دفتر اول مکتوب 272
میر سید محب اللہ مانک پوری1 کی طرف صادر فرمایا۔ ایمان بالغیب اور ایمانِ شہودی کے بیان میں اور ان میں سے ہر ایک کے اصحاب کے بیان میں جو ایمان بالغیب کو ایمانِ شہادت پر فضیلت دیتے ہیں، اور توحیدِ شہودی و توحیدِ وجودی کے بیان میں، اور اس بیان میں کہ ”فنا“ کے حاصل ہونے میں توحیدِ شہودی در کار ہے، توحیدِ وجودی در کار نہیں، اور اس بیان میں کہ اول شخص جس نے توحیدِ وجودی کا اظہار کیا اور اس کو صراحت سے بیان کیا وہ "صاحبِ فتوحاتِ مکیہ" ہیں، اگرچہ گزشتہ مشائخ کی عبارات بھی توحید و اتحاد کی خبر دیتی ہیں لیکن وہ توحیدِ شہودی پر محمول ہیں، اور اس کے مناسب بیان میں۔
حمد و صلوۃ کے بعد سیادت پناہ برادر عزیز میر محب اللہ کو واضح ہو کہ واجب الوجود تعالیٰ کی ذات پاک اور اس کی تمام صفات کے ساتھ غیب پر ایمان لانا انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات اور ان کے اصحاب اور وہ اولیاء جو بتمام و کمال رجوع رکھتے ہیں ان کا حصہ ہے، اور ان کی نسبت اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سی ہے، اگرچہ یہ قلیل ہیں بلکہ اقلّ ہیں، اور وہ علماء اور عامہ مومنین کا حصہ ہے اور ایمانِ شہودی عامہ صوفیہ کے نصیب ہے، خواہ وہ اربابِ عزلت (گوشہ نشین) ہوں یا اربابِ عشرت (لوگوں کے ساتھ رہنے والے) کیونکہ اربابِ عشرت خواہ کتنے ہی مرجوع (رجوع کرنے والے) ہوں لیکن انہوں نے کامل طور پر رجوع نہیں کیا ہے، لہذا ان کا باطن اسی طرح فوق کی طرف نگراں ہے یعنی ظاہر میں وہ مخلوق کے ساتھ ہیں اور باطن میں حق جل سلطانہٗ کے ساتھ، لہذا ہر وقت ایمانِ شہودی ان کی شان ہے۔ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات چونکہ پورے طور پر مرجوع ہیں لہذا وہ ظاہر اور باطن میں مخلوق کو حق جل و علا کی طرف دعوت دینے میں متوجہ ہیں اس لئے ایمان بالغیب ان کے شایان شان ہے۔
اور اس فقیر نے اپنے بعض رسائل میں (اس بات کی) تحقیق کی ہے کہ با وجود رجوع کے فوق کا نگراں رہنا نقصان دہ اور انجام کار تک نہ پہنچنے کی علامت ہے۔
اور کلی طور پر رجوع کرنا نہایت النہایت تک پہنچنے کی علامت ہے۔ صوفیہ نے کمال کو "جمع بین التوجہین" یعنی دونوں توجہات کو جمع ہونے میں جانا ہے اور تشبیہ و تنزیہ کے جامع کو کاملین میں سے شمار کیا ہے۔
آں ایشانند و من چنینم یا رب
ترجمہ:
وہ تو ایسے ہیں اور میں ایسا ہوں
اور انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات جب مقامِ دعوت سے فارغ ہو جاتے ہیں اور عالمِ بقا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور رجوع کی مصلحت تکمیل کو پہنچ جاتی ہے تو وہ بڑے اشتیاق کے ساتھ الرفیق الاعلیٰ (بلند درجے والے ساتھی) کی ندا لگا کر کلی طور پر حق جل شانہٗ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں اور مراتبِ قرب میں فرحاں و شاداں ہوتے ہیں۔
ھَنِیْئًا لِّأَرْبَابِ النَّعِیْمِ نَعِیْمُھَا
وَ لِلْعَاشِقِ الْمِسْکِیْنِ مَا یَتَجَرَّعُ
ترجمہ:
مبارک منعموں کو ان کی نعمت
مبارک عاشقِ مسکیں کو کلفت
فقیر کے نزدیک کمال یہ ہے کہ عروج کے وقت میں کثرت بالکلیہ طور پر نظر سے اٹھ جائے یہاں تک کہ اسماء اور صفات بھی ملحوظ نہ رہیں اور احدیتِ مجردہ کے علاوہ کچھ بھی مشاہدے میں نہ رہے، ثُمَّ عُوْمِلَ مَعَہٗ مَا عُوْمِلَ مَعَہٗ (پھر اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا جو کچھ بھی کیا جائے گا) اور رجوع کے وقت میں مکمل طور پر نظر کثرت پر پڑے اور عام مومنین کی طرح مخلوق کے علاوہ کوئی اور امر مشاہدے میں نہ رہے، اور اطاعت کی ادائیگی اور مخلوق کو حق جل و علا کی طرف دعوت دینے کے علاوہ کوئی اور کام اس سے سر زد نہ ہو، اور جب دعوت کا کام پورا کر لے اور اس فانی دنیا کو رخصت کر دے تو کلی طور پر جنابِ قدس کی طرف متوجہ ہو جائے اور اپنے سامان کو غیب سے شہادت کی طرف لے جائے اور معاملے کو گوش سے آغوش میں لے آئے۔ ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
کوئی ناقص کلی طور پر رجوع کرنے کو نقص خیال نہ کرے اور باطن کی توجہ کو جو حق جل سلطانہٗ کی طرف ہوتی ہے، مخلوق کی طرف توجہ سے جو اُن کی دعوت و تکمیل کے لئے ہے، بہتر نہ جانے، کیونکہ صاحبِ رجوع اپنے اختیار سے رجوع کے مقام میں نہیں آیا ہے بلکہ حق جل سلطانہٗ کے ارادہ سے اعلیٰ سے اسفل کی طرف نزول کیا ہے اور وصل سے ہجر کے ساتھ قرار پکڑا ہے۔ لہذا صاحبِ رجوع حق جل شانہٗ کے ارادہ سے قائم اور اپنے ارادہ سے فانی ہے، اور صاحبِ توجہ وصل اور شہود سے محفوظ اور قرب و معیت سے شاداں ہے۔
ہجرے کہ بود مراد محبوب
از وصل ہزار بار خوش تر
ترجمہ:
وہ ہجر جو ہے مراد دلبر ہے
وصل سے ہزار بار بہتر
لِأَنِّيْ فِي الْوِصَالِ عُبَیْدُ نَفْسِيْ
وَ فِي الْھِجْرَانِ مَوْلًی لِلْمَوَالِیْ
وَ شُغْلِيْ بِالْحَبِیْبِ بِکُلِّ حَالٍ
أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ شُغْلِيْ بِحَالِیْ
ترجمہ:
ہے وصل میں نفس کی غلامی
ہے ہجر میں غلامی گرامی
ہے ہجر ہمیشہ یار کی یاد
ہر حال سے پیاری ہے یہی یاد
اور رجوع کے فضائل و کمالات بہت زیادہ ہیں۔ صاحبِ توجہ کو صاحبِ رجوع کے ساتھ وہی نسبت ہے جو قطرے کو دریائے محیط کے ساتھ ہے کیونکہ یہ رجوع نبوت کے فضائل میں سے ہے اور وہ توجہ ولایت کے آثار میں سے، شَتَّانَ مَا بَینَھُمَا (ان دونوں کے درمیان بہت بڑا فرق ہے)۔ لیکن ہر شخص کی فہم اس کمال تک نہیں پہنچ سکتی۔
﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔
تنزیہ اور تشبیہ کو جمع کرنے والوں میں سے بعض کہتے ہیں کہ "تمام مومنین کو تنزیہ کے ساتھ ایمان حاصل ہے، عارف وہ ہے جو ایمانِ تشبیہ کو بھی اس کے ساتھ جمع کرے اور مخلوق کو خالق کا ظہور دیکھے اور کثرت کو وحدت کا لباس سمجھے اور مصنوع میں صانع کا مطالعہ کرے"۔ مختصر یہ کہ صرف تنزیہ کی طرف توجہ کا رہنا ان کے نزدیک نقص ہے اور کثرت کے ملاحظہ کے بغیر وحدت کا مشاہدہ کرنا ان کے نزدیک عیب ہے۔ یہ جماعت احدیتِ صرف کی طرف متوجہ ہونے والوں کو ناقص شمار کرتی ہے اور کثرت کے مطالعے کے بغیر وحدت کے ملاحظہ کو محدود و مقید خیال کرتی ہے۔ سُبْحَانَ اللہِ وَ بِحَمدِہٖ، انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی دعوت تنزیۂ صرف ہے اور تمام آسمانی کتابیں اسی ایمانِ تنزیہی کی ناطق ہیں۔ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات آفاقی و انفسی باطل خداؤں کی نفی کرتے ہیں اور ان کے باطل ہونے کا اعلان کرتے ہیں اور اس واجب الوجود کی وحدت کی طرف جو بے چون و بے چگون ہے رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ کبھی کسی نے نہیں سنا کہ کسی پیغمبر نے ایمانِ تشبیہی (مظاہر و مناظر میں خدا کو ثابت کرنا) کی طرف دعوت دی ہو اور مخلوق کو خالق کا ظہور کہا ہو؟ تمام پیغمبر علیہم الصلوات و التسلیمات واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی توحید کے کلمے میں متفق ہیں، اور حق تعالیٰ کے سوا تمام ارباب (باطل خداؤں) کی نفی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿قُلۡ يٰۤـأَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا إِلٰی كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَ بَيۡنَكُمۡ أَلَّا نَـعۡبُدَ إِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡئًا وَّ لَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا أَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَإِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡهَدُوۡا بِأَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ﴾ (آل عمران: 63) ترجمہ: ”(مسلمانو! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ: اے اہل کتاب! ایک ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، ( اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔ پھر بھی اگر وہ منہ موڑیں تو کہہ دو: گواہ رہنا کہ ہم مسلمان ہیں“۔
یہ لوگ بے شمار (باطل معبود) ارباب ثابت کرتے ہیں اور سب کو رب الأرباب کے ظہورات خیال کرتے ہیں اور کتاب و سنت کو اپنے مطلب کی شہادت میں پیش کرتے ہیں:
مثلًا الکتاب (قرآن مجید میں ہے) ﴿هُوَ الۡأَوَّلُ وَ الۡاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الۡبَاطِنُ وَ هُوَ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ﴾ (الحدید: 3) ترجمہ: ”وہی اول بھی ہے اور آخر بھی، ظاہر بھی اور چھپا ہوا بھی، اور وہ ہر چیز کو پوری طرح جاننے والا ہے“ (نیز) ﴿وَ مَا رَمَيۡتَ إِذْ رَمَيۡتَ وَ لٰـكِنَّ اللّٰہَ رَمٰی﴾ (الأنفال: 17) ترجمہ: ”اور (اے پیغمبر) جب تم نے ان پر (مٹی) پھینکی تھی تو وہ تم نے نہیں، بلکہ اللہ نے پھینکی تھی“۔ (نیز) ﴿إِنَّ الَّذِيۡنَ يُبَايِعُوۡنَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُوۡنَ اللّٰہَ ؕ يَدُ اللّٰہِ فَوۡقَ أَيۡدِيۡهِمۡ﴾ (الفتح: 10) ترجمہ: ”(اے پیغمبر!) جو لوگ آپ سے بیعت کر رہے ہیں در حقیقت وہ اللہ سے بیعت کر رہے ہیں۔ اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے“۔ اور السنۃ (یعنی احادیث شریفہ) میں ہے: "اَللّٰھُمَ أَنْتَ الْأَوَّلُ فَلَیْسَ قَبْلَکَ شَیْءٌ وَ أَنْتَ الْاٰخِرُ فَلَیْسَ بَعْدَکَ شَیْءٌ وَ أَنْتَ الظَّاھِرُ فَلَیْسَ فَوْقَکَ شَیْءٌ وَ أَنْتَ الْبَاطِنُ فَلَیْسَ دُوْنَکَ شَیْءٌ" ترجمہ: ”یا اللہ! تو ہی اول ہے اور تجھ سے پہلے کوئی شے نہیں اور تو ہی آخر ہے جس کے بعد کوئی شے نہیں اور تو ہی ظاہر ہے اور تجھ سے زیادہ کوئی چیز ظاہر نہیں، اور تو ہی باطن ہے اور تجھ سے زیادہ کوئی چیز پوشیدہ نہیں“۔
ان (مندرجہ بالا آیات و احادیث) میں کوئی شہادت نہیں ہے کیونکہ یہ عبارتیں بلیغ انداز میں ما سویٰ اللہ کے کمال وجود کی نفی کے لئے بطور حصر ہیں نہ کہ اصل وجود کی نفی پر، جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "لَا صَلٰوۃَ إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ" ترجمہ: ”(سورۃ) فاتحہ کے بغیر نماز کامل نہیں ہوتی“۔ اور فرمایا "لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَّا أَمَانَۃَ لَہٗ" ترجمہ: ”جو شخص امانت دار نہیں اس میں ایمان کامل نہیں“۔
کتاب و سنت میں اس قسم کی مثالیں بکثرت موجود ہیں، یہ توجیہ نصوص (قرآن و احادیث) کی تاویل نہیں ہے جیسا کہ ان لوگوں نے خیال کیا ہے بلکہ نصوص کو کمال بلاغت پر محمول کیا ہے، اور چونکہ عرف (محاوراتِ عامہ) میں جب کسی شخص کے امرِ رسالت (سفارت) کا اہتمام کرنا ہوتا ہے تو اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے (جیسا کہ) ﴿یَدُ اللہِ فَوقَ أَیْدِیھِمْ﴾ اس سے مقصود حقیقت نہیں ہے بلکہ مجاز ہے جو حقیقت سے بھی زیادہ بلیغ ہے اور جب فاعل سے جو کامل قدرت والے مالک کا غلام اور بندہ ہے، اس کی قدرت کے اندازے سے بڑھ کر کوئی فعل صادر ہو اور اس فعل میں اس مالک و قادر کی التفات و توجہ مد نظر ہو تو اس وقت مالک کو یہ بات سزا وار ہے کہ یہ کہہ دے کہ "یہ کام میں نے کیا نہ کہ تو نے"۔ یہ بات اتحادِ فعل پر اور اتحادِ ذات پر کچھ بھی دلالت نہیں کرتی۔ حَاشَا وَ کَلَّا (ہرگز ایسا نہیں ہے) کہ بندۂ غلام کا فعل عین مالکِ مقتدر کا فعل ہو، یا اس کی ذات بندۂ غلام کی ذات کا عین بن جائے۔
اس جماعت نے شاید انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے مذاق کو نہیں سمجھا کیونکہ اس جماعت کی دعوت کا مدار اثنینیت (دوئی) پر ہے اور غیر کے وجود و غیریت پر ہے۔ ان کی عبارتوں کو توحید و اتحاد پر لانا بے ہودہ تکلف ہے۔ اگر فی الحقیقت ایک ہی موجود ہوتا اور اس کے سوا اس کے تمام ظہورات ہوتے اور اس کے ما سوا کی عبادت اس کی عبادت ہوتی، جیسا کہ اس جماعت نے گمان کیا ہے تو پھر انبیاء علیہم الصلوات و السلام اس قدر تاکید و مبالغے کے ساتھ (اس کی پرستش سے) کیوں منع کرتے اور ان کی پرستش پر دائمی عذاب کیوں مرتب کرتے، اور ان کی پرستش کرنے والوں کو خدا کا دشمن کیوں قرار دیتے، ان لوگوں کو ان کی غلطی پر اطلاع کیوں نہ دیتے، اور ان کی "دیدِ غیریت" کو جو جہالت کی وجہ سے ان میں پیدا ہو گئی تھی کیوں دور نہ کرتے، اور ان کی عبادت کو عین حق جل و علا کی عبادت کیوں نہ بتاتے؟
ان لوگوں میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ حضرات پیغمبر علیہم الصلوات و التسلیمات نے عوام کے "قصورِ فہم" کو مدِ نظر رکھتے ہوئے توحیدِ وجودی کے اسرار کو پوشیدہ رکھا ہے اور اپنی دعوت کی بنا غیر و غیریت پر رکھی ہے اور وحدت کو چھپا کر کثرت پر دلالت کی ہے۔ یہ بات شیعوں کے تقیے کے مانند سننے کے قابل نہیں ہے۔ حضرات پیغمبر علیہم الصلوات و التسلیمات جو کچھ کہ نفس الامر (حقیقتِ کار) ہے اس کی تبلیغ کے زیادہ مستحق اور سزا وار ہیں، اور جب نفس الامر میں ایک ہی (ذات) موجود ہے اور اس کے غیر کا کوئی وجود نہیں ہے تو وہ اس کو پوشیدہ رکھ کر کیوں نفس الامر کے خلاف اظہار کریں؟ بالخصوص وہ احکام جو واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی ذات و صفات اور افعال سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے اظہار و اعلان کے وہ زیادہ حق دار ہیں، اگرچہ کوتاہ نظر ان کے سمجھنے میں قاصر ہوں۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ قرآن کریم کی آیاتِ متشابہات اور احادیث شریفہ کی متشابہات جن کے سمجھنے سے عوام کیا خواص بھی عاجز ہیں، اس کے با وجود (انبیائے کرام علیہم السلام حق تعالیٰ کی طرف سے) ان کے اظہار کرنے سے منع نہیں ہوئے اور نہ ہی عوام کی غلطی اور کوتاہ فہمی ان کے اظہار کی مانع ہوئی۔ یہ جماعت اس شخص کو جو دو وجود کا قائل ہے اور اس تعالیٰ کے ما سوا کی عبادت سے پرہیز کرتا ہے، اس کو مشرک کہتی ہے، اور اس شخص کو جو ایک وجود کا قائل ہے اس کو موحّد کہتی ہے اگرچہ وہ ہزار بتوں کی عبادت کرتا ہو، اس خیال سے کہ یہ (بت) حق سبحانہٗ کے ظہورات ہیں اور ان کی عبادت حق تعالیٰ شانہ ہی کی عبادت ہے۔ انصاف سے کام لینا چاہیے کہ ان دونوں میں سے کون مشرک ہے اور کون موحّد؟
انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات نے وحدتِ وجود کی دعوت نہیں دی اور نہ ہی دو وجود کہنے والے کو مشرک کہا ہے بلکہ ان کی دعوت ایک معبود جلّ شانہ کی وحدت پر ہے، اور ما سوا کی عبادت کو شرک کہتے ہیں، اگرچہ صوفیہ وجودیہ ما سوا (غیر حق) کو غیریت کے عنوان سے نہ جانیں تو بھی شرک دفع نہیں کر سکتے، ما سوا، ما سوا ہی ہے خواہ جانیں یا نہ جانیں۔
ان میں سے بعض متاخرین عالم (خلق) کو حق جلّ سلطانہٗ کا عین نہیں کہتے اور عینیت سے پرہیز کرتے ہیں، اور عینیت کے ماننے والوں کو طعن و تشنیع کرتے ہیں، اسی وجہ سے شیخ محیی الدین (ابن العربی) اور ان کے متبعین کے ساتھ انکار سے پیش آتے ہیں اور ان کو بری طرح سے یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح یہ جماعت عالم کو حق تعالیٰ جلّ سلطانہٗ کا غیر نہیں کہتے بلکہ نہ تو حق تعالیٰ کا عین جانتے ہیں نہ ہی حق جل و علا کا غیر سمجھتے ہیں۔ یہ بات بھی صواب سے دور ہے (صحیح نہیں ہے) کیونکہ اَلْإِثْنَانِ مُتَغَائِرَانِ (دو چیزیں ایک دوسرے کی غیر ہوتی ہیں) قاعدہ کلیہ ہے۔ اثنینیت (دوئی) کا منکر بداہتِ عقل کا مخالف ہے، (یعنی وہ الف ب ت سے بھی واقف نہیں ہے)۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ متکلمین نے صفات واجبی جل سلطانہٗ کے بارے میں لَا ھُوَ وَ لَاغَیْرُہٗ (نہ وہ عینِ ذات ہے اور نہ وہ غیر ذات) کہا ہے اور غیر سے غیرِ اصطلاحی مراد لے کر اس امر کو مدِ نظر رکھا ہے کہ دو متغائر چیزوں کا باہم انفکاک (علیحدہ) ہونا جائز ہے کیونکہ صفات واجبی جل سلطانہٗ حضرت ذات تعالیٰ و تقدس سے جدا نہیں ہیں اور نہ ہی اس تعالیٰ و تقدس کی صفاتِ قدیمہ اور ذات کے درمیان جدائی کا جواز متصور ہو سکتا ہے لہذا لَا ھُوَ وَ لَاغَیْرُہٗ صفاتِ قدیمہ میں صادق ہے۔ بر خلاف عالَم (مخلوق) کے کہ اس میں یہ نسبت مفقود ہے کیونکہ کَانَ اللہُ وَ لَمْ یَکُنْ مَّعَہُ شَیْءٌ (کیونکہ اللہ تعالیٰ موجود تھا اور کوئی شے اس کے ساتھ موجود نہ تھی) لہذا عالم سے غیریت کی نفی کرنا بھی لغت اور اصطلاح دونوں صدق سے دور ہے۔ اس جماعت نے حقیقتِ حال تک اپنی نا رسائی کی وجہ سے عالَم (مخلوق) کو صفاتِ قدیمہ کی مانند خیال کیا ہے اور اُس (عالَم) کے لئے ایک مخصوص حکم کا اطلاق کیا ہے، اور چونکہ یہ جماعت عینیتِ عالَم کی نفی کی قائل ہو گئی ہے اس لئے عالَم کی غیریت کا قائل ہونا ان پر لازم ہو گیا ہے اور وہ توحیدِ وجودی والے گروہ سے نکل آئی اور عالَم کے متعدد وجودوں کی قائل ہو گئی کیونکہ توحیدِ وجودی میں عین کہنے کے بغیر چارہ نہیں، جیسا کہ شیخ محیی الدین رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے متبعین نے کہا ہے۔ ان کا عین کہنا اس معنی میں نہیں ہے کہ عالم اپنے صانع کے ساتھ متحد ہے حَاشَا وَ کَلَّا (ہر گز ایسا نہیں ہے) بلکہ اس معنی میں ہے کہ عالم معدوم ہے اور واجب الوجود تعالیٰ و تقدس موجود ہے جیسا کہ اس فقیر نے اپنے بعض رسائل میں اس معنی کی تحقیق کی ہے۔
سوال:
صوفیہ وجودیہ دو وجود کے کہنے والے کو مشرک کہتے ہیں اور وہ اس اعتبار سے ہے کہ وہ دو بِین (دو دیکھنے والا) ہے اور دو دیکھنے والا طریقت کا مشرک ہے۔
جواب:
دو بِینی (دو دیکھنا) جو کہ طریقت میں شرک ہے وہ توحیدِ شہودی سے دفع ہو جاتا ہے اور اس مقام میں توحیدِ وجودی کا کچھ کام نہیں چاہیے کہ سالک کا مشہود و ملحوظ ایک ذاتِ مقدس کے علاوہ کوئی دوسرا امر نہ ہو تاکہ فنا متحقق ہو کر طریقت کا شرک دور ہو جائے۔ (جیسا کہ) دن میں آفتاب کو تنہا دیکھتے ہیں اور ستاروں کو نہیں دیکھ سکتے (اسی طرح) دو کا دیکھنا دور ہو گیا ہے اگرچہ ہزاروں ستارے دن میں بھی موجود ہیں۔ مقصود یہ ہے کہ ایک آفتاب مشہود ہے خواہ ستارے معدوم ہوں یا موجود۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کمالِ فنا اس صورت میں ہے کہ اشیاء موجود ہیں لیکن سالک مطلوبِ حقیقی کے ساتھ کمالِ تعلق کی وجہ سے کسی چیز کی طرف التفات نہ کرے بلکہ کسی چیز کو دیکھے بھی نہیں اور کوئی چیز اس کی "دیدۂِ بصیرت" میں بھی نہ آئے۔ اگر چیزیں موجود نہ ہوں تو فنا کس چیز سے متحقق ہو گی اور فانی کس چیز سے ہو گا اور کس چیز کو فراموش کرے گا؟
سب سے پہلے جس شخص نے توحیدِ وجودی کی تصریح کی ہے وہ شیخ محیی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ ہیں، ان سے پہلے کے مشائخ کی عبارتیں اگرچہ توحید و اتحاد کی خبر دیتی ہیں لیکن توحیدِ شہودی پر حمل کرنے کے قابل ہیں کیونکہ جب وہ حق جل شانہٗ کے غیر کو نہیں دیکھتے تو بعض کہتے ہیں: "لَیْسَ فِیْ جُبَّتِیْ سِوَی اللّٰہِ" (میرے جبے میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کچھ نہیں) اور بعض "سُبْحَانِیْ" (میں پاک ہوں) پکار اٹھتے ہیں اور بعض "لَیْسَ فِی الدَّارِ غَیْرُ دَیَّارٍ" (گھر میں اس کے سوا کوئی رہنے والا نہیں ہے) کی آواز لگاتے ہیں۔
یہ سب پھول ایک ہی "یک بینی" کی شاخ سے کھلے ہیں، ان عبارتوں میں سے کوئی عبارت بھی وحدت وجود پر دلالت نہیں کرتی، اور جس شخص نے مسئلہ وحدت الوجود کو ابواب و فصول میں لکھا ہے اور صرف و نحو کی مانند اس کو تالیف کیا ہے وہ شیخ محیی الدین رحمۃ اللہ علیہ ہی ہیں، اور اس مسئلے کے بعض دقیق معارف کو اپنی طرف منسوب کیا ہے حتیٰ کہ انہوں نے کہا کہ "خاتم النبوت" بعض علوم و معارف کو "خاتم الولایت" سے اخذ کرتا ہے۔ اور "خاتمِ ولایتِ محمدی" اپنے آپ کو جانتے ہیں۔ ان کے شارحین نے اس کی توجیہ میں کہا ہے کہ اگر بادشاہ اپنے خزانچی سے کوئی چیز لے لے تو کیا نقصان ہے۔
غرض فنا و بقا اور ولایت صغریٰ و کبریٰ کے کمالات حاصل کرنے کے لئے توحیدِ وجودی بالکل درکار نہیں ہے، توحید شہودی حاصل ہونی چاہیے تاکہ فنا متحقق ہو جائے اور ما سوی اللہ کا نسیان بھی حاصل ہو جائے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی سالک کو ابتدا سے انتہا تک سیر میسر ہو جائے اور توحیدِ وجودی کے علوم و معارف میں سے کچھ بھی اس پر ظاہر نہ ہو، بلکہ قریب ہے کہ ان علوم کا انکار کر دے۔ فقیر کے نزدیک وہ راستہ جو ان معارف کے ظہور کے بغیر سلوک کے ساتھ میسر ہو جائے وہ اس راستے سے زیادہ قریب ہے جو اس ظہور پر مشتمل ہے۔ نیز اس راہ (توحیدِ شہودی) کے سالکوں میں سے اکثر مطلوب تک پہنچتے ہیں اور اُس راہ (توحیدِ وجودی) کے چلنے والے اکثر راستے ہی میں رہ جاتے ہیں اور دریا کے ایک قطرے کے ساتھ سیراب ہو جاتے ہیں اور ظل و اصل کے باہمی اتحاد کے وہم میں پڑ کر ظل میں گرفتار رہتے ہیں اور اصل سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اس حقیقت کو اس فقیر نے تجربات ہی سے معلوم کیا ہے۔ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ لِلصَّوَابِ (اور اللہ سبحانہٗ ہی صحیح بات دل میں ڈالنے والا ہے)
اور نیز اس فقیر کو اگرچہ راہِ ثانی (یعنی توحیدِ وجودی کی راہ) سے سیر و سلوک میسر ہوا ہے اور توحیدِ وجودی کے علوم و معارف کے ظہورات سے کافی حصہ حاصل ہوا ہے لیکن چونکہ خداوند جل سلطانہٗ کی عنایت اس فقیر کے شاملِ حال تھی اور فقیر کی سیر محبوبی تھی اس لئے راستے کے جنگلوں اور صحراؤں کو فضل و عنایت کی امداد سے طے کرا دیا اور کمال مہربانی کے ساتھ ظلال سے گزار کر اصل تک پہنچا دیا اور جب معاملہ مریدوں تک پہنچا تو معلوم ہوا کہ دوسرا راستہ (یعنی توحیدِ شہودی کی راہ) وصول سے زیادہ قریب اور حصول کے لئے زیادہ آسان ہے۔ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔
تنبیہ:
سابقہ تحقیق سے معلوم ہو گیا کہ اگرچہ موجودات متعدد ہوں اور حق جل و علا کا ما سوا بھی موجود ہو پھر بھی یہ بات روا ہے کہ فنا اور بقا متحقق ہو جائے اور ولایت صغریٰ و کبریٰ بھی حاصل ہو جائے کیونکہ ما سویٰ کا نسیان فنا ہے نہ یہ کہ ما سویٰ کا نیست و نابود کرنا، اور چاہیے کہ ما سویٰ کی دید مفقود ہو جائے نہ یہ کہ ما سویٰ معدوم و نا چیز ہو جائے۔ یہ بات ظاہر ہونے کے با وجود اکثر خواص پر بھی پوشیدہ رہی ہے تو عوام کے بارے میں کیا کہا جائے۔ ان لوگوں نے توحیدِ شہودی کو توحیدِ وجودی کا عین خیال کر کے وحدتِ وجود کی معرفت کو اس راہ کی شرائط میں سے جانا ہے اور دو وجود کہنے والے کو ضالّ و مضل (گمراہ اور گمراہ کرنے والا) خیال کیا ہے یہاں تک کہ ان میں سے اکثر نے حق جلَّ سلطانہٗ کی معرفت کو توحیدِ وجودی کے معارف میں منحصر خیال کیا اور شہودِ وحدت کو کثرت کے آئینے میں انجام کار تصور کیا ہے۔ ان میں سے بعض نے یہاں تک تصریح کی ہے کہ ہمارے حضرت پیغمبر علیہ و علیٰ جمیع اخوانہ من الصلوات افضلہا و من التسلیمات اکملہا کمالاتِ نبوت کے حصول کے بعد شہودِ وحدت در کثرت کے مقام میں رہے ہیں اور آیت کریمہ: ﴿إِنَّـآ أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ﴾ (الکوثر: 1) ترجمہ: ”(اے پیغمبر) یقین جانو ہم نے تمہیں کوثر عطا کردی ہے“۔ سے اس مقام کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور اس آیت کریمہ کا ترجمہ اس عبارت سے کرتے ہیں: "تحقیق کہ ہم نے آپ کو کثرت میں وحدت کا مشاہدہ عطا کیا ہے"۔ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے کوثر کے "و" کے درمیان آنے سے جو حروف کثر کے درمیان ہے اس سے اس اشارہ کو سمجھا ہے۔ حَاشَا وَ کَلَّا (ہرگز ایسا نہیں ہے) کہ اس قسم کے معارف مقامِ نبوت کے شایاں ہوں۔ کیونکہ انبیاء علیہم الصلوات و التحیات خدائے بے چون جل سلطانہٗ کی طرف دعوت دیتے رہے ہیں اور جو چیز چون کے آیئنے میں گنجائش رکھتی ہے وہ بے چونی سے بے نصیب ہے اور چونی و چندی کے داغ سے داغ دار ہے۔ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ ان کو انصاف دے۔ شاید یہ لوگ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کو اپنے کمالات کی ترازو میں تولنا چاہتے ہیں اور ان کے کمالات کو اپنے کمالات کی مانند جانتے ہیں۔ ﴿كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ﴾ (الکہف: 5) ترجمہ: ”بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے“۔
چوں آں کرمے کہ در سنگے نہاں است
زمین و آسمان او ہماں است
ترجمہ:
وہ کیڑا جو کہ پتھر میں نہاں ہے
زمین و آسماں اس کا وہاں ہے
(حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کی) امت کا یہ کمینہ (خود حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ) اس قسم کی معرفت سے جو شروع میں اس کو حاصل ہوئی تھی ندامت و استغفار کرتا ہے اور ایسا شہود جو نصاریٰ (عیسائیوں) کے حلول کے (عقیدہ کی) مانند ہے، اس پاک بارگاہ سے اس کی نفی کرتا ہے۔
حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ فرماتے ہیں کہ ”جو کچھ دیکھا گیا، سنا گیا اور سمجھا گیا وہ سب اس کا غیر ہے۔ کلمہ "لا" کی حقیقت سے اس کی نفی کرنی چاہیے۔ لہذا کثرت میں وحدت کا مشاہدہ بھی نفی کے لائق ہے اور جو کچھ نفی کے لائق ہے وہ بھی اس جنابِ قدس سے منتفی اور دور ہے“۔ حضرت خواجہ قدس سرہٗ کے اس کلام نے مجھ کو اس شہود سے نکالا اور مشاہدہ و معائنہ کی گرفتاریوں سے نجات بخشی اور میرے اسباب (ہستی) کو علم سے جہل کی طرف اور معرفت سے حیرت کی طرف لے گیا۔ جَزَاہُ اللّٰہُ سُبحَانَہٗ عَنِّی خَیْرَ الْجَزَاءِ (اللہ سبحانہٗ ان کو میری طرف سے جزائے خیر دے) میں صرف اسی ایک بات سے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کا مرید اور ان کا حلقہ بگوش مطیع ہوں، اور سچ بات تو یہ ہے کہ اولیاء میں سے شاید ہی کسی نے اس کلام کی مانند بات کی ہو اور تمام مشاہدات و معائنات کی اس طریقے سے نفی کی ہو۔ اس مقام میں ان کے اس کلام کی حقیقت کو ڈھونڈنا چاہیے جو کہ آپ نے فرمایا ہے: ’’معرفتِ خدا بر بہاء الدین حرام اگر ابتدائے و انتہائے با یزید نباشد‘‘۔ (یعنی بہاء الدین پر خدا کی معرفت حرام ہو اگر اس کی ابتدا بایزید کی انتہا نہ ہو)۔
کیونکہ حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ اس بزرگی کے با وجود شہود و مشاہدے سے آگے نہیں بڑھے اور "سُبْحَانِیْ مَا أَعظَمَ شَانِیْ" (میں پاک ہوں اور میری شان بڑی ہے) کے تنگ کوچہ سے قدم باہر نہیں نکالا بخلاف ہمارے حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے کہ انہوں نے ایک ہی کلمہ "لا" سے ان کے تمام مشاہدات کی نفی فرما دی ہے اور سب کو غیر حق جل سلطانہٗ قرار دے دیا۔ ان (بایزید رحمۃ اللہ علیہ) کا تنزیہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک تشبیہ ہے اور ان کا بے چون (ان کے نزدیک) چون ہے اور ان کا کمال (ان کے نزدیک) نقص ہے۔ لہذا لازمی طور پر ان (بایزید رحمۃ اللہ علیہ) کی انتہا تشبیہ سے آگے نہیں گزری ہے جو ہمارے خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدا ہو گئی کیونکہ ابتدا تشبیہ سے ہے اور انتہا تنزیہ کے ساتھ۔ شاید کہ آخری حال میں حضرت با یزید رحمۃ اللہ علیہ کو اس نقص کی اطلاع بخش دی گئی ہو، کیونکہ موت کے وقت وہ کہتے تھے کہ "مَا ذَکَرتُکَ اِلَّا عَنْ غَفْلَۃٍ وَّ مَا خَدَمْتُکَ إِلَّا عَنْ فَتْرَۃٍ" (میں نے تجھ کو یاد نہیں کیا مگر غفلت سے اور میں نے تیری خدمت (عبادت) نہیں کی مگر سستی سے)۔ انہوں نے اپنے پہلے حضور (مشاہدے) کو غفلت سمجھا کیونکہ وہ حضور اللہ تعالیٰ کا حضور نہ تھا بلکہ ظلال میں سے ایک ظل کا حضور اور اس کے ظہورات میں سے ایک ظہور تھا، لہذا لازمی طور پر وہ حضرت جل سلطانہٗ سے غافل ہوئے۔
چونکہ وہ بلند و بزرگ ذات وراء الوریٰ ہے، تمام ظلال اور ظہورات اس کے مبادی و مقدمات ہیں، اور اس کے معارج (زینے) اور مُعِدّات (اسباب و ذرائع) ہیں، اور جو کچھ کہ حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے "ما نہایت را در بدایت درج می کنیم" (ہم نہایت (انتہا) کو بدایت (ابتدا) میں درج کرتے ہیں) عین واقعہ کے مطابق ہے۔ کیونکہ ابتدا ہی سے ان حضرت خواجہ رحمۃ اللہ علیہ کی توجّہ احدیتِ صرف کی طرف ہے اور اسم و صفت سے سوائے ذات تعالیٰ کے اور کچھ نہیں چاہتے۔ اس طریقۂ عالیہ کے ہدایت یافتہ مبتدی کو یہ دولت اپنے شیخ مقتدا سے جو اس کمال کے ساتھ مشرف ہوتا ہے، انعکاسی طور پر حاصل ہو جاتی ہے خواہ وہ اس کو جانیں یا نہ جانیں۔ لہذا لازمی طور پر کاملوں کی نہایت ان بزرگواروں کی بدایت میں درج ہو گی۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اگر احدیت کی توجہ ان میں غلبہ پیدا کرے اور ظاہر کو بھی باطن کے رنگ میں رنگ دے تو سالک سفلی مشاہدات سے جو ممکنات کے آئینوں میں ظاہر ہوتے رہتے ہیں آزاد ہو جاتا ہے اور معارفِ تشبیہی سے چھٹکارا پا جاتا ہے، اور اگر توجہ کا یہ غلبہ پیدا نہ ہو سکے اور صرف باطن پر ہی محدود رہے تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بظاہر کثرت میں وحدت کے مشاہدے کی لذت پاتا ہے اور توحید و اتحاد سے محظوظ ہوتا ہے۔ لیکن یہ شہود ان کے حق میں ظاہر پر ہی محدود رہتا ہے اور باطن میں کچھ بھی سرایت نہیں کرتا اور ان کا باطن احدیتِ صرف کی طرف متوجہ رہتا ہے اور ان کا ظاہر کثرت میں وحدت کا مشاہدہ کرتا ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ظاہری نسبت کے غلبے کی وجہ سے باطنی توجہ معلوم نہ ہو اور شہود ظاہر کے علاوہ کوئی اور امر مفہوم نہ ہو۔ جیسا کہ ابتدا میں ان سطور کے لکھنے والے (حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ) کا حال تھا کہ ظاہری نسبت کے غلبے کی وجہ سے باطنی توجہ جو احدیتِ صرف کی طرف تھی آگاہی نہیں رکھتا تھا اور کلی طور پر اپنے آپ کو کثرت میں وحدتِ شہود کی طرف متوجہ پاتا تھا۔ ایک مدت کے بعد حضرت حق سبحانہٗ نے باطن کی توجہ پر اطلاع بخشی اور باطن کو ظاہر پر نصرت دی اور معاملہ یہاں تک پہنچا دیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبحَانَہٗ عَلٰی ذٰالِکَ۔ وہ معارفِ توحیدی اور مشاہدات سفلی جو اس بزرگ خاندان (نقشبندیہ) کے بعض خلفاء سے ظاہر ہوئے ہیں، وہ بھی اسی قسم سے ہیں نہ یہ کہ یہ حضرات ظاہر و باطن میں شہود کی طرف متوجہ اور اسی معرفت میں گرفتار رہے ہیں بخلاف دوسرے (بزرگوں) کے جو ظاہر و باطن میں اسی شہود کے گرفتار رہتے ہیں اور اس شہود کو جامع تنزیہ و تشبیہ جان کر اسی کو کمال سمجھ بیٹھے ہیں۔ اس جماعت کا اگرچہ باطن بھی تنزیۂ صرف کے ساتھ ایمان رکھتا ہے لیکن ان کی گرفتاری دوسری چیز ہے اور ایمان کچھ اور، حال بھی اور ہے اور علم بھی کچھ اور، اور وہ جماعت جو تنزیۂ صرف کے ساتھ ایمان نہیں رکھتی اور مشاہدہ سفلی کے سوا دوسری کسی چیز پر اعتقاد نہیں رکھتی وہ ملحدوں (بے دینوں) میں سے ہے جو اس بحث سے خارج ہے۔
فقیر کے نزدیک ممکنات کے آئینوں میں حق جل و علا کا جو شہود جس کو صوفیہ کی ایک جماعت کمال جانتی ہے اور تشبیہ و تنزیہ کے درمیان جمع ہونا خیال کرتی ہے وہ در حقیقت حق جل و علا کا شہود نہیں ہے، ان آئینوں میں اس کا مشہود ان کے خيالی اور من گھڑت (تصور) کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیوں کہ جو کچھ وہ ممکن میں دیکھتے ہیں وہ واجب تعالی و تقدس نہیں ہے اور جو کچھ وہ حادث میں پاتے ہیں وہ قدیم نہیں ہے اور جو کچھ (ان کو) تشبیہ میں ظاہر ہوتا ہے وہ تنزیہ نہیں ہے۔ ہرگز ہرگز صوفیہ کی اس قسم کی ترہات (یعنی باطل و خلاف شرع باتوں) پر فریفتہ نہ ہونا چاہیے اور حق جل سلطانہٗ کے غیر کو حق نہ جاننا چاہیے۔ اگرچہ یہ لوگ غلبۂ حال کی وجہ سے معذور ہیں اور خطا کار مجتہد کی طرح مواخذے سے بری ہیں لیکن ان کے مقلدوں کے ساتھ (قیامت کے روز) معلوم نہیں کہ کس طرح معاملہ کریں گے۔ کاش کہ مجتہد مخطی کے مقلدوں کی طرح ہی ہوتے، اور اگر ان کے ساتھ ایسا معاملہ نہ کیا گیا تو پھر ان کے لئے بہت مشکل ہے۔ قیاس و اجتہاد اصولِ شرعیہ میں سے ایک اصل ہے جس کی تقلید پر ہم کو مامور کیا گیا ہے بخلاف کشف و الہام کے کہ اس کی تقلید کا ہم کو امر نہیں فرمایا گیا اور الہام دوسروں پر حجت نہیں ہے لیکن اجتہاد مقلد پر حجت ہے۔ پس علمائے مجتہدین کی تقلید کرنی چاہیے، اور دین کے اصول کو ان کی رائے کے موافق ڈھونڈنا چاہیے، اور صوفیہ جو کچھ علمائے مجتہدین کی آراء کے خلاف کہیں یا کریں، ان کی تقلید نہیں کرنی چاہیے اور ان پر حسن ظن رکھتے ہوئے ان کے طعن سے اپنے منہ کو بند رکھنا چاہیے اور ان کی اس قسم کی باتوں کو شطحیات میں سے شمار کرنا چاہیے اور ظاہر کی طرف سے مصروف و پھرا ہوا خیال کرنا چاہیے۔
بڑے تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے بعض صوفیہ عام لوگوں کو اپنے کشفیہ اور الہامیہ امور مثلًا وحدت الوجود پر ایمان لانے کی رہنمائی کرتے ہیں اور ان کی تقلید پر ترغیب دیتے ہیں اور ان کے عدم (یعنی ایسا عقیدہ نہ رکھنے) پر سر زنش کرتے ہیں۔ کاش یہ لوگ ان امور کے عدم انکار پر دلالت کرتے اور ان کے منکر پر تھدید اور تنبیہ فرماتے کیونکہ ایمان اور چیز ہے اور عدم انکار اور چیز۔ ان امور کے ساتھ ایمان لانا لازمی نہیں ہے، ہاں ان امور کے انکار سے بچنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ان امور کا انکار ان امور والوں کے انکار تک پہنچا دے اور حق جل و علا کے اولیاء کے ساتھ بغض و عداوت پیدا کر دے۔ علماء اہل حق کی آراء کے موافق عمل کرنا چاہیے اور صوفیہ کی کشفی باتوں سے حُسنِ ظن کے ساتھ سکوت اختیار کرنا چاہیے اور "لَا وَ نَعَمْ" پر جرأت نہ کرنی چاہیے: ھٰذَا ھُوَا الْحَقُّ الْمُتَوَسِطُ بَیْنَ الْإِفْرَاطِ وَ التَّفْرِیْطِ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہُ الْمَلْھِمُ لِلصَّوَابِ (یہی وہ حق ہے جو افراط و تفریط کے درمیان ہے اور اللہ تعالٰی بہتری کی طرف الہام کرنے والا ہے)۔
عجب کاروبار ہے کہ ان لوگوں میں سے بہت سے اس راہ کے مدعی اس شہود و مشاہدے پر بھی قناعت نہیں کرتے بلکہ اس شہود کو تنزل خیال کر کے اس جہان میں رؤیتِ بصری کے بھی قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم واجب الوجود جل سلطانہٗ کی ذات بے چون کو دیکھتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ دولت جو ہمارے پیغمبر علیہ الصلٰوۃ و السلام کو شب معراج میں ایک دفعہ حاصل ہوئی تھی ہم کو ہر روز میسر ہے اور وہ نور جو اُن کے دیکھنے میں آتا ہے اس کو صبح کی سفیدی سے تشبیہ دیتے ہیں اور اس نور کو مرتبۂ بے کیفی خیال کرتے ہیں، اور مراتبِ عروج کی نہایت اس نور کے ظہور تک تصور کرتے ہیں: تَعَالَی اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَمَّا یَقُوْلُ الظَّالِمُوْنَ عُلُوّا کَبِیرًا (اللہ تعالٰی سبحانہٗ اس بات سے جو ظالم کہتے ہیں بہت بڑا ہے)۔
اور نیز حضرت حق جل شانہٗ کے ساتھ اپنا کلام و مکالمہ کرنا ثابت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حق تعالٰی نے ایسا ایسا فرمایا ہے، کبھی اپنے دشمنوں کے حق میں حضرت عز سبحانہٗ کی طرف سے کئی کئی قسم کی وعیدیں (یعنی بہت سے عذاب) نقل کرتے ہیں، اور کبھی اپنے دوستوں کو بشارتیں دیتے ہیں۔ ان میں سے بعض اس طرح کہتے ہیں کہ رات کے بقیہ تہائی یا چوتھائی حصے سے لے کر صبح کی نماز تک میں حق سبحانہٗ و تعالٰی کے ساتھ کلام کرتا رہا اور ہر طرح کی باتیں پوچھتا رہا اور جواب لیتا رہا، ﴿لَقَدِ اسْتَكْـبَـرُوْا فِىٓ اَنْفُسِهِـمْ وَعَتَوْا عُتُوًّا كَبِيْـرًا﴾ (الفرقان: 21) ترجمہ: ”حقیقت یہ ہے کہ یہ اپنے دلوں میں اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھے ہوئے ہیں اور انہوں نے بڑی سر کشی اختیار کی ہوئی ہے“۔ ان لوگوں کی باتوں سے مفہوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس نورِ مرئی3 کو عین جل سلطانہٗ سمجھتے ہیں اور اس نور کو حق تعالیٰ کی ذات تصور کرتے ہیں، نہ یہ کہ اس کے ظہورات میں سے کوئی ظہور یا اس کے ظلال میں سے کوئی ظل جانتے ہوں۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ اس نور کو حق جل سلطانہٗ کی ذات کہنا محض افترا، صرف الحاد اور خالص زندقہ ہے، یہ اللہ تعالیٰ جل شانہٗ کا نہایت ہی حلم و تحمل ہے کہ اس قسم کے مفتریوں کے لئے طرح طرح کے عذابوں میں جلدی نہیں کرتا اور ان کی بیخ کنی نہیں فرماتا۔ سُبْحَانَکَ عَلٰی حِلْمِکَ بَعْدَ عِلْمِکَ سُبْحَانَکَ عَلٰی عَفْوِکَ بَعْدَ قُدْرَتِکَ (یا اللہ! تو پاک ہے اور ہماری برائیوں کو جاننے کے با وجود حلم فرماتا ہے اور یا اللہ! تو پاک ہے اور قدرت کے با وجود معاف کرتا ہے)۔
حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی قوم صرف رؤیت کی طلب ہی کی وجہ سے ہلاک ہو گئی اور حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے طلبِ رؤیت کے بعد "لَنْ تَرَانِی"3 کا زخم کھایا اور بے ہوش ہو کر گر پڑے اور اس طلب سے تائب ہوئے۔ اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علی آلہ و سلم جو محبوب رب العالمین اور تمام اولین و آخرین موجودات میں سے بہترین ہیں با وجودیکہ معراجِ بدنی سے مشرف ہوئے اور عرش و کرسی سے گزر کر مکان و زمان سے بھی بالا چلے گئے، با وجود قرآنی اشاروں کے آنحضرت علیہ الصلوۃ و السلام کی رؤیت میں بھی علماء کا اختلاف ہے اور اکثر علماء آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی عدمِ رؤیت کے قائل ہیں۔ چنانچہ حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: "وَ الْأَصَحُّ أَنَّہٗ عَلَیْہِ وَ عَلٰی آلِہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ مَا رَأٰی رَبَّہٗ سُبْحَانَہٗ لَیْلَۃَ المِعْرَاجِ" (صحیح یہی ہے کہ آنحضرت علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے معراج کی شب میں اپنے رب کو نہیں دیکھا)۔ (لیکن) یہ بے سر و سامان اپنے خیالِ باطل میں ہر روز خدائے جل شانہٗ کو دیکھتے ہیں جب کہ حال یہ ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ و علی آلہ و سلم کے ایک مرتبہ کے دیدار میں بھی علما قیل و قال کر رہے ہیں۔ فَضَّحَھُمْ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ مَا أَجْھَلَھُمْ (اللہ تعالی ان کو خوار کرے کہ یہ کس قدر جاہل ہیں)۔
اور اسی طرح اس جماعت کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کلام جس کو یہ سنتے ہیں اس کی نسبت حق سبحانہٗ سے ایسی جانتے ہیں جیسی کلام کی نسبت متکلم سے، یہ عین الحاد ہے۔
حَاشَا وَ کَلَّا (ہرگز ایسا نہیں ہے) کہ حضرت حق سبحانہٗ سے تکلم کے انداز میں کوئی ایسا کلام صادر ہو جس میں تقدیم و تاخیر کی ترتیب ہو کہ وہ حادث (فنا ہونے والا) کلام کی علامت ہے۔ شاید مشائخ کبار کی باتوں نے ان کو غلطی میں ڈال دیا ہے، کیونکہ مشائخ نے بھی حضرت جل سلطانہٗ کے ساتھ کلام اور مکالمہ ثابت کیا ہے۔ لیکن یہ بات جاننی چاہیے کہ مشائخ کے کلام کی نسبت جو وہ حضرت حق سبحانہٗ سے کرتے ہیں ایسی نہیں ہے جو کلام کو اپنے متکلم کے ساتھ ہوتی ہے بلکہ وہ وہی نسبت ثابت کرتے ہیں جو مخلوق کو اپنے خالق کے ساتھ ہے اور اس میں کوئی محظور (رکاوٹ) اور قباحت نہیں ہے۔ حضرت موسیٰ علٰی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے جو شجرۂ مبارکہ سے حق جل شانہٗ کا کلام سنا تو اس کلام کو حق جل سلطانہٗ کے ساتھ وہی نسبت تھی جو مخلوق کو اپنے خالق کے ساتھ ہوتی ہے نہ یہ کہ وہ نسبت جو کلام کو اپنے متکلم کے ساتھ ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ کلام جو حضرت جبرئیل علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام نے (اللہ تعالٰی) سے سنا اس کلام کی بھی وہی نسبت تھی جو مخلوق کو اپنے خالق کے ساتھ ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ کلام بھی کلامِ حق جل سلطانہٗ ہے اور اس کا منکر کافر و زندیق ہے، گویا کلامِ حق مشترک ہے کلامِ نفسی اور کلامِ لفظی کے درمیان، جس کو بلا واسطہ کسی امر کے حضرت حق سبحانہٗ و تعالٰی ایجاد فرماتا ہے۔ لہٰذا کلامِ لفظی بھی حقیقت میں کلامِ حق جل وعلا ہوا۔ نا چار اس کا منکر بھی کافر ہو گا۔ فَافْھَمْ فَإِنَّ ھَذَا التَّحْقِیْقَ یَنْفَعُکَ فِيْ کَثِیْرٍ مِنَ الْمَوَاضِعِ وَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ الْمَوَفِّقُ (پس سمجھ لیں کہ یہ تحقیق آپ کو بہت سے مقامات پر نفع دے گی اور اللہ سبحانہٗ ہی توفیق دینے والا ہے)۔
جاننا چاہیے کہ وہ وجود جس کو ہم ممکنات کے لئے ثابت کرتے ہیں وہ ایسا غیر مستقل اور ضعیف وجود ہے جو ممکن کی تمام صفات کی طرح ہے، ممکن کے علم کی (حقیقت) واجب تعالیٰ کے علم کے مقابلے میں کیا حقیقت ہے اور قدرتِ قدیمہ کے مقابلے میں قدرتِ حادثہ کیا اعتبار رکھتی ہے، اسی طرح ممکن کا وجود، واجب تعالیٰ کے وجود کے مقابلے میں محض لا شے ہے۔ کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ دیکھنے والا ان دونوں وجودوں کے فرق مراتب کے باعث شک میں پڑ جاتا ہے کہ آیا وجود کا اطلاق ان دونوں فردوں پر حقیقت کی وجہ سے ہے، یا ایک فرد پر بطریقِ حقیقت ہے اور دوسرے پر بطریقِ مجاز۔
کیا تم نہیں دیکھتے کہ صوفیہ کا ایک بڑا گروہ شقِ ثانی (طریق مجاز) پر یقین رکھتا ہے، اور وجود کے اطلاق کو ممکن کے وجود پر بطریقِ مجاز سمجھتا ہے اور ممکنات کے وجود کو ثابت نہیں کرتا مگر عوام یا اخصِ خواص جن سے مراد انبیاء علیہم الصلٰوۃ و السلام ہیں اور ان کے بعض وہ امتی جو ان کی ولایتِ اصلیہ سے مشرف ہوئے ہیں اور دائرۂ ظلال کو کلّی طور پر طے کر چکے ہیں۔ عوام جو ظاہر کے دیکھنے والے ہیں وہ واجب تعالیٰ کے وجود اور ممکن کے وجود کو مطلق وجود کی اقسام سے جانتے ہیں، اور دونوں کو موجود تصور کرتے ہیں، اور اخصِ خواص دوُر بین اور تیز نظر والے ہیں جو ہر دو وجود کو مطلق وجود کے افراد سے جانتے ہیں، افراد وجود کے مراتب کے فرق کو وجود کی صفات و اعتبارات کی طرف راجع کرتے ہیں نہ کہ وجود کی حقیقت اور ذات کی طرف تاکہ ایک حقیقت ہو اور دوسرا مجاز۔
اور ایک متوسط جماعت جو عوام سے ایک قدم آگے رکھتی ہے اور اخصِ خواص کے کمالات تک نہیں پہنچی، اس کے لئے مشکل ہے کہ وہ ممکنات کے وجود کی قائل ہو جائے اور ممکن کے وجود پر حقیقت کے طریق سے وجود کا اطلاق کرے۔ اسی وجہ سے (متوسطین) کہتے ہیں کہ ممکن کو موجود اس تعلق کی وجہ سے کہتے ہیں کہ اس کی نسبت وجود کے ساتھ ہے، جیسے کہتے ہیں مَاءٌ مُّشَمَّسٌ (آفتاب کی حرارت سے گرم شدہ پانی) اس لئے نہیں کہ اس کا وجود اس (آفتاب) کے ساتھ قائم ہے تاکہ حقیقت کے طریقے پر موجود ہو۔ اس جماعت کے بعض لوگ وجودِ ممکن کے بارے میں خاموش ہیں اور نفی و اثبات کے ساتھ اس کی تصریح نہیں کرتے، اور بعض دوسرے ممکن سے وجود کی نفی کرتے ہیں اور واجب تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کو موجود نہیں جانتے۔ ان میں سے ایک گروہ ممکن کے وجود کو جس طرح واجب تعالیٰ کے وجود کا عین نہیں جانتا اسی طرح واجب تعالیٰ کے وجود کا غیر بھی نہیں جانتا، اور ان میں سے ایک گروہ نے اس کی تصریح کی ہے کہ جس وجود کے ساتھ واجب تعالیٰ کا وجود موجود ہے اور ممکن بھی اسی وجود کے ساتھ موجود ہے اور یہ عبارت بھی وجودِ ممکن کی نفی کرتی ہے، مختصر یہ کہ ممکن کا وجود ثابت کرنے کے لئے تیز بینی کی ضرورت ہے تاکہ وجودِ واجب تعالیٰ کے انوار کی روشنی میں اس کو دیکھا جا سکے۔ تیز نظر والے دن میں بھی آفتاب کی تیز روشنی کے با وجود ستاروں کو دیکھ لیتے ہیں اور جو تیز بیں نہیں ہیں وہ نہیں دیکھ سکتے، لہذا ممکنات کا وجود دن میں ستاروں کے وجود کے مانند ہے کہ جو تیز بیں ہیں وہ دیکھ سکتے ہیں اور ضعیف البصر اس دید سے محروم ہیں۔
اگر کوئی پوچھے کہ عوام ضعفِ بصر اور کوریٔ بصیرت کے با وجود ممکنات کے وجود کو کس طرح دیکھ سکتے ہیں حالانکہ وجودِ واجب تعالیٰ کے انوار کی روشنی اس کی دید کے لئے مانع ہے۔ اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ عوام اربابِ علم سے تعلق رکھتے ہیں نہ کہ اربابِ دید سے اور ہماری گفتگو اربابِ دید کی نسبت ہے نہ کہ اربابِ علم کی، کیونکہ اربابِ علم اس بحث سے خارج ہیں، لہٰذا وجودِ واجب تعالیٰ کے انوار کا ظہور اُن کے حق میں مفقود ہے، پس ممکنات کے وجود کی دید کے لئے مانع نہ ہو گی۔ یا ہم کہتے ہیں کہ انوار کا ظہور وجودِ ممکنات کے شہود کا مانع ہے، نہ کہ وجودِ ممکنات کے علم کا مانع ہے، کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ چیزوں کا علم سننے اور پیروی سے بھی حاصل ہو جاتا ہے اور نظر و استدلال سے بھی متصور ہو سکتا ہے، چنانچہ آفتاب کی روشنی کے ظہور کے با وجود دن میں ستاروں کے وجود کا علم ضعیف نظر والوں کو بھی حاصل ہے، اسی طرح عوام کو ممکنات کے وجود کا علم ہے نہ کہ وجودِ ممکنات کا شہود، کیونکہ شہود بصیرت کی صفات سے ہے اور ان کی بصیرت اندھی ہے۔ مشہود خواہ مَلَک (فرشتہ) ہو یا ملکوت، جبروت ہو یا لاہوت۔
اے عزیز! جس طرح عوام اس بحث میں اخصِ خواص کے ساتھ شریک ہیں، اسی طرح دوسری باتوں میں بھی ان کے درمیان شرکت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات بہت سے احکام میں عوام کی مانند زندگی بسر کرتے تھے اور معاشرتی زندگی میں مخلوق اور اہل و عیال کے ساتھ عوام کی مانند معاملہ فرماتے تھے اور اپنے اہل و عیال کے ساتھ حسنِ معاشرت سے متعلق حضرت خیر البشر علیہ و علیہم الصلوات و التسلیمات کی بہت سی احادیث مشہور ہیں۔ چنانچہ منقول ہے کہ ایک روز حضرت سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام امامین (یعنی حضرت امام حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کی پیشانی کا بوسہ لے رہے تھے اور بہت خوشی و انبساط کے ساتھ ان سے گُھل مِل رہے تھے۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے گیارہ لڑکے ہیں اور میں نے ان میں سے کسی کا بوسہ نہیں لیا۔ حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا یہ (اللہ تعالیٰ کی) رحمت ہے جو وہ اپنے رحیم (مہربان) بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ چونکہ اخصِ خواص بھی بعض اوصاف میں عوام کے ساتھ شریک ہیں اگرچہ وہ شرکت ظاہری صورت کے اعتبار سے ہو، اس لئے عوام اپنی نا رسائی اور قصور فہم کی وجہ سے ان (اخصِ خواص) کے کمالات سے بہت کم حصہ رکھتے ہیں اور ان کو اپنی مثل خیال کرتے ہیں، اور جو شخص ان کے اوصاف و شمائل میں ان سے مختلف ہو، اس کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں اور اس کو بزرگ خیال کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کے ان اوصاف و اخلاق کو جو ان عوام کے اوصاف سے مختلف ہیں ان کو بہتر سمجھتے ہیں جو ان کے اخلاق و اوصاف کے مشابہ ہیں اگرچہ وہ اخلاق انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات میں موجود ہیں۔
(اے عزیز) سنو! مخدوم شیخ فرید شکر گنج4 سے نقل کیا گیا ہے کہ جب ان کے لڑکوں میں سے ایک لڑکے کا انتقال ہو گیا اور اس کی موت کی خبر آپ کو پہنچائی گئی تو آپ پر (رنج و غم سے متعلق) کچھ تغیر نہ ہوا اور فرمایا: "سگ بچہ مر گیا، اس کو باہر پھینک دو“۔ اور جب حضرت سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے صاحب زادے حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہوا تو حضرت پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام اس قدر غمگین ہوئے کہ آنسو نکل آئے اور فرمایا: "إِنَّا بِفَرَاقِکَ یَا إِبْرَاھِیْمُ لَمَحْزُوْنُوْنَ" ترجمہ: ”اے ابراہیم! ہم تیری جدائی کی وجہ سے بہت غمگین ہیں“۔ اور بڑے مبالغے اور تاکید کے ساتھ غم و اندوہ کا اظہار فرمایا۔ (فرمائیں) کہ حضرت شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ بہتر ہیں یا حضرت سید البشر صلی اللہ تعالیٰ علیہ و آلہ و سلم ؟ عوام کالانعام کے نزدیک پہلا معاملہ بہتر ہے اور اس کو بے تعلق جانتے ہیں اور دوسرے کو عین تعلق اور اولاد سے لگاؤ خیال کرتے ہیں۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ عَنْ مُعْتَقَدَاتِھِمُ السُّوْءِ (اللہ تعالیٰ ہم کو ان کے بُرے اعتقادات سے اپنی پناہ میں رکھے) اور چونکہ یہ جہان آزمائش و امتحان کی جگہ ہے عوام کو شبہ میں ڈالنا اور مشتبہ کرنا عین حکمت و مصلحت ہے: اَللّٰھُمَّ أَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَّ ارْزُقْنَا اتِّبَاعَہٗ وَ أَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَہٗ بِحُرْمَۃِ سَیِدِ الْبَشَرِْ عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ مِنَ الصَّلَوَاتِ أَفْضَلُھَا وَ مِنَ التَّسْلِیْمَاتِ أَکْمَلُھَا (اے اللہ! حضرت سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کے طفیل ہم کو حق کو حق کر کے دکھا اور حق کی تابع داری نصیب فرما اور باطل کو باطل کر کے دکھا اور اس سے ہم کو بچا)۔
اب ہم اصل بات بیان کرتے ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کا ایمان اور ان کے اصحاب کا ایمان اور ان کے اولیاء کا ایمان جو کہ اصحاب کے ساتھ ملحق ہیں شہود کے بعد دعوت (بخلق) کی طرف رجوع کرنے کی وجہ سے غیبت کے ساتھ قرار پایا ہوا ہوتا ہے، جس طرح کہ کوئی شخص سورج کو دن میں دیکھتا ہے تو آفتاب کے وجود کے ساتھ ایمانِ شہودی پیدا ہو جاتا ہے اور جب رات ہو جاتی ہے تو اس کا ایمانِ شہودی، ایمانِ غیب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ علماء کا ایمان اگرچہ غیب کے ساتھ ہے لیکن ان کا غیب انبیاء علیہم الصلوات و التحیات کی متابعت کے نور کے واسطہ سے حکمِ حدس (یعنی ذہن کا سرعت کے ساتھ مبادی سے مطالب کی طرف منتقل ہو جانے) کا حکم پیدا کر لیتا ہے اور استدلالیت سے نکل جاتا ہے۔ اس جگہ علماء سے مراد علماءِ آخرت ہیں نہ کہ علماءِ دنیا۔ کیونکہ علماءِ دنیا عام مومنین کے زمرے میں داخل ہیں۔ ایمان بالغیب جو عامۂ مومنین کے ساتھ منسوب ہے ان کے اقسام میں سے بہترین قسم وہ ایمان ہے جو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تقلید کے ساتھ وابستہ ہے اور اللہ تعالی کی کتاب اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت سے ملا ہوا ہے۔
سوال:
علماء نے فرمایا ہے کہ ایمانِ استدلالی ایمانِ تقلیدی سے بہتر ہے یہاں تک کہ بہت سے علماء استدلال کو ایمان کی شرط قرار دیتے ہیں اور ایمانِ تقلیدی کو معتبر نہیں جانتے، اور تم نے ایمانِ تقلیدی کو بہتر کہا ہے؟
جواب:
وہ ایمان جو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تقلید سے حاصل ہوتا ہے در اصل ایمانِ استدلالی ہے کیونکہ صاحبِ تقلید دلیل کے ساتھ جانتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التحیات تبلیغِ رسالت میں صادق ہیں کیونکہ وہ شخص جس کی (رسالت کی) تصدیق حضرت حق سبحانہٗ و تعالٰی نے معجزات کے ذریعے کی ہے یقینًا وہ سچا ہے لہٰذا تمام انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات جن کی تائید معجزات سے ہوئی ہے، وہ سب کے سب سچے ہیں۔ غیر معتبر تقلید وہ ہے کہ ایمان میں اپنے آباء و اجداد کی تقلید کرے اور انبیاء علیہم الصلوات و التحیات کی صداقت اور ان کی تبلیغ کی حقیقت اور راستی کو منظور نہ رکھے۔ ایسا ایمان بہت سے علماء کے نزدیک معتبر نہیں ہے۔ باقی رہا (ایمانِ) استدلالی جو اربابِ نظر (منطقی) اپنے مقدمات کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اور صغریٰ و کبریٰ کی ترتیب سے نتیجہ نکال کر ایمان حاصل کرتے ہیں وہ (ایمانِ) استدلالی ایک ایسا امر ہے جو امکان سے نزدیک اور وقوع سے دور ہے، کیونکہ استدلال کے مقام میں واجب تعالیٰ کے اثبات کے لئے اربابِ نظر میں سے مولانا جلال الدین دوانی5 جیسا معلوم نہیں کہ کوئی اور گزرا ہو، کیونکہ وہ محقق بھی ہے اور متاخرین میں سے ہے اور اس نے عالی مطلب کے ثابت کرنے میں بہت کوشش کی ہے۔ اس کے با وجود کوئی مقدمہ اس کے استدلالات کے مقدمات میں سے ایسا نہیں ہے جس میں اس کے رسالوں کے حاشیہ نگاروں نے منع یا نقص کے ساتھ پیش نہ کیا ہو اور معتبر اعتراضات نہ کئے ہوں۔ اس صاحبِ استدلال پر بہت افسوس ہے جو ایمان کو محض استدلال ہی سے حاصل کرتا ہے اور انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تقلید اس کی دست گیری اور مدد نہیں کرتی۔ ﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ﴾ (آل عمران: 53) ترجمہ: ”اے ہمارے رب! آپ نے جو کچھ نازل کیا ہے ہم اس پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے رسول کی اتباع کی ہے، لہذا ہمیں ان لوگوں میں لکھ لیجیے جو (حق کی) گواہی دینے والے ہیں“۔
1 آپ کے نام دس مکتوبات ہیں۔ دفتر اول مکتوب 272، 285، 298، 305۔ دفتر دوم مکتوب 19، 89۔ دفتر سوم مکتوب 3، 7، 13، 29۔ آپ کی ماہ صفر سنہ 996ھ صوبہ اودھ میں ولادت ہوئی۔ ظاہری علوم حاصل کرنے کے بعد شیخ فضل اللہ برہان پوری سے خلاف پائی، پھر حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں سرہند حاضر ہوئے اور خلافت سے سر فراز ہو کر وطن واپس چلے گئے۔ لیکن تلون مزاجی کی وجہ سے حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد گنگوہ پہنچے اور حضرت ابو سعید رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہو کر خلافت حاصل کی۔ شاہجہاں اور دارا شکوہ کو آپ سے عقیدت تھی لیکن عالمگیر آپ کے موافق نہ تھے۔ 9 رجب سنہ 1058ھ کو الہ آباد میں وفات پائی۔
2 وہ نور جو نظر آئے۔
3 ترجمہ: ”تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے“۔ (الأعراف: 143)
4 شیخ فرید شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کے والد شیخ جمال الدین فاروقی سلطان شہاب الدین غوری کے زمانے میں کابل سے لاہور تشریف لائے۔ کھنی وال ضلع ملتان سنہ 585ھ میں حضرت بابا شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت ہوئی۔ ملتان میں زیرِ تعلیم تھے کہ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی تشریف لے آئے، آپ فورًا حضرت سے بیعت ہو گئے اور تکمیل سلوک کے بعد خلاف پائی۔ 95 سال کی عمر میں ہفتے کے دن 5 محرم سنہ 664 کو پاک پتن میں انتقال ہوا۔
5 یعنی محمد بن اسعد الصدیقی شارح عقائد عضدیہ المتوفی سنہ 980ھ۔