دفتر 1 مکتوب 289: قضا و قدر کے اسرار اور اس کے مناسب بیان میں

دفتر اول مکتوب 289

مولانا بدر الدین؂1 کی طرف صادر فرمایا۔ قضا و قدر کے اسرار اور اس کے مناسب بیان میں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

تمام تعریفیں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہیں کہ جس نے قضا و قدر کے اسرار کو اپنے خاص بندوں پر منکشف فرمایا اور عوام کی نظر سے اس راز کو اس لئے پوشیدہ رکھا تاکہ وہ راہِ راست اور میانہ روی سے بھٹک نہ جائیں، اور صلوٰۃ و سلام ہو اس ذاتِ عالی پر کہ جس کے توسط سے حق تعالیٰ نے اپنی حجتِ بالغہ کو کامل و مکمل کر دیا اور ان کی وجہ سے نا فرمانوں اور ہلاک ہونے والوں کے جھوٹے حیلے ٹوٹ گئے اور ان کے نیکو کار آل و اصحاب اور ان پرہیز گاروں پر بھی جو قدر پر ایمان لائے اور قضا پر راضی ہوئے۔

اس (حمد و صلوٰۃ) کے بعد واضح ہو کہ مسئلہ قضا و قدر (کی تحقیق) میں اکثر لوگ حیرت اور گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں اور اکثر ناظرین پر اس مسئلے کے وہم و خیال غالب رہتے ہیں حتیٰ کہ جو کچھ افعال بندے سے اختیار کے ساتھ صادر ہوتے ہیں ان کے بارے میں بعض (یعنی جبریہ) نے کہا ہے کہ یہ محض جبر ہے اور بعض (یعنی قدریہ) بندے کے افعال کو خدائے واحد و قہار کی طرف منسوب نہیں کرتے۔ ان دونوں گروہوں (یعنی جبریہ و قدریہ) میں سے ہر ایک نے اعتقاد میں جو کہ صراطِ مستقیم اور راہِ راست ہے (اعتدال اور میانہ روی کو چھوڑ کر) افراط و تفریط کو اختیار کر لیا ہے۔ اس اعتدال و میانہ روی کے راستے سے فرقۂ ناجیہ نے موافقت کی ہے جو کہ اہل سنت و جماعت رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہم و عن اسلافہم و اخلافہم ہیں، لہذا ان حضرات نے افراط و تفریط کو چھوڑ کر اعتدال و میانہ روی کو اختیار کیا ہے۔

حضرت امام ابو حنیفہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت امام جعفر صادق بن محمد (باقر) رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما سے دریافت کیا کہ اے فرزندِ رسول اللّٰہ! کیا اللّٰہ تعالیٰ نے کوئی امر (معاملہ) اپنے بندوں کے سپرد کر دیا ہے؟ انہوں نے جواب میں فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ اس بات سے عظیم اور برتر ہے کہ اپنی ربوبیت کو اپنے بندوں کے سپرد کر دے۔ پھر (امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے) عرض کیا کہ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے اس پر بندوں کو مجبور پیدا کیا ہے؟ (امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے) فرمایا کہ یہ بات بھی اللّٰہ تعالیٰ کی شانِ عدالت سے بعید ہے کہ بندوں کو پہلے کسی بات پر مجبور کر دے، پھر اُن کو اس پر عذاب دے۔ پھر عرض کیا اس معاملہ کی اصل حقیقت کیا ہے؟ (امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے) فرمایا کہ (حقیقتِ معاملہ) اس کے بین بین ہے، نہ بالکل جبر ہے نہ تفویض (بالکل مختار) اور نہ اکراہ (مجبور کرنا) ہے نہ تسلیط (کسی حکم کا مسلط کر دینا)۔ (حضرت مجدد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں) اسی لئے اہل سنت نے فرمایا کہ بندوں کے اختیاری افعال، خلق و ایجاد کی حیثیت سے حق تعالیٰ کی قدرت کی طرف منسوب ہیں، اور دوسری حیثیت یعنی کسب و اکتساب کی رو سے بندوں کی قدرت کی طرف منسوب ہیں لہذا بندوں کی حرکت کو حق تعالیٰ کی قدرت کی طرف نسبت کے اعتبار سے مخلوق اور ایجاد کہتے ہیں اور بندہ کی قدرت کے ساتھ ربط اور تعلق کے اعتبار سے کسب و اکتساب کہتے ہیں۔

(لیکن اہلِ سنت میں سے امام ابو الحسن) اشعری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان اس طرف ہے کہ بندوں کے اختیار کو ان کے افعال میں کچھ دخل نہیں ہے۔ لیکن تحقیق یہ ہے کہ حق سبحانہٗ بطریق جری العادت (یعنی عادت اللّٰہ اسی طرح جاری ہے) کہ ان (بندوں) کے اختیار کے بعد ان کے افعال کو وجود میں لے آتا ہے۔ اسی لئے ان (امام ابو الحسن اشعری رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک قدرتِ حادثہ (بندے کا اختیار) کوئی تاثیر نہیں رکھتی، اور یہ مذہب جبر کی طرف مائل ہے اسی لئے اس کو "الجبر المتوسط" کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے، اور استاذ ابو اسحاق اسفرائنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اصل فعل اور حصولِ فعل میں قدرتِ حادثہ کی تاثیر کو دخل ہے اور (بندے کا فعل) دونوں قدرتوں (یعنی اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت اور بندے کی قدرت) کے مجموعے سے وجود میں آتا ہے۔ انہوں نے اثرِ واحد کے لئے دو مختلف جہتوں کے لحاظ سے دو مؤثروں کا جمع ہونا جائز قرار دیا ہے، اور قاضی ابو بکر الباقلانی رحمۃ اللہ علیہ وصفِ فعل سے قدرتِ حادثہ (بندے کی قدرت) کی تاثیر کے بایں طور قائل ہیں جب کہ فعل کو طاعت و معصیت (دونوں) کے ساتھ موصوف کر دیا جائے۔ اس بندۂ ضعیف کے نزدیک مختار یہ ہے کہ اصلِ فعل اور وصفِ فعل دونوں میں (بیک وقت) قدرتِ حادثہ کی تاثیر کو دخل ہے، کیونکہ قدرتِ حادثہ کی تاثیر کے بغیر وصف میں تاثیر کے کوئی معنی نہیں۔ کیونکہ وصف کا اثر اصل پر متفرع ہوتا ہے۔ لیکن وہ اصل فعل کی تاثیر پر ایک زائد تاثیر کا محتاج ہے، کیونکہ وصف کا وجود اصل کے وجود پر زائد ہے، اور بندے کی قدرت کی تاثیر کے قول میں کوئی محذور گناہ نہیں ہے۔ اگرچہ یہ بات اشعری پر گراں ہو گی، کیونکہ قدرتِ حادثہ میں تاثیر کا وصف بھی اللّٰہ سبحانہٗ کی ایجاد ہے جیسا کہ ”نفسِ قدرت“ بھی اس بزرگ تعالیٰ کی ایجاد سے ہے اور قدرتِ حادثہ کی تاثیر کا قول وہی ہے جو صواب کے نزدیک ہے۔ اشعری کا مذہب فی الحقیقت دائرۂ جبر میں داخل ہے کیونکہ ان کے نزدیک بندے کا حقیقت میں کوئی اختیار نہیں ہے اور نہ ہی اس کی قدرتِ حادثہ میں کوئی تاثیر ہے مگر یہ کہ جبریہ کے نزدیک فعلِ اختیاری کو بھی فاعل کی طرف حقیقی طور پر منسوب نہیں کیا جاتا بلکہ مجازی طور پر نسبت کرتے ہیں۔ لیکن اشعری کے نزدیک فاعل (یعنی بندے) کے ساتھ حقیقتًا نسبت کی جاتی ہے، اگرچہ اس کے لئے خاص طور پر کوئی اختیار ثابت نہیں۔ کیونکہ فعل حقیقی طور پر بندے کی قدرت کی طرف منسوب ہوتا ہے خواہ یہ قدرت کسی درجہ میں مؤثر ہو جیسا کہ اشعری کے علاوہ اہلِ سنت کا مذہب ہے، یا مدارِ محض ہو جیسا کہ اشعری کا مذہب ہے۔ اسی فرق کے اعتبار سے اہلِ حق کا مذہب اہلِ باطل کے مذہب سے ممتاز ہو جاتا ہے۔ لیکن فعل کی فاعل سے حقیقی طور پر نفی کرنا اور مجازی طور پر اس کا اثبات کرنا جیسا کہ جبریہ کا مذہب ہے، کفرِ محض اور بدیہی امر کا انکار ہے۔

صاحبِ تمہید؂2 نے فرمایا ہے کہ جبریہ میں سے بعض اس بات کے قائل ہیں کہ بندے سے کسی فعل کا صادر ہونا ظاہری اور مجازی طور پر ہے، حقیقتًا اس کو کوئی استطاعت و طاقت حاصل نہیں ہے بلکہ بندہ ایک درخت کی مانند ہے کہ جب ہوا اس کو حرکت دیتی ہے تو وہ متحرک ہو جاتا ہے، اسی طرح بندہ بھی درخت کی طرح مجبورِ محض ہے۔ یہ قول کفر ہے اور جس نے ایسا اعتقاد رکھا وہ کافر ہو گیا۔ نیز (صاحبِ تمہید) نے یہ بھی فرمایا کہ جبریہ میں ان کے قول کے مطابق بندوں کے اپنے افعال میں سے کوئی فعل حقیقتًا نہ خیر ہے نہ شر، اور (بندے) جو کچھ کرتے ہیں ان کا فاعل وہی حق سبحانہٗ ہے۔ یہ بھی کفر ہے۔

اگر کوئی سوال کرے کہ جب بندے کی قدرت کے لئے افعال میں کوئی تاثیر نہیں اور نہ حقیقتًا اس کو کوئی اختیار ہے تو پھر اشعری کے نزدیک بندے کی طرف حقیقتًا افعال کی نسبت کرنے کے کیا معنی ہیں؟ ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں کہ اگرچہ بندے کی قدرت کو افعال کے صدور میں کوئی تاثیر نہیں ہے لیکن حق سبحانہٗ نے اس کو وجودِ افعال کا مدار بنا دیا ہے، اس طریقے پر کہ حق تعالیٰ اپنی عادتِ جاریہ کے مطابق بندوں کو افعال کی طرف ان کے اپنے اختیار اور قدرت صَرف کر دینے کے فورًا بعد افعال کو پیدا کر دیتا ہے اور بندہ کی قدرت وجود افعال کے لئے علّتِ عادیہ بن جاتی ہے۔ لہذا اس طرح عادت کے طور پر افعال کے صادر ہونے میں قدرت کا خاص دخل ثابت ہے کیونکہ افعال بندے کی قدرت کے بغیر عادتًا وجود میں نہیں آ سکتے، اگرچہ افعال کے صادر ہونے میں اس کی کوئی تاثیر ثابت نہیں ہے، لہذا علّتِ عادیہ کے اعتبار سے بندوں کے افعال کی حقیقتًا ان کی طرف نسبت کی جاتی ہے اور مذہبِ اشعری کی تصحیح میں کلام کی نہایت یہی ہے۔ لیکن اب بھی یہ کلام محلِ تأمّل ہے۔

جاننا چاہیے کہ اہل سنت قدر (تقدیر) پر ایمان رکھتے ہیں اور اس امر کے قائل ہیں کہ قدر خواہ خیر ہو یا شر، شیریں ہو یا تلخ، سب اللّٰہ سبحانہٗ کی طرف سے ہے کیونکہ قدر و تقدیر کے معنی احداث اور ایجاد کے ہیں اور معلوم ہے کہ سب امور کا محدث اور موجد اللّٰہ سبحانہٗ ہے اور اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے: ﴿لَاۤ إِلٰهَ إِلَّا هُوَ خَالِقُ كُلِّ شَىۡءٍ فَاعۡبُدُوۡهُ﴾ (الأنعام: 102) ترجمہ: ”اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ ہر چیز کا خالق ہے۔ لہذا اس کی عبادت کرو“۔ معتزلہ اور قدریہ نے قضا و قدر کا انکار کیا اور انہوں نے دعوٰی کیا ہے کہ بندوں کے افعال محض بندے کی قدرت کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر اللّٰہ سبحانہٗ شر کا فیصلہ کرے اور پھر اس پر عذاب دے تو یہ بات اس ذاتِ عالی کی طرف سے جور و ستم ہے۔ یہ قول ان کی جہالت کے باعث ہے کیونکہ حق سبحانہٗ کی قضا بندے سے قدرت اور اختیار کو سلب نہیں کرتی بلکہ اس طرح قضا فرمائی کہ بندہ اپنے اختیار کے ساتھ اس کو کرے یا نہ کرے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ایسی قضا (بندے کے) اختیار کو لازم اور واجب قرار دیتی ہے اور اس اختیار کو ثابت کرتی ہے وہ ہرگز اس کے منافی نہیں ہے اور (معتزلہ کا قول) حق تعالیٰ کے افعال کے بھی خلاف ہے کیونکہ قضا کے اعتبار سے حق سبحانہٗ و تعالیٰ کے افعال یا تو واجب ہیں یا ممتنع۔ کیونکہ اگر قضا وجود سے متعلق ہے تو واجب ہے اور اگر عدم وجود سے ہے تو ممتنع ہے۔ لہذا اگر اختیار کے ساتھ فعل کا واجب ہونا اختیار کے منافی ہوتا تو باری تعالیٰ اپنے افعال میں خود مختار نہ رہے گا، اور یہ بات کفر ہے۔ یہ بات کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ اس بات کا قائل ہونا اور بندے کے لئے کمالِ ضعف کے با وجود اپنے افعال کی ایجاد میں مستقل طور پر قدرت تسلیم کرنا نہایت بے وقوفی ہے اور کمال نا دانی اس کا منشا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ما وراء النہر کے مشائخ شکر اللّٰہ تعالیٰ سعیہم نے اس مسئلے میں ان (معتزلہ و قدریہ) کی تضلیل (گمراہی) کے بارے میں بہت مبالغہ کیا ہے اور یہاں تک کہہ دیا کہ مجوس کا حال ان کے حال سے بہتر ہے، کیونکہ مجوس نے ایک شریک کے علاوہ دوسرے کا اثبات نہیں کیا اور معتزلہ نے بے شمار شریک ثابت کر دیئے ہیں۔

جبریہ نے دعویٰ کیا ہے کہ بندے کا ہرگز اس کا اپنا کوئی فعل نہیں ہے، نہ قدرت، نہ ارادہ اور نہ اختیار۔ اس کی حرکات جمادات کی طرح ہیں، اور کہا ہے کہ بندے کو نہ تو اس کے اچھے کام پر کوئی ثواب دیا جائے گا اور نہ برے کام پر کوئی عذاب کیا جائے گا، کفار اور گنہگار لوگ معذور ہیں اس لئے ان سے کوئی باز پرس نہ ہو گی کیونکہ تمام افعال اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور بندہ اس میں مجبورِ محض ہے۔ یہ قول بھی کفر ہے اور یہ گروہ مرجئہ ملعون ہے کیونکہ یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ معصیت کوئی ضرر نہیں پہنچاتی اور عاصی کو کوئی سزا نہیں ہو گی۔

حضرت نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و آلہٖ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: "لُعِنَتِ الْمُرْجِئَۃُ عَلٰی لِسَانِ سَبْعِیْنَ نَبِیًّا"؂3 ترجمہ: ”مرجئہ ستر انبیاء کی زبان سے لعنت کئے گئے ہیں“۔ ان کا مذہب ظاہر طور پر باطل ہے اس لئے کہ "حرکت ِبطش" (اپنے اختیار سے حرکت دینے) اور "حرکتِ ارتعاش" (مرضِ رعشہ سے حرکت پیدا ہونے) میں فرق ظاہر ہے اور ہم یہ بات قطعی طور پر جانتے ہیں کہ پہلی حرکت اختیاری ہے اور دوسری غیر اختیاری۔ نصوص قطعیہ بھی اس مذہب کی نفی کرتی ہے جیسا کہ حق تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ﴾ (الواقعہ: 24) ترجمہ: ”یہ سب بدلہ ہو گا ان کاموں کا جو وہ کیا کرتے تھے“۔ اور نیز حق تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَمَنۡ شَآءَ فَلۡيُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡيَكۡفُرۡ﴾ (الکہف: 29) ترجمہ: ”اب جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر اختیار کرے“ وغیرہ۔

اور جاننا چاہیے کہ اکثر لوگ اپنی کم ہمتی اور ناقص نیتوں کی وجہ سے حیلے اور عذر تلاش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے نفس سے آخرت کے سوال و جواب کو نکال دیں اور باز پرس سے بچ جائیں۔ لہذا وہ اشعری کے مذہب بلکہ جبریہ کے مذہب کی طرف مائل ہیں، اور کبھی وہ اس بات کا دعوٰی کرتے ہیں کہ بندے کو حقیقتًا کوئی اختیار حاصل نہیں اور فعل کی نسبت بھی اس کی طرف مجازًا ہے، اور کبھی بندے کے ضعفِ اختیار کے قائل ہوتے ہیں جس سے جبر لازم آتا ہے۔ اسی طرح اس مقام میں بعض صوفیہ کے کلام کو سنتے ہیں کہ (وہ کہتے ہیں) تمام کاموں کا فاعل ایک ہی ہے اور بس، اور بندے کی قدرت کو اس کے اپنے افعال و حرکات میں کوئی دخل نہیں ہے اور اس کی حرکات جمادات کی حرکات کی مانند ہیں، بلکہ بندے کا وجود ذات و صفت کی رو سے سراب کی مانند ہے جیسے پیاسا آدمی ہموار و چمک دار زمین کو (دور سے) پانی گمان کرتا ہے یہاں تک کہ جب وہ اس کے نزدیک پہنچتا ہے تو وہاں کوئی چیز نہیں پاتا البتہ اپنے نزدیک اللّٰہ تعالیٰ کی ذات کو پاتا ہے۔ (صوفیہ کی) اس قسم کی باتوں نے ان کو اپنے قول و فعل میں مداہنت و سستی پر دلیر کر دیا ہے۔ لہذا ہم اس مقام میں تحقیق کے طور پر کہتے ہیں کہ اللّٰہ سبحانہٗ ہی حقیقتِ حال سے خوب واقف ہے۔ اگر حقیقتًا بندے کے لئے اختیار ثابت نہ ہوتا جیسا کہ اشعری کا مذہب ہے تو اللّٰہ تعالیٰ ظلم کی نسبت بندوں کی طرف نہ کرتا۔ کیونکہ اشعری کے نزدیک نہ ہی بندوں کو کچھ اختیار حاصل ہے اور نہ ہی ان کی قدرت کے لئے کچھ تاثیر ہے بلکہ ان کی قدرت و تاثیر ان کے نزدیک مدار محض ہے، حالانکہ اللّٰہ سبحانہٗ نے اپنی کتاب مجید میں متعدد مقامات؂4 پر ظلم کو بندوں کی طرف منسوب کیا ہے، اور تاثیر کے بغیر قدرت کا محض مدار ہونا اگرچہ فی الجملہ ہی ہو، ظلم کا ذمہ دار نہیں بنایا۔ ہاں حق تعالیٰ کا بندوں کو تکلیف یا عذاب دینا بغیر اس امر کے کہ ان کے لئے اختیار ثابت ہو، ہرگز ظلم نہیں ہے کیونکہ وہ سبحانہٗ مالک علی الاطلاق (مطلق طور پر مالک) ہے اور جس طرح چاہتا ہے اپنی مطلق مِلک میں تصرف کرتا ہے۔ لیکن ان (بندوں) کے ساتھ ظلم کی نسبت سے ان کے اختیار کا ثبوت لازم آتا ہے۔ اور اس مسئلے میں مجاز کا احتمال متبادر (فورًا ذہن میں آنے والا) کے خلاف ہے۔ لہٰذا بلا ضرورت اس کا ارتکاب نہیں کرنا چاہیے۔ لیکن ضعفِ اختیار کا قائل ہونا دو حال سے خالی نہیں، اگر ضعف سے مراد یہ ہے کہ حق تعالیٰ کے اختیار کی نسبت بندے کا اختیار ضعیف ہے تو یہ بات مسلم ہے اور اس میں کوئی جھگڑا نہیں، اور اگر ضعف کے یہ معنیٰ ہیں کہ افعال کے صدور میں بندے کا استقلال نہیں تو یہ بھی تسلیم ہے، لیکن ضعف کے یہ معنیٰ مسلم نہیں کہ صدور افعال میں بندے کے اختیار کو کچھ دخل نہیں ہے۔ یہ اول مسئلہ ہے جس میں نزاع ہے اور منع کی سند تفصیلی طور پر پہلے گزر چکی ہے۔

اس بات کو جاننا چاہیے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ان کی طاقت کے اندازے اور استطاعت کے مطابق تکلیف دی ہے اور اس تکلیف میں بھی رعایت رکھی ہے کیونکہ انسان کی خلقت ضعیف ہے جیسا کہ اللّٰہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿يُرِيۡدُ اللهُ أَنْ يُّخَفِّفَ عَنۡكُمۡ‌ وَ خُلِقَ الۡإِنْسَانُ ضَعِيۡفًا﴾ (النساء: 28) ترجمہ: ”اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے اور انسان کمزور پیدا ہوا ہے“۔ تخفیف کیوں نہ کرے جب کہ وہ سبحانهٗ حکیم (حکمت والا) رؤف (مہربانی کرنے والا) اور رحیم (بڑا مہربان) ہے لہٰذا اس کے لئے سزا وار نہیں کہ وہ اپنے بندے کو ایسی تکلیف دے جو اس کی استطاعت سے باہر ہو۔ چنانچہ اس نے اپنے بندے کو بڑے بھاری پتھر اٹھانے کا حکم نہیں دیا جس کو وہ اٹھا نہ سکے، بلکہ ایسی چیزوں کا مکلف کیا ہے جس کو بندہ آسانی سے انجام دے سکتا ہے، جیسے "نماز" جس میں قیام، رکوع، سجود اور قرأتِ میسرہ (آسان قرأت) شامل ہیں اور یہ سب نہایت ہی آسان ہیں۔ اسی طرح "روزہ" اس میں بھی بہت سہولت ہے اور "زکوٰۃ" کا بھی یہی حال ہے جس کا چالیسواں حصہ (سال گزرنے پر) مقرر ہے، سارا یا نصف مال دینا نہیں کیا جو بندہ پر دشوار ہو، اور یہ بھی اس کی کمال رافت و مہربانی ہے کہ اس نے عذر کی موجودگی میں مامور بہ (فرض و واجب) کا بدل و عوض بھی مقرر فرما دیا چنانچہ وضو کا بدل تیمم کو مشروع کر دیا اور اسی طرح حکم دیا کہ اگر کوئی کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ بیٹھ کر ادا کرے اور جو کوئی بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو وہ پہلو پر لیٹ کر نماز ادا کرے اور جو شخص رکوع و سجود کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ اشارے سے ادا کرے وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی بہت سہولتیں ہیں جو اس شخص پر پوشیدہ نہیں جو احکامِ شرعیہ کو اعتبار کی نظر سے دیکھنے والا ہے۔ غرض ان تمام تکلیفاتِ شرعیہ میں بہت زیادہ آسانی اور سہولت ہے اور تکلیفات والے اوراق میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی اپنے بندوں پر کمال درجہ رافت ظاہر ہوتی ہے۔ ان تکلیفاتِ شرعیہ کے آسان ہونے کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ عوام اور زیادہ تکلیفاتِ شرعیہ کی آرزو کرتے ہیں یعنی چاہتے ہیں کہ فرض روزے ماموراتِ شرعیہ سے زیادہ ہوتے یا فرض نمازیں زیادہ ہوتیں علیٰ ہذا القیاس۔ اس قسم کی تمنا و آرزو کی وجہ صرف یہی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنی کمال مہربانی سے رعایت و تخفیف فرمائی ہے اور ان احکام شرعیہ کی بجا آوری میں آسانی پیدا کی ہے۔ بعض لوگوں کو ان احکام میں آسانی محسوس نہ ہونے کی وجہ ان کے نفسِ امارہ کی خواہشات اور "نفسانی ظلمتیں" اور "طبعی کدورتیں" ہیں جو اللّٰہ سبحانہٗ کی دشمنی میں کھڑی رہتی ہیں جیسا کہ اللّٰہ سبحانہٗ کا ارشاد ہے: ﴿کَبُـرَ عَلَى الۡمُشۡرِكِيۡنَ مَا تَدۡعُوۡهُمۡ إِلَيۡهِ‌﴾ (الشوریٰ: 13) ترجمہ: ”مشرکین کو وہ بات بہت گراں گزرتی ہے جس کی طرف تم انہیں دعوتے دے رہے ہو“۔ نیز اللّٰہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :﴿وَ إِنَّهَا لَكَبِيۡرَةٌ إِلَّا عَلَى الۡخٰشِعِيۡنَ﴾ (البقرۃ: 45) ترجمہ: ”نماز بھاری ضرور معلوم ہوتی ہے مگر ان لوگوں کو نہیں جو خشوع (یعنی دھیان اور عاجزی) سے پڑھتے ہیں“۔ لہٰذا جس طرح ظاہری مرض میں فرائض کی ادائیگی مشکل کا سبب بنتی ہے اسی طرح باطنی مرض بھی دشواری کا باعث ہو جاتا ہے۔ حالانکہ روشن شریعت نفسِ امارہ کی انہی رسومات اور خواہشات کے ازالے کے لئے وارد ہوئی ہے۔ لہذا ہوائے نفس اور متابعتِ شریعت دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، پس لازمی طور پر اس دشواری کا وجود ہوائے نفس کے وجود پر دلالت کرتا ہے۔ لہذا (اتباعِ شریعت میں) جس قدر دشواری محسوس ہو گی اسی اندازے کے مطابق ہوائے نفس کی موجودگی جاننا چاہیے، اور جب ہوائے نفس پورے طور پر ختم ہو جائے گی تو احکامِ شرع میں بھی تنگی باقی نہ رہے گی۔ لیکن بعض صوفیہ کے کلام سے جو اختیار کی نفی میں یا اس کے ضعف میں پہلے بیان ہو چکا ہے، اس کے متعلق جاننا چاہیے کہ اگر ان (صوفیہ) کا کلام شریعت کے مطابق نہیں ہے تو اس کا ہر گز اعتبار نہیں ہے لہٰذا وہ نہ حجت ہے اور نہ تقلید کے قابل، کیونکہ حجت اور تقلید کے لائق تو علمائے اہلِ سنت کے اقوال ہیں۔ لہٰذا صوفیوں کے جو اقوال ان (علمائے اہلِ سنت) کے اقوال کے مطابق ہوں وہ قابلِ قبول ہیں اور جو ان کے اقوال کے مخالف ہیں وہ غیر مقبول ہیں۔

اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ مستقیم الاحوال صوفیہ شریعت سے تجاوز نہیں کرتے، نہ احوال میں نہ اعمال میں، نہ اقوال میں اور نہ علوم و معارف میں۔ وہ جانتے ہیں کہ شریعت سے تھوڑی سی مخالفت کا باقی رہنا بھی حال کی خرابی اور دل کے خلل کی وجہ سے ہوتا ہے، اگر حال درست و صادق ہوتا تو شریعتِ حقہ کی ہرگز مخالفت نہ ہوتی۔

مختصر یہ کہ شریعت کے خلاف ہونا بے دینی کی دلیل اور الحاد کی علامت ہے اور خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کسی صوفی سے غلبۂ حال میں اپنے کشف اور سکرِ وقت کی وجہ سے کوئی ایسا کلام صادر ہوا ہو جو شریعت کے مخالف ہو تو اس میں معذور ہے اور اس کا کشف صحیح نہیں ہے لہذا وہ تقلید کے قابل بھی نہیں ہے، بلکہ مناسب یہ ہے کہ اس کے کلام کو ظاہری معنوں سے پھیر کر صحیح معنوں کی طرف لوٹا دیا جائے کیونکہ اہلِ سکر کا کلام ظاہری معنوں سے پھِرا ہوا ہوتا ہے۔

ھٰذَا مَا تَیَسَّرَ لِی فِیْ ھٰذَا الْمَقَامِ بِعَوْنِ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَ حُسْنِ تَوْفِیْقِہٖ تَعَالٰی (یہ ہے جو اللّٰہ سبحانہٗ و تعالیٰ کی مدد سے اور اس کی حُسنِ توفیق سے اس مقام میں مجھے میسر ہوا ہے)۔

وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (تمام تعریفیں اللّٰہ تعالیٰ کے لئے ہیں، اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔

؂1 آپ کے نام چار مکتوبات ہیں، دفتر اول مکتوب 289، 297۔ دفتر دوم مکتوب 40 اور دفتر سوم مکتوب 31۔ مولانا بدر الدین سرہندی حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے ہم وطن اور اجل خلفاء میں سے تھے۔ 15 سال کی عمر میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت کی اور سترہ سال خدمت میں رہے، اور تکمیل سلوک کے بعد خلافت پائی۔ آپ کی کئی تصانیف ہیں ان میں سے "حضرات القدس" بہت مشہور و مقبول ہے۔ تاریخ ولادت و وفات معلوم نہ ہو سکی۔

؂2 یعنی ابو العین معمون بن محمد النسفی الحنفی المتوفی سنہ 508ھ۔ (کشف الظنون)

؂3 اس حدیث کو امام مغاوی رحمۃ اللہ علیہ نے کنوز الحقائق میں اور امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ میں بحوالہ حاکم حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے، اور اسی مضمون کی ایک حدیث امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی ہے۔

؂4 مثلًا حق تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا أَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴾ (البقرۃ: 57)، ﴿فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا﴾ (النساء: 160)، ﴿إِنَّکُمۡ ظَلَمۡتُمۡ أَنۡفُسَکُمۡ﴾ (البقرۃ: 54) اور ﴿وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌۢ بِالظّٰلِمِیۡنَ﴾ (البقرۃ: 95)