دفتر 1 مکتوب 259: جو جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ اور صاحب نسبتِ عالیہ ہیں۔ رسولوں کے بھیجنے کے فوائد اور واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی معرفت میں عقل کا استقلال نہ ہونے اور شاہقِ جبل اور پیغمبروں کے زمانۂ فترت کے مشرکوں اور دار الحرب کے مشرکوں کے اطفال کے بارے میں حکمِ خاص فرمایا، اور ہندوستان کی اممِ سابقہ میں انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے میں اور ان کے مناسب بیان میں

دفتر اول مکتوب 259

مخدوم زادہ خواجہ محمد سعید؂1 رحمۃ اللہ علیہ کی طرف صادر فرمایا، جو جامع علومِ عقلیہ و نقلیہ اور صاحب نسبتِ عالیہ ہیں۔ رسولوں کے بھیجنے کے فوائد اور واجب الوجود تعالیٰ و تقدس کی معرفت میں عقل کا استقلال نہ ہونے اور شاہقِ جبل اور پیغمبروں کے زمانۂ فترت کے مشرکوں اور دار الحرب کے مشرکوں کے اطفال کے بارے میں حکمِ خاص فرمایا، اور ہندوستان کی اممِ سابقہ میں انبیاء علیہم السلام کے مبعوث ہونے میں اور ان کے مناسب بیان میں۔

﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰنَا لِهٰذَا وَ مَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْ لَاۤ أَنْ هَدٰنَا اللّٰهُ‌ ‌ۚ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَـقِّ‌﴾ (الأعراف: 43) ترجمہ: ”تمام تر شکر اللہ کا ہے، جس نے ہمیں اس منزل تک پہنچایا، اگر اللہ ہمیں نہ پہنچاتا تو ہم کبھی منزل تک نہ پہنچتے۔ ہمارے پرور دگار کے پیغمبر واقعی ہمارے پاس بالکل سچی بات لے کر آئے تھے“۔

انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے بھیجنے کا شکر کس زبان سے ادا کیا جائے اور اس نعمت کے دینے والے یعنی حق تعالیٰ کا اعتقاد کس دل سے ظاہر کیا جائے اور وہ اعضا کہاں ہیں جو اس نعمتِ عظمیٰ کا بدلہ اعمالِ حسنہ کے ذریعے سے ادا کر سکیں، اگر ان بزرگوں کا وجود شریف نہ ہوتا تو ہم کم فہموں کو صانع تعالیٰ جل سلطانہٗ کے وجود، اور اس کی وحدت کی طرف کون ہدایت کرتا؟ یونان کے قدیم فلسفیوں نے اس قدر عقل مند ہونے کے با وجود صانع جل شانہٗ کے وجود کی طرف ہدایت نہیں پائی اور کائنات کے وجود کو زمانے کی طرف منسوب کیا اور جب انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی دعوت کے انوار روز بروز بلند ہوتے گئے تو متاخرین فلسفیوں نے ان انوار کی برکت سے اپنے متقدمین کے مذہب کا ردّ کیا اور صانع جل شانہٗ کے وجود کے قائل ہو گئے اور انہوں نے حق تعالیٰ کی وحدت کو ثابت کیا۔ پس ہماری عقلیں انوارِ نبوت کی تائید کے بغیر معزول و بے کار ہیں، اور ہماری فہم انبیائے کرام علیہم الصلوات و التحیات کے وجود کے توسط کے بغیر اس معاملے سے دُور ہے۔ پھر ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے اصحابِ ماتریدیہ نے بعض اُمور مثلًا صانع تعالیٰ سبحانہٗ کے وجود کے اثبات اور اس کی وحدت کے بارے میں عقل کے استقلال و کافی ہونے سے کیا مراد لی ہے کہ انہوں نے شاہقِ جبل (پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والے) بُت پرست کو ان دونوں امور (یعنی وجودِ صانع کے اثبات اور اس کی وحدت) کے لئے مکلّف ٹھہرایا ہے اگرچہ اس کو پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی اور دنوں امور میں اس کے نظر و فکر کو ترک کرنے پر اس کے کفر اور خلود فی النار کا حکم دیا ہے حالانکہ ہم ظاہری تبلیغ اور حجتِ بالغہ کے بغیر جو کہ رسولوں کے بھیجنے پر وابستہ ہے، کفر اور خلود فی النار کا حکم دینا صحیح نہیں سمجھتے۔ بے شک عقل اللہ تعالیٰ کی حجتوں میں سے ایک حجت ہے لیکن یہ حجت ہونے میں اتنی کامل حجت نہیں ہے جس پر شدید ترین عذاب مرتب ہو سکے۔

سوال:

اگر شاہقِ جبل (پہاڑ کی چوٹی پر رہنے والا شخص) جو کہ بت پرست ہے، دوزخ میں ہمیشہ کے لئے نہیں رہے گا تو پھر وہ بہشت میں جائے گا، اور یہ جائز نہیں ہے کیونکہ بہشت میں داخل ہونا مشرک پر حرام ہے اور ان کا ٹھکانا دوزخ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علی نبینا و علیہ الصلوۃ و السلام کی طرف سے حکایت کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿إِنَّهٗ مَنۡ يُّشۡرِكۡ بِاللّٰهِ فَقَدۡ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَيۡهِ الۡجَـنَّةَ وَ مَاۡوٰهُ النَّارُ‌﴾ (المائدہ: 73) ترجمہ: ”یقین جا نو کہ جو شخص اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے، اللہ نے اس کے لیے جنت حرام کردی ہے اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے “ اور جنت اور دوزخ کے درمیان کوئی واسطہ (یعنی ہمیشہ رہنے کی جگہ) ثابت نہیں ہوا ہے (کیونکہ) اصحابِ اعراف بھی چند روز کے بعد بہشت میں داخل ہو جائیں گے، پس ہمیشہ کا ٹھکانا جنت میں یا دوزخ میں۔

جواب:

یہ سوال بہت مشکل ہے۔ میرے اس فرزند ارشد کو معلوم ہے کہ آپ مدت تک اس فقیر سے بار بار یہ سوال دریافت کرتے رہتے تھے اور تسلی بخش جواب نہیں پاتے تھے، اور صاحبِ فتوحاتِ مکیہ نے اس سوال کے حل میں جو کچھ کہا ہے اور قیامت کے دن ان لوگوں کو (حق تعالیٰ کی طرف) دعوت کے لئے پیغمبر کا مبعوث ہونا ثابت کیا ہے اور ان کی اس دعوت کے ردّ و قبول کے بموجب دوزخ و بہشت کا حکم کیا ہے، وہ اس فقیر کے نزدیک مستحسن نہیں ہے کیونکہ آخرت دارِ جزا (بدلہ ملنے کا گھر) ہے نہ کہ دارِ تکلیف کہ جس کے لئے پیغمبر معبوث کیا جائے۔ بہت مدت کے بعد اللہ تعالیٰ جل سلطانہٗ کی عنایت نے رہنمائی فرمائی اور اس معما کو حل کر دیا اور منکشف فرمایا کہ یہ لوگ نہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے نہ دوزخ میں، بلکہ آخرت میں اٹھائے جانے اور زندہ کئے جانے کے بعد ان کو حساب کے مقام میں کھڑا کر کے ان کے گناہوں کے اندازے کے موافق عتاب و عذاب دیں گے اور (بندوں کے) حقوق پورے کرنے کے بعد غیر مکلّف حیوانوں کی طرح ان کو بھی معدوم مطلق اور لا شی محض کر دیں گے۔ لہٰذا ان میں سے خلود کس کے لئے اور مُخلّد کون۔ اس عجیب و غریب معرفت کو جب (واقعہ میں) انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے حضور پیش کیا گیا تو سب نے اس کی تصدیق فرمائی اور قبولیت عطا کی۔ وَ الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ سُبْحَانَہٗ (اور حقیقی علم تو اللہ تعالیٰ ہی کو ہے)

اس فقیر پر یہ بات بہت گراں گزرتی ہے کہ حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی کمال شفقت و رحمت کے با وجود انبیاء علیہم الصلوات و التحیات کے واسطے سے ظاہری طور پر ابلاغ مبین (احکام دین پہنچائے بغیر) صرف عقل کے اعتبار پر جس میں خطا اور غلطی کی بہت گنجائش ہے، اپنے بندے کو ہمیشہ کی آگ میں ڈال دے اور دائمی عذاب میں گرفتار کرے جس طرح کہ (اُس مشرک بندہ کے لئے) شرک کے با وجود جنت میں ہمیشہ رہنے کا حکم کرنا گراں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ جنت و دوزخ کے درمیان واسطے کا قائل نہ ہونے کے باعث اشعری کے مذہب سے لازم آتا ہے۔ پس حق وہی ہے جو مجھے الہام ہوا کہ قیامت کے دن محاسبے کی تکمیل کے بعد اس کو معدوم کر دیا جائے گا جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا۔

اور فقیر کے نزدیک دارِ حرب کے مشرکوں کی نا بالغ اولاد کے بارے میں بھی یہی حکم ہے کیونکہ بہشت میں داخل ہونا ایمان پر موقوف ہے، ایمان خواہ اصالت کے طور پر ہو یا تبعیت کے طور پر، (یعنی ماں باپ وغیرہ کے اتباع سے حاصل ہو) اگرچہ تبعیت دار الاسلام ہی سے ہو، جیسا کہ ذمی کافروں کی نا بالغ اولاد کو ہے۔ ان (مشرکینِ دار الحرب کی نا بالغ اولاد) کے حق میں ایمان مطلق طور پر مفقود ہے پس ان کا بہشت میں داخل ہونا متصور نہیں ہے اور دوزخ میں داخل ہونا اور اس میں ہمیشہ رہنا تکلیف (مکلّف ہونا) کے ثابت ہونے کے بعد شرک پر منحصر ہے، اور یہ بھی ان کے حق میں مفقود ہے پس ان کا حکم بھی حیوانوں کے حکم کی مانند ہے، ان کو بعث و نشور کے بعد حساب کے لئے کھڑا کریں گے اور حقوق پورے کرنے کے بعد ان کو معدوم (نیست و نا بود) کر دیں گے۔

اور ان مشرکوں کے حق میں جو پیغمبروں کی فترت (انقطاع) کے زمانے (دو پیغمبروں کے درمیان زمانہ) میں ہوئے ہیں جن کو کسی پیغمبر کی دعوت نہیں پہنچی (ان کے لئے بھی) یہی حکم ہے۔

اے فرزند! یہ فقیر جس قدر ملاحظہ کرتا ہے اور نظر دوڑاتا ہے تو کوئی ایسی جگہ (خطۂ زمین میں) نہیں پاتا جہاں ہمارے پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و السلام کی دعوت نہ پہنچی ہو، بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ آنحضرت علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و السلام کی دعوت کا نور آفتاب کی طرح سب جگہ پہنچا ہے حتیٰ کہ یاجوج ماجوج بھی جن کے درمیان دیوار حائل ہے (وہاں بھی) پہنچا ہوا ہے۔ گزشتہ امتوں میں بھی ملاحظہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی جگہ بہت کم ہی ہے جہاں پیغمبر مبعوث نہ ہوئے ہوں یہاں تک کہ زمینِ ہند میں بھی جو کہ اس معاملے سے دور دکھائی دیتی ہے معلوم و محسوس ہوتا ہے کہ اہلِ ہند سے بھی پیغمبر مبعوث ہوئے ہیں اور صانع جل شانہٗ کی طرف دعوت فرمائی ہے، اور ہندوستان کے بعض شہروں میں محسوس ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کے انوار شرک کے اندھیروں میں مشعلوں کی طرح روشن ہیں اگر (یہ فقیر) ان شہروں کو متعین کرنا چاہے تو کر سکتا ہے، اور دیکھتا ہے کہ کوئی پیغمبر ایسا ہے جس پر کوئی بھی ایمان نہیں لایا اور اس کی دعوت کو قبول نہیں کیا، اور کوئی پیغمبر ایسا ہے جس پر صرف ایک آدمی ایمان لایا ہے، اور کسی پیغمبر کے تابع صرف دو شخص ہوئے ہیں اور بعض پر صرف تین آدمی ایمان لائے ہیں۔ تین آدمیوں سے زیادہ نظر نہیں آتے جو ہندوستان میں کسی ایک پیغمبر پر ایمان لائے ہوں تاکہ چار آدمی ایک پیغمبر کی امت ہوتے۔ ہند کے سردارانِ کفار نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس سبحانہٗ کی صفات سے اس تعالیٰ کی تنزیہات و تقدیسات کی نسبت جو کچھ لکھا ہے وہ سب قندیلِ نبوت کے انوار سے لیا گیا ہے کیونکہ گزشتہ امتوں میں ہر زمانے میں ایک نہ ایک پیغمبر ضرور گزرا ہے جس نے واجب تعالیٰ کے وجود اور اس جل شانہٗ کی صفاتِ ثبوتیہ سے اور اس سبحانہٗ و تعالیٰ کی تنزیہات و تقدیسات کی نسبت خبر دی ہے۔ اگر ان بزرگ پیغمبروں کا وجود مبارک نہ ہوتا تو ان بد بختوں (کافروں) کی لنگڑی اور اندھی عقل جو کہ کفر و معاصی کی ظلمتوں سے آلودہ ہے اس دولت کی طرف کب ہدایت پاتی؟ ان بد نصیبوں کی ناقص عقلیں اپنی ذات کی حد تک اپنی الوہیت کا حکم کرتی ہیں اور اپنے علاوہ کسی کو معبود نہیں مانتیں جیسا کہ فرعونِ مصر نے کہا: ﴿مَا عَلِمۡتُ لَـكُمۡ مِّنۡ إِلٰهٍ غَيۡرِىۡ﴾ (القصص: 38) ترجمہ: ”میں تو اپنے سوا تمہارے کسی اور خدا سے واقف نہیں ہوں“۔ اور یہ بھی کہا: ﴿لَئِنِ اتَّخَذۡتَ اِلٰهًا غَيۡرِىۡ لَاَجۡعَلَـنَّكَ مِنَ الۡمَسۡجُوۡنِيۡنَ﴾ (الشعراء: 29) ترجمہ: ”یاد رکھو، اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود مانا تو میں تمہیں ضرور ان لوگوں میں شامل کر دوں گا جو جیل خانے میں پڑے ہوئے ہیں“۔ چونکہ ان کو انبیاء علیہم الصلوات و التسلیمات کی تعلیمات سے معلوم ہو گیا کہ (کائنات) عالم کا بنانے والا واجب الوجود تعالیٰ و تقدس ہے تو ان بد نصیبوں میں سے بعض نے اس دعوے کی برائی پر اطلاع پا کر تقلید اور پوشیدگی کے طور پر صانع حقیقی کا اثبات کیا اور اپنے اندر جاری و ساری (حلول) سمجھا اور اس حیلے سے لوگوں کو اپنی پرستش کی دعوت دی: تَعَالٰی اللّٰہُ عَمَّا یَقُولُ الظَّالِمُوْن عُلُوًّا کَبِیْرًا (اللہ تعالیٰ اس بات سے جو یہ ظالم کہتے ہیں بہت بڑا ہے)

اس مقام پر کوئی کوتاہ اندیش (کم عقل) یہ سوال نہ کرے کہ اگر زمینِ ہند میں انبیاء مبعوث ہوتے تو یقینی طور پر اُن کی بعثت کی خبر ہم تک پہنچتی بلکہ وہ خبر بکثرت دعوتوں کے سبب تواتر کے ساتھ منقول ہوتی، جب ایسا نہیں ہے تو ویسا بھی نہیں ہے (یعنی پیغمبر نہیں آئے)۔

اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ ان مبعوث پیغمبروں کی دعوت عام نہیں تھی بلکہ بعض کی دعوت تو کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص تھی اور بعض کی دعوت کسی ایک گاؤں یا شہر پر تھی۔ بہت ممکن ہے حضرت حق سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس قوم یا قریہ میں کسی ایک شخص کو اس دولت سے مشرف فرمایا ہو، اور اس شخص نے اس قوم یا قریہ کے لوگوں کو صانع جل شانہٗ کی معرفت کی دعوت دی ہو اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا ہو، اور اس قوم یا قریہ نے اس کا انکار کیا ہو اور اس کو گمراہ و جاہل سمجھا ہو، اور جب ان کا انکار و تکذیب انتہا کو پہنچ گیا ہو تو حق جل و علا کی مدد نے آ کر ان کو ہلاک کر دیا ہو۔ اسی طرح کچھ مدت کے بعد دوسرا پیغمبر کسی قوم یا قریہ میں مبعوث ہوا ہو، اور اس پیغمبر نے بھی ان کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کیا ہو جیسا پہلے پیغمبر نے کیا تھا اور اس قوم نے اس پیغمبر کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا ہو جیسا پہلے والے کے ساتھ کیا تھا۔ اور اسی طرح ہوتا رہا جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔

زمینِ ہند میں بھی قریوں اور شہروں کی بربادی و ہلاکت کے آثار بہت پائے جاتے ہیں۔ یہ قوم اگرچہ ہلاک ہو گئی لیکن وہ ’’کلمۂ دعوت‘‘ ان کے ہم عصروں کے درمیان باقی رہ گیا: ﴿وَ جَعَلَهَا كَلِمَةً بَاقِيَةً فِىۡ عَقِبِهٖ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ﴾ (الزخرف 28) ترجمہ: ”اور ابراہیم نے اس (عقیدے) کو ایسی بات بنا دیا جو ان کی اولاد میں باقی رہی، تاکہ لوگ (شرک سے) باز آئیں“۔

مبعوث شدہ پیغمبروں کی خبر ہمیں اس وقت ملتی جب کہ بکثرت لوگ ان کے پیرو ہوتے اور قوت و شوکت پیدا کرتے (لیکن جب) ایک آدمی (پیغمبر) آیا اور چند روز دعوت کا کام کر کے چلا گیا، کسی شخص نے اس بات کو قبول نہیں کیا، پھر دوسرا آیا اس نے بھی یہی کام کیا اور اس کا ایک شخص پیرو ہو گیا اسی طرح دوسرا آیا اور اس کے دو یا تین پیرو بن گئے، تو پھر ان کی خبر کس طرح اشاعت پذیر ہوتی؟ چونکہ تمام کفار نے ان (پیغمبروں)کا انکار کیا اور اپنے باپ دادا کے دین کے مخالفوں کی تردید کرتے رہے تو پھر نقل کون کرتا اور کس سے نقل کی جاتی؟

دوسرا جواب یہ ہے کہ رسالت، نبوت اور پیغمبری کے الفاظ ان پیغمبروں اور ہمارے پیغمبر علیہ و علیٰ آلہ و علی جمیع الانبیاء الصلوات و التسلیمات کی اتحادِ دعوت کے وسیلے سے عربی اور فارسی زبان میں آئے ہیں، ہندی لغت میں یہ الفاظ نہیں ہیں تاکہ ہند کے مبعوث شدہ انبیاء کو نبی، رسول یا پیغمبر کہتے اور ان ناموں سے ان کو موسوم کرتے۔

اسی طرح اس سوال کے جواب میں بطریقِ معارضہ (بطریقِ الزام) ہم کہتے ہیں کہ اگر ہند میں پیغمبر مبعوث نہیں ہوئے اور ان کی زبان میں ان کو دعوتِ حق نہیں دی گئی تو یقینی طور پر ان کا حکم شاہقِ جبل والوں کی طرح ہو گا کہ سر کشی اور الوہیت کے دعوے کے با وجود دوزخ میں نہ جائیں اور ان کو دائمی عذاب نہ ہو۔ اس بات کو نہ تو عقلِ سلیم ہی تسلیم کرتی ہے اور نہ کشفِ صحیح اس کی تائید کرتا ہے کیونکہ ہم ان میں سے بعض سر کشوں کو دوزخ کے وسط میں دیکھتے ہیں۔ وَ اللہُ سُبْحَانَہٗ أَعْلَمُ بِحَقِیْقَۃِ الْحَالِ (اور اللہ سبحانہٗ اصل حقیقت کو خوب جانتا ہے)

؂1 آپ حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادۂ دوم ہیں، شوال سنہ 1005ھ میں ولادت ہوئی۔ بچپن ہی سے آثار ولایت و کرامت آپ کی پیشانی سے ہویدا تھے۔ شیخ محمد طاہر لاہوری اور اپنے بڑے بھائی سے بعض کتابیں پڑھیں اور اپنے والد ماجد اور شیخ عبد الرحمن رمزی سے حدیث کی کتابیں پڑھیں۔ تحصیل علم کے زمانے ہی میں حضرت مجدد رحمۃ اللہ علیہ کی توجہ سے نسبت نقشبندیہ سے مشرف ہو کر "خازن رحمت" کا لقب پایا۔ سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ فقہ میں اپنی نظیر نہ رکھتے تھے اور دقیق سے دقیق مسائل معمولی توجہ سے حل فرما دیتے تھے۔ عالمگیر کی درخواست پر دہلی تشریف لے گئے، واپسی میں سنبھالکہ کے مقام پر 27 جمادی الاخریٰ سنہ 1070ھ کو آپ کا انتقال ہوا اور سرہند میں دفن کئے گئے۔ (از حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ) آپ کے نام 24 مکتوبات ہیں۔ دفتر اول 259، 296، 311۔ دفتر دوم مکتوب 3، 71، 91۔ دفتر سوم مکتوب 46، 48، 61، 73، 77، 88، 93۔ دونوں بھائیوں کے نام دفتر دوم مکتوب 55، 98، سوم 2، 43، 64، 78، 82، 85، 104۔ صاحب زادوں کے نام دفتر سوم 83، 106۔