دفتر اول مکتوب 273
مرزا حسام الدین احمد1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ سالک کو چاہیے کہ اپنے شیخ کے طریقے کو لازم جانے اور دوسرے مشائخ کے طریقے کی طرف التفات نہ کرے اور اگر واقعات اس کے خلاف ظاہر ہوں تو ان کا کچھ اعتبار نہ کرے کیونکہ شیطان زبر دست دشمن ہے اور اس کے مکر و فریب سے غافل نہیں ہونا چاہیے اور اس کے مناسب بیان میں۔
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔ عَلَیْھِمْ مِّنَ الصَّلَوَاتِ أَتَمُّھَا وَ مِنَ التَّحِیَّاتِ أَکْمَلُھَا (اللہ تعالیٰ ان (رسولوں) پر پوری صلوات اور کامل تحیات نازل فرمائے)
آپ کا التفات نامہ جو آپ نے مہربانی فرما کر اس حقیر کے نام لکھا تھا وصول ہو کر خوشی اور مسرت کا باعث ہوا، اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی جزائے خیر عطا فرمائے۔
آپ کے گرامی نامے میں لکھا ہوا تھا کہ ''اگر سماع کے منع ہونے کا مبالغہ ایسے مولود کے منع ہونے کو بھی شامل ہے جو نعتیہ قصیدوں اور غیر نعتیہ اشعار کے پڑھنے سے مراد ہے (جیسا کہ آپ کہتے ہیں) تو برادر عزیز میر محمد نعمان اور اس جگہ کے بعض دوستوں کے لئے جنہوں نے واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھا ہے کہ اس مجلسِ مولود سے بہت خوش ہیں، یہی وجہ ہے کہ مولود کے سننے کو ترک کرنا ان کے لئے بہت مشکل ہے''۔
میرے مخدوم اگر وقائع کا کچھ اعتبار ہوتا اور خوابوں پر بھروسہ ہوتا تو مریدوں کو پیروں کی کچھ ضرورت نہ رہتی اور طریقوں میں سے کسی ایک طریقے کو اپنے اوپر لازم کرنا لغو اور بے فائدہ ہوتا کیونکہ ہر ایک مرید اپنے واقعات کے موافق عمل کر لیتا اور اپنے خوابوں کے مطابق زندگی بسر کرتا، خواہ وہ واقعات اور منامات پیر کے طریقے کے موافق ہوں یا نہ ہوں، اور خواہ پیر کو پسند ہوں یا نہ ہوں۔ اس طریقے پر سلسلۂ پیری و مریدی درہم برہم ہو جاتا اور ہر بو الہوس اپنی وضع و طریقے پر مضبوطی سے قائم ہو جاتا۔ حالانکہ مریدِ صادق ہزارہا واقعات کو پیر کی موجودگی میں آدھے جو کے عوض بھی نہیں خریدتا اور طالبِ رشید پیر کی حضوری (موجودگی) کی بدولت خوابوں کو پریشان و جھوٹے خواب جانتا اور ان کی طرف کچھ التفات نہیں کرتا۔ شیطان لعین ایک طاقت ور دشمن ہے جب منتہی حضرات اس کے فریب سے امن میں نہیں ہیں اور اس کے مکر سے لرزاں و ترساں ہیں تو پھر مبتدیوں اور متوسطوں کا کیا ذکر ہے۔ حاصلِ کلام یہ ہے کہ منتہی شیطان کے غلبے سے محفوظ و مصون ہیں بخلاف مبتدیوں اور متوسطوں کے پس ان کے واقعات اعتماد کے لائق نہیں ہیں اور نہ ہی دشمن کے مکر سے محفوظ ہیں۔
سوال:
وہ واقعہ کہ جس میں حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو دیکھیں اور زیارت ہو وہ سچ ہے اور یہ بات شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہے: "فَإِنَّ الشَیْطَانَ لَا یَتَمَثَّلُ بِصُورَتِہٖ، کَمَا وَرَدَ"2 ترجمہ: ”کیونکہ شیطان ان (حضور علیہ الصلوۃ و السلام) کی صورت میں نہیں آ سکتا جیسا کہ حدیث میں وارد ہے“۔ پس وہ وقائع جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں سچے ہیں اور شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ ہیں۔
جواب:
صاحبِ فتوحاتِ مکیہ (شیخ ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں کہ آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی اس صورت خاصہ کے ساتھ جو کہ مدینہ منورہ میں (گنبد خضرا کے اندر) مدفون و آرام فرما ہیں شیطان متمثل نہیں ہو سکتا (لیکن) اس مخصوص صورت کے علاوہ جس صورت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھا جائے، شیطان کے عدم متمثل ہونے کا حکم تجویز نہیں کرتے۔ یعنی (شیخ اکبر رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اس صورت خاص (شبیہ مبارک) کے علاوہ اور جس صورت میں بھی حضور انور صلی اللہ علیہ و سلم کو دیکھیں، شیطان متمثل ہو سکتا ہے، اور امام ابن سیرین رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی طرف گئے ہیں) اور اس میں کچھ شک نہیں کہ آنحضرت علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کی اس صورت خاص (شبیہ مبارک) کی تمیز و تشخص خصوصًا خوابوں میں بہت مشکل اور دشوار ہے۔ پھر یہ بات کس طرح اعتماد کے لائق ہو گی؟ اور اگر شیطان کے متمثل نہ ہونے کو آں سرور علیہ و علی الصلوۃ و السلام کی اس صورتِ خاصہ کے ساتھ مخصوص نہ کریں اور جس صورت میں بھی لوگ آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے دیدار سے مشرف ہوں، اس صورت میں شیطان کے متمثل نہ ہونے کو تجویز کریں جیسا کہ بہت سے علماء اس طرف گئے ہیں تو یہ بات بھی آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی رفعت شان کے نہایت مناسب ہے۔
میں کہتا ہوں کہ اس صورت سے جو خواب میں دیکھی ہے احکام کا اخذ کرنا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی مرضی و نا مرضی کا معلوم کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دشمن لعین شیطان درمیان میں واسطہ بن گیا ہو اور خلاف واقعہ کو واقعہ کی صورت میں ظاہر کیا ہو اور دیکھنے والے کو شک و شبہ میں ڈال دیا ہو، اور اپنی عبارت و اشارت کو آں سرور علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کی اس صورت کی عبارت و اشارت کر کے دکھایا ہو۔ چنانچہ مروی ہے کہ ایک دن حضرت سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوۃ مجلس میں تشریف رکھتے تھے اور قریش کے بڑے بڑے سردار اور اہلِ کفر کے رئیس بھی اس مجلس میں حاضر تھے اور بہت سے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین بھی وہاں موجود تھے۔ حضرت سید البشر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام نے ان کے سامنے سورۂ والنجم کی تلاوت شروع کی اور جب ان کے باطل معبودوں کے ذکر پر پہنچے تو شیطان لعین نے اس وقت چند فقرے ان کے بتوں کی تعریف میں آں سرور علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کے کلام کے ساتھ اس طرح شامل کر دیئے کہ حاضرین نے اس کو آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کا کلام سمجھا اور اس میں کچھ تمیز نہ کر سکے۔ اس پر جو کافر وہاں موجود تھے انہوں نے خوش ہو کر شور مچا دیا اور کہنے لگے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمارے ساتھ صلح کر لی اور ہمارے بتوں کی تعریف کی۔ حاضرینِ اہلِ اسلام بھی اس کلام سے حیرت میں پڑ گئے، لیکن آں سرور صلی اللہ علیہ و سلم اس لعین کے کلام سے مطلع نہ ہو سکے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کیا بات ہے؟ (یہ کافر کیوں خوش ہو رہے ہیں؟) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے عرض کیا کہ اثناءِ کلام میں آپ سے اس قسم کے فقرے ظاہر ہوئے۔ آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام یہ بات سن کر متفکر اور مغموم ہو گئے۔ اسی اثناء میں جبرئیل امین علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام وحی لے کر حاضر ہوئے کہ وہ کلام شیطان کا القا کیا ہوا تھا، اور کوئی نبی یا رسول ایسا نہیں گزرا کہ جس کے کلام میں شیطان نے القا نہ کیا ہو، جس کے بعد حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس کو رد کر کے اپنے کلام کو محکم بنایا ہے3۔ پس جب آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی حیات مبارکہ بیداری کے وقت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی مجلس میں شیطان لعین نے اپنے باطل کلام کو آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے کلام میں القا کر دیا (ملا دیا) اور حاضرین صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین میں سے کسی نے تمیز نہ کی تو آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کے دنیا سے تشریف لے جانے کے بعد خواب کی حالت میں جو کہ حواس کے معطل اور بے کار ہونے کا محل اور شک و شبہ کا مقام ہے، دیکھنے والے کی تنہائی کے با وجود کہاں سے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ شیطان کے تصرف اور مکر و فریب سے محفوظ و مامون ہے؟
اس کے با وجود میں کہتا ہوں کہ جب نعتیہ قصیدوں کے پڑھنے اور سننے والوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ چکی تھی کہ آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام اس عمل سے راضی ہیں جیسا کہ ممدوح لوگ اپنی مدح کرنے والوں سے راضی ہوتے ہیں اور یہ حقیقت ان کی قوتِ متخیلہ میں منقش ہو گئی ہو، تو ہو سکتا ہے کہ واقعہ میں اسی اپنی متخیلہ صورت کو دیکھا ہو، قطعِ نظر اس کے کہ اس واقعے کی کوئی حقیقت بھی ہے یا صرف تمثیلِ شیطانی ہی ہے۔ نیز واقعات اور رویائے صادقہ کبھی ظاہر پر محمول ہوتے ہیں اور ان کی حقیقت وہی ہوتی ہے جو دیکھنے والے نے دیکھی ہے، مثلًا زید کی صورت کو خواب میں دیکھا اور اس سے مراد زید کی وہی حقیقت ہے، اور کبھی واقعات اور رویائے صادقہ ظاہر سے پھرے ہوئے اور تعبیر پر محمول ہوتے ہیں مثلًا زید کی صورت کو خواب میں دیکھا اور اس سے مراد عمرو کو رکھا گیا اس مناسبت کے لحاظ سے جو زید و عمرو کے درمیان ہے۔ لہذا کس طرح معلوم ہو سکتا ہے کہ احباب کے یہ واقعات ظاہر پر محمول ہیں اور ظاہر سے پھرے ہوئے نہیں ہیں؟ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ان واقعات سے مراد ان کی تعبیریں ہوں اور وہ واقعات دوسرے امور سے کنایہ ہوں، بغیر اس کے کہ تمثیلِ شیطانی کی گنجائش ہو۔ غرض کہ وقائع کا کچھ اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔ اشیاء خارج میں موجود ہیں، کوشش کرنی چاہیے کہ اشیاء کو بیداری میں دیکھيں جو کہ اعتبار کے لائق ہے اور اس میں تعبیر کی بھی گنجائش نہیں۔
آنچہ در خواب و خیال دیدہ شود خواب و خیال است
ترجمہ:
جو کچھ خواب و خیال میں دیکھا جائے وہ خواب و خیال ہی ہے۔
وہاں کے احباب ایک عرصے سے اپنی وضع کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں، ان کے اختیار کی لگام ان کے لئے اپنے ہاتھ میں ہے لیکن میر محمد نعمان کو فقیر کے حکم کی تعمیل کے سوا چارہ نہیں، عِیَاذًا بِاللہِ سُبْحَانَہٗ (اللہ سبحانہٗ کی پناہ) کہ منع کرنے کے بعد ایک لمحہ بھی توقف کرے۔ اگر بالفرض توقف کرے بھی تو کس کا نقصان ہو گا؟ اس منع کرنے میں فقیر کا مبالغہ اپنی طریقت کی مخالفت کی وجہ سے ہے، وہ مخالفت خواہ بطریق سماع و رقص ہو یا بطریق مولود و شعر خوانی۔ ہر سلسلے کے لئے مطلبِ خاص کے ساتھ ایک وصول ہے، اور اس طریق میں مطلبِ خاص کا وصول ان امور کے ترک کرنے پر وابستہ ہے۔ جس شخص کو اس طریقے کے مطلبِ (خاص تک پہنچنے) کی طلب ہو اس کو چاہیے کہ طریق کی مخالفت سے پرہیز کرے اور دوسرے طریقوں کے مطالب اس کے منظور نظر نہ ہوں۔
اور حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہٗ نے فرمایا ہے کہ "ما نہ این کار می کنیم و نہ انکار می کنیم" (ہم یہ کام خود نہیں کرتے اور نہ اس کا انکار کرتے ہیں) یعنی یہ کام ہمارے خاص طریقے کے خلاف ہے اس لئے نہیں کرتے اور چونکہ اس کو دوسرے مشائخ کرتے ہیں اس لئے منع بھی نہیں کرتے۔﴿وَلِكُلٍّ وِّجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّـيْـهَا﴾ (البقرۃ: 148) ترجمہ: ”اور ہر گروہ کی ایک سمت ہے جس کی طرف وہ رخ کرتا ہے“۔
فیروز آباد (نواح دہلی کی ایک بستی) جو ہم فقرا کا ملجا و ماویٰ ہے ہمارے پیروں اور پیشواؤں کا مرکز ہے، جب وہاں اس طرح کی کوئی بات ہوتی ہے جو اس طریقۂ عالیہ کے خلاف ہے تو ہم فقرا کے لئے نہایت اضطراب و بے قراری کا مقام ہے۔ حضرات مخدوم زادے اپنے والد بزرگوار کے طریقے کی حفاظت کے زیادہ مستحق اور حق دار ہیں۔ حضرت خواجہ احرار قدس سرہٗ کے فرزندوں نے اپنے والد بزرگوار کے طریقے کے تبدیل ہو جانے کے بعد اصل طریقے کی حفاظت کی اور تغیر کرنے والوں کے ساتھ جھگڑا کیا۔ چنانچہ آپ کے مبارک کانوں میں بھی یہ بات پہنچی ہو گی۔
نیز آپ نے ہمارے حضرت خواجہ (باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) کے مشرب قوی العذب (نہایت خوشگوار طریقہ) کے متعلق لکھا تھا۔ ہاں ہاں! ابتدائی احوال میں بعض امور کے اندر ملامتیہ مذہب کی رعایت کی وجہ سے آسانی اور نرمی برتتے تھے اور ملامت کو ترجیح دے کر بعض چیزوں میں عزیمت کو ترک کر دیا کرتے تھے، لیکن آخر میں ان امور سے بھی پرہیز اختیار کر لیا تھا اور ملامت و ملامتیہ کا ذکر تک نہیں کرتے تھے۔ اگر آپ انصاف کی نظر سے دیکھیں کہ بالفرض حضرت ایشاں (خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ) اگر اس وقت دنیا میں بقیدِ حیات ہوتے اور ایسی مجلس و اجتماع کا انعقاد ان کی موجودگی میں ہوتا تو وہ اس امر سے راضی ہوتے اور اس اجتماع کو پسند کرتے یا نا پسند کرتے۔ فقیر کو اس کا یقین ہے کہ وہ اس کو ہرگز جائز نہیں سمجھتے بلکہ اس کا انکار کرتے۔ فقیر کا مقصد تبلیغ کرنا ہے قبول کریں یا نہ کریں کوئی مضائقہ نہیں اور نہ جھگڑے کی کوئی گنجائش ہے۔ اگر مخدوم زادے اور ان کے احباب اسی حال پر قائم رہیں اور (اپنی حالت کو نہ بدلیں) تو ہم فقیروں کو ان کی صحبت سے سوائے مایوسی اور دور رہنے کے کوئی چارہ نہیں ہے، اس سے زیادہ کیا تکلیف دی جائے۔ وَ السَّلَامُ أَوَّلًا وَّ آخِرًا
1 آپ کے نام 16 مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 32 پر ملاحظہ فرمائیں۔
2 جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: "مَنْ رَآنِيْ فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ بِي" (بخاری و مسلم) ترجمہ: ”جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو بے شک اس نے مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان میری صورت میں متمثل نہیں ہو سکتا“۔
3 جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ مَاۤ أَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِکَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ إِلَّاۤ إِذَا تَمَنّٰۤی أَلۡقَی الشَّیۡطٰنُ فِیۡۤ اُمۡنِیَّتِہٖ فَیَنۡسَخُ اللّٰہُ مَا یُلۡقِی الشَّیۡطٰنُ ثُمَّ یُحۡکِمُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ﴾ (الحج: 52) ترجمہ: ”اور (اے پیغمبر) تم سے پہلے ہم نے جب بھی کوئی رسول یا نبی بھیجا تو اس کے ساتھ یہ واقعہ ضرور ہوا کہ جب اس نے (اللہ کا کلام) پڑھا تو شیطان نے اس کے پڑھنے کے ساتھ ہی (کفار کے دلوں میں) کوئی رکاوٹ ڈال دی، پھر جو رکاوٹ شیطان ڈالتا ہے، اللہ اسے دور کر دیتا ہے، پھر اپنی آیتوں کو زیادہ مضبوط کر دیتا ہے، اور اللہ بڑے علم کا، بڑی حکمت کا مالک ہے“۔