دفتر اول مکتوب 261
سیادت مآب میر محمد نعمان1 کی جانب نماز کے فضائل اور اس کے مخصوص کمالات کے بیان میں جو معارفِ بلند اور حقائق ارجمند کے ضمن میں ہیں صادر فرمایا۔
حمد و صلوٰۃ اور تبلیغِ دعوات کے بعد میرے عزیز بھائی ارشدہ اللہ سبحانہٗ کو معلوم ہو کہ اسلام کے پنج گانہ ارکان میں سے ’’نماز‘‘ رکنِ دوم ہے جو تمام عبادات کی جامع ہے اور ایک ایسا جزو ہے کہ جس نے اپنی جامعیت کی وجہ سے کُل کا حکم پیدا کر لیا ہے اور تمام مقرِب اعمال پر سبقت لے گئی ہے، اور وہ دولتِ رویتِ (باری تعالیٰ) جو سرورِ عالمیان علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات کو شبِ معراج بہشت میں میسر ہوئی تھی، دنیا میں نزول فرمانے کے بعد اس جہان کے مناسب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو وہ دولت نماز میں میسر ہوتی تھی۔ اسی لئے آنحضرت علیہ و علی آلہ و سلم نے فرمایا ہے: ''اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ''2 ترجمہ: ’’نماز مومن کی معراج ہے‘‘ اور یہ بھی آپ علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا ہے: ''أَقْرَبُ مَا یَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِي الصَّلٰوۃِ''3 ترجمہ: ’’بندے کو اپنے رب کے ساتھ سب سے زیادہ قرب نماز میں ہوتا ہے‘‘۔ آپ علیہ و علیہم الصلوات و التحیات کے کامل تابع داروں کو بھی اس جہاں میں اس دولت کا بہت سا حصہ نماز میں حاصل ہے، اگرچہ حقیقی رویت میسر نہیں ہے کیونکہ یہ جہاں اس کی تاب و طاقت نہیں رکھتا۔ اگر (حق تعالیٰ) نماز کا حکم نہ فرماتا تو مقصود کے چہرے سے نقاب کون اٹھاتا اور طالب کو مطلوب کی طرف کون رہنمائی کرتا؟ نماز ہی ہے جو غم گساروں کے لئے لذت بخش ہے اور نماز ہی ہے جو بیماروں کو راحت دہ ہے: ''أَرِحْنِیْ یَا بِلَالُ'' ترجمہ: ’’اے بلالؓ مجھے راحت دے‘‘ اس حقیقت کا رمز ہے۔ اور ''قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ'' ترجمہ: ’’میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے‘‘ میں اسی آرزو کی طرف اشارہ ہے۔ وہ ذوق و مواجید، علوم و معارف، احوال و مقامات، انوار و الوان، تلونیات و تمکینات (بے قراری و اطمینان) تجلیات متکیّفہ (کیفیت والی اور بے کیفیت والی تجلیات) اور ظہوراتِ متلوِّنہ و غیر متلونہ (رنگا رنگ و بے رنگ ظہورات) ان میں سے جو کچھ نماز کے علاوہ (اوقات میں) میسر ہوں اور نماز کی حقیقت سے آگاہی کے بغیر ظاہر ہوں، ان سب کا منشا ظلال و امثال ہے بلکہ وہم و خیال سے پیدا ہوئے ہیں۔ وہ نمازی جو نماز کی حقیقت سے آگاہ ہے، نماز کی ادائیگی کے وقت گویا عالمِ دنیا سے باہر نکل جاتا ہے اور عالمِ آخرت میں پہنچ جاتا ہے لہٰذا وہ اس وقت اس دولت سے جو آخرت کے ساتھ مخصوص ہے، حصہ حاصل کر لیتا ہے اور اصل سے ظلیت کی آمیزش کے بغیر فائدہ اُٹھاتا ہے۔ کیونکہ عالمِ دنیا (کا معاملہ) کمالاتِ ظلی تک محدود ہے اور وہ معاملہ جو ظلال سے باہر ہے آخرت کے ساتھ مخصوص ہے۔ پس معراج سے چارہ نہ ہو گا اور وہ مؤمنوں کے حق میں نماز ہے، اور یہ دولت اس امت کے ساتھ مخصوص ہے جو اپنے پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات کی متابعت کے سبب جو شبِ معراج میں دنیا سے آخرت میں تشریف لے گئے اور بہشت میں پہنچ کر (حق تعالیٰ کی) رؤیت کی دولت سے مشرف ہوئے (لہٰذا یہ امت بھی) اس کمال کے ساتھ مشرف اور اس سعادت سے فیض یاب ہوئی۔ اَللّٰھُمَّ اجْزِہٖ عَنَّا مَا ھُوَ اَھْلُہٗ وَ اجْزِہٖ عَنَّا أَفْضَل مَا جَزَیْتَ نَبِیًِّا عَنْ اُمَّتِہٖ وَ اجْزِ الْأَنْبِیَاءَ کُلَّھُمْ جَزَاءً خَیْرًا فَإِنَّھُمْ دُعَاۃُ الْخَلْقِ إِلَی اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ وَ ھُدَاتُھُمْ إِلٰی لِقَاءِ اللّٰہِ تَعَالٰی (یا اللہ! تو ہماری طر ف سے ان (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) کو ایسی جزا عطا فرما جو اُن کے شایانِ شان ہے اور ان کو ہماری طرف سے اس سے بھی افضل جزا عطا فرما جو تو نے امت کی طرف سے کسی نبی کو عطا فرمائی ہو اور ہماری طرف سے تمام انبیاء (علیہم السلام) کو جزا عطا فرما کیونکہ وہ سب کے سب مخلوق کو حق تعالیٰ کی طرف سے دعوت دینے والے اور اس (حق تعالیٰ) کی طرف ہدایت دینے والے ہیں)
اس گروہ سے بعض لوگ جن کو نماز کی حقیقت سے آگاہی حاصل نہیں ہوئی اور اس کے مخصوص کمالات پر اطلاع نہیں بخشی گئی، انہوں نے اپنے امراض کا علاج دوسرے امور میں تلاش کیا اور اپنی مرادوں کا حاصل دوسری چیزوں پر وابستہ جانا۔ بلکہ ان میں سے ایک گروہ نے نماز کو بے فائدہ اور دُور از کار سمجھ کر اس (وصول الی اللہ) کی بنیاد (نماز کے علاوہ) اور چیزوں (عبادات) پر رکھی اور روزہ کو نماز سے افضل جانا۔ (مثلًا) صاحبِ فتوحاتِ مکیہ کہتے ہیں کہ ’’روزے میں جو کھانے پینے کا ترک ہے، وہ صفتِ صمدیت سے متحقق ہونا ہے اور نماز میں غیر و غیریت کی طرف آنا اور عابد و معبود کا جاننا ہے‘‘ اس قسم کی باتیں اہلِ سکر کے احوال میں سے ہیں جو مسئلہ ’’توحیدِ وجودی‘‘ پر مبنی ہیں۔ اور ایسی باتیں ’’حقیقتِ نماز‘‘ سے ’’عدم آگاہی‘‘ (بے خبری)کی وجہ سے ہیں بلکہ اس طائفہ (صوفیہ)کی ایک کثیر جماعت نے اپنے اضطراب و بے قراری کی تسکین کو سماع و نغمے اور وجد و تواجد میں تلاش کیا اور اپنے مطلوب کو نغمہ کے پردوں میں مطالعہ کیا اور رقص و رقاصی کو اپنا مسلک بنا لیا ہے، حالانکہ انہوں نے سُنا ہو گا: ''مَا جَعَلَ اللّٰہُ فِی الحَرَامِ شِفَآءً''4 ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے حرام چیز میں شفا نہیں رکھی‘‘ ہاں! ''اَلْغَرِیْقُ یَتَعَلَّقُ بِکُلِّ حَشِیْشٍ وَّ حُبُّ الشَّیْءِ یُعْمِیْ وَیُصِمُّ'' ترجمہ: ’’ڈوبنے والا شخص ہر ایک تنکے کا سہارا ڈھونڈتا ہے اور کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرہ کر دیتی ہے‘‘۔ اگر نماز کے کمالات کی کچھ بھی حقیقت ان پر منکشف ہو جاتی تو وہ ہرگز سماع و نغمے کا دم نہ بھرتے اور وجد و تواجد کو یاد نہ کرتے۔
چوں ندیدند حقیقت رہِ افسانہ زوند
ترجمہ:
جب حقیقت نہ ملی ڈھونڈلی افسانے کی راہ
اے بھائی! جس قدر فرق نماز و نغمے میں ہے اسی قدر فرق نماز کے مخصوصہ کمالات اور نغمے سے پیدا ہونے والے کمالات میں ہے۔ عاقل کو ایک اشارہ ہی کافی ہے۔
یہ وہ کمال ہے جو ہزار سال کے بعد وجود میں آیا ہے، اور آخریت ہے جو اوّلیت کے رنگ میں ظاہر ہوئی ہے، شاید حضور علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات نے اسی وجہ سے فرمایا ہے: ''أَوَّلُھُمْ خَیْرٌ أَمْ آخِرُھُمْ'' ترجمہ: ’’ان میں سے اوّل بہتر ہیں یا ان میں سے آخر‘‘ اور یہ نہیں فرمایا: ''أَوَّلُھُمْ خَیْر أَمْ أَوْسَطُھُمْ'' ترجمہ: ’’ان میں سے اوّل بہتر ہیں یا درمیان والے‘‘ کیونکہ آخر کو اوّل کے ساتھ زیادہ مناسب دیکھی جو تردّد کا محل ہے۔ دوسری حدیث5 میں آپ علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے فرمایا کہ ’’اس امت کے بہترین (لوگ) اوّل میں ہیں یا آخر میں، اور درمیان میں تیرگی (اندھیرا) ہے‘‘۔ ہاں! اس امت کے متاخرین میں اگرچہ وہ نسبت بلند ہے مگر قلیل بلکہ اقل (بہت کم) ہے لیکن اس امت کے وسط میں اگرچہ وہ نسبت بلند نہیں ہے لیکن کثیر ہے بلکہ بہت زیادہ ہے: وَ لِکُلٍّ وِجْھَۃٌ کَمِیَّۃً وَّ کَیْفِیَّۃً (ان میں سے ہر ایک کے لئے کمیّت اور کیفیت کے لحاظ سے ایک جہت ہے)۔ لیکن اس نسبت کے اقل (بہت کم) ہونے کی وجہ سے متاخرین کو بلند درجہ پر پہنچا دیا اور سابقین (اوّلین) کے ساتھ مناسبت دے کر خوش خبری دے دی۔ جیسا کہ حضور علیہ و علی آلہ الصلوات و التسلیمات نے فرمایا: ''اَلْإِسْلَامُ بَدَءَ غَرِیْبًا وَّ سَیَعُوْدُ کَمَا بَدَءَ فَطُوبٰی لِلْغُرَبَآءِ''6 ترجمہ: ’’اسلام کی ابتدا غربت سے ہوئی اور آخر میں پھر ویسا ہی غریب ہو جائے گا لہٰذا غریبوں کے لئے خوش خبری ہے‘‘۔ اور اس امت کے آخری حصہ کا شروع آں سرور علیہ و علی آلہ الصلوۃ و السلام کی رحلت فرمانے کے بعد الفِ ثانی (یعنی دوسرے ہزار سال کی ابتدا سے) ہے کیونکہ الف یعنی ہزار سال کے گزرنے کو امور کے تغیر میں عظیم خاصیت ہے اور اشیاء کی تبدیلی میں قوی تاثیر ہے، اور چونکہ اس امت میں نسخ و تبدیلی نہیں ہے اسی لئے سابقین کی نسبت اسی تر و تازگی کے ساتھ متاخرین میں جلوہ گر ہوئی ہے اور (اس نے) الفِ ثانی میں شریعت کی تائید اور ملت کی تجدید فرمائی ہے۔ اس معنی پر حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیه الصلوٰۃ و السلام اور حضرت مہدی علیہ الرضوان دونوں عادل گواہ ہیں
فیض روح القدس ار باز مدد فرماید
دیگراں ہم بکنند آنچہ مسیحا میکرد!
ترجمہ:
وحی کا فیض اگر پھر سے میسّر آجائے
دوسرے بھی وہ کریں جو کہ مسیحا نے کیا
اے بھائی! یہ بات آج اکثر لوگوں پر گراں ہے اور ان کی فہم سے بہت دور معلوم ہوتی ہے لیکن اگر انصاف سے کام لیں اور ایک دوسرے کے علوم و معارف کا موازنہ کریں اور ان کے احوال کی صحت و سقم (صحیح اور غلط) کو علومِ شرعیہ کی مطابقت و عدم مطابقت سے ملاحظہ کریں اور شریعت و نبوت کی تعظیم و توقیر کو غور سے دیکھیں کہ (دونوں میں سے) کس میں زیادہ تر (مطابقت) ہے تو ممکن ہے کہ یہ بات ان کو فہم سے دُور معلوم نہ ہو۔
آپ نے دیکھا ہو گا کہ فقیر نے اپنی کتابوں اور رسالوں میں لکھا ہے کہ ’’طریقت و حقیقت دونوں شریعت کے خادم ہیں‘‘ اور ’’نبوت ولایت سے افضل ہے‘‘ اگرچہ اسی نبی کی ولایت ہو، اور یہ بھی لکھا ہے کہ ’’کمالاتِ ولایت کو کمالاتِ نبوت کے ساتھ کچھ نسبت نہیں ہے‘‘ کاش کہ ان کے درمیان دریائے محیط کے مقابلہ میں قطرہ کی نسبت ہوتی۔ اس قسم کی بہت سی باتیں اس مکتوب7 میں جو طریقے کے بیان میں اپنے فرزند کی طرف لکھا ہے (اس میں) خاص طور پر لکھی گئی ہیں وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
اس گفتگو سے مقصود حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی نعمت کا اظہار ہے تاکہ اس طریقے کے طالبوں کے لئے ترغیب کا باعث ہو، نہ یہ کہ دوسروں پر اپنی فضیلت (کا اظہار) کیونکہ ’’خدائے جل و علا کی معرفت اس شخص پر حرام ہے جو اپنے آپ کو کافرِ فرنگ سے بہتر جانے‘‘۔ تو پھر اس شخص کا کیا حال ہو جو اپنے آپ کو اکابرِ دین سے بہتر جانے؟ ابیات:
ولے چوں شہ مرا برداشت ازخاک
سزد گر بگذرانم سر ز افلاک
من آں خاکم کہ ابرِ نوبہاری
کنداز لطف برمن قطرہ باری
اگر برروید ازتن صد زبانم
چوسوسن شکر لطفش کَے توانم
زمین سے شاہ نے مجھے کو اُٹھایا
بجا ہے گر اُٹھاؤں سر کو اونچا
وہ مٹی ہوں کہ گر ابرِ بہاری
کرے مجھ پر کرم سے قطرہ باری
اگر ہوں مثلِ سوسن سو زبانیں
خدا کا شکر ہم کیا کرنے پائیں
اس مکتوب کے مطالعے کے بعد اگر آپ کو نماز کے سیکھنے کا شوق اور اس کے بعض مخصوص کمالات حاصل کرنے کا خیال پیدا ہو اور وہ (شوق) آپ کو بے آرام کر دے تو استخاروں کے بعد اس طرف متوجہ ہوں اور عمر کا کچھ حصہ نماز سیکھنے میں گزاریں۔ وَ اللہُ سُبْحَانَہُ الہَادِیْ إِلٰی سَبِیْلَ الرَّشَادِ وَ السَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی وَ الْتَزَمَ مُتَابَعَۃَ الْمُصْطَفٰی عَلَیْہِ وَ عَلٰی اٰلِہِ الصَّلَوَاتُ وَ التَّسْلِیْمَاتُ أَتَمُّھَا وَ أَکْمَلُھَا (اللہ تعالیٰ ہی سیدھے راستے کی طرف ہدایت دینے والا ہے اور سلام ہو اس پر جس نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوات و التسلیمات اتہما و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم جانا)
1 آپ کے نام 33 مکتوبات ہیں اور دفتر اول مکتوب 119 پر آپ کا تذکرہ درج ہے۔
2 یہ حدیث صوفیہ میں مشہور ہے۔
3 مسلم ابو داوٗد اور نسائی نے تقریبًا انہی الفاظ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی ہے۔
4 ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ طبرانی نے سند صحیح سے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کیا ہے کہ: "إِنَّ اللهَ تَعَالٰی لَمْ یَجْعَلْ شِفَاءَکُمْ فِیْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ"۔
5 قَالَ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ: "خَیْرُ أُمَّتِیْ أَوَّلُھَا وَ آخِرُھَا وَ فِیْ وَسْطِھَا الْکَدِرُ" (فی نوادر الأصول للحکیم الترمذی عن أبی الدرداء قالہ المعرب)
6 مسلم و ابن ماجہ بروایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور طبرانی بروایت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور امام احمد و ترمذی اور رافعی اور خطیب اور ابن عساکر وغیرہ رحمہم اللہ تعالیٰ۔
7 مکتوب 260 دفتر اول مخدوم زادہ کلاں خواجہ محمد صادق رحمۃ اللہ علیہ کے نام صادر فرمایا۔