دفتر 1 مکتوب 260: ہر قسم کی ولایت پر نبوت کی افضلیت ہونے پر مشتمل ہے

دفتر اول مکتوب 260

حقائق آگاہ، معارف دست گاہ، مظہر فیض الٰہی، منبع رحمت نا متناہی مخدوم زادہ میاں شیخ محمد صادق؂1 سلمہ اللہ تعالیٰ کی طرف صادر فرمایا۔ اس طریقے کے بیان میں جس سے آپ کو ممتاز کیا گیا ہے جو تینوں ولایتوں کی تربیت کرنے والوں کے ضمنًا بیان میں ہے جس میں ایک ولایتِ صغریٰ جو ولایتِ اولیا ہے اور (دوسری) ولایتِ کبریٰ جو ولایتِ انبیاء ہے، اور (تیسری) ولایتِ علیا جو ولایتِ ملاءِ اعلیٰ ہے۔ یہ بیان ہر قسم کی ولایت پر نبوت کی افضلیت ہونے پر مشتمل ہے، اور لطائفِ عشرۂ انسانی کے بیان میں کہ ان میں سے پانچ عالمِ امر سے متعلق ہیں اور دوسرے پانچ عالمِ خلق سے جو کہ نفس اور عناصرِ اربعہ ہیں اور ہر کمال کی خصوصیت جو ان لطائف میں سے ہر ایک کے ساتھ مخصوص ہیں، اور عالمِ امر پر عالمِ خلق کی افضلیت کے بیان میں مع ان کمالات کے جو عنصرِ خاکی سے مخصوص ہیں، اور عجیب و غریب علوم و معارف کے بیان میں جو ہر مقام کے مناسب ہیں اور ان جیسی اور باتوں کے بیان میں۔

بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ وَ عَلَیْھِمْ وَ عَلٰی اٰلِہٖ وَ أَصْحَابِہٖ الطَّیِّبِیْنَ الطَّاہِرِیْنَ (شروع اللہ تعالیٰ کے نام سے جو نہایت مہربان اور بڑا رحم والا ہے۔ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا پرور دگار ہے، اور سید المرسلین اور آپ کے آل و اصحاب پر صلوٰۃ و سلام ہو)

اے فرزند! اللہ تعالیٰ سبحانہٗ تم کو سعادت مند کرے، جاننا چاہیے کہ عالمِ امر کے پانچ لطائف ہیں: (1) قلب، (2) روح، (3) سر، (4) خفی اور (5) اخفٰی۔ جو انسانی عالمِ صغیر کے اجزاء ہیں، ان کے اصول عالمِ کبیر میں ہیں، جس طرح عناصرِ اربعہ جو کہ انسان کے اجزاء ہیں اور اپنے اصول عالمِ کبیر میں رکھتے ہیں اور ان پنج گانہ لطائف کے اصول کا ظہور عرش کے اوپر ہے جو لا مکانیت سے موصوف ہے، یہی وجہ ہے کہ عالمِ امر کو لا مکانی کہتے ہیں۔

دائرۂ امکان (تمام ممکنات) خواہ وہ خلق ہو یا امر، خواہ وہ صغیر ہو یا کبیر، ان اصول کی نہایت تک تمام ہو جاتا ہے اور عدم کا وجود سے ملنا جو امکان کا منشا ہے، اس مقام میں انتہا کو پہنچ جاتا ہے۔ جب سالک رشید محمدی المشرب عالمِ امر کے پنج گانہ لطائف کو ترتیب وار طے کر کے ان کے اصول میں جو کہ عالمِ کبیر میں ہیں، سیر کرتا ہے اور بلند فطرتی بلکہ محض فضلِ خداوندی جل شانہٗ، سے ان سب کو ترتیب اور تفصیل کے ساتھ طے کر کے ان کے اخیر نقطے تک پہنچتا ہے تو اس وقت وہ دائرۂ امکان کو سیر الی اللہ کے ساتھ تمام کر لیتا ہے اور فنا کے اسم کا اطلاق اپنے اوپر حاصل کر کے ولایتِ صغریٰ میں جو کہ ولایتِ اولیا ہے، سیر شروع کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر اللہ تعالیٰ و تقدس کے اسمائے وجوبی کے ظلال میں، جو حقیقت میں عالم کبیر کے ان پنج گانہ لطائف کے اصول ہیں اور جن میں عدم کی کچھ آمیزش نہیں ہے، سیر واقع ہو جائے اور ان سب کو اللہ تعالیٰ جل سلطانہٗ کے فضل سے سیر فی اللہ کے طریق سے طے کر کے ان کی نہایت تک پہنچ جائے تو وہ اسمائے وجوبی کے ظلال کے دائرے کو بھی پورا کر لیتا ہے اور اللہ جل سلطانہٗ کے اسماء و صفات واجبی کے مرتبہ تک پہنچ جاتا ہے۔ ولایتِ صغریٰ کے عروج کی نہایت یہیں تک ہے۔ اس مقام میں حقیقتِ فنا کا آغاز متحقق ہوتا ہے اور ولایتِ کبریٰ کی ابتدا میں جو کہ ولایتِ انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات ہے قدم رکھا جاتا ہے۔

جاننا چاہیے کہ وہ دائرۂِ ظل انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ تمام مخلوفات کے مبادئِ تعینات کو شامل ہے اور ہر ایک اسم کا ظل کسی نہ کسی شخص کا مبدأ تعین ہے، یہاں تک کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے بعد افضل البشر ہیں، ان کا مبدأ تعین اس دائرے کے اوپر نقطۂ فوق ہے۔

اور یہ جو (بعض مشائخ نے) کہا ہے کہ جب سالک اس اسم تک جو اس کا مبدأ تعین ہے، پہنچ جاتا ہے تو اس وقت سیر الی اللہ کو تمام کر لیتا ہے، اس اسم سے مراد اسمِ الٰہی جل شانہٗ کا ظل جاننا چاہیے اور وہ اس اسم کی جزئیات میں سے ایک جزئی ہے نہ کہ اس اسم کی اصل۔ یہ دائرہ ظل حقیقت میں اسماء و صفات کے مرتبے کی تفصیل ہے۔ مثلًا علم ایک حقیقی صفت ہے جس کی بہت سی جزئیات ہیں اور ان جزئیات کی تفصیل اس صفت کے ظلال ہیں جو اجمال کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اور اس صفت کی ہر ایک جزئی انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ و السلام کے علاوہ باقی اشخاص میں سے کسی نہ کسی شخص کی حقیقت ہے، اور انبیاء و ملائکہ کے مبادئ تعینات ان ظلال کے اصول یعنی مفصلہ جزئیات کی کلیات ہیں۔ مثلًا صفت العلم اور صفت القدرۃ اور صفت الإرادہ وغیرہ۔ بہت سے اشخاص ایک صفت میں جو کہ ان کا مبدأ تعین ہے، مختلف اعتبارات کے لحاظ سے باہم شرکت رکھتے ہیں۔ مثلًا حضرت خاتم الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مبدأ تعین شان العلم ہے نیز یہی صفت العلم ایک (خاص) اعتبار سے حضرت ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ و التسلیمات کا مبدأ تعین ہے، اور نیز یہی صفت ایک (اور خاص) اعتبار سے حضرت نوح علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و التسلیمات کا مبدأ تعین ہے۔ ان اعتبارات کے تعین کا ذکر خواجہ محمد اشرف کے مکتوب (251) میں ہو چکا ہے۔

اور یہ جو بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ حقیقتِ محمدی تعینِ اوّل ہے جو حضرتِ اجمال ہے اور وحدت کے نام سے مسمیٰ ہے۔ ان کی مراد جو کچھ اس فقیر پر ظاہر ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ دائرۂ ظل کا مرکز یہی ہے وَ اللہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ (اور اللہ سبحانہٗ ہی جانتا ہے) اس دائرۂ ظل کو تعینِ اوّل خیال کیا ہے اور اس کے مرکز کو اجمال جانتے ہوئے وحدت کا نام لیا ہے اور اس مرکز کی تفصیل کو جو اس دائرے کا محیط ہے، واحدیت گمان کیا ہے، اور دائرۂ ظل کے مقام سے اوپر جو اسماء و صفات کا دائرہ ہے، ذاتِ بے چون جو تعین سے مبرا ہے، تصور کیا ہے، کیونکہ صفت کو انہوں نے عینِ ذات کہا ہے اور ذات پر زائد نہیں جانا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بلکہ میں کہتا ہوں کہ اس دائرۂ ظل کا مرکز دائرۂ فوق کے مرکز کا ظل ہے جو کہ دائرۂ ظل کی اصل ہے اور اسماء و صفات، شیون و اعتبارات کے دائرے سے موسوم ہے۔ حقیقت میں حقیقتِ محمدی اسی دائرۂ اصل کا مرکز ہے جو اسماء و شیونات کا اجمال ہے اور اس دائرے میں ان اسماء و صفات کی تفصیل واحدیت کا مرتبہ ہے اور ظلالِ اسماء کے مرتبے میں وحدت اور واحدیت کا اطلاق کرنا ظل کو اصل کے مشابہ سمجھنے پر مبنی ہے، اور سیر فی اللہ کا اطلاق بھی اس مقام میں اسی قسم سے ہے۔ کیونکہ وہ سیر فی الحقیقت سیر الی اللہ میں داخل ہے۔ اسی طرح ہے۔

اس کے بعد اگر اسماء و صفات کے دائرے میں جو کہ اس دائرۂ ظل کی اصل ہے سیر فی اللہ کے طریق پر عروج واقع ہو جائے تو وہاں ولایتِ کبریٰ کے کمالات شروع ہو جاتے ہیں، اور یہ ولایتِ کبریٰ (بلا واسطہ اصلی طور پر) انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے ساتھ مخصوص ہے اور ان کی پیروی کے باعث ان کے اصحاب کرام بھی اس دولت سے مشرف ہوئے ہیں، اس دائرے کے نیچے کا نصف حصہ اسماء و صفاتِ زائدہ کو متضمن ہے اور اس کا نصف بالائی حصہ شیون و اعتباراتِ ذاتیہ پر مشتمل ہے۔

عالمِ امر کے پنج گانہ (لطائف و مراتب) کے عروج کی انتہا اسماء و شیونات کے دائرے کی نہایت تک ہے۔ اس کے بعد اگر محض فضل ایزدی جل شانہٗ سے مقام صفات و شیونات پر ترقی واقع ہو جائے تو ان کے اصول کے دائرے میں سیر واقع ہو گی، اور دائرۂ اصول سے گزرنے کے بعد ان اصول کے اصول کا دائرہ ہے، اس دائرے کے طے کرنے کے بعد دائرۂ فوق سے ایک قوس (نصف دائرے کی مانند) ظاہر ہو گی، اس کو بھی قطع کرنا پڑتا ہے۔ چونکہ اس دائرۂ فوق سے قوس کے علاوہ اور کچھ ظاہر نہیں ہوا اس لئے اسی قوس پر بس کیا گیا۔ شاید اس جگہ کوئی راز ہو گا جس پر (عالم غیب سے) اطلاع نہیں بخشی گئی۔ اسماء و صفات کے یہ اصول سہ گانہ جو مذکور ہوئے حضرت تعالیٰ و تقدس میں محض اعتبارات ہیں جو کہ صفات و شیونات کے مبادی ہو گئے ہیں۔ ان اصول سہ گانہ کے کمالات کا حاصل ہونا نفسِ مطمئنہ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس (نفس) کو اس مقام میں اطمینان حاصل ہو جاتا ہے اور اسی مقام میں شرحِ صدر حاصل ہوتا ہے اور سالک اسلامِ حقیقی سے مشرف ہو جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں نفسِ مطمئنہ صدارت کے تخت پر جلوس فرماتا ہے اور مقامِ رضا پر ترقی کرتا ہے۔ یہ مقام ولایتِ کبریٰ کی انتہا کا مقام ہے جو ولایتِ انبیاء علیہم الصلٰواة و التسلیمات کا مقام ہے۔

جب اس فقیر کی سیر یہاں تک ہو چکی تو وہم و خیال میں آیا کہ سب کام مکمل ہو چکا ہے، (اتنے میں عالمِ غیب سے) ندا آئی کہ ’’یہ سب کچھ اسمِ ظاہر کی تفصیل تھی جو کہ پرواز کے لئے ایک بازو ہے، اور اسمِ باطن کی سیر ابھی باقی ہے جو کہ عالمِ قدس کی طرف پرواز کرنے کے لئے دوسرا بازو ہے، جب تو اس کو بھی مفصل طور پر انجام دے دے گا تو اس وقت تجھے پرواز کے لئے دو بازو عطا ہوں گے‘‘۔ جب اللہ سبحانہٗ کی عنایت سے اسمِ باطن کی سیر بھی انجام پا چکی تو دو بازو میسر ہو گئے۔ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ‌﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پروردگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔

اے فرزند! اسمِ باطن کی سیر کی نسبت کیا لکھا جائے۔ اس سیر کا حال استتار و تبطن (در پردہ رہنے) ہی کے مناسب ہے۔ البتہ اس مقام کے متعلق صرف اس قدر بیان کیا جاتا ہے کہ اسمِ ظاہر کی سیر صفات میں ہے بغیر اس بات کے کہ اس کے ضمن میں ذات تعالیٰ و تقدس ملحوظ ہو، اور اسمِ باطن کی سیر بھی اگرچہ اسماء میں سے ہے لیکن اس ضمن میں ذات تعالیٰ ملحوظ ہے اور یہ اسماء ڈھالوں (سپر) کی مانند ہیں جو حضرت ذات تعالیٰ و تقدس کے حجابات ہیں۔ مثلًا صفتِ علم میں ذات تعالیٰ ہرگز ملحوظ نہیں ہے لیکن اُس کے ’’اسمِ علیم‘‘میں ذات تعالیٰ صفت کے پردے میں ملحوظ ہے، کیونکہ علیم ایک ذات ہے جس کی صفت ’’علم‘‘ ہے پس’’علم ‘‘ کی سیر’’اسمِ ظاہر‘‘ کی سیر ہے اور ’’علیم کی سیر“ ’’اسِم باطن‘‘ کی سیر ہے۔ باقی تمام صفات و اسماء کا حال بھی اسی پر قیاس کریں۔

یہ اسماء جو اسمِ باطن سے تعلق رکھتے ہیں ملائکۂ ملاء اعلیٰ علیٰ نبینا و علیہم الصلواة و التحیات کے تعینات کے مبادی ہیں، اور ان اسماء میں سیر کا آغاز کرنا ولایتِ علیا میں قدم رکھنا ہے جو کہ ملاء اعلیٰ کی ولایت ہے۔

اور اسمِ ظاہر و اسمِ باطن کے بیان میں جو علم اور علیم کے درمیان فرق ظاہر کیا گیا ہے، تم اس فرق کو تھوڑا نہ سمجھو اور نہ یہ کہ کہو کہ ’’علم‘‘ سے ’’علیم‘‘ تک بہت کم راستہ ہے، بلکہ وہ فرق ایسا ہے جیسا کہ مرکزِ زمین سے محدّب (سطحِ) عرش کے درمیان ہے، نیز اس فرق کی نسبت ایسی ہے جیسے قطرے کو دریائے محیط کی نسبت کا فرق ہے، کہنے کو تو یہ نزدیک ہے لیکن حاصل ہونے میں بہت دُور ہے اور ان مقامات کا ذکر جو مجمل طور پر بیان کیا گیا ہے وہ بھی اسی قسم سے ہے۔ مثلًا کہا گیا ہے کہ پنج گانہ (لطائف و مراتب) عالمِ امر کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے تاکہ دائرۂ امکان تمام ہو جائے، اس مختصر سی عبارت میں ’’سیر الی اللہ‘‘ کا پوری طرح ذکر آ گیا ہے، لیکن اس سیر کے حاصل ہونے میں پچاس ہزار سالہ راہ کی مدت کا اندازہ کیا گیا ہے۔﴿تَعۡرُجُ الۡمَلٰٕٓكَةُ وَ الرُّوۡحُ إِلَيۡهِ فِيْ يَوۡمٍ كَانَ مِقۡدَارُهٗ خَمۡسِيۡنَ اَلۡفَ سَنَةٍ‌ۚ﴾ (المعارج: 4) ترجمہ: ”فرشتے اور روح القدس اس کی طرف ایک ایسے دن میں چڑھ کر جاتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے“۔ اسی مطلب کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

حاصلِ کلام یہ ہے کہ حق تعالیٰ جل سلطانہٗ کی عنایت کے جذب و کشش سے کوئی بعید نہیں کی اس مدتِ دراز کے کام کو طرفۃ العین (آنکھ جھپکنے) میں میسر کر دے۔

با کریماں کار ها دشوار نیست

ترجمہ:

کریموں پر نہیں ہیں کام دشوار

اور اسی طرح سے یہ جو کہا گیا ہے کہ دائرۂ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کو طے کر کے ان کے اصول میں سیر کرے، تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کا طے کرنا کہنے میں تو آسان ہے لیکن طے کرنے میں بہت مشکل ہے۔ مشائخ نے اس سیر کو طے کرنے کی دشواری کے متعلق فرمایا ہے کہ: "مَنَازِلُ الوُصُوْلِ لَا تَنْقَطِعُ أَبَدُ الْآبِدِیْنِ" (وصول کی منزلیں ابد الآباد تک کبھی ختم نہیں ہوتیں) اور مشائخ نے ان مراتب کی سیر کے پورا ہونے کو نا ممکن سمجھا ہے ؂

نہ حسنش غایتے دارد نہ سعدی را سخن پایاں

بمیرد تشنہ مستسقی و دریا ہم چناں باقی

ترجمہ:

نہ اُس کے حُسن کی حد ہے نہ سعدی کا سخن آخر

مرے پیاسا ہی مستسقی مگر دریا رہے جاری

یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ وصول (الی اللہ) کے مراتب کا انقطاع تجلیاتِ ذاتیہ کے اعتبار سے کہا گیا ہے نہ کہ تجلیاتِ صفاتیہ کے اعتبار سے، اور (مشائخ نے) حُسن سے مراد حُسنِ ذاتی قرار دیا ہے نہ کہ حُسنِ صفاتی۔ کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ وہ تجلیاتِ ذاتیہ شیون و اعتبار کے ملاحظے کے بغیر نہیں ہیں اور وہ حُسن ذاتی صفاتِ جمالیہ کے رو پوش (حجاب) کے بغیر نہیں ہے کیونکہ اس مقام میں ان رو پوشوں کے بغیر گفتگو کی مجال نہیں ہے: "مَنْ عَرفَ اللّٰہَ کَلَّ لِسَانُہٗ" (جس نے اللہ تعالیٰ کہ پہچان لیا اس کی زبان گنگ ہو گئی) اور تجلی ایک قسم کی ظلیت چاہتی ہے لہٰذا اس مقام میں شیون کے ملاحظے کے بغیر چارہ نہیں پس وہ منازلِ وصول اور مراتبِ حُسن اسی اسماء و شیونات کے دائرے میں داخل ہیں جس کا انقطاع (طے کرنا) ان (مشائخ) کے نزدیک دشوار ہے۔ لیکن وہ امر جو اس درویش پر ظاہر کیا گیا وہ تجلیات و ظہورات سے ما وراء (بالا تر) ہے، خواہ وہ تجلیات ذاتی ہوں یا صفاتی اور حسن و جمال سے وراء ہیں خواہ وہ حُسن ذاتی ہو یا صفاتی۔ مختصر یہ کہ مطالبِ بلند اور مقاصدِ ارجمند کے موتیوں کو مختصر طور پر عبارات کی لڑی میں پرو دیا ہے اور دریائے بے کراں کو چند کوزوں میں بھر دیا ہے۔ فَلَا تَکُنْ مِّنَ القَاصِرِینَ (پس کم ہمت نہ ہو)

اب ہم اصل مطلب کی طرف آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسمِ ظاہر اور اسمِ باطن کے دونوں بازوؤں کے حصول کے بعد جب (اس فقیر کو) پرواز میسر ہوئی اور عروجات واقع ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہ ترقیاں اصالت کے طور پر عنصرِ ناری کے نصیب ہیں اور عنصرِ ہوائی اور عنصر آبی کے ملائکہ کرام علیٰ نبینا و علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کو بھی ان سہ گانہ عناصر سے حصہ ملا ہے، جیسا کہ وارد ہوا ہے کہ بعض ملائکہ آتش اور برف کی مخلوق ہیں اور ان کی تسبیح یہ ہے: "سُبْحَانَ مَنْ جَمَعَ بَیْنَ النَّارَ وَ الثَّلْجِ" ترجمہ: ”تعریف ہے اس ذات کی جس نے آگ اور برف کو جمع کر دیا (یعنی ملائکہ کو آتش اور برف کو ملا کر مخلوق کیا)“ اور اس سیر کے دوران ایک واقعہ پیش آیا کہ گویا میں ایک راستہ پر جا رہا ہوں اور چلتے چلتے تھک گیا ہوں۔ چوب اور عصا کی آرزو پیدا ہوئی کہ شاید ان کی مدد سے (بقیہ) راہ طے کر سکوں لیکن میسر نہیں ہوئی اور ہر خس و خاشاک پر ہاتھ ڈالتا ہوں تاکہ راستے کی تقویت کا باعث ہو لیکن راستہ طے کرنے کے بغیر بھی چارہ نہیں ہے۔ جب کچھ مدت اسی حال میں سیر کی تو ایک فِنائے شہر (شہر کی حدود) ظاہر ہوا، اس فِنا کی مسافت طے کرنے کے بعد شہر میں داخل ہوا۔ (اس وقت) مجھ کو مطلع کیا گیا کہ اس شہر سے مراد تعین اوّل ہے جو تمام اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کے مراتب کا جامع ہے۔ نیز ان مراتب کے اصول اور ان کے اصول کے اصول کا جامع ہے اور اعتبارات ذاتیہ کا منتہیٰ ہے جن کے درمیان تمیز کرنا علمِ حصولی کے مناسب ہے، اس کے بعد اگر سیر نصیب ہو تو وہ علمِ حضوری کے مناسب ہو گی۔

اے فرزند! علمِ حصولی اور علمِ حضوری کا اطلاق حضرت جل سلطانہٗ کے ہاں بطور تشبیہ و تمثیل (مشابہ اور مثال) و تنظیر (نظیر) کے اعتبار سے ہے (نہ کہ حقیقت کی رو سے) کیونکہ وہ صفات جن کا وجود ذات تعالیٰ و تقدس کی ذات کے وجود پر زائد ہے، ان کا علم علمِ حصولی کے مناسب ہے اور وہ اعتباراتِ ذاتیہ جن کا ذات تعالیٰ و تقدس پر زائد ہونا ہرگز متصور نہیں ہے ان کا علم علمِ حضوری کے مناسب ہے ورنہ وہاں سوائے اس تعلق کے جو علم کو اپنے معلوم سے ہے اس امر کے بغیر کہ معلوم سے اس میں کیا حاصل ہوتا ہے، اور کچھ نہیں ہے پس سمجھ لیجئے۔

اور یہ تعینِ اوّل اشارہ ہے اس جامع شہر کا جو تمام انبیائے کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کی تمام ولایات کا جامع ہے اور ولایتِ علیا کا منتہیٰ ہے جو اصالتًا ملاءِ اعلیٰ کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس مقام میں یہ ملاحظہ کیا گیا کہ آیا یہ تعینِ اوّل ’’حقیقتِ محمدی‘‘ ہے یا نہیں۔ معلوم ہوا کہ حقیقتِ محمدی وہی ہے جس کا ذکر اوپر ہوا اور اس کو تعین اول اس اعتبار سے کہا گیا ہے کہ وہ اسماء و صفات اور شیون و اعتبارات کے جامع ہونے کے اعتبار سے اس تعینِ اوّل کے ظل کا مرکز ہے، اور وہ سیر جو اس شہر سے اوپر واقع ہو وہ کمالات نبوت کی ابتدا ہے۔ جن کا حصول انبیاء علیھم الصلٰوۃ والتحیات کے خاص مخصوص ہے اور یہ کمالات مقامِ نبوت سے ناشی (پیدا) ہوئے ہیں۔ انبیاء کے کامل تابع داروں کو بھی ان کی پیروی کے طفیل ان کمالات میں سے کچھ حصہ حاصل ہے، اور لطائفِ انسانی کے درمیان عنصرِ خاکی کو بھی اصالت کے طور پر ان کمالات کا کافی حصہ حاصل ہے۔ تمام اجزائے انسانی خواہ وہ عالمِ امر سے ہوں یا عالمِ خلق سے، سب کے سب اس مقام میں اسی عنصرِ پاک کے تابع ہیں اور اس کے طفیل اس دولت سے مشرف ہیں، اور چونکہ یہ عنصر بشر کے ساتھ مخصوص ہے اس لئے لازمی طور پر ’’خواصِ بشر‘‘ ’’خواصِ ملائکہ‘‘ سے افضل ہو گئے، کیونکہ جو کچھ اس عنصر کو میسر ہوا ہے کسی کو بھی میسر نہیں ہوا۔ اور دُنُوّ (نزدیک ہونا) کے بعد تَدَلِّیْ (قریب ہونا) کی حقیقت اس مقام میں ظاہر ہوئی اور ﴿فَکَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ أَوْ أَدْنٰی﴾ (النجم: 9) ترجمہ: ”یہاں تک کہ وہ دو کمانوں کے فاصلے کے برابر آ گیا، بلکہ اس سے بھی زیادہ نزدیک“ کا راز بھی اس مقام پر منکشف ہوتا ہے، اور اس سیر میں معلوم ہوتا ہے کہ تمام ولاتیوں کے کمالات خواہ وہ ولایتِ صغریٰ ہو یا ولایتِ کبریٰ یا ولایتِ علیا؛ سب کے سب مقامِ نبوت کے کمالات کے ظلال ہیں اور وہ تمام کمالات خاص ان کمالات کی حقیقت کے لئے شبح اور مثال کی طرح ہیں، اور روشن ہو جاتا ہے کہ اس سیر کے ضمن میں ایک نقطے کا قطع کرنا مقامِ ولایت کے تمام کمالات کو طے کرنے سے زیادہ ہے۔ لہٰذا قیاس کرنا چاہیے کہ ان تمام کمالات کو سابقہ تمام کمالات کے ساتھ کیا نسبت ہو گی۔ دریائے بے کراں کو بھی ایک قطرے کے ساتھ کچھ نہ کچھ نسبت ہوتی ہے (لیکن) یہاں تو یہ نسبت بھی مفقود ہے، مگر ہم اس قدر کہہ سکتے ہیں کہ مقامِ نبوت کو مقامِ ولایت کے ساتھ ایسی نسبت ہے جیسی کہ غیر متناہی کو متناہی کے ساتھ ہے۔

سبحان اللہ! کوئی بے وقوف جاہل اس راز کے بارے میں کہتا ہے کہ ’’ولایت، نبوت سے افضل ہے‘‘ اور دوسرا (جاہل) اس معاملے کی نا واقفیت کی وجہ سے اس کی توجیہ میں کہتا ہے کہ ’’نبی کی ولایت اس کی نبوت سے افضل ہے“ ﴿كَبُرَتۡ كَلِمَةً تَخۡرُجُ مِنۡ أَفۡوَاهِهِمۡ‌﴾ (الکہف: 5) ترجمہ: ”بڑی سنگین بات ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے“ اور جب اللہ سبحانہٗ کی عنایت اور اس کے حبیب علیہ و علی آلہ الصلٰوۃ و التسلیمات کے طفیل سے اس سیر کو بھی انجام تک پہنچایا تو مشہود ہوا کہ اگر بالفرض اس سیر میں دوسرا قدم بڑھائے تو وہ عدمِ محض میں پڑے گا کیونکہ اس سے آگے عدمِ محض کے سوا کچھ نہیں ہے۔

اے فرزند! اس ماجرا سے تم اس وہم میں نہ پڑ جانا کہ عنقا شکار ہو گیا اور سیمرغ دام میں پھنس گیا؂

عنقا شکارِ کس نشود امِ باز چیں

کاینجا ہمیشہ باد بدست است دام را

ترجمہ:

اُٹھالے جال، شکارِ عنقا محال

بس یہاں جال کا یہی ہے مآل

کیونکہ وہ سبحانہ تعالیٰ وراء الوراء ثم وراء الوراء ثم وراء الوراء ہے ؂

ہنوز ایوانِ استغنا بلند است

مرا فکرے رسیدن نا پسند است

ترجمہ:

قصرِ استغنا تو اونچا ہے ہنوز

سخت مشکل واں پہنچنا ہے ہنوز

وہ ورائیت (بلند سے بلند تر درجہ) حجابات کے وجود کے اعتبار سے نہیں ہے کیونکہ تمام حجابات اُٹھ چکے ہیں بلکہ وہ ورائیت عظمت و کبریائی کے ثبوت کے اعتبار سے ہے جو ادراک و فہم کے مانع اور وجدان کے منافی ہے، کیونکہ وہ سبحانہٗ وجود میں اقرب ہے اور وجدان سے دور ہے۔ ہاں بعض کامل مراد والوں کو انبیاء علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے طفیل عظمت و کبریائی کے پردوں میں جگہ دی جاتی ہے اور ان کو بارگاہ کا محرم بنا دیا جاتا ہے۔ فَعُوْمِلَ مَعَھُمْ مَا عُوْمِلَ مَعَھُمْ (پس ان کے ساتھ جو معاملہ ہوا سو ہوا)

اے فرزند! یہ معاملہ انسان کے اس ہیئتِ وحدانی سے مخصوص ہے جو کہ عالمِ خلق و عالمِ امر کے مجموعہ سے پیدا ہوئی ہے، اس طرح ہے کہ اس مقام میں بھی سب کا رئیس (سردار) ’’عنصرِ خاک‘‘ ہے۔

اور یہ جو کہا گیا ہے: "لَیْسَ وَرَآءَہٗ إِلَّا العَدَمُ المَحْضُ" (اس کے اوپر سوائے عدم محض کے کچھ نہیں ہے) وہ اس لئے کہا ہے کہ وجودِ خارجی اور وجودِ علمی کے مراتب تمام ہونے کے بعد عدم کا حاصل ہونا ہے جو اس (وجود) کی نقیض ہے اور اللہ سبحانہٗ کی ذات اس وجود و عدم سے وراء ہے۔ جس طرح عدم کو وہاں راہ نہیں ہے اسی طرح وجود کی بھی گنجائش نہیں ہے کیونکہ وہ وجود جس کی نقیض عدم پر مبنی ہو وہ اس بارگاہِ جل سلطانہٗ کے شایانِ شان نہیں ہے۔ اگر اس مرتبے میں وجود کا اطلاق عبارت کی تنگی کی وجہ سے کریں (تو اس سے مراد وہ وجود ہو گا) جس کی نقیض بننے کی عدم کو مجال نہیں ہے، اور جو کچھ اس فقیر نے اپنے بعض مکاتیب میں لکھا ہے کہ حضرتِ حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی حقیقت ’’ وجودِ محض‘‘ ہے وہ اس معاملے کی حقیقت تک اپنی نا رسائی کے باعث لکھا گیا ہے، اور وہ بعض معارف جو توحیدِ وجودی وغیرہ کے بارے میں لکھے ہیں وہ بھی اسی قسم سے ہیں (ان کا سِرّ بھی عدم اطلاع کی وجہ ہے) اور جب اس معاملے کی اصل حقیقت سے آگاہی ہو گئی تو جو کچھ ابتدا اور وسط میں لکھا اور کہا ہے اس پر نادم ہوا اور استغفار کیا۔ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَ أَتُوْبُ إِلَى اللّٰہِ مِنْ جَمِیْعِ مَا کَرِہَ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ وَ تَعَالٰی (میں اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگتا ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ان تمام باتوں سے جو اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ کو نا پسند ہیں)۔

اس بیان سے واضح ہو گیا کہ کمالاتِ نبوت صعود (چڑھنا) کے مراتب میں ہیں اور اسی طرح نبوت کے عروجات میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف توجہ ہے۔ ایسا نہیں ہے جیسا کہ اکثر لوگوں نے گمان کیا ہے کہ ولایت میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف توجہ ہے اور نبوت میں توجہ مخلوق کی طرف۔ ولایت، مراتبِ عروج میں ہے اور نبوت، مدارجِ نزول میں۔ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے یہ وہم کر لیا ہے ولایت نبوت سے افضل ہے۔ ہاں ولایت و نبوت دونوں کو عروج و هبوط حاصل ہے اور دونوں کا رُخ عروج میں حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی طرف ہے اور ہبوط میں دونوں کا مُنہ مخلوق کی طرف ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نبوت ہبوط کے مرتبے میں کلّی طور پر مخلوق کی طرف متوجہ ہے اور ولایت کو ہبوط کے مرتبہ میں مخلوق کی طرف پوری توجہ نہیں ہے بلکہ اس کا باطن حق کی طرف ہے اور اس کا ظاہر مخلوق کی طرف۔ اس کا راز یہ ہے کہ صاحبِ ولایت نے مقاماتِ عروج کو پوری طرح طے نہیں کیا اور نزول کر لیا ہے، اس لئے لازمی طور پر اس کو فوق کی نگرانی ہر وقت دامن گیر ہے اور کلّی طور پر اس کی توجہ خلق کے ساتھ ہونے میں مانع ہے، بر خلاف صاحبِ نبوت کے کہ اس نے عروج کے تمام مقامات طے کر کے ہبوط فرمایا ہے لہٰذا وہ پورے طور پر مخلوق کو حق جل و علا کی طرف دعوت دینے میں متوجہ ہے۔ پس سمجھ لو کہ یہ معرفت شریفہ اور اسی قسم کے دوسرے معارف اس سے پہلے کسی ایک نے بھی بیان نہیں کئے۔

جاننا چاہیے کہ جس طرح مراتبِ عروج میں عنصرِ خاک سب سے بالا جاتا ہے اسی طرح منازلِ ہبوط میں بھی وہ عنصر (خاک) سب سے زیادہ نیچے آ جاتا ہے، اور کیوں نیچے نہ آئے جب کہ اس کا مکان طبعی سب سے نیچے ہے اور چونکہ وہ (عنصر خاک) سب سے زیادہ نیچے آ جاتا ہے اس لئے اس کے صاحب (بشر) کی دعوت اتم ہوتی ہے اور اس کا فائدہ بھی اکمل ہوتا ہے۔

اے فرزند! جان لے کہ چونکہ طریقۂ نقشبندیہ میں سیر کی ابتدا قلب سے ہوتی ہے جس کا تعلق عالمِ امر سے ہے اسی لئے بات کی ابتدا بھی عالمِ امر سے کی گئی، بخلاف دوسرے مشائخِ کرام رحہم اللہ تعالیٰ کے طریقوں کے جو شروع میں تزکیۂ نفس کرتے ہیں اور قالب (وجود) کی تطہیر (پاک) فرماتے ہیں، اس کے بعد عالمِ امر میں آتے ہیں اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوتا ہے اس میں عروج کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی انتہا ان بزرگواروں کی ابتدا میں مندرج ہے اور یہ طریقہ سب طریقوں سے اقرب ہیں، کیونکہ ان کو اس سیر کے ضمن میں تزکیہ و تطہیر بوجہ احسن (بہت اچھی طرح) میسر ہو جاتا ہے اور مسافت (راستہ) کوتاہ ہو جاتی ہے۔ لہٰذا لازمی طور پر ان بزرگواروں نے عالمِ خلق کی سیر کو (قصدًا) ضائع و بے کار ہی نہیں جانا بلکہ مطلب کے حاصل ہونے میں مضر اور مانع یقین کیا ہے۔ کیونکہ (دوسرے) طریقوں کے سالک جب ریاضاتِ شاقّہ اور مجاہداتِ شدیدہ اور تزکیہ کے قدم کے ساتھ عالمِ خلق کی صورت کے دشت و صحرا طے کرنے کے بعد عالمِ امر میں سیر شروع کرتے ہیں اور قلبی جذبہ اور روح کی لذتوں میں پڑتے ہیں تو اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ اسی انجذاب میں قناعت کرتے اور اسی لذت پر کفایت کر لیتے ہیں اور اس عالَم پر لا مکانیت کا گمان ان کو دامن گیر ہو جاتا ہے۔ اور اس عالم کی بے چونی کی آمیزش ان کو حقیقی بے چونی سے باز رکھتی ہے۔ شاید اسی مقام پر کسی سالک نے کہا ہے کہ "میں تیس سال تک روح کو خدا سمجھ کر اس کی پرستش کرتا رہا" اور دوسرے نے کہا کہ استویٰ کا سِرّ اور عرش کے اوپر تنزیہ کا ظہور دقیق و مخفی معارف میں سے ہے۔

اور سابقہ بیان سے معلوم ہو گیا کہ وہ تنزیہ بھی دائرہ امکان میں داخل ہے بلکہ وہ تنزیہ نما ہے اور فی الحقیقت تشبیہ ہے بخلاف اس عالی طریقہ (نقشبندیہ) کے بزرگواروں کے، کہ مقامِ جذبہ سے شروع کرتے ہیں اور اس کی لذتوں کی مدد سے ترقی کرتے ہیں کیونکہ یہ انجذاب و تلذذ ان (بزرگواروں) کے حق میں ایسا ہے جیسا کہ دوسروں کے حق میں ریاضات و مجاہدات ہوتے ہیں اور جو کچھ دوسروں کے لئے وصول کا مانع ہے وہ ان بزرگوں کے لئے ممد و معاون ہے، وہ عالمِ امر کی لا مکانیت کو عین مکانیت تصور کر کے لا مکانی حقیقی کی طرف توجہ فرماتے ہیں اور اس عالم (عالمِ امر) کی بے چونی کو عین چون جان کر حقیقی بے چونی کی طرف عروج کرتے ہیں، اس لئے لازمی طور پر دوسروں کی طرح وجد و حال کے رنگ پر مفتون نہیں ہوتے اور بچوں کی طرح اس راہِ (سلوک) کے جوز و مویز پر بے وقوف نہیں بنتے اور ترہاتِ صوفیہ کی (صوفیوں کی باطل لہو آمیز) باتوں پر خوش نہیں ہوتے۔ اور شطحیاتِ مشائخ (مشائخ کی ظاہر خلافِ شرع باتوں) پر فخر نہیں کرتے بلکہ احدیتِ صرف کی طرف متوجہ ہیں اور اسم و صفت سے سوائے ذاتِ مقدس کے کچھ نہیں چاہتے۔

جاننا چاہیے کہ یہ عروج جس کا پہلے ذکر ہو چکا ہے، محمدی المشرب (سالک) کے ساتھ مخصوص ہے جو تام الاستعداد (پوری استعداد والا) ہے اور جو عالمِ امر کے جواہرِ خمسہ کے کمالات سے کامل حصہ رکھتا ہے خواہ وہ عالم صغیر سے ہو یا عالمِ کبیر سے، اسی طرح ان پنج گانہ اصول سے جو اسماءِ وجوبی کے ظلال ہیں بہت بڑا حصہ رکھتا ہے، اور نیز ان ظلال کے اصول سے جو اسماء و صفات سے مقدم ہیں بہرہ ور ہوتا ہے۔ یہ جو میں نے کہا ہے کہ وہ ’’تام الاستعداد‘‘ والا ہو، کیونکہ بسا اوقات ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ (سالک) بظاہر ”محمدی المشرب“ ہے جو کمالاتِ اخفیٰ سے بھی کہ مراتبِ (عالمِ) امر کی انتہا ہے، حصہ رکھتا ہے لیکن معاملۂ اخفیٰ کو انجام تک نہیں پہنچایا (اس لئے اس کی استعداد ناقص ہے) اور وہ اس کا آخری نقطۂ انتہا نہیں ہوتا بلکہ وہ ابتدا یا وسط ہی میں رہ جاتا ہے اور جب وہ اخفیٰ میں کوتاہی کرتا ہے تو اس کے اندازے کے مطابق اصول میں بھی کوتاہی کرے گا اور کام انجام تک نہیں پہنچائے گا۔ عالمِ امر کے باقی چہار گانہ مراتب میں بھی یہی نسبت ہے کہ ہر مرتبے کی استعداد کا کامل ہونا اس کے آخری نقطے کے وصول سے وابستہ ہے، ابتدا اور وسط اس نقص کی خبر دیتا ہے اگرچہ نہایت سے بال برابر بھی کوتاہی ہو؂

فراقِ دوست اگر اندک است اندک نیست

درونِ دیدہ اگر نیم مو است بسیار است

ترجمہ:

فراقِ یار اگر کم ہے کم نہیں سمجھو

اگر ہے آنکھ میں کچھ بال، کم نہیں جانو

اور یہ کوتاہی اصول میں اور اصول کے اصول میں بھی سرایت کر جائے گی اور وصولِ مطلب سے باز رکھے گی۔ جو کچھ میں نے کہا ہے کہ ’’یہ بیان محمدی المشرب کے ساتھ مخصوص ہے‘‘ اس لئے کہا ہے کہ غیر محمدی المشرب میں کسی ایک کا کمال درجاتِ ولایت میں سے درجہ اُولی تک ہی محدود ہوتا ہے اور درجہ اولیٰ سے مراد مرتبہ قلب ہے، اور کسی دوسرے کا کمال درجاتِ ولایت میں سے درجہ ثانی (یعنی مقامِ روح) تک محدود ہے، اور تیسرے شخص کے کمال کا عروج تیسرے درجے تک ہوتا ہے جو مقامِ سِرّ ہے، اور چوتھے شخص کے کمال کا عروج چوتھے درجے تک ہے جس کا مقام خفی ہے۔ درجہ اولیٰ کی مناسبت صفاتِ افعال کی تجلی کے ساتھ ہے اور درجہ ثانیہ کو صفاتِ ثبوتیہ ذاتیہ کی تجلی سے اور درجہ ثالث کو شیون و اعتباراتِ ذاتیہ سے مناسبت ہے، اور درجہ چہارم کو صفات سلبیہ کے ساتھ جس کا مقام تقدیس و تنزیہ ہے مناسبت ہے اور درجاتِ ولایت میں سے ہر درجہ اولو العزم انبیاء میں سے کسی ایک نبی کے زیر قدم ہے۔

ولایت کا درجہ اولیٰ حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیر قدم ہے اور ان کا رب ’’صفت تکوین‘‘ ہے جو کہ افعال کے صادر ہونے کا منشا ہے۔ دوسرا درجہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زیر قدم ہے اور حضرت نوح علی نبینا و علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات بھی اس مقام میں شریک ہیں اور اس کا رب صفت العلم ہے جو صفات ذاتیہ میں اجمع (سب سے زیادہ جامع) ہے۔ تیسرا درجہ حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیرِ قدم ہے اور اُن کا رب مقاماتِ شیونات سے شان الکلام ہے۔ چوتھا درجہ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا علیہ الصلٰوۃ و السلام کے زیرِ قدم ہے اور ان کا رب صفاتِ سلبیہ سے ہے نہ کہ صفات ثبوتیہ سے کہ جس کا مقام تقدیس و تنزیہ ہے۔ اکثر ملائکہ کرام علی نبینا و علیہم الصلٰوۃ و السلام بھی اس مقام میں حضرت عیسیٰ کے ساتھ مشارکت رکھتے ہیں اور ان (ملائکہ) کو اس مقام میں شانِ عظیم حاصل ہے۔ اور پانچواں درجہ حضرت خاتم الرسل علیہ و علیہم الصلٰوۃ و التسلیمات کے زیرِ قدم ہے اور ان علیہم الصلٰوۃ و السلام کا رب، ربُّ الارباب ہے جو تمام صفات و شیونات اور تقدیسات و تنزیہات کا جامع ہے اور ان کمالات کے دائرے کا مرکز ہے، اور صفات و شیونات کے مرتبے میں اس ربِ جامع کی تعبیر ’’شان العلم‘‘ کے ساتھ مناسب ہے کہ یہ شانِ عظیم الشان تمام کمالات کی جامع ہے، اسی مناسبت سے آپ علیہ الصلوۃ و السلام کی ملّت حضرت ابراہیم علیہ الصلوٰۃ و السلام کی ملّت ہوئی اور اُن کا قبلہ آپ کا قبلہ بنا۔ علیہما الصلٰوۃ و التسلیمات۔

جاننا چاہیے کہ اقدامِ ولایت کی ایک دوسرے پر فضلیت درجات کے مقدم و مؤخر ہونے کے اعتبار سے نہیں ہے تاکہ صاحبِ اخفیٰ دوسروں سے افضل ہو جائے۔ علیٰ ہذا القیاس بلکہ اصل سے قریب و بعید ہونے اور ظلال کے درجات کی منزلوں کو زیادہ یا کم طے کرنے کے اعتبار سے ہے۔ لہٰذا ہو سکتا ہے کہ صاحبِ قلب قرب کے اعتبار سے اصل کے ساتھ صاحبِ اخفیٰ سے کہ اس نے یہ قرب حاصل نہیں کیا، افضل ہو، اور کیونکر نہ ہو جب کہ نبی کی وہ ولایت جو ولایت کے درجہ اولیٰ میں ہے اس ولی کی ولایت سے قطعی طور پر افضل ہے جو ولایت کے آخری درجہ میں ہے۔

پوشیدہ نہ رہے کے لطائفِ کا مذکورہ بالا ترتیب کے ساتھ سلوک طے کرنا یعنی قلب سے روح کی طرف اور روح سے سِرّ اور سر سے خفی اور خفی سے اخفیٰ تک پہنچنا ’’محمدی المشرب‘‘ کے لئے مخصوص ہے جو ان پنج گانہ عالمِ امر کو ترتیب وار طے کر کے ان کے اصولوں میں سیر کرتا ہے، اس کے بعد اصول کے اصول میں اسی ترتیب کی رعایت رکھتے ہوئے کام کو انجام تک پہنچاتا ہے۔ یہ راہِ سلوک جس کی ترتیب مذکور ہوئی ہے وصول (الی اللہ) کے لئے شاہراہ ہے اور احدیت کی طرف توجہ کرنے والوں کے لئے خاص صراطِ مستقیم ہے بخلاف دوسری ولایتوں کے جو گویا ہر درجے میں نقب کھود کر مطلوب تک لے گئے ہیں۔ مثلًا مقامِ قلب سے نقب کھود کر افعال کی صفات تک جو اصل کی اصل ہے، پہنچایا اور اسی طرح مقامِ روح سے گویا نقب کھود کر صفاتِ ذاتیہ تک پہنچایا و علیٰ ہذا القیاس۔ اس میں شک نہیں کہ اس تعالیٰ کے افعال و صفات اس کی ذات سے مُنْفَکْ (جدا) نہیں ہیں۔ اگر جدائی ہے تو ظلال میں ہے۔ لہٰذا اس مقام میں افعال و صفات کے واصلوں کو بھی ذات بے چون تعالیٰ و تقدس کی تجلیات سے بھی حصہ حاصل ہو گا۔ جس طرح صاحب اخفیٰ کو اس کام کے تمام کرنے کے بعد یہ دولت میسر ہو گی اگرچہ علو و سفل (بلندی و پستی) کے اعتبار سے فرق باقی رہے گا اور صاحبِ قلب صاحب اخفیٰ کی برابری نہ کر سکے گا۔

(اے فرزند!) اس جگہ یہ غلطی نہ کرنا کہ یہ فرق جو اولیاء کے درمیان ایک دوسرے کے ساتھ متصور ہے دونوں کے مرتبۂ کمال تک پہنچنے کے بعد صاحبِ ولایتِ قلب کا درجہ صاحبِ ولایتِ اخفیٰ سے کم ہے، لیکن انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کی نسبت اولیاء میں یہ فرق مفقود ہے کیونکہ نبی کی ولایت جو مقام قلب سے ناشی (پیدا ہوئی) ہے وہ ولی کی ولایت سے جو مقامِ اخفیٰ سے ناشی ہوئی ہے افضل ہے اگرچہ اس ولی نے اخفیٰ کے کمالات کو انجام تک پہنچا دیا ہو، اور اس صاحبِ ولایت کی سیر ہمیشہ اسی نبی کی ولایت کے زیر قدم ہے۔ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَ لَقَدۡ سَبَقَتۡ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الۡمُرۡسَلِيۡنَ 0 اِنَّهُمۡ لَهُمُ الۡمَنۡصُوۡرُوۡنَ 0 وَاِنَّ جُنۡدَنَا لَهُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ‏﴾ (الصافات: 171-173) ترجمہ: ”اور ہم پہلے ہی اپنے پیغمبر بندوں کے بارے میں یہ بات طے کر چکے ہیں کہ یقینی طور پر ان کی مدد کی جائے گی اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے لشکر کے لوگ ہی غالب رہتے ہیں“۔ ہاں یہ فرق انبیاء کے درمیان ایک دوسرے کے لئے متصور ہے کہ صاحبِ علو (بلند درجے والے) کا درجہ صاحبِ سفل (کم درجے والے) سے افضل ہو، لیکن یہ فرق بھی ابنیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کے درمیان عالمِ امر کے دائرہ کمالات کے اخیر تک ہے، اس کے بعد یہ فضلیت بلندی و پستی (کے درجات) سے وابستہ نہیں ہے بلکہ ممکن ہے کہ اس مقام میں پستی والا بلندی والے سے افضل ہو جیسا کہ ہم نے اس مقام میں حضرت موسیٰ و حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہم الصلوۃ و السلام کے درمیان اس تفاوت کو مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت موسیٰ اس مقام میں جسم اور شانِ عظیم کے ساتھ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہما الصلوۃ و السلام میں یہ جسامت اور شان نہیں ہے۔ لیکن ہم کو معلوم ہوا ہے کہ اس مقام میں یہ فرق بلندی و پستی کے علاوہ ایک اور امر کی وجہ سے ہے جس کو ہم ان شاء اللہ تعالیٰ اس (تعالیٰ) کے حُسنِ توفیق اور کمال احسان و کرم سے اس کے بعد مفصل طور پر بیان کریں گے۔

اسی طرح یہ تفاوت حضرت خلیل الرحمن اور حضرت خاتم الرسل علیہم الصلوات و التسلیمات کے علاوہ تمام انبیاء کے درمیان ان کے کمالات میں جو کعبۂ ربانی کی حقیقت کے ساتھ کہ تمام حقائق بشریت اور ملکیّت سے بر تر ہے، تعلق رکھتے ہیں۔ مشاہدہ کیا ہے کہ حضرت خلیل الرحمن علیہ السلام کو اس مقام میں وہ شانِ عظیم اور بلند مرتبہ حاصل ہے جو کسی ایک کو بھی وہ شان و مرتبہ میسر نہیں ہوا۔

اس عجیب مقام میں جو عظمت و کبریائی کے پردوں کے ظہور کا مقام ہے، اس کے مناسب ہے، اس مقام کے مرکز یعنی مقامِ اجمال کے کمالات حضرت خاتم الرسل علیہ الصلوۃ و السلام کے نصیب ہیں اور باقی سب مفصل طور پر حضرت خلیل علیہ الصلوٰۃ و السلام کے لئے مسلّم ہیں اور اُن کے علاوہ دوسرے انبیاء اور کامل اولیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات سب ان کی طفیلی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ ہمارے پیغمبر علیہ وعلیٰ آلہ الصلوۃ و التسلیمات نے اس اجمال کی تفصیل (حق تعالیٰ سے) دریافت فرمائی ہے چنانچہ اپنی مسؤولہ صلوات و برکات کو حضرت ابراہیم علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و التسلیمات کی صلوات و برکات کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ اس فقیر پر ظاہر کیا گیا ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد وہ تفصیل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو میسر ہو گئی اور آپ کا سوال قبول ہو گیا۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ سُبْحَانَہٗ عَلٰی ذَالِکَ وَ عَلٰی جَمِیعِ نِعَمَائِہٖ (اللّٰہ سُبْحَانہٗ کا اس پر اور تمام نعمتوں پر شکر ہے) اس عالی مقام کے کمالات تمام ولایتوں کے کمالات اور نبوت و رسالت کے کمالات سے بلند تر ہیں اور بلند تر کیوں نہ ہوں جب کہ یہی حقیقت انبیاء کرام اور ملائکہ عظام علیہم الصلوۃ والتحیات کی مسجود الیہ ہے۔

اور اس فقیر نے رسالہ ’’مبدأ و معاد‘‘ میں جو کچھ لکھا ہے کہ ’’حقیقت محمدی اپنے مقام سے عروج کر کے حقیقتِ کعبہ کے مقام تک جو اس سے بلند تر ہے، پہنچ کر متحد ہو گئی اور حقیقتِ محمدی نے اس مقام پر حقیقتِ احمدی کا نام حاصل کر لیا‘‘ وہ حقیقتِ کعبہ اس حقیقت کے ظلال میں سے ایک ظل ہے کہ (یہ فقیر) اس حقیقت کے عدم ظہور کے وقت میں ان سب کو حقیقت سمجھتا تھا۔ اس قسم کے اشتباہ بہت واقع ہوتے ہیں کہ (عارف) اصل کے ظاہر نہ ہونے کے وقت ظل کو اصل سمجھتا ہے اور اس کو حقیقت کا نام دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک مقام چند مرتبہ ظاہر ہوتا ہے اس کا راز یہی ہے کہ اس مقام کے ظہورات اس مقام کے ظلال کے اعتبار سے ہیں۔ حقیقت میں اس مقام کی حقیقت وہی ہے جو آخری مرتبے میں ظاہر ہوئی۔ اگر کوئی کہے کہ یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ یہ مرتبہ اس مقام کے آخری مرتبے کے ظہوارت میں سے ہے تاکہ اس کو حقیقت جان لیا جائے تو میں کہتا ہوں کہ سابقہ ظہوارت کی ظلیت کا علم حاصل ہونا اس ظہور کی آخریت پر شاہدِ عدل ہے، کیونکہ یہ علم سابقہ ظہورات کے وقت حاصل نہیں ہے بلکہ ہر ظہور کو حقیقت سمجھتا ہے اور ان میں سے کسی کو بھی ظل نہیں سمجھتا اگرچہ نہیں جانتا کہ ان حقائق کا اختلاف کہاں سے آیا ہے فافہم۔

اے فرزند! سابقہ معارف سے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کمالات جو عالمِ امر سے تعلق رکھتے ہیں، ان کمالات کے لئے جو عالمِ خلق سے متعلق ہیں مقدمات اور زینوں کی طرح ہیں اور پہلے کمالات ظلیت سے خالی نہیں ہیں اور وہ مقامات ولایت سے مخصوص ہیں اور دوسرے کمالات نے ظلیت کی آمیزش سے جو اس نشاء دنیاوی کے ظہورات کے مناسب ہے، خالی ہو کر مقامات نبوت سے کامل حصہ حاصل کر لیا ہے لہٰذا طریقت و حقیقت جو ولایت سے وابستہ ہیں دونوں شریعت کے لئے جو مقامِ نبوت سے ناشی (پیدا)ہے خادموں میں سے ہیں اور نبوت کے عروج کے لئے ولایت ایک زینہ ہے۔

اس بیان سے معلوم ہوا کہ وہ سیر جو اکابرِ نقشبندیہ قدس اللہ تعالیٰ اسرار ہم نے اختیار کی ہے اور جس کی ابتدا عالمِ امر سے کی ہے اولیٰ و انسب ہے کیونکہ ادنیٰ سے (جو عالمِ امر ہے) اعلیٰ کی طرف (جو عالمِ خلق ہے) ترقی کرنی چاہیے نہ کہ اعلیٰ سے ادنیٰ کی طرف۔ لیکن کیا کیا جائے کہ یہ معما سب پر حل نہیں ہوا۔ دوسروں نے صورت (ظاہر) پر نظر ڈالی اور عالمِ خلق کو پست دیکھا اور پستی سے شروع کر کے بلندی کی طرف (یعنی عالم خلق سے عالمِ امر کی طرف) ترقی کی، اور یہ نہیں جانا کہ حقیقتِ معاملہ دِگرگوں (بر عکس) ہے اور پستی حقیقت میں بلندی ہے اور بلندی حقیقت میں پستی ہے۔ ہاں نقطۂ آخر جو عالمِ خلق ہے نقطۂ اولیٰ سے جو اصل الاصل ہے، نزدیک واقع ہوا ہے۔ یہ قرب کسی دوسرے کو میسر نہیں ہوا۔

کہ مستحقِ کرامت گنہگار انند

ترجمہ:

کرم کے مستحق بس عاصیاں ہیں

یہ دید (مشاہدہ) مشکوٰۃِ نبوت سے اقتباس ہے۔ اربابِ ولایت نے اس معرفت (جو عالم خالق سے متعلق ہے) سے بہت کم حصہ پایا ہے۔ انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات نے سیر کی ابتدا عالمِ امر سے کی ہے اور حقیقت سے شریعت کی طرف آئے ہیں۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان کامل اولیاء کے لئے جن کی سیر انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کی سیر کے موافق ہوئی ہے، ابتدا میں شریعت کی صورت ہے اور وسط میں طریقت و حقیقت کہ جس کا تعلق ولایت سے ہے اور عالمِ امر کے مناسب ہے، اور آخر میں شریعت کی حقیقت ہے جو ثمرۂ نبوت ہے لہٰذا یہ بات طے شدہ ہوئی کہ طریقت و حقیقت کا حصول شریعت کی حقیقت کے حصول کی تمہید ہے۔ اور کامل اولیاء کی بدایت (ابتدا) اور انبیاء مرسل کی بدایت، حقیقت ہے اور دونوں کی انتہا شریعت ہوئی تو جس نے یہ کہا کہ ’’اولیاء کی ہدایت انبیاء کی نہایت ہے اور اولیاء کی ہدایت اور انبیاء کی نہایت سے شریعت مراد لی ہے، اس کے کچھ معنی نہیں ہیں۔ ہاں وہ بے چارہ جو حقیقتِ معاملہ سے آگاہی نہیں رکھتا مجبورًا اس نے شطحی کلام کیا (یعنی ظاہر کے خلاف بات کہی)

ان معارف کو اگرچہ کسی نے بیان نہیں کیا بلکہ اکثر نے اس کے بر عکس بیان کیا ہے اور ادراک سے دُور ہو گئے ہیں، لیکن وہ انصاف پسند جو انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کی بزرگی ملاحظہ میں رکھے اور اس پر شریعت کی عظمت کا بھی غلبہ ہو تو احتمال ہے کہ ان مخفی اسرار کو قبول کرلے گا اور اس قبولیت کو اپنے ایمان کی زیادتی کا وسیلہ بنائے گا۔

اے فرزند! سنو، انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات نے دعوت کو عالمِ خلق پر منحصر رکھا ہے: "بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ"؂2 ترجمہ: ”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے“۔ اور چونکہ قلب کی مناسبت عالمِ خلق سے زیادہ ہے لہٰذا اس کی تصدیق کے لئے دعوت کا حکم فرمایا اور قلب کے ما ورا کی نسبت کوئی بات نہیں فرمائی اوراس کو کَالْمَطْرُوْحِ فِی الطَّرِیْقِ (راستہ میں پڑا ہوا کوڑا) کی طرح سمجھا اور اس کو مقاصد میں شمار نہیں کیا۔ ہاں بہشت کی نعمتیں اور دوزخ کی مصیبتیں اور دیدار کی دولت اور محرومی کی بد نصیبی، یہ سب عالمِ خلق سے وابستہ ہیں اور عالمِ امر کے ساتھ ان کا کچھ تعلق نہیں۔ دوسرے وہ عمل جو فرض، واجب اور سنت ہیں، ان کی بجا آوری اسی قالب سے تعلق رکھتی ہے جو عالمِ خلق سے ہے، اور جو کچھ کہ عالمِ امر کا حصہ ہے اور اعمالِ نافلہ سے متعلق ہے۔ پس وہ قرب جو ان اعمال کے ادا کرنے کا ثمرہ ہے وہ اعمال کے اندازے کے مطابق ہو گا۔ لہٰذا لازمی طور پر وہ قرب جو ادائے فرض کا ثمرہ ہے، عالمِ خلق کا نصیب ہے اور وہ قرب جو ادائے نوافل کا ثمرہ ہے وہ عالمِ امر کا نصیب ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ نفل کی فرض کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں۔ کاش! اس کو دریائے محیط کے مقابلے میں قطرے ہی کی نسبت ہوتی، بلکہ سنت کے مقابلے میں بھی نفل کی یہی نسبت ہے، اگرچہ سنت اور فرض کے درمیان بھی قطرے اور دریا کی نسبت ہے۔ لہٰذا دونوں قربوں (قرب بالنوافل اور قرب بالفرائض) کے درمیانی فرق کو اسی پر قیاس کر لینا چاہیے، اور عالمِ خلق کا شرف عالمِ امر پر اسی فرق سے سمجھ لینا چاہیے۔

اکثر لوگ جو اس معنی سے بے نصیب ہیں اپنے فرائض کو خراب کر کے نوافل کی ترویج میں کوشش کرتے ہیں۔ صوفیائے خام ذکر اور فکر کو اہم ترین ضروریات جان کر فرائض اور سنتوں کی بجا آوری میں سُستی کرتے ہیں او چلّوں اور ریاضتوں کو اختیار کر کے جمعہ اور جماعت کو ترک کر دیتے ہیں، وہ یہ نہیں جانتے کہ ایک فرض کا جماعت کے ساتھ ادا کرنا ان کے ہزاروں چلّوں سے بہتر ہے، ہاں آدابِ شرعیہ کی رعایت کے ساتھ ذکر و فکر میں مشغول ہونا بہت بہتر اور اہم ترین کام ہے۔

اور علماء بے سر انجام بھی نوافل کو رواج دینے میں کوشش کرتے ہیں اور فرائض کو خراب و ابتر کرتے ہیں۔ مثلًا نمازِ عاشورہ کو جو حضرت پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و التسلیمات سے صحت کے ساتھ نہیں پہنچی جماعت اور تمام جمعیت کے ساتھ اہتمام سے ادا کرتے ہیں، حالانکہ جانتے ہیں کہ فقہ کی روایات نمازِ نفل با جماعت کی کراہت پر ناطق ہیں اور فرض کی ادائیگی میں سستی برتتے ہیں۔ بہت کم (لوگ) ایسے ہیں کہ فرض نماز کو مستحب وقت میں ادا کریں بلکہ اصل وقت سے بھی تجاوز کر جاتے ہیں اور نماز با جماعت کا بھی زیادہ اہتمام نہیں کرتے، ایک یا دو آدمیوں کی جماعت پر قناعت کر لیتے ہیں بلکہ بسا اوقات تنہا پڑھ لینے پر ہی کفایت کرتے ہیں۔ جب اسلام کے پیشواؤں کا یہ حال ہو تو عوام کے بارے میں کیا کہا جائے۔ اس عمل کی نحوست کی وجہ سے اسلام میں صغف پیدا ہو گیا اور اس فعل کی ظلمت کی وجہ سے ہوا و ہوس اور بدعت عام ہو گئی؂

اند کے پیش تو گفتم غمِ دل ترسیدم

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

ترجمہ:

غمِ دل مختصر ہی کہتا ہوں

دکھ نہ پہنچائے میری بات طویل

اور اسی طرح نوافل کی ادائیگی من جملہ ظلال کے ایک ظل سے قریب کر دیتی ہے اور اصل قرب فرائض کی ادائیگی میں ہے کہ جس میں ظلیت کی آمیزش نہیں ہے، مگر وہ نوافل جو فرائض کی تکمیل کے لئے ادا کئے جائیں وہ بھی قربِ اصل کے لئے ممد و معاون او فرض کے ملحقات سے ہیں، لہٰذا لازمی طور پر فرائض کی ادائیگی کا تعلق عالمِ خلق کے مناسب ہے جو اصل کے ساتھ متوجہ ہے، اور نوافل کی ادائیگی عالمِ امر کے مناسب ہے جس کا چہرہ ظل کی طرف ہے۔ تمام فرائض اگرچہ اصل کی طرف قرب بخشتے ہیں لیکن ان میں سب سے افضل و اکمل صلوۃ (نماز) ہے۔ "الصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِ"؂3 ترجمہ: ”نماز مومن کے لئے معراج ہے“ اور "أَقْرَبُ مَا یَکُونُ العَبْدُ مِنَ الرَّبِّ فِی الصَّلٰوۃِ"؂4 ترجمہ: ”بندے کو سب سے زیادہ قرب اپنے پرور دگار سے نماز میں ہوتا ہے“ تم نے سنا ہو گا۔

اور وہ وقتِ خاص جو حضرت پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کو حاصل تھا جس کی تعبیر "لِيْ مَعَ اللہِ وَقْتٌ"؂5 ترجمہ: ”اللہ تعالیٰ کے ساتھ میرا ایک وقت ہے“ سے کی ہے، فقیر کے نزدیک نماز ہی میں ہے۔ نماز ہی گناہوں کا کفارہ ہے اور نماز ہی فواحش و منکرات سے روکتی ہے اور نماز ہی ہے جس میں پیغمبر علیہ الصلوۃ و السلام اپنے لئے راحت تلاش کرتے تھے اسی لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے تھے: "أَرِحْنِيْ یَا بِلَالُ"؂6 (اے بلال مجھے آرام دے) اور نماز ہی کو دین کا ستون؂7 فرمایا ہے اور نماز ہی اسلام اور کفر میں فرق ظاہر کرتی ہے۔

اب ہمِ اصل بات کی طرف رجوع کرتے ہیں اور عالمِ خلق کی عالمِ امر پر افزونی (فضیلت) بیان کرتے ہیں۔ عالمِ امر اس جگہ (دنیا) میں پورا پورا حظ (لذت) حاصل کر کے مشاہدے اور معائنے میں مشغول ہو گیا ہے، کل (روزِ قیامت) کو بہشت میں معاملہ عالمِ خلق سے ہو گا اور بلا کیف اس تعالیٰ کی رویت میسر ہو گی، اور اسی طرح مشاہدے کا تعلق وجوب کے ظلال میں سے ایک ظل سے ہے اور آخرت میں واجب الوجود کا دیدار ہے۔ لہٰذا جس قدر مشاہدہ اور رویت، ظلیت اور اصالت میں فرق ہے اسی قدر عالمِ امر اور عالمِ خلق میں فرق ہے جان لو۔ پھر جان لو کہ مشاہدہ ولایت کا ثمرہ ہے اور رویت نبوت کا ثمرہ، جو انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کی تابع داری کی وجہ سے عام تابع داروں کو بھی میسر ہو گی۔ اس مقام پر ولایت و نبوت کے درمیان جو فرق ہے وہ سمجھ لو۔

تنبیہہ:

جس عارف کو عالمِ امر کے ساتھ زیادہ مناسبت ہو گی اس کا قدم کمالاتِ ولایت میں زیادہ تر ہو گا اور جس کو عالمِ خلق سے زیادہ مناسبت ہو گی اس کا قدم کمالاتِ نبوت میں بہت زیادہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام ولایت میں بیش تر قدم رکھتے ہیں اور حضرت موسیٰ علیٰ نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کا قدم زیادہ تر نبوت میں ہے کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام میں (عالمِ) امر کی نسبت غالب ہے جس کی وجہ سے وہ روحانیوں سے ملحق ہو گئے اور حضرت موسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کا رُخ عالمِ خلق کی طرف غالب ہے لہٰذا انہوں نے مشاہدے پر اکتفا نہ کر کے رویتِ بصری؂8 کی درخواست کی۔ کمالاتِ نبوت میں ابنیاء علیہم السلام کے اقدام کے تفاوت ہونے کا سبب یہی ہے، جس کے بیان کرنے کا وعدہ میں نے پہلے کیا تھا، نہ کہ بعض لطائف کی بلندی اور بعض کی پستی جو کہ کمالاتِ ولایت کے تفاوت میں معتبر ہے، وَ اللہُ سُبْحَانَہُ الْمُلْھِمُ لِلصَّوَابِ (اللہ سبحانہٗ بہتری کا الہام کرنے والا ہے)

اے فرزند! چونکہ علومِ نبوت جو کہ شرائع و احکام اور قالب (جسدِ خاکی) کے ساتھ زیادہ تر تعلق رکھتے ہیں اور انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کو بھی اسی وجہ سے عالمِ خلق کے ساتھ زیادہ مناسبت ہے، اس مقام پر بعض نے گمان کیا ہے کہ نبوت سے مراد، مقاماتِ قرب تک جو مقامِ ولایت سے تعلق رکھتے ہیں، عروج کرنے کے بعد دعوتِ خلق کے لئے نزول کرنا ہے، اور یہ نہیں جانتے کہ عروج کی انتہا اور قرب کی غایت اسی مقام (یعنی مقامِ دعوت) میں ہے اور وہ قرب جو پہلے حاصل ہوا تھا وہ اس قرب کے ظلال میں سے ایک ظل ہے جو کہ بُعد (دوری)کی صورت میں متصور ہوتا ہے اور وہ عروج جو اس سے پہلے حاصل ہوا تھا وہ اس عروج کے عکسوں میں سے ایک عکس تھا جو ظاہر میں نزول دکھائی دیتا ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ دائرے کا مرکز دائرے کے محیط کی نسبت سب سے زیادہ دُور نقطہ ہے حالانکہ حقیقت میں کوئی نقطہ بھی مرکز کے نقطہ کی نسبت محیط سے زیادہ قریب نہیں ہے کیونکہ محیط اس نقطۂ اجمال کی تفصیل ہے اور یہ نسبت کسی دوسرے نقطے کو میسر نہیں ہوئی۔ ظاہر بیں عوام اس اقربیت کو نہیں معلوم کر سکے اس لئے اس نقطے کے لئے ابعدیت (بہت زیادہ دور ہونے) کا حکم کرتے ہیں اور اس نقطے کی اقربیت کے حکم کو جہلِ مرکب تصور کرتے ہیں اور اس حکم کرنے والے کو جاہل اور احمق سمجھتے ہیں۔ ﴿وَ اللّٰهُ الۡمُسۡتَعَانُ عَلٰى مَا تَصِفُوۡنَ‏﴾ (یوسف: 18) ترجمہ: ”اور جو باتیں تم بنا رہے ہو، ان پر اللہ ہی کی مدد درکار ہے“۔

جاننا چاہیے کہ نفسِ مطمئنہ شرح صدر کے حصول کے بعد جو کمالاتِ ولایتِ کبریٰ کے لوازم میں سے ہے، اپنے مقام سے عروج کر کے تختِ صدر پر ترقی کر جاتا ہے اور وہاں تمکن و سلطنت حاصل کر لیتا ہے اور قرب کے ممالک پر غلبہ پا لیتا ہے۔ یہ تختِ صدر حقیقت میں مرتبۂ ولایتِ کبریٰ کے عروج کے تمام مقامات سے بلند ہے، اور اس تخت پر پہنچنے والے کی نظر ابطنِ بطون (قلب کی گہرائیوں) میں نفوذ کرتی ہے اور غیب الغیب (پوشیدہ سے پوشیدہ) میں سرایت کر جاتی ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص بہت اونچے مکان پر چڑھ جائے تو اس کی نگاہ بھی دُور سے دور تک پہنچ جائے گی اور اس مطمئنہ کی تمکین کے بعد عقل بھی اپنے مقام سے نکل کر اس کے ساتھ مل جائے گی، اور عقلِ معاد کا نام حاصل کر لے گی، اور دونوں باہم اتفاق بلکہ اتحاد کے ساتھ اپنے کام میں متوجہ ہو جائیں گے۔

اے فرزند! اس مطمئنہ کو اب مخالفت کی گنجائش باقی نہیں رہی اور سر کشی کی مجال بھی نہیں۔ اور کُلی طور پر اپنے مطلوب کی طرف متوجہ ہے اور پوری طرح اپنا مقصود حاصل کرنے میں مشغول ہے۔ اس کی پوری ہمت پرورگار جل سلطانہٗ کی رضا (حاصل کرنے) کے علاوہ کچھ نہیں اور اس کا مطلب اس بزرگ بلند و بالا کی اطاعت و عبادت کے سوا کچھ نہیں۔ سبحان اللہ! وہ (نفسِ) امارہ جو اوّل بد ترینِ خلائق تھا اب اطمینان اور حضرتِ سبحان کی رضا حاصل ہونے کے بعد عالمِ امر کے لطائف کا رئیس (سردار) بن گیا اور اپنے ہم سروں کا سردار ہو گیا۔ مخبر صادق علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام نے کیا خوب فرمایا ہے: "خِیَارُکُمْ فِي الجَاھِلِیَّۃِ خِیَارُکُم فِي الْإِسْلَامِ اذَا فَقِھُوا"؂9 ترجمہ: ”جو لوگ زمانۂ جاہلیت میں تم میں سے اچھے تھے وہ اسلام میں بھی تم میں اچھے ہیں جب کہ انہوں نے دین کو سمجھ لیا“۔ اس کے بعد اگر کوئی صورت خلاف و سر کشی کی پیدا ہوئی تو اس کا منشا (سر چشمہ) عناصرِ اربعہ کی مختلف طبائع ہیں جو اجزائے قالب (جسم کے اجزا) ہیں، اگر قوتِ غضبیہ کا غلبہ ہے تو وہ بھی وہیں سے پیدا ہوا ہے اور اگر شہوانیت کا غلبہ ہے تو وہ بھی وہیں سے، اور اگر حرص و شر کا غلبہ ہے تو وہ بھی وہیں سے اٹھا ہے، اور اگر بخل و کمینگی ہے تو بھی وہیں سے ہے۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمام حیوانات جن میں نفسِ امارہ نہیں ہے ان میں بھی یہ تمام رذائل بدرجہ اتم و اکمل پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا بہت ممکن ہے کہ مراد اس جہادِ اکبر سے جو ہمارے پیغمبر علیہ و علی آلہ الصلوۃ و التسلیمات نے فرمایا ہے: "رَجَعْنَا مِنَ الجِھَادِ الْأَصْغَرِ إِلیٰ الجِھَادِ الْأَکْبَرِ"؂10 ترجمہ: ”اب ہم جہادِ اصغر سے جہادِ اکبر کی طرف لوٹتے ہیں“۔ جہاد با قالب ہو، نہ کہ جہاد با نفس، جیسا کہ کہا گیا ہے کہ نفس اطمینان (کی حد) تک پہنچ چکا ہے اور’’راضی و مرضی‘‘ (یعنی وہ حق تعالیٰ سے راضی اور حق تعالیٰ اس سے راضی) ہو گیا ہے لہٰذا خلاف و سر کشی کی صورت اس سے متصور نہ ہو گی۔ خلاف و سر کشی کی صورت میں اجزائے قالب سے مراد ادارۂ ترکِ اولیٰ ہے اور اُمور رخصت کے ارتکاب اور ترکِ عزیمت کا ارادہ ہے، نہ کہ حرام اشیاء کا ارتکاب اور فرائض و واجبات کے ترک کا ارادہ جو کہ اس کے حق میں ’’نصیبِ دشمناں‘‘ ہو چکا ہے۔

اے فرزند! اگرچہ عناصرِ اربعہ کے کمالات، کمالاتِ مطمئنہ سے بڑھ کر ہیں جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے لیکن مطمئنہ چونکہ مقامِ ولایت سے مناسبت رکھتا ہے اور عالمِ امر سے ملحق ہے اس لئے صاحبِ سکر ہے اور مقامِ استغراق میں ہے، نا چار اس میں مخالفت کی طاقت نہیں رہی، اور چونکہ عناصر میں مقامِ نبوت کی مناسبت زیادہ ہے اس لئے ان میں صحو (ہوش) غالب ہے، اسی لئے بعض منافع اور فوائد کے لئے جو ان سے وابستہ ہیں، ان میں مخالفت کی صورت باقی رہتی ہے پس سمجھ لو۔

جاننا چاہیے کہ منصب نبوت حضرت خاتم الرسل علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و التسلیمات پر ختم ہو چکا ہے لیکن اُس منصب کے کمالات میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تابع داری کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تابع داروں کو بھی پورا پورا حصہ حاصل ہے، یہ کمالات طبقۂ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین میں بہت زیادہ ہیں اور تابعین اور تبع تابعین میں بھی یہ دولت کچھ نہ کچھ سرایت کئے ہوئے ہے، اس کے بعد یہ کمالات پوشیدگی میں چلے گئے اور ولایتِ ظلی (ولایتِ صغریٰ) کے کمالات کا غلبہ جلوہ گر ہو گیا۔ لیکن امید ہے کہ ہزار سال گزرنے کے بعد یہ دولت از سرِ نو تازہ ہو کر غلبہ و شیوع (عموم) حاصل کر لے اور کمالاتِ اصلی ظہور میں آئیں اور ظلی پوشیدہ ہو جائیں اور حضرت مَہدی علیہ الرضوان اس نسبت عالیہ کو ظاہر و باطن کے ساتھ رواج دیں۔

اے فرزند! نبی علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کا کامل تابع دار اپنی کامل تابع داری کی وجہ سے جب مقامِ نبوت کے کمالات کو پورا کر لیتا ہے تو اگر وہ اہلِ مناصب سے ہے تو اس کو ’’منصب امامت‘‘ پر سر فراز کر دیتے ہیں اور جب وہ ولایتِ کبریٰ کے کمالات کو پورا کر لیتا ہے اور اہلِ منصب سے ہوتا ہے تو اس کو ’’منصبِ خلافت‘‘ سے مشرف کر دیتے ہیں اور کمالات ظلّی کے مقامات سے منصبِ امامت کے مناسب ’’ قطبِ ارشاد‘‘ کا منصب ہے اور منصبِ خلافت کے مناسب ’’قطبِ مدار‘‘ کا منصب ہے گویا نیچے کے یہ دونوں مقام ان اوپر کے دونوں مقاموں کے ظلال ہیں۔ شیخ محیی الدین ابن العربی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ’’غوث ہی قطبِ مدار ہے غوثیت کا منصب علیحدہ نہیں ہے‘‘۔ لیکن جو کچھ اس فقیر کا اعتقاد ہے وہ یہ ہے کہ غوث ’’قطب مدار‘‘ نہیں ہے بلکہ قطب بعض اُمور میں اس سے مدد لیتا ہے اور ابدال کے مناصب کی تقرری میں بھی اس کو دخل ہے ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4)

تذییل (ایک چیز کا دوسری چیز پر اضافہ کرنا) وہ علوم و معارف جو ’’مقامِ نبوت‘‘ اور اس نبوت کی ولایت کے مقام کے مناسب ہیں انبیاء علیہم الصلوۃ و التسلیمات کے شرائع (شریعتیں) ہیں، اور چونکہ نبوت کے مرتبوں میں تفاوت ہے اس لئے اس تفاوت کے اندازے کے مطابق انبیاء علیہم السلام کی شرائع میں بھی اختلاف آ گیا ہے اور وہ معارف جو ’’مقام ولایتِ اولیا‘‘ کے مناسب ہیں مشائخ کی شطحیات (خلاف شرع باتیں) ہیں اور وہ علوم جو توحید و اتحاد (توحیدِ وجودی) کی خبر دیتے ہیں اور احاطہ و سریان کی خبر اور قرب و معیت کا نشان بتاتے ہیں اور مرآتیت و ظلیت کو ظاہر کرتے ہیں اور مشہود و مشاہدہ ثابت کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ انبیاء کے معارف کتاب و سنت ہیں اور اولیاء کے معارف فصوص (الحکم) و فتوحاتِ مکیہ ہیں۔

قیاس کُن زگلستانِ من بہارِ مرا

ترجمہ:

مری بہار کا اندازہ گلستاں سے کر

اولیاء کی ولایت حق تعالیٰ کے قرب کے طرف سراغ دیتی ہے اور انبیاء کی ولایت حق تعالیٰ کی اقربیت کا نشان بتاتی ہے اور ولایتِ اولیاء شہود کی طرف دلالت کرتی ہے اور ولایتِ انبیاء اس مجہول الکیفیت (بے کیفی و بے رنگی) کی نسبت کا ثبوت دیتی ہے۔ اولیاء کی ولایت اقربیت کو نہیں پہچانتی کہ کیا ہے اور جہالت کو نہیں جانتی کہ کہاں ہے اور ولایتِ انبیاء اقربیت کے با وجود قرب کو عین بُعد جانتی ہے اور شہود کو عین غیبت سمجھتی ہے۔

گر بگویم شرح ایں بے حد شود

ترجمہ:

شرح اس طرح کی گر لکھوں تو بے حد رہے

اے فرزند! کمالاتِ نبوت کے بیان میں گفتگو اور ولایت پر اس کی فضلیت اور ولایتِ سہ گانہ (تینوں ولایتوں یعنی) ولایتِ صغریٰ، ولایتِ کبریٰ اور ولایتِ علیا کے درمیان فرق اور ان میں سے ہر ایک کے مناسب معارف اور ہر ایک کے متعلقہ مقامات کو اس لئے طول طویل کیا ہے اور بار بار لمبے چوڑے فقرے اس لئے بیان کئے گئے ہیں تاکہ نہایت عجیب و غریب ہونے کے با وجود لوگوں کی سمجھ میں آ سکیں اور کسی کو ان کے انکار کی مجال نہ رہے۔ یہ علوم کشفی اور بدیہی ہیں، استدلالی اور نظری نہیں ہیں، اور ان میں بعض مقدمات کا ذکر تنبیہہ اور عوام کی سمجھ سے قریب لانے کے لئے ہے بلکہ خواص کے سمجھنے کے لئے وضاحت اور تشریح ہے۔ یہ سب شروع سے اخیر تک اس طریقے پر بیان کیا گیا جس پر حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس حقیر کو ممتاز کیا ہے، اس کی بنیاد نسبتِ نقشبندیہ ہے جس کی ابتدا میں انتہا مندرج ہے، اسی بنیاد پر بہت سی عمارتیں اور قسم قسم کے محل بنائے گئے ہیں، اگر یہ بنیاد نہ ہوتی تو معاملہ یہاں تک نہ پہنچتا یعنی بخارا اور سمرقند سے اس بیج کو لا کر زمینِ ہند (سرہند)میں بویا گیا جس کا خمیر ’’مدینہ طبیہ‘‘ اور ’’مکہ معظمہ‘‘ کی خاک سے تیار کیا گیا اور ’’فضل‘‘ کے پانی سے سالہا سال اس کو سیراب کیا گیا اور ’’احسان‘‘ کی تربیت سے اس کی پرورش کی گئی، جب وہ کھیتی کمال کو پہنچ گئی تو ان علوم و معارف کا ثمرہ اس سے حاصل ہوا۔ ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ‌﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پرور دگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔

جاننا چاہیے کہ اس طریقۂ عالیہ کا سلوک ایسے شخص مقتدا کی محبت کے رابطے سے وابستہ ہے جس نے سیرِ مرادی سے اس راہ کو طے کیا ہو، اور قوتِ انجذاب سے ان کمالات کے ساتھ رنگا ہوا ہو، اس کی نظر قلبی امراض کو شفا بخشتی ہے اور اس کی توجہ باطنی امراض دُور کرتی ہے، ایسا صاحبِ کمال اپنے وقت کا امام اور اپنے زمانے کا خلیفہ ہے، اقطاب و ابدال اس کے مقامات کے ظلال میں خوش ہیں، اور اوتاد و نجبا اس کے کمالات کے سمندر سے ایک قطرے پر قناعت کئے بیٹھے ہیں، اس کی ہدایت و ارشاد کا نور اس کے ارادہ اور خواہش کے بغیر آفتاب کے نور کی طرح ہر شخص پر چمکتا ہے، پس کس طرح نہ چمکے جب کہ وہ خود چاہے، اگرچہ یہ خواہش اس کے اپنے اختیار میں نہ ہو کیونکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی امر کی خواہش و طلب کرتا ہے لیکن وہ خواہش اس میں پیدا نہیں ہوتی، اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ لوگ جو اس کے نور سے ہدایت پائیں اور اس کے وسیلے سے راہِ راست پر آ جائیں، اس معنی کو خوب جان لیں۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ اپنے رشد و ہدایت کی اصل کو بھی کما حقہ نہیں جانتے حالانکہ وہ شیخِ مقتدا کے کمالات سے متحقق ہوتے ہیں جن کے سبب ایک جہان کو ہدایت کرتے ہیں، کیونکہ علم سب کو نہیں دیا جاتا اور سیرِ مقامات کی تفصیل کی معرفت ہر ایک کو نہیں بخشتے۔ ہاں وہ شیخ جس کے وجود شریف پر وصول کے طریقوں میں سے کسی خاص طریقے کی بنا کا مدار ہے بے شک وہ صاحبِ علم اور سیر کی تفصیل سے آگاہ ہوتا ہے اور دوسروں کو اسی کے علم پر کفایت کر کے اس کے ذریعے سے مرتبۂ کمال و تکمیل تک پہنچاتے ہیں اور فنا و بقا سے مشرف کرتے ہیں۔

خاص کند بندۂ مصلحتِ عام را

ترجمہ:

عام کے فائدے کو خاص آیا

(ہمارے اس طریقے میں) افادہ اور استفادہ انعکاسی اور انصباغی ہے، مرید محبت کے رابطے سے جو وہ اپنے شیخ مقتدا کے ساتھ رکھتا ہے، لحظہ بلحظہ اس کا رنگ پکڑتا جاتا ہے اور انعکاس کے طریق پر اس کے انوار سے منور ہوتا جاتا ہے۔ اس صورت میں افادے اور استفادے کے لئے علم کی کیا ضرورت ہے۔ (مثلًا) خرپزہ (خربوزہ) سورج کی گرمی سے لمحہ بہ لمحہ پکتا ہے اور کچھ زمانہ گزرنے کے بعد پختہ ہو جاتا ہے، اس کے لئے کیا ضروری ہے کہ اس (خربوزہ) کو اپنے پختہ ہو جانے کا علم ہو، یا سورج کو اس کے پک جانے کا علم ہو۔ ہاں ظاہری طور پر سلوک و تسلیک اختیار کرنے کے لئے علم کا ہونا ضروری ہے جو دوسرے سلاسل سے وابستہ ہے، لیکن ہمارے طریقے میں جو کہ اصحاب کرام علیہم الرضوان کا طریقہ ہے سلوک و تسلیک کا علم کچھ درکار نہیں ہے۔ اگرچہ شیخ مقتدا جو اس طریقے کے بانی کی طرح ہے۔ علم کے کمال اور معرفت کے نور سے متحقق ہے۔ پس نا چار اس طریقۂ عالیہ میں وصول الی اللہ کے لئے زندہ اور مُردے، بچے اور بوڑھے، جوان اور کہول (درمیانی عمر والے) سب برابر ہیں جو رابطۂ محبت یا صاحبِ دولت (شیخِ کامل) کی توجہ سے اپنے بلند مقاصد پر پہنچتے ہیں۔ ﴿ذٰلِكَ فَضۡلُ اللّٰهِ يُؤۡتِيۡهِ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَ اللّٰهُ ذُو الۡفَضۡلِ الۡعَظِيۡمِ﴾ (الجمعہ: 4) ترجمہ: ”یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے، اور اللہ بڑے فضل والا ہے“۔

لیکن جاننا چاہیے کہ اگرچہ منتہی صاحبِ علم نہیں ہوتا لیکن خوارقِ ظہور کے بغیر چارہ نہیں۔ کبھی ایسا ہوتا کہ اس کے ظہور کا اس کو اختیار نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات اس کو اس ظہور کا علم بھی نہیں ہوتا۔ لوگ اس سے خوارق دیکھتے ہیں لیکن اس کو اس کی اطلاع بھی نہیں ہوتی۔ اور یہ جو کہا گیا ہے کہ ’’منتہی صاحب علمِ نہیں ہوتا‘‘ اس سے مراد احوال کا تفصیلی علم نہ ہونا ہے نہ کہ مطلقًا عدمِ علم اس حیثیت سے ہے کہ وہ اپنے احوال کو کچھ نہیں سمجھتا، جیسا کہ اوپر اشارہ کیا گیا ہے، اور اس کی ہدایت کا یہ نور اس کے مریدوں میں بے واسطہ یا بواسطہ یا بہت سے واسطوں سے اس وقت تک جاری و ساری رہتا ہے جب تک کہ اس کا مخصوص طریقہ مختلف تغیرات اور تبدیلیوں کی آلودگی سے ملوث نہ ہو جائے، اور مخترعات (من گھڑت باتوں) اور مبتدعات (نت نئی بدعتوں) کی وجہ سے خراب نہ ہو جائے۔ ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰى يُغَيِّرُوۡا مَا بِأَنۡفُسِهِمۡ‌﴾ (الرعد: 11) ترجمہ: ”یقین جانو کہ اللہ کسی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے حالات میں تبدیلی نہ لے آئے“۔ تعجب ہے کہ ان میں سے ایک گروہ ان تبدیلیوں کو اس طریقے کی تکمیلات گمان کرتے ہیں اور ان الحاقات کو اس نسبت کا تتمہ تصور کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ یہ تتمیم و تکمیل ہر بے سر انجام کا کام نہیں ہے اور الحاق و اختراع ہر بے سر و سامان کے لئے سزا وار نہیں ؂

ہزار نکتۂ باریک تر ز مو ایں جا است

نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند

ترجمہ:

یہاں تو بال سے باریک راز ہیں لاکھوں

مُنڈائے سر تو قلندر کوئی نہیں بنتا

سنتِ سنیہ (روشن و بلند سنتیں) علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ و السلام و التحیہ کے نور کی بدعتوں کے اندھیروں نے پوشیدہ کر دیا ہے اور ملتِ مصطفویہ علی مصدرہا الصلوۃ و السلام و التحیہ کی رونق کو امورِ محدثہ (نت نئے کام) کی گندگیوں نے ضائع کر دیا ہے، پھر اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض لوگ ان محدثات (دین میں نئی نئی باتیں جاری کرنا) کو امور مستحسنہ (نیک کام) جانتے ہیں اور ان بدعتوں کو حسنہ خیال کرتے ہیں اور ان حسنات سے دین کی تکمیل اور ملت کی تتمیم (پورا ہونے) کو تلاش کرتے ہیں اور ان اُمور کے بجا لانے کی ترغیبیں دیتے ہیں ھَدَاھُمُ اللہُ سُبْحَانَہٗ سَوَآءَ الصِّرَاطِ (اللہ سبحانہٗ ان کو سیدھے راستے کی ہدایت دے) (کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ دین تو ان محدثات سے پہلے ہی کامل ہو چکا ہے اور نعمت خداوندی پوری پو چکی ہے اور حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی رضا مندی اس سے حاصل ہو چکی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اَلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَـكُمۡ دِيۡنَكُمۡ وَ أَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِيْ وَ رَضِيۡتُ لَـكُمُ الۡإِسۡلَامَ دِيۡنًا‌﴾ (المائدہ: 3) ترجمہ: ”آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، تم پر اپنی نعمت پوری کردی، اور تمہارے لیے اسلام کو دین کے طور پر (ہمیشہ کے لیے) پسند کر لیا (لہذا اس دین کے احکام کی پوری پابندی کرو)“ پس ان محدثات (بدعات) سے دین کا کمال طلب کرنا حقیقت میں اس آیۂ کریمہ کے مفہوم سے انکار کرنا ہے۔

اند کے پیشِ تو گفتم غمِ دل ترسیدم

کہ دل آزردہ شوی ورنہ سخن بسیار است

ترجمہ:

غمِ دل مختصر ہی کہتا ہوں

دکھ نہ پہنچائے میری بات طویل

علمائے مجتہدین نے دین کے احکام (واضح طور پر) ظاہر فرما دیئے؂11 ہیں اور کوئی ایسی چیز ایجاد نہیں کی جو اس (دین) میں نہیں ہے۔ لہٰذا اجتہاد کے احکام امورِ محدثہ میں سے نہیں ہیں بلکہ وہ اصولِ دین میں سے ہیں کیونکہ چوتھی اصل قیاس ہے۔

اے فرزند! وہ معرفت جو ’’رسالہ مبدأ و معاد‘‘ میں اسی افادے و استفادے کے بارے میں جو ’’قطبِ ارشاد‘‘ سے متعلق ہے تحریر ہوا ہے۔ چونکہ وہ اس مقام کے ساتھ مناسبت رکھتی ہے اور بہت سود مند ہے لہٰذا وہ معرفت اس مکتوب میں بھی تحریر کی گئی ہے اُسی جگہ سے معلوم کریں۔ ’’قطبِ ارشاد‘‘ جو فردیت کے کمالات کا بھی جامع ہوتا ہے بہت ہی عزیز الوجود اور کمیاب ہے اور بہت قرنوں اور بے شمار زمانوں کے بعد اس قسم کا گوہر ظہور میں آتا ہے اور دنیائے تاریک اس نور کے ظہور سے نورانی ہو جاتی ہے اور اس کے ارشاد و ہدایت کا نور محیطِ عرش سے مرکزِ فرش تک تمام عالم کو شامل ہو جاتا ہے اور جس کسی کو رشد و ہدایت اور ایمان و معرفت حاصل ہوتا ہے اسی کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے اور اسی کی ذات سے مستفاد ہوتا ہے اور اس کے توسط کے بغیر کوئی شخص بھی اس دولت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ مثلاً اس کی ہدایت کا نور دریائے محیط کی طرح تمام عالم کو گھیرے ہوئے ہے اور گویا وہ دریا منجمد (جما ہوا) ہے اور اس میں مطلقًا حرکت نہیں ہے اور وہ شخص جو اس بزرگ کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے، یا یہ کہ وہ بزرگ خود کسی طالب کے حال میں متوجہ ہو جائے تو اس توجہ کے دوران طالب کے دل میں ایک سوراخ کُھل جاتا ہے اور اس راستے سے جس قدر توجہ اور اخلاص ہوتا ہے اسی قدر وہ اس دریا سے سیراب ہوتا جاتا ہے۔ اسی طرح وہ شخص بھی جو ذکرِ الٰہی جل شانہٗ کی طرف متوجہ ہے اور اس عزیز بزرگ کی طرف متوجہ نہیں ہے اور یہ بے توجہی کسی انکار کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ اس بزرگ کو پہچانتا ہی نہیں تو اسی اندازے کی فیض رسانی اسے بھی حاصل ہو جاتی ہے لیکن دوسری صورت کی نسبت پہلی صورت میں افادہ زیادہ بڑھ کر ہے۔ لیکن جو شخص اس بزرگ کا منکر ہو یا وہ بزرگ اس سے آزردہ خاطر ہے، اگرچہ وہ ذکر الٰہی تعالیٰ و تقدس میں مشغول رہے لیکن حقیقی رشد و ہدایت سے محروم ہی رہتا ہے۔ یہی انکار و آزار اس کے فیض کا مانع ہو جاتا ہے بغیر اس امر کے کہ وہ بزرگ اس کے عدمِ افادہ کی طرف متوجہ ہو یا اس کو ضرور پہنچانے کا قصد کرے، کیونکہ ہدایت کی حقیقت اس کے حق میں مفقود ہے، وہ صرف رُشد کی صورت ہے، اور صورتِ بے معنی سے بہت کم نفع پہنچتا ہے۔ لیکن وہ جماعت جو اس بزرگ کے ساتھ اخلاص و محبت رکھتی ہے اگرچہ توجہ مذکور اور ذکر الٰہی تعالیٰ شانہٗ سے خالی ہو تو اس کو محض محبت کی وجہ سے رشد و ہدایت کا نور حاصل ہو جاتا ہے۔ اور یہی معرفت اس مکتوب کا آخری حصہ ہے۔

بس کنم خود زیر کاں را ایں بس است

بانگِ دو کردم اگر در دِہ کس است

ترجمہ:

اس قدر کافی ہے دانا کے لئے

کر دیا اعلان شاید سن سکو

اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ أَوَّلًا وَّ آخِرًا وَّ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلٰی رَسُولَہٖ مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ دَائِمًا وَّ سَرْمَدًا (اول و آخر تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لئے ہیں جو رحمٰن اور رحیم ہے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور آپ کی آل پر ہمیشہ اور ابد الآباد تک صلوۃ و سلام ہو)

؂1 آپ کے نام پانچ مکتوبات ہیں اور آپ کا تذکرہ دفتر اول مکتوب 181 پر درج ہے۔

؂2 اس حدیث کو بخاری و مسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کیا۔

؂3 یہ حدیث صوفیاء میں مشہور ہے۔

؂4 مسلم ابو داوٗد اور نسائی نے اس کو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔

؂5 رسالہ قشیریہ میں ان الفاظ کے ساتھ ہے "لِيْ وَقْتٌ لَّا يَسَعُنِيْ فیِْهِ غَيْرُ رَبِّيْ"

؂6 اس کو دار قطنی نے علل میں روایت کیا۔

؂7 حدیث میں ہے "اَلصَّلٰوةُ عِمَادُ الدِّیْنِ مَنْ أَقاَمَہَا أَقَامَ الدِّیْنَ وَ مَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ ہَدَمَ الدِّیْنَ"۔

؂8 جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا "رَبِّيْ أَرِنِيْ أَنْظُرْ إِلَیْکَ"۔

؂9 بخاری و مسلم بروایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ۔

؂10 اس حدیث کی تحقیق دفتر اول مکتوب 41 پر ملاحظہ فرمائیں۔

؂11 یہ عبارت در اصل ایک سوال کا جواب ہے کہ جب دین مکمل ہو گیا تو پھر احکامِ اجتہاد کی کیا ضرورت ہے کہ وہ بھی امور محدثہ میں شامل ہیں؟ جواب میں فرمایا کہ اجتہاد اور قیاس یہ احکام کو ظاہر کرتے ہیں اثبات نہیں کرتے کیونکہ فقہ کے اصولِ اربعہ میں سے چوتھی اصل قیاس ہے۔