، اور ان کے مشہود کو عالم کے ساتھ کچھ بھی نسبت نہیں ہے، ان کو جو کچھ عالم میں دکھاتے ہیں ان کے مشہود حقیقی کا شبہ و مثال ہے۔
مثلاً: ایک شخص آفتاب کے جمال میں گرفتار ہے اور اپنی کمالِ محبت کی وجہ سے آفتاب میں گم ہوگیا ہے اور اپنا نام و نشان بھی کچھ نہ چھوڑا۔ اس گم شدہ کو اگر چاہیں کہ دوبارہ (آفتاب کی گرفتاریٔ محبت سے) واپس لے آئیں اور اس میں آفتاب کے علاوہ کسی دوسرے کی الفت و محبت پیدا کردیں تاکہ ایک لمحہ آفتاب کے انوار کے غلبہ سے اپنا سانس درست کر کے تھوڑی دیر آرام کرلے۔ تو اسی آفتاب کو اس علام کے آئینوں میں جلوہ نما کرتے ہیں اور اس آمیزش یا تعلق کے ساتھ اس کو اس عالم سے ایک انس و التفات پیدا کراتے ہیں اور اس کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ عالم عین آفتاب ہے اور سوائے آفتاب کے اور کوئی چیز موجود نہیں ہے اور کبھی ذراتِ عالم کے آئینوں میں اس کو جمالِ آفتاب کی رونمائی کراتے ہیں۔
اس جگہ کوئی یہ سوال نہ کرے کہ چونکہ نفس الامر میں عالم عین آفتاب نہیں، لہٰذا اس کو آفتاب بتانا خلافِ واقع ہوگا۔ اس کے جواب میں ہم یہ کہتے ہیں کہ عالم کے افراد بعض امور میں ایک دوسرے سے اشتراک رکھتے ہیں اور دوسرے معاملات میں امتیاز (فرق)۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی کمالِ قدرت سے بعض امور کو جو امتیاز کا باعث ہیں بعض حکمتوں اور مصلحتوں کی بنیاد پر ان کی نظروں سے پوشیدہ کردیتا ہے اور صرف اجزائے مشترکہ کو ظاہر فرما دیتا ہے۔ لہٰذا لازمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کے حکم میں آجاتے ہیں، پس اسی طرح وہ شخص آفتاب کو بھی اسی تعلق سے عالم کا عین پاتا ہے۔ اور اسی طرح حق سبحانہٗ کو اگرچہ عالم کے ساتھ حقیقت میں کچھ بھی مناسبت نہیں، لیکن مشابہتِ اسمی اس اتحاد کو صحیح و درست کردیتی ہے۔ مثلاً: حق سبحانہٗ و تعالیٰ موجود ہے اور عالم بھی موجود ہے لیکن حقیقت میں ان دونوں وجود کے درمیان کوئی مناسبت نہیں ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ سمیع، بصیر، حی، قادر اور مرید ہے اور عالم کے بعض افراد بھی انہی صفات سے متصف ہیں، اگرچہ ایک دوسرے کی صفات (یعنی واجب تعالیٰ کی صفات اور ممکن کی صفات) ایک دوسرے سے جدا ہیں، لیکن چونکہ وجودِ امکانی کی خصوصیت اور صفاتِ محدثات کے نقائص ان کی نظروں سے (حکمت کی بنا پر) پوشیدہ کردیئے گئے ہیں، اس لئے اگر ان (واجب و ممکن) کے درمیان اتحاد کا حکم کردیا جائے، تو گنجائش ہے۔
توحید کی یہ آخری قسم اقسامِ توحید میں سب سے اعلیٰ قسم ہے، بلکہ حقیقت میں اس معرفت والے حضرات اس وارد (حال) کے مغلوب نہیں ہیں اور ان کا سکر اس معرفت کی وجہ سے نہیں ہوا ہے بلکہ اس حال کو ان پر کسی مصلحت کی بنا پر طاری کردیا گیا ہے اور یہ بات ملحوظ ہے کہ اس معرفت کے وسیلے سے ان کو سکر سے صحو میں لائیں اور تسلی دیں جیسا کہ بعض کو سماع و رقص سے اور بعض کو بعض امورِ مباحہ کے ساتھ مشغول کر کے تسلی دی گئی ہے۔ جاننا چاہئے کہ ان (مذکورہ) گروہوں میں سے بعض حضرات ان بعض امور کے متعلق جو ان کے مشہود کے مغائر (غیر) میں سے ہیں، وہ ان میں مشغول رہتے ہیں اور تسلی حاصل کرتے ہیں بخلاف ان بزرگوں کے جو ان کے مشہود کے مغائر کی طرف التفات نہیں کرتے اور نہ ان کے تابع ہوتے ہیں۔ لہٰذا لازمی طور پر عالم کو ان کے مشہود کا عین ظاہر کرتے ہیں یا عالم کے آئینے میں اس کو جلوہ گر کرتے ہیں، تاکہ ایک ساعت کے لئے اس بارِ گراں سے تخفیف حاصل کریں۔ اس آخری قسم کی توحید کا منشا اس حقیر کو کشف اور ذوق کے طریقے سے معلوم نہیں تھا، صرف پہلی دو قسموں کو ہی جانتا تھا، البتہ اس (تیسری) قسم کا صرف ظن و گمان رکھتا تھا، اسی وجہ سے رسائل و مکتوبات میں انہی دو وجوہات بلکہ وجۂ دوم کو لکھا ہے اور توحیدِ وجودی کو اسی پر منحصر کیا ہے۔ لیکن جب ارشاد پناہی قبلہ گاہی (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی رحلت کے بعد آپ کے مزار شریف کی تقریبِ زیارت کے لئے محفوظ شہر دہلی جانے کا اتفاق ہوا اور عید کے روز مزار شریف پر حاضری دی، تو مزار مبارک پر توجہ کرنے کے دوران آپ کی روحانیتِ مقدسہ پورے التفات کے ساتھ ظاہر ہوئی، اور کمال درجہ غریب نوازی کی بنا پر اپنی نسبتِ خاصہ جو حضرت خواجہ احرارؒ سے منسوب ہے آپ نے مرحمت فرمائی۔ جب فقیر نے اس نسبت کو اپنے اندر پایا، تو ان علوم و معارف کی حقیقت کو بطریقِ ذوق حاصل کیا اور معلوم ہوا کہ آپ کے اندر توحیدِ وجودی کا منشا انجذابِ قلبی اور غلبۂ محبت نہیں ہے، بلکہ اس معرفت کے مقصود اس غلبہ کی تخفیف ہے۔ ایک مدت تک اس معنی کے اظہار کو مناسب نہیں سمجھا، لیکن چونکہ بعض رسائل میں ان دو وجوہ کا ذکر پہلے ہو چکا تھا، جن کی وجہ سے کم فہم لوگ وہم میں پڑ گئے تھے، کیونکہ اس بیان سے دو بزرگوں (یعنی خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ اور خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کی تنقیص لازم آتی ہے کہ ان کا طریقہ اربابِ توحید کا طریقہ ہے۔ لہٰذا لوگوں نے اس ذریعے سے (اس فقیر کے حق میں) فتنہ انگیزی کی زبان دراز کی، یہاں تک کہ بعض کم ارادت طالبوں کے احوال کے فتور کا باعث ہوگیا۔ اس لئے ضرورت و مصلحت کی بنا پر توحید کی اس (تیسری) قسم کا اظہار کرنا مناسب سمجھا اور اس واقعہ (یعنی حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کی زیارتِ قبر) کو بطورِ دلیل تحریر میں لایا۔
ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں میں سے ایک درویش نے نقل کیا کہ (خواجہ صاحب) فرمایا کرتے تھے کہ لوگ خیال کرتے ہیں کہ ہم اربابِ توحید کی کتابوں کے مطالعہ سے نسبت حاصل کرتے ہیں، ایسا نہیں ہے بلکہ (مطالعۂ کتب سے) مقصود یہ ہے کہ ایک ساعت کے لئے اپنے آپ کو غافل کرلیں۔ یہ بات سابق کلام کی تائید کرتی ہے۔
فضیلت پناہی شیخ عبد الحق (محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ) جو کہ ہمارے خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے مخلصوں میں سے ہیں، نقل کرتے ہیں کہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ رحلت کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم کو مکمل طور پر یقین حاصل ہوگیا کہ توحید (وجودی) ایک تنگ کوچہ ہے اور شاہراہ دوسری ہے۔ اگرچہ پہلے بھی ہم یہی جانتے تھے، لیکن اس قسم کا یقین اب ظہور پذیر ہوا ہے۔ اس بات سے یہ بھی مفہوم ہوتا ہے کہ آخر کار آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مشرب بھی توحیدِ وجودی سے مناسبت نہ رکھتا تھا۔ البتہ ابتدائے حال میں اگر اس قسم کی توحید ظاہر ہوئی ہو، تو کوئی ڈر کی بات نہیں ہے، بلکہ اکثر مشائخ کو ابتدا میں اسی قسم کی توحید ظہور پذیر ہوئی ہے اور آخر کار وہ اس سے نکل آئے ہیں۔
اور اسی طرح جذبہ نقشبندیہ کے مقام میں پہنچنے کے بعد حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کے طریقے ایک دوسرے سے جدا ہوجاتے ہیں اور علوم و معارف بھی ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ بعد ازاں حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ کا غلبہ اپنے مادری آباء و اجداد کی نسبتِ باطنی کے اعتبار سے ہے جو پشت در پشت سے بزرگ ہوتے چلے آئے ہیں اور یہ فنا و نیستی جو اوپر مذکور ہوچکی ہے، انہی بزرگوں کی نسبت کے لوازمات میں سے ہے۔ اس حقیر نے اپنے ہم عصر لوگوں کی مصلحت کو مدِ نظر رکھ کر طالبوں کی تربیت کے لئے حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ کا طریقہ اختیار کیا ہے، چونکہ آپ کے علوم و معارف ظاہری شریعت کے علوم علوم و معارف سے بہت زیادہ مناسبت رکھتے ہیں اور اس فاسد زمانہ میں جبکہ ارکانِ شریعت کی ادائیگی میں لوگ بہت سست ہوگئے ہیں ان کو ظاہر کرنا مناسب دیکھتے ہوئے طالبوں کے فائدے کی غرض سے اس طریقے کا تعین کیا۔ اگر حق سبحانہٗ اس حقیر کے ذریعے سے طریقۂ احراریہ کو رواج دینا چاہتا، تو عالم کو اس کے نور سے منور کردیتا۔ کیونکہ دونوں بزرگوں کے انوار بطریقِ کمال اس فقیر کو عطا فرمائے گئے ہیں اور دونوں بزرگوں کے طریقوں کی تکمیل (مجھ پر) ظاہر کردی گئی ہے۔ ﴿اَنَّ الْفَضْلَ بِیَدِ اللّٰهِ یُؤْتِیْهِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ﴾ (الحدید: 29) (بیشک فضل اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت بڑے فضل والا ہے)
بادشاہے ست کز عنایت خویش
ہر دو عالم بیک گدا بخشد
(عجب بادشہ ہے کہ چاہے اگر دو عالم، گدا ہی کو وہ بخش دے)
اگر بادشہ بر در پیر زن
بیاید تو اے خواجہ سَبْلَت مَکُن
(اگر بادشاہ آئے بڑھیا کے گھر تو اے خواجہ! ہرگز تعجب نہ کر)
اور بحکم ﴿وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ﴾ (الضحٰی: 11) (تم اپنے رب کی نعمت کا اظہار کرو) کے تحت (یہ حقیر) بعض پوشیدہ اسرار کو معرضِ ظہور میں لایا ہے۔ حق سبحانہٗ و تعالیٰ طالبانِ حق کو ان سے بہرہ مند فرمائے۔ اگرچہ (یہ فقیر) جانتا ہے کہ منکروں کو انکار کی زیادتی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا، لیکن مقصود طالبوں کو فائدہ پہنچانا ہے اور منکر اس بحث سے خارج ہیں اور مطمعِ نظر (مقصد) سے باہر ہیں۔ ﴿یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًا وَّیَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًا﴾ (البقرۃ: 26) (اس سے بہت لوگ گمراہ ہوتے ہیں اور بہت لوگ ہدایت پاتے ہیں)
اربابِ بصیرت پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ مصلحت کی بنا پر ایک طریقے کو اختیار کرنے سے دوسرے طریقے پر اس کی افضیلت لازم نہیں آتی اور نہ دوسرے طریقے کا نقص ظاہر ہوتا ہے۔
دروازہ شہر را تواں بست
نتواں دہنِ مخالِفاں بست
(شہر کا دروازہ ہو سکتا ہے بند، دشمنوں کا بند منہ ہو کس طرح)
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ذِی الْاِنْعَامِ وَالْمِنَّۃِ اَوَّلًا وَّآخِرًا وَّالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ وَالتَّحِیَّۃُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ سَرْمَدًا وَّعَلٰی اٰلِہِ الْاَخْیَارِ وَاَصْحَابِہِ الْاَبْرَارِ
(اول و آخر تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو بڑے انعام و احسان والا ہے اور صلوٰۃ و سلام اور تحیۃ ہو اس کے رسول ﷺ پر اور آپ ﷺ کی بزرگی اولاد اور نیک اصحاب پر)