دفتر اول مکتوب 258
شریف خاں1 کی طرف حق تعالیٰ کی اقربیت کے بیان میں صادر فرمایا۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ سَلَامٌ عَلٰی عِبَادِہِ الَّذِیْنَ اصْطَفٰی (تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو)۔
گرامی نامہ جو آپ نے مہربانی فرما کر اس طرف کے فقرا کے نام تحریر کیا تھا موصول ہو کر خوشی اور مسرت کا باعث ہوا۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ سُبْحَانَہٗ خَیْرَ الْجَزَاءِ (اللہ سبحانہٗ آپ کو اس کی جزا اور عمدہ قسم کی جزا عطا فرمائے)۔
میرے مخدوم! اگرچہ حق تعالیٰ کی اقربیت ہم سے زیادہ ہمارے ساتھ ہونا نصِ قطعی سے ثابت ہے لیکن کیا کیا جائے کہ حق تعالیٰ ہماری عقلوں، فہموں اور ہمارے علوم و ادراکات سے وراء الوراء ہے۔ حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ورائیت (بلندی شان) قرب کی جانب ہے نہ کہ بُعد کی۔ کیونکہ وہ سبحانہٗ ہر نزدیک سے زیادہ نزدیک ہے حتیٰ کہ اس سبحانہٗ کی ذاتِ احدیت ان صفات کی نسبت جن کے افعال و آثار ہم ہیں، اپنے سے زیادہ نزدیک پاتے ہیں۔
یہ معرفت عقل کی نظر کے طریقے سے ما وراء ہے، کیونکہ عقل اپنے سے زیادہ نزدیک ہونے کا تصور نہیں کر سکتی۔ کوئی ایسی مثال جو اس بحث کی وضاحت کر سکے ممکن کوشش کے با وجود نہ مل سکی۔ اس معرفت کی دلیل نص قطعی اور کشفِ صحیح سے ہے۔ مشائخِ طریقت نے توحید اور اتحاد کے بارے میں بہت گفتگو کی ہے اور قرب و معیت کو بیان فرمایا ہے لیکن حق تعالیٰ کی اقربیت کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے اور کوئی تسلی بخش بیان اس بارے میں نہیں دیا ہے۔ عجیب معاملات ہیں کہ اس سبحانہٗ کی اقربیت (قریب سے قریب تر ہونا) ہمارے لئے اَبعدیت (دور سے دور ہونے) کا سبب ہوئی ہے۔ ھٰذَا إِلٰی أَنْ یَّبْلُغَ الْکِتَابُ أَجَلَہٗ (یہی کافی ہے، یہاں تک کہ کتاب اپنے مقررہ وقت کو پہنچے) فَافۡھَمۡ فَإِنَّ کَلَامَنَا إِشَارَۃٌ وِّ بَشَارَۃٌ (پس سمجھ لو کہ ہمارے کلام اشارت اور بشارت آمیز ہے) اور سلام ہو آپ پر اور ان سب پر جنہوں نے ہدایت کی پیروی کی اور حضرت محمد مصطفےٰ علیہ و علیٰ آلہ الصلوۃ و التسلیمات اتمہا و اکملہا کی متابعت کو اپنے اوپر لازم کیا۔
1 آپ کے نام صرف یہی ایک مکتوب ہے۔ آپ خواجہ عبد الصمد شیریں قلم کے صاحب زادے اور جہانگیر کے ہم مکتب، رفیق و جلیس تھے۔ جہانگیر نے اپنے دور میں آپ کو پنج ہزاری کا منصب اور امیر الامراء کا خطاب دیا۔ آخر عمر میں دکن بھیج دیا تھا، وہیں انتقال ہوا۔ (مآثر الأمراء)