دفتر اول مکتوب 262
مولانا محبِ علی1 کی طرف صادر فرمایا۔ اس بیان میں کہ ہمارا تعلق حُبی ہے اور ہماری نسبت انعکاسی، جو قُرب و بُعد میں کچھ فرق نہیں رکھتی، اور اس کے مناسب بیان میں۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلٰمٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (تمام تعریف اللہ تعالیٰ کے لئے ہے اور برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)
صحیفہ شریفہ جو آپ نے مہربانی فرما کر تحریر کیا تھا موصول ہو کر خوشی کا باعث ہوا۔ چونکہ وہ فرطِ محبت اور کمالِ اختصاص سے لبریز تھا اس لئے بہت زیادہ خوشی حاصل ہوئی۔ آپ نے سابقہ وعدے کے پورا کرنے کے لئے لکھا تھا۔
میرے مخدوم! شرعی طریقوں میں سے جس وضع پر آپ چاہیں رہیں، کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ یہ رشتۂ محبت نہ ٹوٹے، بلکہ روز بروز مضبوط ہوتا جائے، اور یہ شعلۂ اشتیاق و محبت سرد نہ پڑنے پائے بلکہ لحظہ بلحظہ اس میں زیادتی اور تیزی ہوتی رہے، کیونکہ ہمارا تعلق حُبّی (محبت پر) ہے اور ہماری نسبت انعکاسی اور انصباغی (دوسرے کا اثر و عکس قبول کرنا اور رنگ میں رنگ جانا) ہے، اس لئے جلد یا بدیر اور طریق کی بعض خصوصیات کا علم نہ ہونے کے باعث قُرب و بُعد میں کچھ فرق نہیں رکھتی۔
اس معنی کی تحقیق اس مکتوب کے خاتمہ سے جو فرزندی و ارشدی2 کے نام اس طریقے کے بیان میں لکھا ہے معلوم کریں۔ اس مکتوب کی نقل برادرم سیادت پناہ میر محمد نعمان کے دوست لے گئے ہیں وہاں سے منگوا لیں۔ کلام کو ذیادہ طول کیا دیا جائے۔ و السّلام
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ مولانا محب علی بن صدر الدین ٹھٹوی سندھی فقیہ و شاعر تھے، آپ کے دادا علی سلطان بابر کے ساتھ ہندوستان آئے اور شہید ہو گئے۔ والد ماجد نے ہمایوں کے ہمراہ بلاد ہند کا سفر کیا اور ٹھٹھہ میں سکونت اختیار کر لی چنانچہ آپ کی ولادت ٹھٹھہ میں ہوئی۔ والد ماجد کا سایہ بچپن ہی میں اٹھ گیا، آپ نے بڑی محنت سے علم حاصل کیا۔ جب عبد الرحیم خان خاناں نے سندھ فتح کیا تو آپ ان کے ہمراہ آگرہ چلے گئے پھر برہان پور چلے گئے اور شیخ محمد بن فضل اللہ برہان پوری سے طریقت کی تکمیل کی۔ بعد ازاں حرمین شریفین چلے گئے۔ حج کر کے واپس برہان پور پہنچے تو شاہ جہاں بادشاہ اپنے ساتھ دہلی لے آئے اور بقیہ زندگی شاہ جہاں کی مصاحبت میں گزاری۔ سنہ 1040ھ کے بعد انتقال ہوا۔ (نزھۃ الخواطر، جلد: 5، صفحہ نمبر: 260)
2 مخدوم زادۂ کلاں خواجہ محمد صادق کے نام دفتر اول مکتوب 260۔