دفتر 1 مکتوب 290: اس طریقے کے بیان میں کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے حضرت مجدد کو ابتدائے حال ہی میں اس کے ساتھ مخصوص فرما دیا تھا

دفتر اول مکتوب 290

ملا محمد ہاشم؂1 کی جانب صادر فرمایا۔ اس طریقے کے بیان میں کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے حضرت مجدد کو ابتدائے حال ہی میں اس کے ساتھ مخصوص فرما دیا تھا اور طالبوں کو اس طریقے پر چلانے کی توفیق بخشی تھی، اور طریقۂ عالیہ نقشبندیہ اور اندراجِ نہایت در بدایت کے بیان میں جو اس طریقے کے لوازم میں سے ہے، اور اس حضوری کے بیان میں جو اس طریقے کے بزرگوں کے نزدیک معتبر ہے جس کو نسبتِ نقشبندیہ سے تعبیر کرتے ہیں، اور بعض احوال، اذواق اور علوم و معارف وغیرہ کے بیان میں جو طریقہ نقشبندیہ میں حاصل ہوتے ہیں، اور ان بزرگوں کے جذبات کا بیان اور ان کے مناسب بیان میں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامَ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ آلِہٖ وَ أَصْحَابِہِ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاھِرِیْنَ (سب تعریف اللّٰہ رب العالمین کے لئے ہے اور حضرت سید المرسلین اور آپ کی آل و اصحاب طیبین و طاہرین پر صلوٰۃ وسلام ہو)

جاننا چاہیے کہ وہ طریقہ جو اقرب (بہت قریب والا)، اَسْبَقُ (جلد پہنچانے والا)، اَوْفَقُ (کتاب و سنت کے زیادہ موافق)، اَوْثَقُ (زیادہ معتبر و مضبوط)، اَسْلَمُ (تسلیم شدہ)، اَحْکَمُ (سب پر غالب)، اَصْدَقُ (زیادہ سچا)، اَدَلُّ (زیادہ رہنمائی والا)، اَعلیٰ (سب سے بلند)، اَجَلّ (زیادہ بزرگی والا)، اَرْفَعُ (زیادہ بلند)، اَکْمَلُ (زیادہ کامل و مکمل) ہے، وہ طریقہ عالیہ نقشبندیہ ہے۔ قدس اللّٰہ تعالیٰ ارواح اھالیھا و اسرار موالیھا (اللّٰہ تعالیٰ ان کی ارواح کو پاک کرے اور ان کے اسرار کی حفاظت فرمائے)۔ اس طریقے کی یہ تمام بزرگی اور اس سلسلے کے بزرگوں کی یہ علوِ شان روشن سنت علیٰ صاحبہا الصلوۃ و السلام و التحیہ کی متابعت کو لازم جاننے اور نا پسندیدہ بدعتوں سے پرہیز کرنے کی وجہ سے ہے۔ یہی (نقشبندی بزرگ) ہیں کہ اصحاب کرام علیہم الرضوان من الملک المنّان کی طرح ان کے کام کی ابتدا ہی میں انتہا مندرج ہو گئی ہے اور ان کے حضور و آگاہی کے دوام پیدا کر کے درجۂ کمال تک پہنچنے کے بعد ان کی آگاہی دوسروں کی آگہی پر فوقیت لے گئی ہے۔

اے بھائی! اللّٰہ تعالیٰ تم کو سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اس درویش کو جب اس راہ کی ہوس و خواہش پیدا ہوئی تو حق جل و علا کی عنایت ہادئ راہ بن کر اس کو ولایت پناہ، حقیقت آگاہ، اندراج النہایت فی البدایت کے طریقے کی ہدایت کرنے والے اور درجاتِ ولایت تک پہنچانے والے راستے کے والی اور پسندیدہ دین کی تائید کرنے والے ہمارے شیخ، آقا اور امام خواجہ محمد باقی قدس اللّٰہ تعالیٰ سرہٗ کی خدمت میں پہنچایا جو سلسلۂ حضراتِ نقشبندیہ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرار ہم کے ایک بہت بڑے خلیفہ تھے۔ انہوں نے اس درویش کو اسمِ ذات جل سلطانہٗ کا ذکر تعلیم فرمایا، اور اپنے مقررہ طریق پر ایسی توجہ فرمائی کہ مجھے کمال درجہ لذت حاصل ہوئی اور کمالِ شوق سے گریہ شروع ہو گیا۔ پھر ایک روز کے بعد بے خودی کی کیفیت جو ان بزرگوں کے نزدیک معتبر ہے اور غَیبت کے نام سے موسوم ہے مجھ پر طاری ہوئی۔ اس بے خودی کی حالت میں میں نے دیکھا کہ ایک محیط سمندر ہے جس میں تمام عالم کی صورتیں اور شکلیں اس طرح نمایاں ہیں جیسے پانی میں چیزوں کے عکس نظر آتے ہیں۔ یہ بے خودی آہستہ آہستہ غالب آتی گئی اور دیر تک رہنے لگی، کبھی ایک پہر اور کبھی دو پہر تک اور بعض مرتبہ رات بھر یہی حالت رہتی۔ جب میں نے یہ حالت حضرت پیر و مرشد خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے فرمایا: ”تم کو فنا کی ایک قسم حاصل ہو گئی ہے“۔ پھر آپ نے مجھے ذکر کرنے سے منع فرما دیا اور اس آگاہی کی نگہداشت کا حکم دیا۔ دو دن کے بعد مجھے ''فنائے مصطلح'' حاصل ہو گئی۔ جب میں نے اس کی کیفیت حضرت خواجہ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے فرمایا: ”اپنے کام میں لگے رہو“۔ بعد ازاں "فنائے فنا" حاصل ہوئی۔ پھر عرض کیا تو آپ نے فرمایا: "کیا تم عالم کو ایک دیکھتے ہو اور (ذات) واحد کے ساتھ متصل پاتے ہو؟" میں نے عرض کیا حضور! ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: "فنائے فنا میں قابلِ اعتبار یہ بات ہے کہ اس اتصال کے دیکھنے کے با وجود بے شعوری حاصل ہو"۔ چنانچہ اسی شب اس قسم کی "فنائے فنا" حاصل ہو گئی۔ میں نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں اس کی کیفیت بھی عرض کر دی کہ میں اپنے علم کو حق سبحانہٗ کی نسبت علمِ حضوری پاتا ہوں (یعنی علمِ حصولی پا لینے کے بعد بلا توسطِ حصولِ صورت علمِ حضوری پاتا ہوں) اور جو اوصاف میری طرف منسوب تھے حق سبحانہ ٗکی طرف منسوب پاتا ہوں۔ پھر ایک سیاہ رنگ کا نور ظاہر ہوا جو تمام اشیائے عالم کو گھیرے ہوئے تھا۔ میں سمجھا کہ حق جل و علا یہی ہے۔ جب میں نے عرض کیا تو حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ”حق جل سلطانہ مشہود ہے لیکن نور کے پردے میں ہے“۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ ”یہ انبساط اور پھیلاؤ جو اس نور میں دکھائی دیتا ہے (در اصل) "علم" میں ہے کیونکہ ذات حق جل شانہٗ کا تعلق متعدد اشیا کے ساتھ ہے جو کہ اوپر نیچے واقع ہوتی ہیں اس لئے منبسط اور پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے، اس انبساط کی بھی نفی کرنی چاہیے“۔ اس کے بعد وہ پھیلا ہوا سیاہ نور سکڑنے اور کم ہونے لگا حتیٰ کہ ایک نقطہ سا رہ گیا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ” اس نقطے کی بھی نفی کرنی چاہیے اور مقام حیرت میں آ جانا چاہیے“۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ چنانچہ وہ نقطۂ موہوم بھی درمیان میں زائل ہو گیا اور میں مقامِ حیرت تک پہنچ گیا کہ جس میں حق تعالیٰ کا شہود (پردۂ نور کے بغیر) خود بخود ہے۔ جب میں نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں یہ کیفیت عرض کی تو فرمایا: "یہی حضور، حضراتِ نقشبندیہ کا حضور ہے اور نسبتِ نقشبندیہ اسی حضور کو کہتے ہیں اور اس حضور کو حضورِ بے غیبت بھی کہتے ہیں اور اندراج نہایت در بدایت (بدایت میں نہایت کا مندرج ہونا) اسی مقام میں حاصل ہوتا ہے، اور اس طریقہ میں طالب کو اس نسبت کا حاصل ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے سلسلوں میں طالب کا اپنے پیر سے اذکار و اوراد اخذ کرنا تاکہ طالب ان پر عمل کر کے اپنے مقصود تک پہنچے"۔

قیاس کن ز گلستانِ من بہار مرا

ترجمہ:

مری بہار کا اندازہ گلستاں سے کر

اس درویش کو یہ عزیز الوجود نسبت ذکر کی تعلیم کی ابتدا سے دو ماہ اور چند روز بعد حاصل ہو گئی تھی اور اس فنا کے حاصل ہونے کے بعد ایک اور فنا حاصل ہوئی جس کو "فنائے حقیقی" کہتے ہیں اور دل کو اس قدر وسعت حاصل ہوئی کہ عرش سے لے کر مرکزِ زمین تک تمام عالمِ (موجودات) کو اس وسعت کے مقابلے میں رائی کے ایک دانے کی مقدار کے برابر بھی قدر حاصل نہ تھی۔ بعد ازاں میں اپنے آپ کو اور عالَم کے ہر فرد کو بلکہ ہر ذرّے کو دیکھتا تھا کہ یہ سب حق تعالیٰ ہے، اس کے بعد عالم کے ہر ذرّے کو الگ الگ اپنا عین دیکھا اور اپنے آپ کو ان سب کا عین پایا، یہاں تک کہ تمام عالم کو ایک ذرے میں گم پایا۔ اس کے بعد اپنے آپ کو بلکہ ہر ذرے کو اس قدر منبسط اور وسیع دیکھا کہ تمام عالم بلکہ اس سے کئی گنا اور عالم کی اس میں گنجائش ہے، بلکہ اپنے آپ کو اور ہر ذرے کو ایسا پھیلا ہوا نور پایا جو ہر ذرے میں سرایت کئے ہوئے ہے اور عالم کی صورتیں اور شکلیں اس نور میں گھل مل گئیں اور فنا ہو گئی ہیں۔ بعد ازاں میں نے اپنے آپ کو بلکہ ہر ذرے کو تمام عالم کا قائم رکھنے والا پایا۔ جب یہ کیفیت حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی تو آپ نے فرمایا "توحید میں "حق الیقین" کا مرتبہ یہی ہے اور "جمع الجمع" بھی اسی مقام کو کہتے ہیں"۔ بعد ازاں عالم کی تمام صورتیں اور شکلیں جن کو میں پہلے حق تعالیٰ پاتا تھا اب وہ وہمی اور خیالی دکھائی دینے لگیں۔ پہلے ہر ذرے کو بغیر کسی فرق و تمیز کے حق تعالیٰ پاتا تھا اور اب اسی ذرے کو موہوم پایا، اس امر سے نہایت حیرت ہوئی۔ اور اس اثنا میں فصوص الحکم کی وہ عبارت جو میں نے اپنے والد بزرگوار علیہ الرحمہ سے سنی تھی، یاد آئی کہ صاحبِ فصوص نے فرمایا ہے: "إِنْ شِئْتَ قُلْتَ إِنَّہٗ أَیِ الْعَالَمَ حَقٌّ وَ إِنْ شِئْتَ قُلْتَ إِنَّہٗ خَلْقٌ وَ إِنْ شِئْتَ قُلتَ إِنَّہٗ حَقٌّ مِّنْ وَجْہٍ وَّ خَلْقٌ مِّنْ وَّجْہٍ وَ إِنْ شِئْتَ قُلْتَ بِالْحَیْرَۃِ لِعَدَمِ التَّمِیْزِ بَینَھُمَا" (یعنی اگر تو چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ عالم حق سبحانہٗ ہے اور اگر چاہے تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ عالم مخلوق ہے اور اگر چاہے تو اس طرح بھی کہہ سکتا ہے کہ وہ ایک اعتبار سے حق ہے اور ایک اعتبار سے مخلوق ہے اور اگر تو چاہے تو ان دونوں میں تمیز نہ ہونے کی وجہ سے حیرت کا اظہار کرے۔ یعنی یہ سب بجا ہے)۔ اس عبارت سے اضطراب میں کسی قدر تسکین ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی حالت عرض کی تو آپ نے ارشاد فرمایا: "ابھی تمہارا حضور صاف نہیں ہوا، اپنے کام میں مشغول رہو حتیٰ کہ موجود اور موہوم میں تمیز واضح ہو جائے"۔ میں نے فصوص کی وہ عبارت عرض کی جس سے عدم تمیز ظاہر ہوتی تھی۔ حضرت نے ارشاد فرمایا کہ ”شیخ (ابن عربی رحمۃ اللہ علیہ) نے اس عبارت میں کامل شخص کا حال بیان نہیں کیا، عدمِ تمیز بھی بعض اشخاص کی نسبت ثابت ہے“۔ حسب الامر میں اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے محض حضرت ایشاں (خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ) کی توجۂ شریفہ سے دو روز کے بعد موجود اور موہوم کے درمیان تمیز ظاہر فرما دی، یہاں تک کہ میں نے موجودِ حقیقی کو موہومِ خیالی سے ممتاز پایا اور وہ صفات و افعال اور آثار جو موہومِ محض دکھائی دیتے تھے، میں نے حق سبحانہٗ سے دیکھا اور ان صفات و افعال کو بھی موہومِ محض پایا اور خارج میں بجز ایک ذات کے کچھ موجود نہ دیکھا۔ جب میں نے یہ حالت حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی تو ارشاد فرمایا کہ "مرتبہ فرق بعد الجمع" یہی ہے اور سعی و کوشش کی انتہا یہیں تک ہے، اس سے زیادہ جو کچھ کسی کی فطرت و استعداد میں مقدر کیا گیا ہے ظاہر ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ کو مشائخ طریقت مقامِ تکمیل کہتے ہیں"۔

جاننا چاہیے کہ اس درویش کو جب پہلی مرتبہ سکر سے صحو میں لائے اور فنا سے بقا کے ساتھ مشرف فرمایا تو میں جب اپنے وجود میں سے ہر ذرے میں نظر کرتا تھا تو حق تعالیٰ کے سوا کچھ نہ پاتا تھا اور ہر ذرے کو اس تعالیٰ کے شہود کا آئینہ پاتا تھا۔ اس مقام سے مجھے پھر حیرت میں لے گئے۔ پھر جب ہوش میں لائے تو میں نے حق سبحانہٗ کو اپنے وجود کے ذرات میں سے ہر ذرے کے ساتھ پایا نہ کہ ہر ذرے میں، اور پہلا مقام اس دوسرے مقام کی نسبت بہت نیچے نظر آیا۔ پھر حیرت میں لے گئے، جب ہوش میں لائے تو اس مرتبہ ميں حق سبحانہٗ کو میں نے نہ عالم کے متصل پایا نہ اس سے منفصل اور نہ عالم میں داخل پایا اور نہ اس سے خارج میں معلوم کیا۔ معیت و احاطہ اور سَریَان کی نسبت جس طرح کہ اول میں پاتا تھا بالکل منتفی ہو گئی، اس کے با وجود اسی کیفیت کے ساتھ مشاہدہ کرایا گیا بلکہ اس طرح گویا کہ محسوس کرا دیا گیا اور عالم بھی اس وقت مشہود تھا لیکن حق سبحانہٗ کے ساتھ اس نسبتِ مذکورہ سے کچھ نسبت نہ رکھتا تھا۔ پھر مجھے حیرت میں لے گئے، جب صحو میں لائے تو معلوم ہوا کہ حق سبحانہ و تعالیٰ کو عالم کے ساتھ اس نسبتِ مذکورہ کے علاوہ ایک اور نسبت ہے اور وہ نسبت مجہول الکیفیت ہے یعنی وہ تعالیٰ مجہول الکیفیت نسبت سے مشہود ہوا ہے۔ پھر مجھے حیرت میں لے گئے اور اس مرتبہ میں ایک قسم کا قبض طاری ہو گیا۔ پھر جب ہوش میں لائے تو حق تعالیٰ اس مجہول الکیفیت نسبت کے بغیر اس طرح مشہود ہوا کہ اس عالَم کے ساتھ کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا، نہ ہی معلوم الکیفیت اور نہ مجہول الکیفیت، اور عالم اس وقت بھی اسی خصوصیت کے ساتھ مشہود تھا۔ اس وقت مجھے ایک خاص علم عنایت ہوا جس کے باعث ہر دو شہود کے حاصل ہونے کے با وجود مخلوق اور حق تعالیٰ کے درمیان کوئی مناسبت نہ رہی۔ اس وقت مجھے بتایا گیا کہ اس صفت و تنزیہ کا مشہود ذاتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ نہیں ہے وہ تعالیٰ اس سے بلند و بر تر ہے بلکہ یہ مشہود اس کے تکوین کے تعلق کی مثالی صورت ہے کیونکہ حق تعالیٰ تعلقاتِ کونی سے بالا تر ہے خواہ وہ تعلق معلوم الکیفیت ہو یا مجہول الکیفیت، ھَیْھَاتَ ھَیْھَاتَ (ہرگز نہیں، یہ بعید از قیاس ہے) شعر:

کَیْفَ الْوُصُوْلُ إِلٰی سُعَادَ وَ دُوْنَھَا

قُلَلُ الْجِبَالِ وَ دُوْنَھُنَّ خُیُوْفٌ

ترجمہ:

ہائے پہنچوں کس طرح میں کوئے یار

راہ میں ہیں پر خطر کوہ اور غار

اے عزیز! اگر قلم کو تفصیلِ احوال اور معارف کے بیان میں جاری رکھوں تو معاملہ بہت طویل ہو جائے گا، بالخصوص توحیدِ وجودی کے معارف اور اشیاء کی ظلیت کے علوم اگر بیان کئے جائیں تو وہ جماعت جس نے توحیدِ وجودی میں اپنی ساری عمر گزار دی ہے، ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اس بحرِ بے کراں سے ایک قطرہ بھی انہوں نے حاصل نہیں کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہی جماعت اس درویش کو اربابِ توحیدِ وجودی میں شامل نہیں کرتی بلکہ توحیدِ وجودی کے منکرین علماء میں سے شمار کرتی ہے اور اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے یہ لوگ خیال کرتے ہیں که توحیدِ وجودی کے معارف پر اصرار کرنا ہی کمال ہے اور اس مقام سے ترقی کرنا نقص میں داخل ہے۔

بے خردے چند ز خود بے خبر

عیب پسندند بزعمِ ہنر

ترجمہ:

جو خود اپنی خبر نہیں رکھتے

عیب کو جانتے ہیں اپنا ہنر

اس امر میں اس جماعت کی دلیل پہلے مشائخ کے وہ اقوال ہیں جو توحیدِ وجودی کے بارے میں واقع ہوئے ہیں۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان حضرات کو انصاف کی توفیق عطا فرمائے کہ انہوں نے کیسے جان لیا کہ ان مشائخ کو اس مقام (وحدت الوجود) سے آگے ترقی واقع نہیں ہوئی اور وہ اسی مقام میں محدود ہو گئے ہیں۔ بات معارفِ توحیدی کے نفسِ حصول کے بارے میں نہیں ہے کیونکہ وہ تو اس راہ میں یقینی طور پر واقع ہے بلکہ بات در اصل اس مقام سے آگے ترقی کے بارے میں ہے، اگر ترقی کرنے والے حضرات کو توحیدِ وجودی کا منکر کہیں اور ان پر یہ اصطلاح لگا دیں تو کیا جھگڑا ہے۔

اب ہم اصل بات کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ جس طرح قلیل چیز کثرت پر دلالت کرتی ہے اور قطرہ بحرِ غدیر (بحرِ بے کناں) کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی طرح میں نے بھی مختصر کلام اور قطرے پر اکتفا کیا ہے۔

اے برادر! جب حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے مجھ کو کامل و مکمل جان کر تعلیمِ طریقہ کی اجازت عطا فرمائی اور طالبوں کی ایک جماعت کو میرے حوالے کیا تو اس وقت مجھ کو اپنے کمال و تکمیل میں تردد تھا، لیکن آپ نے فرمایا کہ تردد کا کوئی مقام نہیں ہے کیونکہ مشائخِ عظام نے ان ہی مقامات کو کمال و تکمیل کا مقام فرمایا ہے اگر اس مقام میں تردد کریں تو مشائخ کی کاملیت میں تردد لازم آتا ہے۔ حسب الحکم طریقت کی تعلیم دینی شروع کر دی، اور طالبوں کے کام میں توجہات کو مد نظر رکھا چنانچہ طالبوں میں اس کا بڑا اثر محسوس ہوا، یہاں تک کہ سالکوں کا سالوں کا کام گھڑیوں میں ہونے لگا۔ کچھ مدت تک اس کام کو بڑی سر گرمی اور مستعدی سے کرتا رہا۔ آخر کار پھر مجھے اپنے نقص کا علم پیدا ہوا اور مجھ پر ظاہر کیا گیا کہ تجلیٔ ذاتی برقی جس کو مشائخ کبار نے ”نہایت“ کہا ہے اس راہ میں کچھ بھی ظاہر نہیں ہوئی اور یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ ”سیر الی اللّٰہ اور سیر فی اللّٰہ“ کیا ہے۔ لہذا اس قسم کے کمالات کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس وقت اپنے نقص کا علم پختہ ہو گیا اور وہ طالب جو میرے گرد جمع تھے سب کو اکٹھا کر کے ان کے سامنے اپنا نقص بیان کیا اور سب کو رخصت کرنا چاہا لیکن طالبین میری اس بات کو کسرِ نفسی پر محمول کرتے ہوئے اپنے عقیدے سے نہ پھرے۔ پھر کچھ مدت کے بعد حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنے حبیب علیہ و آلہٖ الصلوات و التسلیمات کے طفیل احوالِ منتظرہ (یعنی تجلئ ذاتی برقی و معنیٔ سیر الی اللّٰہ و فی اللّٰہ) بھی عطا فرما دیئے۔

فصل:

جاننا چاہیے کہ حضرات خواجگان (نقشبندیہ) قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرار ہم کے طریقے کا حاصل اور خلاصہ اہل سنت و جماعت کے عقائد کے مطابق اعتقاد رکھنا ہے اور سنتِ سنیہ مصطفویہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ و السلام و التحیۃ کی اتباع اور بدعت اور ہوائے نفسانیہ سے اجتناب کرنا ہے، اور جہاں تک ممکن ہو سکے اہم امور میں عزیمت پر عمل اور رخصت پر عمل کرنے سے احتراز کرنا (بچنا) ہے۔ بعد ازاں جہتِ جذبہ میں اولًا استہلاک و اضمحلال ہے اور اس استہلاک کو عدم (فنا) سے تعبیر کرتے ہیں اور وہ بقا جو اس جہت میں اس استہلاک (فنا) کے متحقق ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہے، اس کو وجودِ عدم سے تعبیر کرتے ہیں یعنی وہ وجود اور بقا جو عدم (فنا) پر مترتب ہوتا ہے وہ استہلاک ہے۔ اس استہلاک اور اضمحلال سے یہ مراد نہیں کہ حِس بھی غائب ہو جائے بلکہ بعض کو اس استہلاک یعنی فنا کے بعد اتفاقًا حِس سے غَیبت (بے خبری) ہو جاتی ہے اور بعض کو نہیں ہوتی۔

اور اس بقا والے کے لئے ممکن ہے کہ صفاتِ بشریت کی طرف رجوع کرے اور اخلاقِ نفسانیہ کی طرف لوٹ آئے، بخلاف اس بقا کے جو فنا پر مرتب ہوتی ہے کہ اس سے عود کرنا جائز نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ حضرت خواجۂ بزرگ (نقشبند) قدس اللّٰہ تعالیٰ سرہ الاقدس نے اسی معنی کے لحاظ سے فرمایا ہو کہ "وجودِ عدم وجودِ بشریت کی طرف لوٹ آتا ہے، لیکن وجودِ فنا وجودِ بشریت کی طرف ہرگز عود نہیں کر سکتا کیونکہ بقائے اول (وجودِ عدم کے ساتھ) ابھی راہ میں باقی ہے اور راستے میں سے رجوع کرنا ممکن ہے، اور دوسرا (وجودِ فنا) واصل اور منتہی ہو چکا ہے اور واصل کے لئے رجوع نہیں ہوتا"۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں: "جو کوئی واپس لوٹا وہ راستے ہی میں تھا اور جو واصل ہو گیا وہ واپس نہیں لوٹا"۔

جاننا چاہیے کہ صاحبِ وجودِ عدم اگرچہ راستے ہی میں ہے لیکن "اندراج النہایت فی البدایت" کے تحت اپنے کام کی انتہا سے بھی آگاہ ہے، اور جو کچھ منتہی کو آخر میں میسر ہوتا ہے اس کا خلاصہ اس کو اس جہت میں مجمل طور پر حاصل ہو جاتا ہے، اور چونکہ اس نسبت نے منتہی کے ساتھ شمول و عموم پیدا کر لیا ہے اور اس نسبت کی سرایت و تاثر عام طور پر اس کی روحانیت و جسمانیت کو حاصل ہو چکی ہے اور وجودِ عدم کی یہ نسبت (بندے کے) خلاصۂ قلب پر موقوف ہے اگرچہ فی الجملہ اور اجمال ہی کے طور پر ہو، اسی وجہ سے منتہی تفصیل کا حامل ہوتا ہے اور اس کا صفاتِ جسمانیہ کی طرف رجوع کرنا ممتنع ہے کیونکہ اس نسبت نے اس کے مراتبِ جسمانیہ میں سرایت کر کے ان صفات سے اس کو باہر نکال کر فانی کر دیا ہے، اور یہ فنا محض عطیہ ہے اور عطیۂ خداوندی سے رجوع کرنا جناب قدس تعالیٰ و تقدس کی بارگاہ کے لائق نہیں ہے۔ بخلاف صاحبِ وجودِ عدم کے کہ یہ سرایت اس کے حق میں معدوم و مفقود ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے، چونکہ یہ تمام مراتب قلب کے تابع ہیں اور وہ نسبت تبعیت کے طور پر ان میں جاری و ساری ہے اور ان کو غلبے سے باز رکھ کر مغلوب کر چکی ہے لیکن فنا و زوال تک نہیں پہنچا سکی، اسی وجہ سے اس سے رجوع کرنا ممکن ہے کیونکہ مغلوب کبھی بعض عوارض کے پیش آنے اور بعض موانع کے لاحق ہونے کی بنا پر غالب ہو جاتا ہے اور زائل شدہ چیز کا واپس آنا ممکن نہیں جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے۔

جاننا چاہیے کہ اس سلسلہ عالیہ کے بعض مشائخ قدس اللّٰہ تعالیٰ ارواحہم نے استہلاک و اضمحلالِ مذکورہ کو اور اس بقا کو جو اس پر مترتب ہوتی ہے، فنا و بقا کا اطلاق کیا ہے اور تجلئ ذاتی اور شہود ِذاتی کا بھی اس مرتبہ میں اثبات کیا ہے اور باقی( بقا والے) کو "واصل" کہا ہے اور "یاد داشت" کو بھی جو جناب قدس حق سبحانہٗ کی بارگاہ کی دوامِ آگاہی سے عبارت ہے، اسی مقام میں متحقق جانتے ہیں، اور یہ سب کچھ "اندراج النہایت فی البدایت" یعنی ابتدا میں انتہا کے درج ہونے کے اعتبار سے ہے ورنہ فنا اور بقا منتہی اور واصل کے علاوہ اور کسی کو حاصل نہیں ہوتی اور تجلیٔ ذاتی بھی اسی کے ساتھ مخصوص ہے، اور اللّٰہ سبحانہ ٗکے ساتھ دوامِ حضور بھی منتہی واصل کے لئے ہے کیونکہ اس کے لئے رجوع ہر گز نہیں ہے۔ لیکن پہلا اطلاق بھی مذکورہ اعتبار سے صحیح ہے اور ایک عمدہ وجہ پر مبنی ہے۔ فنا و بقا، تجلیٔ ذاتی و شہودِ ذاتی، اور وصل و یاد داشت جو حضرت خواجہ احرار قدس اللّٰہ تعالیٰ سرہ الاقدس کی کتاب "فقرات" میں واقع ہے، (وہ بھی) اسی قسم سے ہے۔ ایک بزرگ فرمایا کرتے تھے کہ اس کتاب کے مکتوبات و رسائل میں جو کچھ تحریر ہے، اس کی اصل حضرت ایشاں (خواجہ احرار)کے بعض مخلصین کی عقل و دانش اور معرفت کے مطابق ہے۔ تَکَلَّمُوا النَّاسَ عَلٰی قَدْرِ عُقُوْلِھِمْ (لوگوں سے ان کے اندازۂ عقل کے مطابق کلام کرو) کے مقولے کی اس میں خاص رعایت رکھی گئی ہے۔ اور رسالہ "سلسلۃ الاحرار" جو حضرت خواجہ احرار کے کلام کے طریقے کے مطابق واقع ہوا ہے، اور "شرح رباعیات" جو کہ ہمارے خواجہ مؤید الدین الرضی شیخنا و مولانا محمدن الباقی سلمہ اللّٰہ تعالیٰ نے لکھی ہے، اسی قسم سے ہیں۔

اور اس بقا کا بلکہ ہر وہ بقا جو اس جذبے کے تحت پیدا ہو اس کا رخ "توحیدِ وجودی" کی طرف ہے۔ لہٰذا بعض مشائخ نے حق الیقین کو اس طرح بیان کیا ہے کہ آخر کار وہ "توحیدِ وجودی" پر منتج ہوتا ہے، اور اسی بیان نے بعض لوگوں کو شبہ میں ڈال دیا ہے کہ ان کے حق الیقین سے مراد تجلیٔ صوری ہے جس کا نتیجہ طعن و تشنیع ہوا۔ حق بات یہ ہے کہ ان کا حق الیقین اسی جذبے کی جہت سے پیدا ہوا ہے اور یہ معرفت اس مقام کے مناسب ہے۔ تجلیٔ صوری دوسری چیز ہے جیسا کہ اربابِ طریقت پر مخفی نہیں ہے اور کثرت کے آئینے میں وحدت کا شہود اس طرح مشاہدہ کرنا کہ آئینہ بالکل پوشیدہ ہو جائے اور (ذات) باقی کے علاوہ کچھ بھی مشہود نہ رہے، اس مقام کو "یاد داشت" کے مناسب جان کر اس مرتبہ پر "یاد داشت" کا اطلاق کیا ہے اور اس کو تجلیٔ ذاتی و شہودِ ذاتی بھی کہتے ہیں اور اس مقام کو "مقامِ احسان" یعنی اخلاص بھی فرمایا گیا ہے اور اسی گم ہونے کو "وصل" سے تعبیر کرتے ہیں۔ ؏

تو درو گم شو وصال این ست و بس

ترجمہ:

اس میں کھو جا وصال بس یہی ہے

اور یہ اصطلاح حضرت ناصر الدین خواجہ عبید اللّٰہ (احرار) کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس سلسلے کے مشائخ متقدمین میں سے کسی نے بھی اس اصطلاح کا ذکر نہیں فرمایا۔ ؏

ہر چہ خوباں کنند خوب آید

ترجمہ:

جو بھی اچھے کریں وہ اچھا ہے

آپ ہی کے کلمات قدسی صفات میں سے ہے کہ "ہماری زبان دل کا آئینہ ہے، اور دل روح کا آئینہ، اور روح حقیقتِ انسانی کا آئینہ اور حقیقتِ انسانی حق سبحانہٗ و تعالیٰ کا آئینہ ہے اور حقائقِ غیبیہ غیبی ذات سے دور دراز کی مسافتیں طے کر کے زبان پر آتے ہیں اور اس جگہ لفظوں کی صورت اختیار کر کے حقائق کی استعداد رکھنے والوں کے کانوں تک پہنچتے ہیں"۔ اور (حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ نے) یہ بھی فرمایا کہ "بعض اکابرین نے جن کی میں نے خدمت اختیار کی، انہوں نے دو چیزیں مجھے عطا فرمائیں: ان میں سے ایک یہ کہ "جو کچھ میں لکھوں وہ جدید ہو قدیم نہ ہو" دوسرے یہ کہ "جو کچھ میں کہوں وہ حق تعالیٰ کے نزدیک مقبول ہو مردود نہ ہو"۔ ان کلماتِ قدسیہ سے آپ کی بزرگی اور آپ کے معارف کی بلندیٔ شان مفہوم ہوتی ہے، اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ (خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ) ان باتوں کے درمیان نہیں ہیں اور آئینے سے زیادہ نہیں ہیں۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ حَالِہٖ وَ مَا عِندَہٗ مِنْ عُلُوِّ دَرَجَۃٍ وَّ مَنْزِلَۃِ کَمَالِہٖ (اور اللّٰہ سبحانہٗ ہی حقیقتِ حال سے واقف ہے اور ان کے بلند درجات اور منزلِ کمال کو بھی وہی جانتا ہے)۔ آپ مثنوی کے ان اشعار کو جو آپ کے حال کے مناسب ہیں، اکثر پڑھا کرتے تھے۔ مثنوی:

ہر کسے از ظنِ خود شد یار من

از درونِ من نجُست اسرارِ من

سِرّ من از نالۂ من دور نیست

لیک گوش و چشم را ایں نور نیست

ترجمہ:

لوگ اپنے ظن سے میرے یار ہیں

گو کہ بس نا واقفِ اسرار ہیں

راز میرا ہے نہیں نالہ سے دور

کانوں آنکھوں میں نہیں لیکن یہ نور

یہ حقیر اپنی ناقص فہم کے مطابق اس مکتوب کے آخر میں ان علوم و معارف کی حقیقت کا مختصر بیان تحریر کرے گا۔ وَ الْأَمْرُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اور اصل حکم اللّٰہ سبحانہ ہی کا ہے)۔

اگر حق سبحانہٗ اپنی کمالِ عنایت سے ان میں سے بعض کو اس جذبے کے حصول اور اس کی تمام جہت کے بعد سلوک کی دولت سے مشرف فرمائے تو جذبے کی مدد سے دور دراز کی مسافت کو جس کا اندازہ پچاس ہزار سال ہے آیت کریمہ کے مطابق: ﴿تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَ الرُّوْحُ إِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ أَلْفَ سَنَةٍ﴾ (المعارج: 4) ترجمہ: ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف ایک ایسے دن میں چڑھ کر جاتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے“۔ اسی اندازے کی طرف اشارہ ہے، تھوڑی سی مدت میں اس کو طے کیا جا سکتا ہے اور فنا فی اللّٰہ اور بقا باللّٰہ کی حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔

سلوک کی منتہا سیر الی اللّٰہ کی انتہا تک ہے کہ جس کو فنائے مطلق سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس کے بعد مقامِ جذبہ ہے جس کو سیر فی اللّٰہ اور بقا باللّٰہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ سیر الی اللّٰہ سے مراد اس اسم کی سیر ہے جس کا مظہر سالک ہے اور سیر فی اللّٰہ بھی اسی اسم کی سیر ہے، کیونکہ ہر اسم بے انتہا اسماء کا جامع ہے لہذا اس سیر کی بھی کوئی انتہا نہ ہو گی۔ اس درویش کو اس مقام میں خاص معرفت حاصل ہے اور اس کا ذکر بھی ان شاء اللّٰہ تعالیٰ جلد ہی کیا جائے گا۔ عروج کے مراتب میں یہ اسم عینِ ثابتہ کے اوپر ہے کیونکہ سالک کا عینِ ثابتہ اسی اسم کا ظل اور اسی کی صورتِ علمیہ ہے۔ وہ جماعت جو حق جل شانہ ٗکے فضل کے ساتھ مخصوص ہے وہ اس اسم سے بھی آگے عروج کر جاتی ہے اور بے نہایت، جہاں تک اللّٰہ تعالیٰ چاہے ترقیات حاصل کرتی ہے۔ شعر:

وَ مِنْ بَعْدِ ھٰذَا مَا یَدِقُّ صِفَاتُہٗ

وَ مَا کَتْمُہٗ أَحْظٰی لَدَیْہِ وَ أَجْمَلُ

ترجمہ:

بعد اس کے جو بھی ہے محجوب ہے

اس کا پوشیدہ ہی رہنا خوب ہے

اگرچہ تمام دوسرے سلسلوں کے اربابِ سلوک جہتِ ثانی میں ان (نقشبندیہ) حضرات کے ساتھ شریک ہیں اور فنا فی اللّٰہ و بقا باللّٰہ کے ساتھ متحقق ہیں لیکن وہ مسافت جو اربابِ سلوک ریاضات اور مجاہدات کی بنا پر طے کرتے ہیں اور ایک طویل زمانے کے بعد اس کی انتہا کو پہنچتے ہیں، اس عالی خاندان کے بزرگ شہود کی دولت کی لذت اور مقصود کے ذوقِ یافت کی وجہ سے اس طویل مسافت کو تھوڑے عرصے میں طے کر لیتے ہیں اور اپنے کعبۂ مطلوب تک پہنچ جاتے ہیں اور مقصود تک پہنچنے کے بعد بے انتہا ترقی کرتے ہیں کہ (دوسرے) اربابِ سلوک کے منتہی اس ترقی اور قرب میں بہت کم حصہ پاتے ہیں کیونکہ جذبے کا سلوک پر مقدم ہونا ایک قسم کی محبوبیت کے معنی چاہتا ہے، جب تک طالب ”مراد“ نہ بن جائے اس کو جذب نہیں کرتے اور جب اپنی طرف کھینچتے ہیں تو معاملہ نزدیک تر ہو جاتا ہے اور بہت زیادہ قرب پیدا کر لیتا ہے جس کو طلب کیا گیا ہو (یعنی مطلوب و مراد ہو) اور جو طلب کرنے والا ہو (یعنی طالب و مرید) ان دونوں میں بہت فرق ہے۔ ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

مثنوی:

عشقِ معشوقاں نہان است و ستیر

عشقِ عاشق با دو صد طبل و نفیر

لیک عشقِ عاشقاں تن زہ کند

عشقِ معشوقاں خوش و فربہ کند

ترجمہ:

عشق معشوقاں نہاں ہر وقت ہے

عشقِ عاشق بس عیاں ہر وقت ہے

عشق، عاشق کو مگر لاغر کرے

عشق، معشوقوں کو فربہ تر کرے

اور اگر یہ کہا جائے کہ دوسرے سلاسل کے ”مراد والے“ (ارباب طریقت) بھی اس ترقی اور قرب میں شریک ہیں کیونکہ جذبہ ان کے سلوک پر بھی مقدم ہے لہذا اس طریقۂ (نقشبندیہ) کی دوسرے طریقوں پر فضیلت کیوں کر ہوئی اور اس کو قریب ترین طریقہ کس وجہ سے کہا گیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ دوسرے طریقے اس معنی کے حصول کے لئے وضع نہیں کئے گئے بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان میں سے بعض کو یہ دولت اتفاقًا ہاتھ آ جاتی ہے اور یہ طریقہ (نقشبندیہ) اس دولت کے حصول کے لئے ہی وضع کیا گیا ہے۔

"یاد داشت" جو اس سلسلہ عالیہ کے اکابرین کی عبارت میں واقع ہے وہ جذبہ و سلوک کی دونوں جہتوں کے متحقق ہونے کے بعد متصور ہوتی ہے اور اس کو نہایت کہنا شہود و آگاہی کے مراتب کی انتہا کے اعتبار سے ہے، ورنہ "نہایتِ مطلق" وراء الوراء ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ شہود یا تو صورت کے آئینے میں ہے یا معنی کے آئینے میں، یا صورت و معنی سے وراء ہے جس کو "شہودِ بے پردہ برقی "کہتے ہیں۔ یعنی اس شہود کا حصول برق کی مانند ہے، پھر پردے میں ہو جاتا ہے۔ یہی شہود اگر فضلِ ایزدی جل سلطانہٗ سے دوام اختیار کر لے اور مکمل طور پر پردوں کی تنگی سے باہر نکل آئے تو اسے "یاد داشت" کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور یہی حضور بے غَیبت ہے لہذا جب بھی شہود پردے میں ہو گا غَیبت متحقق ہو گی، جب تک دائمی طور پر بے پردگی پیدا نہ ہو جائے اس پر "یاد داشت" کے نام کا اطلاق نہیں ہوتا۔

یہاں ایک نکتہ ہے جس کا جاننا ضروری ہے کہ ہر واصل کے سِرّ (باطن) کو رجوع نہیں ہوتا۔ اور اس کی آگاہی دائمی ہوتی ہے لیکن اس نسبت کا سَرَیان ان کے کلیہ میں برق کی مانند ہے، بخلاف محبوبوں کے کہ جن کا جذبہ ان کے سلوک پر مقدم ہے، ان کے حق میں یہ سَرَیان دائمی ہے اور ان کے کلیہ نے سِرّ کا حکم اختیار کر لیا ہے اور وہ سِرّ کا کام انجام دیتا ہے جیسا کہ اس کے متعلق اشارہ کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان کے جسم ان کی روحوں کے مانند نرم ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ان کے ظاہر ان کے باطن کی طرح اور ان کے باطن ان کے ظاہر کی طرح ہو جاتے ہیں۔ پس لازمی طور پر ان کی آگاہی میں غَیبت کی گنجائش نہیں لہذا یہ نسبت تمام نسبتوں سے بالا تر ہے۔ یہی معنی ان حضرات (نقشبندیہ) کی کتب و رسائل سے ظاہر و شائع ہوتے ہیں۔ کیونکہ نسبت سے مراد آگاہی ہے اور آگاہی کے مراتب کی انتہا یہی ہے کہ بے پردہ میسر ہو اور دوام اختیار کر لے۔ اس طریقے کے مشائخ جو اس نسبت کو اپنے طریقے کے ساتھ مخصوص جانتے ہیں اس دولت (حضور و آگاہی) کے حصول کے لئے اس طریق کے وضع کے اعتبار سے ہے، جیسا کہ گزر چکا، اور اگر دوسرے بعض سلاسل کے اکابرین کو بھی یہ دولت میسر ہو جائے تو جائز ہے اور واقع ہے۔

اکابر اہل اللّٰہ کے پیشوا شیخ ابو سعید ابو الخیر قدس اللّٰہ تعالیٰ سرہٗ اس آگاہی کا ایک رمز بیان کرتے ہیں اور اپنے استاد؂2 سے اس کی تحقیق فرماتے ہیں اور دریافت کرتے ہیں کہ کیا یہ حدیث (کیفیت) دائمی ہوتی ہے؟ استاد جواب میں فرماتے ہیں "نہیں"۔ شیخ دوبارہ اس سوال کا تکرار کرتے ہیں اور وہی جواب پاتے ہیں۔ پھر جب تیسری مرتبہ اسی سوال کو عرض کیا تو (استاد نے) جواب میں فرمایا "اگر ایسا ہو تو شاد و نادر ہوتی ہے"۔ یہ سن کر شیخ (ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ) حالتِ وجد میں آ گئے اور فرمایا کہ یہ بھی انہی نوادرات میں سے ہے۔

اور جو کچھ کہ میں نے کہا تھا کہ "نہایتِ مطلق وراء الوراء ہے"۔ اس کی وضاحت یہ ہے کہ اس آگاہی کے حاصل ہونے کے بعد اگر عروج واقع ہو تو وہ حیرت کے بھنور میں پڑ جاتا ہے اور اس آگاہی کو تمام عروج کے مراتب کی طرح پیچھے چھوڑ جاتا ہے۔ یہی وہ حیرت ہے جس کو "حیرتِ کبریٰ" کے نام سے موسوم کرتے ہیں اور جو اکابر الاکابر کے ساتھ مخصوص ہے، جیسا کہ ان بزرگوں کی کتابوں میں واقع ہے۔ ایک بزرگ اس مقام میں فرماتے ہیں۔

حسنِ تو مرا کرد چناں زیر و زبر

کز خال و خط و زلفِ تو ام نیست خبر

ترجمہ:

حسن نے تیرے کر دیا ہے نڈھال

خال و خط کا بھی کچھ رہا نہ خیال

ایک اور بزرگ فرماتے ہیں:

عشق بالائے کفر و دیں دیدم

برتر از شک و از یقیں دیدم

کفر و دین و یقیں و شک ہر چار

ہمہ با عقل ہم نشیں دیدم

چوں گذشتم ز عقلِ صد عالَم

چوں بگویم کہ کفر و دیں دیدم

ہر چہ ہستند سدِّ راہ تواند

سدِّ اسکندری ہمیں دیدم

ترجمہ:

عشق اونچا ہے کفر و دیں سے بھی

شک سے افضل ہے اور یقیں سے بھی

کفر و دین و یقین و شک جو ہیں

عقل تک ہے رسائی ان سب کی

جب میں دنیا کی عقل سے گزرا

کفر و دیں کی حقیقت اب جانی

سامنے جو ہے سب رکاوٹ ہے

سدِّ اسکندری یہی ہے بنی

ایک دوسرے بزرگ فرماتے ہیں:

لَا وَ ھُوْ زاں سرائے روز بہی

باز گشتند حبیب و کیسہ تہی

ترجمہ:

لَا کی اور ھُوْ کی منزلیں بھی خام

درگہِ حق سے واپسی نا کام

اس حیرت کے حاصل ہونے کے بعد "مقامِ معرفت "ہے۔ دیکھئے کس کو اس دولت سے مشرف فرماتے ہیں، اور "کفرِ حقیقی" کے بعد "ایمانِ حقیقی" کے حصول کے ساتھ جو کہ "مقامِ حیرت" ہے نوازتے ہیں۔ محققین کے مطلوب کی انتہا اسی ایمان میں ہے، اور مقامِ دعوت اور کمالِ متابعت حضرت صاحبِ شریعت علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ ﴿أَدْعُوٓا إِلَى اللّٰہِ عَلٰى بَصِيْـرَةٍ أَنَا وَ مَنِ اتَّبَعَنِىْ﴾ (یوسف: 108) ترجمہ: ”میں بھی پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور جنہوں نے میری پیروی کی ہے وہ بھی“ اسی مقام میں ہے، اور آں سرور دین و دنیا علیہ الصلوۃ و السلام اسی ایمان کے طلب گار ہیں اور فرماتے ہیں: "اَللّٰھُمَّ أَعْطِنِی إِیْمَانًا صَادِقًا وَّ یَقِیْنًا لَّیْسَ بَعْدَہٗ کُفْرٌ"؂3 ترجمہ: ”(اے اللّٰہ) تو مجھے ایمانِ صادق عطا فرما اور ایسا یقین نصیب فرما جس کے بعد کفر نہ ہو“ اور آپ "کفرِ حقیقی" سے جو کہ "مقامِ حیرت" ہے، پناہ مانگتے ہیں اور فرماتے ہیں: "أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الفَقْرِ وَ الْکُفْرِ"؂4 ترجمہ: ”اے اللّٰہ میں فقر اور کفر سے تیری پناہ مانگتا ہوں“۔ یہ مرتبہ حق الیقین کے مرتبوں کی انتہا ہے، اور اس مقام پر "علم" اور "عین" ایک دوسرے کے لئے حجاب نہیں ہیں۔ شعر:

ھَنِیْئًا لِّأَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا

وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْکِیْنِ مَا یَتَجَرَّعُ

ترجمہ:

مبارک منعموں کو ان کی نعمت

مبارک عاشق مسکیں کو کلفت

اس نکتے کو ذہن نشین کر لو۔

اللّٰہ تعالیٰ تم کو ہدایت دے، جان لو کہ ان بزرگوں کا جذبہ دو قسم کا ہے: اول قسم وہ ہے جو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پہنچا ہے، اس اعتبار سے ان (مشائخ نقشبندیہ) کا طریقہ حضرت (صدیق اکبر رضی اللہ عنہ) کی طرف منسوب ہے اور اس کا حاصل کرنا ایک خاص توجہ پر موقوف ہے جو جملہ موجودات کی قیوم ہے اور اس میں استہلاک و اضمحلال (یعنی فنا و استغراق) نصیب ہوتا ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جس کے ظہور کا مبدأ اس طریقے میں حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ ہیں، اور وہ (جذبہ) معیتِ ذاتیہ کی راہ سے پیدا ہوتا ہے، اور وہ جذبہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے ان کے خلیفۂ اول خواجہ علاؤ الدین کو پہنچا ہے۔ چونکہ وہ اپنے وقت کے "قطبِ ارشاد" تھے اس لئے آپ نے اس قسم کے جذبے کے حصول کے لئے ایک طریقہ بھی وضع فرما دیا اور وہ طریقہ آپ کے خاندان کے خلفا میں "طریقہ علائیہ" کے نام سے مشہور ہے اور ان کی تحریر میں درج ہے کہ سب سے اقرب اور نزدیک تر طریقوں میں "طریقہ علائیہ "ہے۔ اگرچہ اس جذبے کی بنیاد حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ سے ہے، لیکن اس جذبے کو حاصل کرنے کے لئے طریقے کا وضع کرنا خواجہ علاء الدین قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہٗ کے ساتھ مخصوص ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ طریقہ کثیر البرکت ہے، اس طریقے کا تھوڑا سا حصہ بھی دوسرے طریقوں کے مقابلے میں زیادہ نفع بخش ہے۔ اس وقت تک علائیہ و احراریہ خاندانوں کے مشائخ اس دولتِ عظمی سے بہرہ مند ہیں اور طالبوں کی تربیت اسی طریقے سے فرما رہے ہیں۔ حضرت خواجہ عبید اللّٰہ احرار رحمۃ اللہ علیہ کو یہ دولتِ عظمیٰ مولانا یعقوب چرخی علیہ الرضوان سے جو حضرت خواجہ علاء الدین رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا میں سے ہیں، پہنچی ہے۔

اول قسم کا جذبہ جو حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی طرف منسوب ہے اس کے حصول کے لئے ایک علیحدہ طریقہ موضوع ہے اور وہ طریقہ "وقوف عددی" ہے۔ وہ سلوک بھی جو اس جذبے کے حاصل ہونے کے بعد متحقق ہوتا ہے دو قسم پر مشتمل ہے، بلکہ اس کی کئی قسمیں ہیں۔ ایک قسم وہ ہے کہ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اس طریقے کے ساتھ پیوستہ ہیں یعنی مقصود تک پہنچے ہیں اور حضرت رسالت خاتمیت علی صاحبہا الصلوۃ و التحیۃ بھی اسی خانۂ جذبہ اور اسی طریقے سے مقصود تک پہنچے ہیں، اور حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ اپنے کمالِ اخلاص کے باعث جو کہ آپ آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام سے رکھتے تھے اور ان کی محبت میں فانی تھے اسی وجہ سے تمام اصحاب کرام رضوان اللّٰہ تعالی و تقدس علیہم اجمعین کے درمیان اس طریقے کی خصوصیت کے ساتھ مخصوص ہوئے ہیں۔ اسی جذبہ و سلوک کی نسبت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کو بھی اسی خصوصیت کے ساتھ پہنچی ہے، اور چونکہ حضرت امام (جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ) کی والدہ ماجدہ حضرت صدیق رضی اللّٰہ تعالی کی اولاد میں سے تھیں، اسی بنا پر امام (جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ) نے ان دونوں جہتوں کے اعتبار کی وجہ سے فرمایا: "وَلَدَنِیْ أَبُو بَکْر مَرَّتَیْنِ" (مجھے حضرت ابو بکر سے نجیب الطرفین ہونے کا شرف حاصل ہے) اور چونکہ حضرت امام (جعفر صادق) کو اپنے آباء کرام سے جدا نسبت حاصل ہے اس لئے وہ ان دونوں طریقوں کے جامع ہیں اور اس جذبے کو آپ نے ان کے سلوک کے ساتھ جمع کر دیا ہے اور اس سلوک کے ذریعے مقصود تک پہنچے ہیں۔ ان دونوں سلوک کے درمیان فرق یہ ہے کہ حضرت امیر (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ) کا سلوک سیرِ آفاقی سے قطع ہوتا ہے اور حضرت صدیق رضی اللّٰہ عنہ کا سلوک (حضرت امیر رضی اللہ عنہ) کی سیرِ آفاقی سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھتا۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے خانۂ جذبہ سے نقب لگا کر مطلوب تک پہنچا دیا جائے۔ سلوک اول (حضرت علی رضی اللہ عنہ والے سلوک) میں معارف کا حصول ہے اور دوسرے یعنی صدیق رضی اللہ عنہ والے سلوک میں غلبۂ محبت ہے۔ پس لازمی طور پر حضرت امیر رضی اللہ عنہ "باب مدینہ علم"؂5 قرار پائے اور حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے آں سرور علیہ الصلوۃ و السلام کی خلت (دوستی) کی قابلیت حاصل کر لی جیسا کہ آں حضرت علیہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا: "لَوْ کُنْتُ مُتَّخِذًا أَحَدًا خَلِیْلًا لَّاتَّخْذْتُ أَبَا بَکْرٍ خَلِیْلًا" ترجمہ: ”اگر میں کسی کو اپنا خلیل دوست بناتا تو ابو بکر کو بناتا“۔ لہذا حضرت (امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ) نے جہت جذبہ کی جامعیت کے اعتبار سے کہ جس کی بنیاد محبت پر ہے، اور سلوک آفاقی کی جہت سے کہ جس کا منشاء علوم و معارف ہے، محبت و معرفت دونوں سے وافر حصہ حاصل کیا۔ بعد ازاں حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے اس "نسبتِ مرکبہ" کو ودیعت کے طریق پر بطور (امانت) سلطان العارفین (با یزید بسطامی) قدس اللّٰہ تعالیٰ سرہٗ کے سپرد کر دیا، گویا اس بار امانت کو آپ نے ان کی پشت پر رکھا، تاکہ بتدریج وہ امانت اس کے اہل تک پہنچ جائے۔ ان کی توجہ کا رخ اس امانت کے اٹھانے سے پیش تر دوسری جانب تھا کیونکہ ان کی نسبت اس امانت کے تحمل سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی تھی اور اس تحمل میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں، اگرچہ اس نسبت کے اٹھانے والے حضرات نے اس نسبت سے بہت کم حصہ پایا ہے، لیکن اس نسبت کو ان بزرگوں کے انوار سے بہت بڑا حصہ ملا ہے۔ مثلًا سکر کی وہ قسم جو اس نسبت سے ملی ہوئی ہے، وہ سلطان العارفین (با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ) کے انوار کے آثار میں سے ہے، وہ سکر مبتدیوں کو حس سے بیگانہ بنا دیتا ہے اور ہوش غائب کر دیتا ہے۔ اس کے بعد رفتہ رفتہ یہ سکر پوشیدہ ہوتا جاتا ہے اور صحو کے غلبے کے اعتبار سے وہ نسبت صحو کے مراتب میں گھل مل جاتی ہے۔ یعنی ظاہر میں صحو اور باطن میں سکر ہوتا ہے اور یہ بیت ان کے حال کے مناسب ہے:

از دروں شو آشنا و از بروں بیگانہ باش

ایں چنیں زیبا روش کم مے بود اندر جہاں

ترجمہ:

آشنا باطن میں، بیگانہ ہو ظاہر میں کوئی

یہ روش کیا خوب ہے لیکن نہیں اس کا سراغ

علیٰ ہذا القیاس، اسی طرح وہ نسبت ہر بزرگ سے نور حاصل کرتی ہوئی اپنے اہل تک پہنچ گئی، اور وہ عارف ربانی حضرت خواجہ عبد الخالق غجدوانی قدس اللّٰہ تعالیٰ و تبارک اسرارہم ہیں جو حضرات خواجگان کے سلسلے کے سرِ حلقہ ہیں، جن کے زمانے میں یہ نسبت عالیہ از سرِ نو تازگی حاصل کر کے ظہور کے میدان میں آگئی۔ ان کے بعد اس سلسلہ میں سلوک آفاقی کی یہ نسبت پھر پوشیدہ ہو گئی، اور جذبہ حاصل ہونے کے بعد مشائخ کرام دوسرے راستوں سے سلوک حاصل کر کے عروج کو پہنچے، یہاں تک کہ حضرت خواجہ نقشبند قدس اللّٰہ تعالیٰ سرہ القدس عالم میں ظہور پذیر ہوئے اور وہ نسبت اسی جذبے اور سلوکِ آفاقی کے ساتھ دوبارہ نمودار ہوئی اور ان دونوں جہتوں کی وجہ سے "معرفت و محبت" کے کمال کی جامع ہو گئی، اور اس جامعیت کے با وجود جذبے کی ایک دوسری قسم جو معیت کی راہ سے پیدا ہوتی ہے وہ بھی آپ کو عطا فرمائی گئی، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا۔ آپ (خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ) کے کمالات سے بہت بڑا حصہ آپ کے نائب مناب حضرت خواجہ علاء الحق و الدین رحمۃ اللہ علیہ کو حاصل ہوا، اور آپ ان ہر دو جذبے اور سلوک آفاقی کی دولت سے مشرف ہوئے اور قطبِ ارشاد کے مقام تک پہنچے۔ اسی طرح حضرت خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ نے بھی ان کے کمالات سے پورا پورا حصہ حاصل کیا۔ حضرت خواجہ بزرگ (خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اللہ علیہ) اپنی عمر کے آخری ایام میں آپ (خواجہ پارسا رحمۃ اللہ علیہ) کے بارے میں فرمایا کرتے تھے کہ "جس کو میری ملاقات کی آرزو ہو وہ محمد پارسا سے ملاقات کر لے" اور یہ بھی ان حضرت (خواجہ بزرگ) سے منقول ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ "بہاء الدین (یعنی میرے) وجود کا مقصود محمد (پارسا) کا ظہور ہے۔ حضرت خواجہ پارسا کو ان کمالات کے با وجود مولانا عارف ریوگری کی فردیت کی نسبت بھی حاصل تھی جو انہوں نے اپنی عمر کے آخری ایام میں آپ کو عطا فرمائی تھی، اور اسی نسبت کے غلبے کی وجہ سے آپ کو شیخی کی مسند پر بیٹھے اور طالبوں کی تکمیل کرانے سے تامل تھا، ورنہ آپ کو کمال و تکمیل میں بہت بلند درجہ حاصل تھا۔ حضرت خواجہ نقشبند رحمۃ اللہ علیہ آپ (خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ) کی نسبت فرمایا کرتے تھے کہ اگر وہ شیخی یعنی پیری اختیار کرے تو تمام عالم ان سے منور ہو جائے" اور مولانا عارف نے فردیت کی اس نسبت کو مولانا بہاء الدین؂6 (قشلاتی) سے جو ان کے دادا تھے، حاصل کیا تھا۔

جاننا چاہیے کہ نسبت فردیت کی توجہ مکمل طور پر حق سبحانہٗ کی طرف ہوتی ہے اور اس کا تعلق شیخی و تکمیل اور دعوت سے بالکل نہیں ہے۔ اگر وہ نسبت قطبِ ارشاد کی نسبت کے ساتھ کہ جس کا تعلق مقامِ دعوت و تکمیلِ خلق سے ہے، جمع ہو جائے تو پھر دیکھنا چاہیے کہ اگر فردیت کی نسبت غالب ہے تو ارشاد و تکمیل کا پلہ اس صورت میں مغلوب ہو جائے گا ورنہ ان دو نسبتوں والا حدِ اعتدال میں ہو گا یعنی اس کا ظاہر مکمل طور پر مخلوق کے ساتھ ہے اور اس کا باطن بالکلیہ حق تعالیٰ و تقدس کے ساتھ۔ مخلوق کو خالق کی طرف دعوت دینے کے مقام میں ان دو نسبتوں والا بڑا درجہ رکھتا ہے۔ اگرچہ قطبِ ارشاد کی نسبت والا تنہا بھی مقام دعوت میں کافی ہے لیکن ان بزرگوں کو اس مقام میں ایک اور ہی درجہ حاصل ہے، ان کی نظر امراض قلبی کو شفا بخشتی ہے اور ان کی صحبت برے اور نا پسندیدہ اخلاق کو دور کر دیتی ہے۔ سید الطائفہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ اس دولتِ عظمیٰ کی سعادت سے بہرہ مند تھے اور اس مرتبہ سے شرف حاصل کئے ہوئے تھے ان کو قطبیت کی نسبت حضرت شیخ سری سقطی سے حاصل ہوئی تھی اور فردیت کی نسبت شیخ محمد قصاب (آملی) سے تھی۔ ان کے پاکیزہ کلمات میں سے ایک یہ ہے کہ "لوگ خیال کرتے ہیں کہ میں سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ کا مرید ہوں۔ نہیں، میں تو محمد قصاب کا مرید ہوں"۔ گویا نسبتِ فردیت کو غالب کر کے آپ نے قطبیت کی نسبت کو فراموش کر دیا اور اس کو (نسبتِ فردیت) کے مقابلے میں معدوم سمجھا۔

حضرت خواجہ نقشبند کے خلفاء کے بعد اس بزرگ خاندان کے چراغ حضرت خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ تھے جو خواجگان کے جذبے کو مکمل طور پر طے کرنے کے بعد سیر آفاقی کی طرف متوجہ ہوئے اور جب تک سیر کو اسم تک نہیں پہنچایا اس وقت تک بغیر اس کے کہ اس اسم میں آ کر اپنے آپ کو فنائیت اور استہلاک پیدا کریں پھر خانۂ جذب میں آ گئے اور اسی جہت میں آپ نے خاص اضمحلال اور استہلاک پیدا کیا، پھر اسی جہت میں ایک طرح کی بقا بھی حاصل کی۔ مختصر یہ کہ آپ اس جہت میں عظیم شان رکھتے تھے، اور علوم و معارف جو فنا و بقا کے ذریعے حاصل ہوتے ہیں، آپ کو اسی مقام میں حاصل ہو گئے۔ اگرچہ دونوں جہتوں کے تغائر (فرق) ہونے کے اعتبار سے علوم میں تفاوت ظاہر ہے اور ان تفاوت میں سے ایک توحیدِ وجودی کا اثبات اور عدمِ اثبات ہے اور اسی طرح ان امور کا اثبات کرنا جو توحیدِ وجودی کے مناسب ہیں۔ مثلًا احاطہ و سریان اور معیت ذاتیہ اور کثرت میں وحدت کا اس طرح مشاہدہ کرنا کہ کثرت بالکل پوشیدہ ہو جائے کہ سالک کی زبان پر کلمہ "انا" ہرگز نہ آئے وغیرہ۔ بخلاف ان علوم کے جو فنائے مطلق کے بعد بقا پر مترتب ہوتے ہیں، کیونکہ وہ اس طرح سے نہیں ہیں بلکہ ان کے علوم شریعتِ حقہ کے علوم سے مطابقت رکھتے ہیں اور اس قسم کے حیلے بہانے اور تکلفات اور سوال و جواب کے محتاج نہیں ہیں۔

مختصر یہ کہ وہ بقا جو جذبے کی جہت میں ہے، وہ جزبہ خواہ کسی قسم کا ہو، سکر سے نہیں نکالتا اور صحو میں نہیں لاتا۔ اسی طرح سے (اس کلمہ) "انا" کی بقا کے با وجود باقی پر رجوع نہیں کرتی اور نہ ہی اس کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ جذبے میں محبت کا غلبہ ہے اور محبت کے غلبے کے لئے سکر لازم ہے لہذا کسی بھی وجہ سے وہ سکر سے جدا نہیں ہوتا اس لئے اس کے علوم میں بھی سکر کی آمیزش ہوتی ہے۔ مثلًا وحدتِ وجود کا قائل ہونا سکر اور غلبۂ محبت پر مبنی ہے، اس حیثیت سے کہ اس کی نظر میں سوائے محبوب کے اور کوئی چیز باقی نہیں رہتی اس لئے وہ محبوب کے علاوہ سب کی نفی کا حکم دیتا ہے۔ اگر وہ صحو میں آتا تو محبوب کا شہود اس کے لئے ما سوا کے شہود سے مانع نہ ہوتا اور وحدتِ وجود کا حکم نہ کرتا، اور وہ بقا جو فنائے مطلق کے بعد ہے اور سلوک کی انتہا ہے اس کا منشا، صحو اور معرفت کا مبدأ ہے۔ سکر کو اس مقام میں کوئی دخل نہیں ہے، سالک کے جو علوم و معارف فنا کی حالت میں گم ہو جاتے ہیں وہ سب رجوع کر آتے ہیں لیکن اصل کے رنگ میں رنگین ہوتے ہیں اور یہی معنی بقا باللّٰہ کے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے علوم میں سکر کی مجال نہیں ہوتی لہذا ان کے علوم حضرات انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات و التحیات و البرکات الیٰ یوم الدین کے علوم کے مطابق ہوتے ہیں۔

اور اسی طرح میں نے ایک بزرگ سے سنا ہے کہ حضرت خواجہ (احرار رحمۃ اللہ علیہ) نے اپنی والدہ کے آبا و اجداد سے بھی جو عجیب و غریب احوال والے تھے اور قوی جذبہ رکھتے تھے، ایک نسبت حاصل کی تھی اور بارہ اقطاب کے مقام سے جن کے ساتھ دین کی تائید وابستہ ہے اور جو محبت میں بھی عظیم شان رکھتے ہیں، حضرت خواجہ (احرار رحمۃ اللہ علیہ) کو ان سے بھی بہت بڑا حصہ حاصل تھا اور شریعت کی تائید اور دین آپ کو وہیں سے میسر ہوئی تھی۔ ان (خواجہ احرار رحمۃ اللہ علیہ) کے بلند حالات میں سے کچھ حصہ گزر چکا ہے۔ بعد ازاں ان بزرگوں کے طریقے کا احیاء اور ان عزیزوں کے آداب کی اشاعت سے بالخصوص ممالکِ ہندوستان جہاں کے باشندے ان کے کمالات سے بہرہ تھے، ارشاد پناہی معارف آگاہی مؤید الدین الرضی شیخنا و مولانا محمدن الباقی سلمہ اللّٰہ تعالیٰ کے ظہور کی برکت سے متحقق ہو گئی۔ یہ فقیر چاہتا تھا کہ حضرت موصوف کے کمالات میں سے بھی کچھ اس مکتوب میں درج کرے لیکن حضرت کی رضا اس بارے میں مفہوم نہ ہوئی لہذا اس باب میں جرأت نہ کی۔

؂1 آپ کے نام تیرہ مکتوبات ہیں، دفتر اول مکتوب 290، 310، 313۔ دفتر دوم مکتوب 74، 93، 97۔ دفتر سوم مکتوب 42، 52، 68، 75، 90، 92، 96۔ حضرت خواجہ محمد ہاشم بن محمد بن قاسم کی موضع کشمی، علاقہ بدخشاں میں ولادت ہوئی، ابتدائی تعلیم کے بعد آپ ہندوستان تشریف لائے۔ اتفاقًا برہان پور پہنچے تو حضرت خواجہ میر نعمان رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات ہو گئی اور آپ ان سے بیعت ہو گئے۔ بعد ازاں میر صاحب کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہو گیا۔ اسی دوران حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے خط و کتابت کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ سنہ 1031ھ میں پہلی بار حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دو سال تک سفر و حضر، خلوت و جلوت میں حضرت کی خدمت میں رہے۔ چنانچہ حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اجل خلفاء میں آپ کا شمار ہے۔ آپ کو انشا پردازی اور شاعری میں بھی کمال حاصل تھا۔ آپ کی تصانیف میں "زبدۃ المقامات" بہت مشہور ہے، اس کے فارسی اور اردو تراجم شائع ہو چکے ہیں اور حال ہی میں دوسری تصنیف "نسمات القدس" کا اردو ترجمہ بھی شائع ہو گیا ہے۔ ولادت سنہ 989ھ اور وفات سنہ 1054ھ برہان پور میں ہوئی۔

؂2 شیخ ابو علی دقاق قدس سرہٗ نیشا پوری۔ وفات ماہ ذی قعدہ سنہ 405ھ۔

؂3 ترمذی، طبرانی، بیھقی اور محمد بن نصر اللہ المروزی نے کتاب الدعوات میں بیان کیا ہے۔

؂4 بیھقی اور حاکم نے اس حدیث کو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا۔

؂5 یہ قول اس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "أَنَا دَارُ الْحِکْمَۃِ وَ عَلِيٌّ بَابُھَا" اور یہ حدیث: "أَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُھَا" (ترمذی) سے بھی مشہور ہے۔ علماء نے کہا ہے کہ یہ حدیث شُریک کے علاوہ ثقہ راویوں میں سے کسی ایک سے بھی مروی نہیں ہے۔

؂6 مولانا بہاؤ الدین قشلاقی اپنے دور کے مقتدا اور صاحبِ کرامات بزرگ تھے۔ ان کی ولادت قشلاق میں ہوئی جو بخارا کے مضافات میں بارہ فرسنگ کی مسافت پر ہے۔ آپ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ کے شیخِ صحبت اور استادِ حدیث تھے اور مولانا عارف ریو گری کے والد تھے۔ مولانا عارف حضرت میر کلال رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کرنے سے پہلے ان کے مرید تھے۔